• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
شمولیت
جولائی 22، 2011
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
125
پوائنٹ
73
السلام اعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کم از کم نام تو درست لکھ لیں باتیں اتنی بڑی بڑی کر رہے ہیں فتوی اتنے بڑے بڑے اور ایک چھوٹا سا نام درست نہیں لکھا جا رہا
معذرت کے ساتھ جلد بازی میں ایسا ہو گیا میری نیت آپ کے نام کو غلط انداز میں پیش کرنا نہیں تھا۔

اب کچھ محترم محمدفیض الابرار بھائی کے اخلاق عالیہ بھی دیکھ لیتے ہیں:
۔۔۔ شخص شیطانی سوچ کا مالک ہے اور خبیث فطرت کا حامل ہے۔۔۔
ایک مسلمان کو شیطانی سوچ کا مالک کہنا اور خبیث فطرت کہہ کر گالی دینا کہاں کا اخلاق عالیہ ہے؟
۔۔۔ طارق علی براہی جیسے گمراہ اور بخشی تقلید۔۔۔
بروہی سے براہی ایک کے کاسٹ سر نیم کا مزاک اڑانا؟ اور کسی کہ والد بزرگوار کا نام بخش سے بخشی پکارنا؟ ماشاء اللہ سبحان اللہ کیا اچھے اخلاق ہیں۔
۔۔۔ فقہ بخشی۔۔
وہی حالت۔۔۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے آمین۔
آپ کے اخلاق عالیہ پر یہ تحریر گواہ ہے اس کا کوئی جواب نہیں تو عرض ہے کہ سٹی اٹکتی نہیں ہے سوئی اٹکتی ہے کم از کم اپنے ممدوح سے اردو تو سیکھ لیں
جب میں ایک ہی بات بار بار پوچھ رہا ہوں میری سوئی اسی پر اٹکی ہوئی ہے تو اس کا جواب دے دیں تو بات آگے بڑھے
جی میں نے آپ ہی کہ پوسٹوں سے آپ کے اخلاق عالیہ ہائیلائیٹ کردیے ہیں بہت بہتریں اخلاق کے حامل انسان ہیں آپ۔
جی میں طالب علم ہوں اور اردو لکھنے میں غلطیاں ہونے کہ امکانات بلکل ہیں دعا کریں اللہ میرے علم اور عمل میں اضافہ کرے جی، اور مفید مشورہ یہ ہی ہے سئی یا سٹی کہ لیے کہ اچھے سے آنکھوں کے ڈاکٹر سے مل کر آنکھوں کا چیک اپ کروا لیں اور اچھا سا چشمہ بنوا لیں۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

موقف أهل السنَّة من العالم إذا أخطأ أنَّه يُعذر فلا يُبدَّع ولا يُهجَر
ليست العصمةُ لأحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فلا يسلم عالِمٌ من خطأ، ومن أخطأ لا يُتابَع على خطئه، ولا يُتخذ ذلك الخطأ ذريعة إلى عيبه والتحذير منه، بل يُغتفر خطؤه القليل في صوابه الكثير، ومن كان من هؤلاء العلماء قد مضى فيُستفادُ من علمه مع الحذر من متابعته على الخطأ، ويُدعى له ويُترحَّم عليه، ومَن كان حيًّا سواء كان عالماً أو طالب علم يُنبَّه على خطئه برفق ولين ومحبَّة لسلامته من الخطأ ورجوعه إلى الصواب.
ومن العلماء الذين مَضوا وعندهم خلل في مسائل من العقيدة، ولا يستغني العلماء وطلبة العلم عن علمهم، بل إنَّ مؤلَّفاتهم من المراجع المهمَّة للمشتغلين في العلم، الأئمة: البيهقي والنووي وابن حجر العسقلاني.

رفقا أهل السنة بأهل السنة (ص: 31)
اہل سنت کا منہج یہ ہے ، جب کسی عالم دین سے غلطی ہو جائے ، تو اس کے لیے عذر تلاش کیا جائے ، اسے بدعتی کہہ کر بائیکاٹ نہ کیا جائے ۔
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی معصوم عن الخطا نہیں ، کوئی بھی عالم غلطی سے مبرا نہیں ، کسی کی غلطی کی پیروی نہیں کی جائے گی ، لیکن صرف غلطی کو عیب جوئی یا تحذیر کا ذریعہ بنانا بھی درست نہیں ، اس کی علمی خدمات کی روشنی میں بعض غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے گا ، اگر اس قسم کے علما گزر چکے ہوں ، تو ان کی غلطی پر تنبیہ کے ساتھ ، ان کے علم سے استفادہ کیا جائے ، انہیں ’ر حمہ اللہ ‘ کہا جائے ، اور جو زندہ ہوں ، انہیں پیار محبت اور نرمی کے ساتھ غلطی پر تنبیہ کی جائے ، تاکہ وہ غلطی سے رجوع کرلے اور حق کی طرف لوٹ آئے ۔
کئی کبار علما ہیں ، جن کے ہاں عقیدے کے مسائل میں خلل اور غلطیاں تھیں ، لیکن طالبعلم اور علما ان کے علم اور مصنفات سے مستغنی نہیں ہوئے ، جیساکہ بیہقی ، نووی اور ابن حجر العسقلانی رحمہم اللہ اجمعین ہیں ۔
مزید فرماتے ہیں :
حصل في هذا الزمان انشغال بعض أهل السنَّة ببعض تجريحاً وتحذيراً، وترتَّب على ذلك التفرُّق والاختلاف والتهاجر، وكان اللائقُ بل المتعيَّن التواد والتراحم بينهم، ووقوفهم صفًّا واحداً في وجه أهل البدع والأهواء المخالفين لأهل السنَّة والجماعة، ويرجع ذلك إلى سببين:
أحدهما: أنَّ من أهل السنَّة في هذا العصر من يكون دَيْدَنُه وشغلُه الشاغل تتبُّع الأخطاء والبحث عنها، سواء كانت في المؤلفات أو الأشرطة، ثم التحذير مِمَّن حصل منه شيءٌ من هذه الأخطاء، ومن هذه الأخطاء التي يُجرَّح بها الشخص ويُحذَّر منه بسببها تعاونه مثلاً مع إحدى الجمعيات بإلقاء
المحاضرات أو المشاركة في الندوات، وهذه الجمعية قد كان الشيخ عبد العزيز بن باز والشيخ محمد بن عثيمين رحمهما الله يُلقيان عليها المحاضرات عن طريق الهاتف، ويُعاب عليها دخولها في أمر قد أفتاها به هذان العالمان الجليلان، واتِّهام المرء رأيه أولى من اتِّهامه رأي غيره، ولا سيما إذا كان رأياً أفتى به كبار العلماء.
(رفقا أهل السنة بأهل السنة (ص: 44)
عصر حاضر میں بعض اہل سنت کے درمیان آپس میں تجریح و تحذیر کا سلسلہ چل نکلا ، اور معاملہ تفرق ، اختلاف اور بائیکاٹ تک پہنچ چکا ہے ، حالانکہ انہیں آپس میں پیار محبت سے رہنا چاہیے ، اور مل کر اہل بدعت اور اعدا اسلام کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ یہ افسوس ناک صورت حال کا ایک سبب یہ ہے کہ بعض لوگوں کا اصل ہدف اور مقصد ہی دوسروں کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا ہے ، کیسٹیں سنتے ہیں ، کتابیں پڑھتے ہیں ، تاکہ کسی کی کوئی غلطی ہاتھ میں آئے ، اور پھر اس کے خلاف محاذ کھڑا کیا جائے ، اور ان لوگوں کے ہاں جو چیزیں قابل مواخذہ اور سبب عیب جوئی ہیں ، انہیں میں سے ایک کسی کا کسی ’ جمعیت ‘ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ، کانفرنسز اور دروس میں وغیرہ شرکت کرنا ہے ، حالانکہ اسی ’ جمعیت ‘ کے لیے شیخ ابن باز ، ابن عثیمین رحمہما اللہ بھی ٹیلی فونک خطاب کیا کرتے تھے ، گویا جو کام وقت کے دو بڑے اماموں نے سر انجام دیا ، وہی کام ان لوگوں کے ہاں ’ عیب ‘ بن گیا ہے ، حالانکہ ایسی صورت حال میں انسان کو دوسرے پر فتوی لگانے کی بجائے ، اپنی رائے کو ناقص سمجھنا چاہیے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
ما شاءاللہ بہت مفید فتاویٰ نقل کئے آپ نے، جزاک اللّٰہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں :

موقف أهل السنَّة من العالم إذا أخطأ أنَّه يُعذر فلا يُبدَّع ولا يُهجَر
ليست العصمةُ لأحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فلا يسلم عالِمٌ من خطأ، ومن أخطأ لا يُتابَع على خطئه، ولا يُتخذ ذلك الخطأ ذريعة إلى عيبه والتحذير منه، بل يُغتفر خطؤه القليل في صوابه الكثير، ومن كان من هؤلاء العلماء قد مضى فيُستفادُ من علمه مع الحذر من متابعته على الخطأ، ويُدعى له ويُترحَّم عليه، ومَن كان حيًّا سواء كان عالماً أو طالب علم يُنبَّه على خطئه برفق ولين ومحبَّة لسلامته من الخطأ ورجوعه إلى الصواب.
ومن العلماء الذين مَضوا وعندهم خلل في مسائل من العقيدة، ولا يستغني العلماء وطلبة العلم عن علمهم، بل إنَّ مؤلَّفاتهم من المراجع المهمَّة للمشتغلين في العلم، الأئمة: البيهقي والنووي وابن حجر العسقلاني.

رفقا أهل السنة بأهل السنة (ص: 31)
اہل سنت کا منہج یہ ہے ، جب کسی عالم دین سے غلطی ہو جائے ، تو اس کے لیے عذر تلاش کیا جائے ، اسے بدعتی کہہ کر بائیکاٹ نہ کیا جائے ۔
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی معصوم عن الخطا نہیں ، کوئی بھی عالم غلطی سے مبرا نہیں ، کسی کی غلطی کی پیروی نہیں کی جائے گی ، لیکن صرف غلطی کو عیب جوئی یا تحذیر کا ذریعہ بنانا بھی درست نہیں ، اس کی علمی خدمات کی روشنی میں بعض غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے گا ، اگر اس قسم کے علما گزر چکے ہوں ، تو ان کی غلطی پر تنبیہ کے ساتھ ، ان کے علم سے استفادہ کیا جائے ، انہیں ’ر حمہ اللہ ‘ کہا جائے ، اور جو زندہ ہوں ، انہیں پیار محبت اور نرمی کے ساتھ غلطی پر تنبیہ کی جائے ، تاکہ وہ غلطی سے رجوع کرلے اور حق کی طرف لوٹ آئے ۔
کئی کبار علما ہیں ، جن کے ہاں عقیدے کے مسائل میں خلل اور غلطیاں تھیں ، لیکن طالبعلم اور علما ان کے علم اور مصنفات سے مستغنی نہیں ہوئے ، جیساکہ بیہقی ، نووی اور ابن حجر العسقلانی رحمہم اللہ اجمعین ہیں ۔
مزید فرماتے ہیں :
حصل في هذا الزمان انشغال بعض أهل السنَّة ببعض تجريحاً وتحذيراً، وترتَّب على ذلك التفرُّق والاختلاف والتهاجر، وكان اللائقُ بل المتعيَّن التواد والتراحم بينهم، ووقوفهم صفًّا واحداً في وجه أهل البدع والأهواء المخالفين لأهل السنَّة والجماعة، ويرجع ذلك إلى سببين:
أحدهما: أنَّ من أهل السنَّة في هذا العصر من يكون دَيْدَنُه وشغلُه الشاغل تتبُّع الأخطاء والبحث عنها، سواء كانت في المؤلفات أو الأشرطة، ثم التحذير مِمَّن حصل منه شيءٌ من هذه الأخطاء، ومن هذه الأخطاء التي يُجرَّح بها الشخص ويُحذَّر منه بسببها تعاونه مثلاً مع إحدى الجمعيات بإلقاء
المحاضرات أو المشاركة في الندوات، وهذه الجمعية قد كان الشيخ عبد العزيز بن باز والشيخ محمد بن عثيمين رحمهما الله يُلقيان عليها المحاضرات عن طريق الهاتف، ويُعاب عليها دخولها في أمر قد أفتاها به هذان العالمان الجليلان، واتِّهام المرء رأيه أولى من اتِّهامه رأي غيره، ولا سيما إذا كان رأياً أفتى به كبار العلماء.
(رفقا أهل السنة بأهل السنة (ص: 44)
عصر حاضر میں بعض اہل سنت کے درمیان آپس میں تجریح و تحذیر کا سلسلہ چل نکلا ، اور معاملہ تفرق ، اختلاف اور بائیکاٹ تک پہنچ چکا ہے ، حالانکہ انہیں آپس میں پیار محبت سے رہنا چاہیے ، اور مل کر اہل بدعت اور اعدا اسلام کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ یہ افسوس ناک صورت حال کا ایک سبب یہ ہے کہ بعض لوگوں کا اصل ہدف اور مقصد ہی دوسروں کے عیب اور غلطیاں تلاش کرنا ہے ، کیسٹیں سنتے ہیں ، کتابیں پڑھتے ہیں ، تاکہ کسی کی کوئی غلطی ہاتھ میں آئے ، اور پھر اس کے خلاف محاذ کھڑا کیا جائے ، اور ان لوگوں کے ہاں جو چیزیں قابل مواخذہ اور سبب عیب جوئی ہیں ، انہیں میں سے ایک کسی کا کسی ’ جمعیت ‘ کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ، کانفرنسز اور دروس میں وغیرہ شرکت کرنا ہے ، حالانکہ اسی ’ جمعیت ‘ کے لیے شیخ ابن باز ، ابن عثیمین رحمہما اللہ بھی ٹیلی فونک خطاب کیا کرتے تھے ، گویا جو کام وقت کے دو بڑے اماموں نے سر انجام دیا ، وہی کام ان لوگوں کے ہاں ’ عیب ‘ بن گیا ہے ، حالانکہ ایسی صورت حال میں انسان کو دوسرے پر فتوی لگانے کی بجائے ، اپنی رائے کو ناقص سمجھنا چاہیے۔
اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شیخ فرماتے ہیں :
ومن المجروحين مَن يكون نفعه عظيماً، سواء عن طريق الدروس أو التأليف أو الخطب، ويُحذَّر منه لكونه لا يُعرف عنه الكلام في فلان أو الجماعة الفلانية مثلاً، بل لقد وصل التجريح والتحذير إلى البقيَّة الباقية في بعض الدول العربية، مِمَّن نفعهم عميم وجهودهم عظيمة في إظهار السنَّة ونشرها
والدعوة إليها، ولا شكَّ أنَّ التحذير من مثل هؤلاء فيه قطع الطريق بين طلبة العلم ومَن يُمكنهم الاستفادة منهم علماً وخلقاً.
رفقا أهل السنة بأهل السنة (ص: 45)
جن لوگوں پر جرح اور طعن و تشنیع کی جاتی ہے ، ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے دروس ، خطبات اور تالیفات سے بہت فائدہ اٹھایا جارہا ہوتا ہے ، لیکن چونکہ وہ کسی خاص شخص ، یا خاص جماعت کے خلاف بات نہیں کرتے ، اس لیے اس سے لوگوں کو متنفر کیا جاتا ہے ، حد تو یہ ہے کہ بعض عربی ممالک میں گنتی کے کچھ اہل علم تھے، جنہوں نے سنت کی نشر و اشاعت ، دعوت و ارشاد کے میدان میں بہت عظیم خدمات سر انجام دیں ، لیکن یہ تجریح و تحذیر کے سلسلے نے انہیں بھی لپیٹ میں لے لیا، اس قسم کے اہل علم سے لوگوں کو روکنا ، بلاشبہ طالبعلموں کے لیے علم و اخلاق کی تعلیم و تعلم کے راستے مسدود کرنے کے مترادف ہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ایسا کرتے ہیں کہ ایک موضوع طے کر لیں اور اس پر بات چیت کے لیے کچھ اصول بھی طے کر لیتے ہیں تاکہ انہی اصول و ضوابط کے تحت ہم بات کریں وگرنہ اس طرح پوسٹ پر پوسٹ کرتے رہیں گے
میں اس حوالے سے طارق علی بروہی یا ڈاکٹر مرتضی بخش کی ذاتیات پر جو کچھ بھی کہا وہ واپس لیتا ہوں اور میں اس پر اللہ تعالی سے بھی معافی کا طلبگار ہوں
سب سے پہلے کس موضوع پر بات کرنی ہے اورکیا اصول و ضوابط طے کرنے ہیں اس پر پہلے بات کر لیں تاکہ ہم اس طرح ایک دوسرے کی پوسٹ پر جواب اور جواب الجواب لکھتے رہے تو کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں گے
میرا خیال ہے کہ شیخ خضر حیات حفظہ اللہ بھی اس کی تائید کریں گے اور امید ہے اب باقاعدہ کسی موضوع کے اور آداب گفتگو طے کیے بغیر نہ وہ کوئی پوست کریں گے اور نہ ہی آپ دونوں بھائی مزید کچھ لکھیں گے
اگر بات افہام و تفہیم کی ہے
 
شمولیت
جولائی 06، 2014
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
ایسا کرتے ہیں کہ ایک موضوع طے کر لیں اور اس پر بات چیت کے لیے کچھ اصول بھی طے کر لیتے ہیں تاکہ انہی اصول و ضوابط کے تحت ہم بات کریں وگرنہ اس طرح پوسٹ پر پوسٹ کرتے رہیں گے
میں اس حوالے سے طارق علی بروہی یا ڈاکٹر مرتضی بخش کی ذاتیات پر جو کچھ بھی کہا وہ واپس لیتا ہوں اور میں اس پر اللہ تعالی سے بھی معافی کا طلبگار ہوں
سب سے پہلے کس موضوع پر بات کرنی ہے اورکیا اصول و ضوابط طے کرنے ہیں اس پر پہلے بات کر لیں تاکہ ہم اس طرح ایک دوسرے کی پوسٹ پر جواب اور جواب الجواب لکھتے رہے تو کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں گے
میرا خیال ہے کہ شیخ خضر حیات حفظہ اللہ بھی اس کی تائید کریں گے اور امید ہے اب باقاعدہ کسی موضوع کے اور آداب گفتگو طے کیے بغیر نہ وہ کوئی پوست کریں گے اور نہ ہی آپ دونوں بھائی مزید کچھ لکھیں گے
اگر بات افہام و تفہیم کی ہے
بہترین بات ہے اور صاف صاف بااصول بات ہونی چاہیے اس موضوع پر. گو کہ یہ پرانا دھاگہ ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے شاید آج کے وقت میں زیادہ مفید رہے گا. مجھے معلوم نہیں کہ شیوخ آج کل مصروفیت میں سے وقت نکال پائیں گے یا نہیں.
@خضر حیات
@ابن داود
@عبدالمنان
 
Top