• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : مَنْ آوَى الضَّالَّةَ فَهُوَ ضَالٌّ
جس نے گمشدہ چیز رکھ لی، وہ گمراہ ہے​

(1062) عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدِ نِالْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَّهُ قَالَ مَنْ آوَى ضَالَّةً فَهُوَ ضَالٌّ مَا لَمْ يُعَرِّفْهَا
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس نے گری پڑی چیز مشہوری کیے بغیر رکھ لی وہ گمراہ ہے۔‘‘(اس سے معلوم ہوا کہ گری پڑی چیز کا پہچان کرانا اور بتلانا ضروری ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اَلنَّهْيُ عَنْ حَلْبِ مَوَاشِيْ النَّاسِ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ
لوگوں کی اجازت کے بغیر ان کے جانوروں کا دودھ دھونے کی ممانعت

(1063) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِهِ أَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تُؤْتَى مَشْرُبَتُهُ فَتُكْسَرَ خِزَانَتُهُ فَيُنْتَقَلَ طَعَامُهُ إِنَّمَا تَخْزُنُ لَهُمْ ضُرُوعُ مَوَاشِيهِمْ أَطْعِمَتَهُمْ فَلا يَحْلُبَنَّ أَحَدٌ مَاشِيَةَ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِهِ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کوئی دوسرے کے جانور کا دودھ نہ نکالے، مگر اس کی اجازت سے۔ کیا تم میں کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی کوٹھڑی میں کوئی آئے اور اس کا خزانہ توڑ کر اس کے کھانے کا غلہ نکال لے جائے؟ اسی طرح جانوروں کے تھن ان کے کھانے کے خزانے ہیں تو کوئی کسی کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر نہ دوہے۔‘‘ (مگر جو بھوک کی وجہ سے مر رہا ہو، وہ بقدر ضرورت کے دوسرے کا کھانا بغیر اجازت کے کھا سکتا ہے، لیکن اس پر قیمت لازم ہو گی اور بعض سلف اور محدثین کے نزدیک لازم نہ ہو گی اگر مردار بھی موجود ہو تو اس میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک مردار کھا لے اور بعض کے نزدیک غیر کا کھانا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
کِتَابُ الضِّیَافَۃِ
مہمان نوازی کے مسائل


بَابٌ : اَلْحُكْمُ فِيْمَنْ مَنَعَ الضِّيَافَةَ
جو میزبانی نہیں کرتا، اس کے لیے حکم​

(1064) عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلاَ يَقْرُونَنَا فَمَا تَرَى ؟ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کہ یارسول اللہ ! آپ ہمیں بھیجتے ہیں پھر ہم کسی قوم کے پاس اترتے ہیں اور وہ ہماری مہمانی نہیں کرتے، تو آپ کا کیا خیال ہے (یعنی ہمیں کیا کرنا چاہیے) آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر تم کسی قوم کے پاس اترو پھر وہ تمہارے واسطے وہ سامان کر دیں جو مہمان کے لیے چاہیے تو تم قبول کرو اگر وہ نہ کریں تو ان سے مہمانی کا حق جتنا مہمان کو چاہیے، لے لو۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : الأَمْرُ بِالضِّيَافَةِ
مہمانی دینے کا حکم​

(1065) عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الضِّيَافَةُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ وَ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَ لَيْلَةٌ وَ لاَ يَحِلُّ لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَ كَيْفَ يُؤْثِمُهُ ؟ قَالَ يُقِيمُ عِنْدَهُ وَ لاَ شَيْئَ لَهُ يَقْرِيهِ بِهِ
سیدنا ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مہمانی تین دن تک ہے اور مہمان نوازی میں تکلف ایک دن ایک رات تک چاہیے اور کسی مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا رہے، یہاں تک کہ اس کو گناہ میں ڈالے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنھم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! اس کو کس طرح گناہ میں ڈالے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس کے پاس ٹھہرا رہے او راس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ ہو۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي الْمُوَاسَاةِ بِفُضُوْلِ الْمَالِ
ضرورت سے زائد مالوں کے ذریعہ (ضرورت مند کے ساتھ) ہمدردی کرنا​

(1066) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذْ جَاء رَجُلٌ عَلَى رَاحِلَةٍ لَهُ قَالَ فَجَعَلَ يَصْرِفُ بَصَرَهُ يَمِينًا وَ شِمَالاً فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ كَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لاَ ظَهْرَ لَهُ وَ مَنْ كَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لاَ زَادَ لَهُ قَالَ فَذَكَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَكَرَ حَتَّى رَأَيْنَا أَنَّهُ لاَ حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي فَضْلٍ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک شخص اونٹنی پر سوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس کے پاس زائد سواری ہو، وہ اس کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس سفر خرچ (اپنی ضرورت سے) زائد ہو، وہ اس کو دیدے جس کے پاس سفر خرچ نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی قسم کے مال بیان کیے یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ ہم سے کسی کا اس مال میں کوئی حق نہیں جو اس کی ضرورت سے زائد ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : الأَمْرُ بِجَمْعِ الأَزْوَادِ إِذَا قَلَّتْ وَالْمُوَاسَاةِ فِيْهَا
سفر میں (زاد راہ) کم پڑ جائے تو باقی ماندہ چیزوں کو اکٹھا کرلینے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا حکم​

(1067) عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي غَزْوَةٍ فَأَصَابَنَا جَهْدٌ حَتَّى هَمَمْنَا أَنْ نَنْحَرَ بَعْضَ ظَهْرِنَا فَأَمَرَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَجَمَعْنَا مَزَاوِدَنَا فَبَسَطْنَا لَهُ نِطَعًا فَاجْتَمَعَ زَادُ الْقَوْمِ عَلَى النِّطَعِ قَالَ فَتَطَاوَلْتُ لِأَحْزِرَهُ كَمْ هُوَ ؟ فَحَزَرْتُهُ كَرَبْضَةِ الْعَنْزِ وَ نَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً قَالَ فَأَكَلْنَا حَتَّى شَبِعْنَا جَمِيعًا ثُمَّ حَشَوْنَا جُرُبَنَا فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَهَلْ مِنْ وَضُوئٍ قَالَ فَجَائَ رَجُلٌ بِإِدَاوَةٍ لَهُ فِيهَا نُطْفَةٌ فَأَفْرَغَهَا فِي قَدَحٍ فَتَوَضَّأْنَا كُلُّنَا نُدَغْفِقُهُ دَغْفَقَةً أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً قَالَ ثُمَّ جَاء بَعْدَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةٌ فَقَالُوا هَلْ مِنْ طَهُورٍ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَرِغَ الْوَضُوء
ایاس بن سلمہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لڑائی کے لیے نکلے۔ وہاں ہمیں (کھانے اور پینے کی) تکلیف ہوئی (یعنی کمی واقع ہو گئی) یہاں تک کہ ہم نے سواری کے اونٹوں کو نحر کرنے کا قصد کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم پر تو ہم نے اپنے اپنے سفر خرچ کو جمع کیا اور ایک چمڑا بچھایا ، اس پر سب لوگوں کے زاد راہ اکٹھے ہوئے۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے ناپنے کے لیے لمبا ہوا، تو اس کو اتنا پایا کہ جتنی جگہ میں بکری بیٹھتی ہے اور ہم (لشکر کے) لوگ چودہ سو تھے۔ پھر ہم لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا اور اس کے بعد اپنے اپنے توشہ دان کو بھر لیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وضو کا پانی ہے؟‘‘ ایک شخص ڈول میں ذرا سا پانی لے کر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک گھڑے میں ڈال دیا اور ہم سب لوگوں (چودہ سو آدمیوں) نے اسی پانی سے وضو کیا، خوب بہاتے جاتے تھے۔ اس کے بعد آٹھ آدمی اور آئے اور انہوں نے کہا کہ وضو کا پانی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ وضو کا پانی گر چکا۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
کِتَابُ الْجِھَادِ
جہاد کے مسائل


بَابٌ : فِيْ قَوْلِهِ تَعَالَى {وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا} وَ ذِكْرِ أَرْوَاحِ الشُّهَدَاء
اللہ تعالیٰ کے فرمان { وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ … }کے متعلق اور شہداء کی روحوں کا بیان​

(1068) عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ {وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} (آل عمران : 169) قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ ؟ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا ؟ قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَ نَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا
مسروق کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت ’’ان لوگوں کو مردہ مت سمجھو جو اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، روزی دیے جاتے ہیں‘‘ (آل عمران:۶۹؎۱) کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے اس آیت کے بارے میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) پوچھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں، جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جنت میں چگتے پھرتے ہیں، پھر اپنی قندیلوں میں آرہتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے پروردگار نے ان کو دیکھا اور فرمایاکہ تم کچھ چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اب ہم کیا چاہیں گے؟ ہم تو جنت میں جہاں چاہتے ہیں چگتے پھرتے ہیں تو پروردگارجل وعلا نے تین دفعہ پوچھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر مانگے ہماری رہائی نہیں (یعنی پروردگار جل جلالہ برابر پوچھے جاتا ہے) تو انہوں نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے بدنوں میں پھیر دے (یعنی دنیا کے بدنوں میں) تاکہ ہم دوبارہ تیری راہ میں مارے جائیں۔ جب ان کے رب نے دیکھا کہ اب ان کو کوئی خواہش نہیں، تو ان کو چھوڑ دیا۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207

بَابٌ : إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوْفِ

بے شک جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں​

(1069) عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي وَ هُوَ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ يَقُول قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلالِ السُّيُوفِ فَقَامَ رَجُلٌ رَثُّ الْهَيْئَةِ فَقَالَ يَا أَبَا مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ آنْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ هَذَا ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَقْرَأُ عَلَيْكُمُ السَّلامَ ثُمَّ كَسَرَ جَفْنَ سَيْفِهِ فَأَلْقَاهُ ثُمَّ مَشَى بِسَيْفِهِ إِلَى الْعَدُوِّ فَضَرَبَ بِهِ حَتَّى قُتِلَ
سیدنا ابوبکر بن عبداللہ بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو دشمن کے سامنے (یعنی میدان جنگ میں) یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔‘‘ یہ سن کر ایک غریب اور میلے سے کپڑوں والا شخص اٹھا اور کہنے لگا کہ اے ابو موسیٰ! تم نے (خود) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ ( سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے) کہا ہاں۔ راوی کہتا ہے کہ یہ سن کر وہ اپنے دوستوں کی طرف گیا اور کہا کہ میں تم کو سلام کرتا ہوں اور اپنی تلوار کا نیام توڑ ڈالا پھر تلوار لے کر دشمن کی طرف گیا اور اپنی تلوار سے دشمن کو مارتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : اَلترَّغِيْبُ فِي الْجِهَادِ وَ فَضْلِهِ
جہاد کی ترغیب اور اس کی فضیلت​

(1070) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَضَمَّنَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ لاَ يُخْرِجُهُ إِلاَّ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَ إِيْمَانًا بِي وَ تَصْدِيقًا بِرُسُلِي فَهُوَ عَلَيَّ ضَامِنٌ أَنْ أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ أَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ نَائِلاً مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا مِنْ كَلْمٍ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلاَّ جَائَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَهَيْئَتِهِ حِينَ كُلِمَ لَوْنُهُ لَوْنُ دَمٍ وَ رِيحُهُ رِيْحُ مِسْكٍ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْلاَ أَنْ يَشُقَّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مَا قَعَدْتُ خِلافَ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَبَدًا وَ لَكِنْ لاَ أَجِدُ سَعَةً فَأَحْمِلَهُمْ وَ لاَ يَجِدُونَ سَعَةً وَ يَشُقُّ عَلَيْهِمْ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّيْ أَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ ثُمَّ أَغْزُو فَأُقْتَلُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے جو اس کی راہ میں نکلے اور نہ نکلے مگر جہاد کے لیے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے پیغمبروں کو سچ جانتا ہو، (اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ) ایسا شخص میری حفاظت میں ہے یا تو میں اس کو جنت میں لے جاؤں گا یا اس کو اس کے گھر کی طرف ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ پھیر دوں گا۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ کوئی زخم ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگے، مگر یہ کہ وہ قیامت کے دن اسی شکل پر آئے گا جیسا دنیا میں ہوا تھا، اس کا رنگ خون کا سا ہو گا اور خوشبو مشک کی۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ اگر مسلمانوں پر دشوار نہ ہوتا تو میں کبھی بھی کسی لشکر سے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے سے پیچھے نہ رہتا لیکن میرے پاس (سواریوں وغیرہ کی) اتنی گنجائش نہیں ہے اورنہ (مسلمانوں کے پاس سواریوں وغیرہ کی) وسعت ہے اور میرے جانے کی صورت میں مسلمانوں کو پیچھے رہنا دشوار ہو گا۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں پھر مارا جاؤں پھر جہاد کروں پھر مارا جاؤں پھر جہاد کروں پھر مارا جاؤں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : رَفْعُ دَرَجَاتِ الْعَبْدِ بِالْجِهَادِ
بندے کے درجات کی بلندی جہاد سے ہے​

(1071) عَنْ أَبِي سَعِيدِ نِالْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ يَا أَبَا سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا وَ بِالإِسْلامِ دِينًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَعِدْهَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! فَفَعَلَ ثُمَّ قَالَ وَ أُخْرَى يُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَائِ وَ الأَرْضِ قَالَ وَ مَا هِيَ يَا رَسُوْلَ اللَّهِ ! قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۔ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابوسعید! جو اللہ کے رب ہونے سے اور اسلام کے دین ہونے سے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے سے راضی ہوا اس کے لیے جنت واجب ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے تعجب کیا اور کہا کہ یارسول اللہ! پھر فرمایے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اور فرمایا: ’’ایک اور عمل ہے جس کی وجہ سے بندے کو جنت میں سو درجے ملیں گے اور ہر ایک درجہ سے دوسرے درجہ تک اتنا فاصلہ ہو گا جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ ‘‘سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ وہ کونسا عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘
 
Top