محترم! حرب صاحب فیضی اور عمران اسلم صاحب بڑے ادب سے گذارش کروں گا کہ
کیا آپکا مسلک قرآن و حدیث کی من مانی تشریات کا نام ہے؟
چلیں ہم اس الزام کو بھی اپنی آنکھوں اور اپنے ماتھے پر رکھتے ہیں!۔۔۔
آپ نے آیت کی من مانی تشریح کا جو الزام لگایا ہے۔۔۔ اس پر آپ نے اپنا موقف پیش نہیں کیا؟؟؟۔۔۔
یعنی آپ اس آیت سے کیا معنی ومفہوم سمجھتے ہیں۔۔۔
تاکہ ہمیں بھی پتہ چلے متاخرین نے اس آیت کا کیا مطلب اخذ کیا؟؟؟۔۔۔
جیسا کہ محترم نے لکھا کہ ہمارا اصول " یعنی باقی چودہ سالہ اسلامی تاریخ میں کسی کا یہ اصول نہیں رہا ہے ۔جن جن نفوس مقدسیہ نے تصوف کو جزو دین ثابت کیا ہے وہ بالکل جائل اور قران و حدیث سے نابلد ہیں؟
ابتسامۃ۔۔۔۔ اُمت کا فرقوں میں بٹنا بھی تو چودہ سو سال پہلے ہی بتایا گیا تھا۔۔۔
اس تلخ حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں۔۔۔
ناجی فرقہ کی نشانیاں بھی تو بتائیں گئی تھیں اس حقیقیت کو فراموش کیوں کریدیا جاتا ہے۔۔۔
بھائی اہلحدیث کے اصول کیا ہیں وہ تو ذرا تفصیل سے یہاں بیان فرما دے۔سراجا منیرا میں قرآن حدیث سے ان اصولوں کے مدعی مولانا میرنے تصوف و احسان کو عین شریعت کے مطابق ثابت کیا ہے۔
مولانا میر رحمۃ اللہ۔۔۔ اگر تصوف واحسان کو عین شریعت کے مطابق ثابت کیا ہے۔۔۔ تو آپ ہمیں مولانا میر کا پابند کیوں بنارہے ہیں۔۔۔کیا میرے ہمارے لئے اُن کا طریقہ امر شرعی ہے؟؟؟۔۔۔
اچھا اس بارے میں آپ کا کیا وضاحت پیش کریں گے کہ یہ جو فن تصوف کے مستقل سلسلے قائم ہوئے جن میں مزید ترقی بعد میں پیش آئی اور باضابطہ خانقاہیں قائم ہونے لگیں، اور سجادہ نشینی اور گدانشینی کے دور کا آغاز ہوا۔۔۔ اب جاننا یہ تھا کے اسلام میں ایک ہی خلیفہ کی بیعت مشروع تھی، لیکن فن تصوف کے ہر سلسلے کی جانب سیکڑوں خلفاء مقرر کئے جانے لگے اور اُن کی بیعت مشروع قرار پائی، اس میں ایک قدم اور ترقی ہوئی اور بزرگان دین کی قبروں پر حاضری اور اُن سے استفادہ کا سلسلہ شروع ہوا، وہاں سے تبرکات کی تقسیم اور موئے مبارک کی رونمائی کا سلسلہ جاری ہوا، ہر بزرگ کی وفات پر ان کی خانقاہ میں واقع قبر پر سالانکہ عرس کا نظام قائم کیا گیا، بخشی اور اس قسم کی دیگر جنتریوں کو دیکھئے تو سال کے اکثر وبیشتر دنوں میں کسی نہ کسی بزرگ کے عرس کا تاریخ مقرر کی گئی ہے۔۔۔
افسوس کہ جو قوم حرکت وعمل اور دنیا کی امامت وقیادت اور لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے مبعوث کی گئی تھی، وہ عرسوں اور میلوں ٹھیلوں میں الجھ کر اپنی توانائیوں کو صرف کرنے لگی دنیا کی حکومتوں نے عموما ان کا ساتھ دیا اور دے رہی ہیں تاکہ وہ اطمینان سے دنیا پر اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرسکیں۔۔۔
اور اس امر کے لئے کتاب وسنت سے دلیلیں ڈھونڈھ نکالی گئیں جیسے!۔
واعبدربک حتی یاتیک الیقین (الحجر ٩٩)۔۔۔
اور آپ اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔
اس آیت کے اندر واقع الیقین کا معنی موت ہے یعنی۔۔۔
اے محمد!۔ آپ ہر حال میں اپنے رب کی عبادت وریاضت میں لگے رہیئے اور دشمن اسلام کی بھبتیوں کی پرواہ نہ کیجئے، یہاں تک کے موت آجائے۔۔۔
جو الزام آپ ہم پر لگارہے تھے اوپر ملاحظہ کیجئے!۔
محترم! حرب صاحب فیضی اور عمران اسلم صاحب بڑے ادب سے گذارش کروں گا کہ
کیا آپکا مسلک قرآن و حدیث کی من مانی تشریات کا نام ہے؟
۔
قرآن کی آیت کی من مانی تشریح ملاحظہ کیجئے!۔ اور بتائیئے کہ!
یہ جو تصوف(تزکیہ) اور احسان کے نام پر آپ کے بڑوں نے کارستانیاں کی ہیں ان کو کیا نام دیں گے؟؟؟۔۔۔
صوفیا کی اصطلاح میں اس لفظ کا معنی دل کی راہ سے غیبی مشاہدہ ٹھہرا، جس کا نام شریعت میں قرآن کی معنوی تاویل اور تحریف ہے۔۔۔
ان تعبداللہ کانک تراہ، فان لم تکن تراہ فانہ یراک (مسلم)۔
اللہ تعالٰی کی اس طرح عبادت کرو کہ کہ گویاتم اسے دیکھ رہے ہو، اگر ایسا نہ کرسکو تو بہرحال وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔۔۔
اس ارشاد نبوی کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی عبادت بندہ نہایت خشوع وخضوع اور اتقان واخلاص کے ساتھ کرے یہی احسان اور حسن عبادت ہے لیکن صوفیا کی اصطلاح میں اس کا معنی نور بصیرت کے ذریعے مشاہدہ حق کا متحقق ہونا قرار پایا۔۔۔
اس یقین اور نوربصیرت نے صوفیا کے دلوں پر علوم واخبار غیبیہ کا الہام کرنا شروع کردیا، اس طرح کشف ومراقبہ کے ذریعے تصور شیخ، توجہ الی الشیخ، وحدۃ الشہود اور وحدۃ الوجود تک معاملہ پہنچ گیا، شاہد ومشہود ایک ہوگئے، ہر چیز اللہ ہوگئی اور اللہ ہر چیز ہوگیا، لٰہذا اس بنیاد پر انا الحق میں ہی اللہ ہوں، مافی جبتی الا اللہ میرے جبے میں ماسوااللہ کے کچھ نہیں ہے اور سبحانی ما اعظم شائی میرے سبحان میری شان کتنی عظیم ہے وغیرہ کے نعرے خانقاہوں سے بلدن ہونے لگے العیاذ باللہ۔۔۔
شعر پیش خدمت ہے!۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
تیرے دین وادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی اُمتوں کا عالم پیری
عشق مجازی اور عشق حقیقی کی اصطلاحیں گڑھی گئیں، اجرد امروخوبرو حسین وجمیل نوخیز نوجوانوں کو دیکھنا عشق مجازی ٹھہرا اور پھر اس کے ذریعے عشق حقیقی یعنی اللہ کی ذات تک رسائی حاصل کی گئی، اس امر کی حقیقت کو جاننا ہو تو جلالی ورمی اور نظیری فردوسی اور اس راہ کے دیگر شعراء کے فارسی کلام کو پڑھئیے۔۔۔
اگر آن ترک شیرازی بدست آرددل مارا،بخال ہندوش بخشم سمرقند وبخارا را
اگر وہ شیراز کا ترکی کی خوب رولڑکا ہمارے دل کو ہاتھ آجائے تو میں اس کے ایک تل کے بدلے سمرقند وبخارا کی سلطنت بخشنے کو تیار ہوں۔۔۔
کے سجادہ رنگین کن گرت پیرمغاں گوید کہ سالک بےخبر نہ بودز راہ ورسم منزلہااگر پیرمغاں یعنی گروگھنٹال پیرومرشد تجھے جائے نماز کو شراب سے آلودہ کرنے کو کہے تو کرڈال، کیونکہ وہ راہ تصوف کا ایسا سالک ہے جو تصوف کی تمام منزلوں کی راہ ورسم سے بخوبی واقف ہے۔۔۔
الحمداللہ سلف وصالحین کی راہ پر گامزن مسلک اہلحدیث نے ان تیوں راہوں۔۔۔
١۔ عقیدہ میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کی تعقل پسندی۔
٢۔ فقہی مسائل میں تقلید۔
٣۔ فن تصوف میں کشف ومراقبہ کے الہامی نظام سے گریز کیا۔
اور خالص کتاب وسنت پر قرون اولٰی کے مسلمانوں کی طرح اپنے عقیدہ وعمل کی طرح ڈالی، اور اس جرم میں انہیں مختلف پلیٹ فارموں سے غدر وبےوفائی اور کفر وشرک جیسے بُرے القابات سے نوازا گیا جو سلسلہ بدقسمتی سے آج بھی جاری ہے۔۔۔
واللہ اعلم۔