- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ساری دنیا کی باتیں کریں گے ، لیکن ایک سوال کا جواب دینا مشکل ہوگیا ہے کہ برصغیر کے مستند علما کے نام بتادیں ۔ یہ فکری کجی خود انہیں بھی محسوس ہورہی ہوگی ، جو جواب دینے سے گھبرا رہے ہیں ، کیونکہ اگر منہج واقعتا صاف اور سچا ہوتا ، تو فورا سیدھا اور واضح جواب دے دیتے ۔ لیکن پتہ ہے ، جواب ہمارے ہی گلے میں پڑ جائے گا ۔شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی سے تحذیر کا قصہ
شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی نے کہا ہے کہ وہ آپ کی کچھ واضح منہجی غلطیاں بیان کریں گے آپ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟
جماعت کا صحیح مفہوم اور اس میں حکمران وقت کی کیا حیثیت ہے؟
اتباع سلف اور جماعت کو لازم پکڑنے کے متعلق ایک عظیم حدیث
جماعت کی تعریف اور بعض احکام و مسائل- حصہ اول
جماعت کی تعریف اور بعض احکام و مسائل- حصہ دوم
شرح السنہ، پوائنٹ نمبر:2 یہ بھی سنت میں سے ہے کہ جماعت کو لازم پکڑا جائے، جس نے جماعت سے منہ موڑا اور اسے چھوڑ دیا اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا اور وہ خود بھی گمراہ ہوا اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
شرح السنہ، پوائنٹ نمبر:3 اور وہ بنیاد جس پر جماعت قائم ہوتی ہے وہ رسول اللہ (ﷺ)کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں، وہی اہل سنت والجماعت ہیں، جس نے ان سے (دین)نہیں لیا وہ گمراہ ہوا اور بدعت ایجاد کیا، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی اور گمراہ جہنم میں ہے۔
شرح السنہ، پوائنٹ نمبر:5 جان لو!(اللہ تعالی تم پر رحم کرے)کہ دین اللہ تبارک و تعالی کی جانب سے آیا ہے، یہ لوگوں کی عقل اور ان کی آراء پر نہیں قائم کیا گیا ہے، اس کا علم اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے پاس ہے، تم ذرا بھی اپنی خواہش کی پیروی نہ کرو، تم دین سے دور جا گرو گے اور اسلام سے نکل جاؤ گے، پھر تمہارے لئے کوئی حجت نہیں ہوگی، کیونکہ رسول اللہ (ﷺ)نے اپنی امت کے لئے سنت کو بیان کردیا اور اپنے صحابہ کرام کے لئے اسے واضح کر دیا ہے ، اور وہی جماعت اور اسواد اعظم ہیں، اور سواد اعظم حق اور اہل حق ہیں، جس نے دین کے کسی معاملے میں اصحاب رسول (ﷺ)کی مخالفت کی اس نے کفر اختیار کیا۔
جماعت کے متعلق بعض غلط فہمیاں اور ان کا ازالہ
مسلمانوں کا حکمران جو ان کے امور و جماعت کا اصل متولی ہے کے علاوہ کسی اور کی بیعت ایجاد کر لینا منہج سلف میں سے نہیں.
بعض شبہات کا ازالہ اور اعتراضات کے جوابات
پہلا شبہ: سعودی عرب کے بعض کبار سلفی علماء مثلا شیخ بن باز رحمہ اللہ اور شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ نے ہماری ان جمعیتوں کو سراہا ہے اور ایسی جمعیتوں کو قائم کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔
دوسرا شبہ: ہماری جمعیت حق پر ہے کیونکہ اس کی بنیاد فلاں بڑے اہل حدیث عالم نے رکھی ہے یا اس کے فلاں اور فلاں بڑے علماء امیر رہے ہیں یا ان کے ساتھ وابستہ رہے ہیں تو کیا ان کا یہ عمل حزبیت تھا ؟ اور کیا وہ بھی حزبی تھے؟
تیسرا شبہ: کسی جماعت یا شخص پر فتوی لگانا صرف فتوی کمیٹی کا کام ہے انکے علاوہ کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ کسی پر فتوی لگائے ورنہ اسکا یہ عمل خروج کی طرف دعوت ہوگا۔
چوتھا شبہ: ہماری جمعیت حق پر ہے کیونکہ ولی الامر گورمنٹ کی مخالف نہیں ہے بلکہ ان کی اجازت سے بنی ہے اور جس جمعیت کو حکومت کی اجازت حاصل ہو وہ حزبیت کیسے ہو سکتی ہے ؟
ایک شبہ: جہاد کا مسئلہ اجتہادی مسئلہ ہے اور اگر کوئی اس میں غلطی کرتا ہے تو اس کے خلاف کاروائی کرنا درست نہیں ہے۔
کیا علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللّٰہ خروج کی پہلی سیڑھی پر تھے؟
فضیلت الشیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ کی نصیحت کے متعلق چند باتیں
کیا انڈیا اور پاکستان میں کوئی سلفی عالم نہیں ہے؟
جماعت الدعوہ کی حقیقت اور ایک الزام کا جواب
توحید خالص اور طارق علی بروہی کے متعلق ایک سوال کا جواب
ایک اعتراض کا جواب: ڈاکٹر مرتضی بن بخش نے اہل حدیث علماء کا نام لےکر سر عام رد کیا ہے ان کو نصیحت کئے بغیر ، یہ کہاں کی سلفیت ہے ؟
علماء کی غلطیوں کے متعلق ہمارا موقف
صرف تنظیمیں اور تحریکیں بنانے والے ایک مسئلے کی بنیاد پر اتنے بڑے عالم دین سے تحذیر فرمادی ہے ۔ سبحان اللہ ۔
ہمارے نزدیک ڈاکٹر مرتضی بخش صاحب اور دیگر بعض عرب علما کا موقف غلط ہے، لہذا ہم ان سے تحذیر کرنا شروع کردیں ؟
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔
میں مرتضی بخش ، اسحاق جھالوی ، علی مرزا کو بالکل نہیں جانتا تھا ، لیکن یہ سب پہچانے ہی تب گئے ہیں ، جب انہوں نے بڑےبڑے علما کے خلاف باتیں کرنا شروع کی ہیں ۔
محسوس ہوتا ہے صرف مشہور ہونے کی غرض سے سب فضولیات بکی جارہی ہیں ، ورنہ تو ان کی دعوت اور برصغیر کے اہل حدیث علما کی دعوت میں کوئی فرق نہیں ۔
سعودیہ میں جہاں دین و دنیا سب ذمہ داریاں حکومت کی ہیں ، وہاں بیٹھ کر انہیں بڑی باتیں آتی ہیں کہ تحریک بنانا تنظیم بنانا درست نہیں ، برصغیر جیسے جمہوری اور لادین معاشروں میں ہوتے ، تو یقینا اتنے بڑے بڑے فتوے لگانے سے پہلے ضرور تھوڑا خیال کرتے ، بالکل اسی طرح ، جیسے لاتتخذوا الیہود و النصاری اولیا جیسی صریح نصوص کے باوجود عربی بادشاہوں اور یہودیوں کافروں کے مابین تعلقات پر ’ مصلحت ‘ کی بنا پر خاموشی سادھے بیٹھے ہیں ۔
عبد اللہ ناصر رحمانی یا کوئی عالم دین سڑک پر نکل آئے ، یا کسی جمہوری یا کسی بدعتی جلسے میں شرکت کرلے ، یہ اس کی سب خدمات بھلا کر زمین آسمان ایک کردیں گے ، لیکن دوسری طرف عربی ممالک میں ’ ائمہ کفر ‘ سے دوستیاں ہورہی ہیں ، میل ملاپ ہورہے ہیں ، مملکت توحید میں کافروں کے رئیس کی دعوتیں ہوئی ہیں ، پروٹوکول دیے جارہے ہیں، وہاں کسی کو ایک حرف بولنے کی توفیق نہیں ہوتی، سب ’ نصیحتیں ، اور ’ تحذیریں ‘ علما سے بدظن کرنے کے لیے جاری ہوتی ہیں ۔