- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
عدت کا بیان
غیر مدخولہ عورت( یعنی وہ عورت جس سے نکاح کے بعد شوہر نے وطی نہ کی ہو) اس پر کوئی عدت نہیںَ وہ طلاق واقع ہوتے ہی فوراً بائنہ ہو جاتی ہے اور دوسرے نکاح کے لائق ہو جاتی ہے۔ یعنی دوسرا نکاح مدت کے انتظار کے بغیر ہو سکتا ہے۔ اور یہ دوسرا نکاح طلاق دینے والے شوہر کے ساتھ بغیر حلالہ کے ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر مدخولہ عورت کے لئے عدت کی پابندی کاحکم نہیں بلکہ عدت کی پابندی کا حکم مدخولہ عورتوں کے لئے خاص ہے، اور مدخولہ عورت کے لئے طلاق کے بعد رجوع کی مدت مندرجہ ذیل آیت میں اس طرح ہے:’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّونَہَا ‘‘ (الاحزاب:۳۹)
’’اے ایمان والو!تم جن منکوحہ عورتوں کو وطی سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر تمہارے لئے عدت کی پابندی نہیں ہے‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو طلاق رجعی دی گئی ہو( پہلی طلاق دی گئی ہو یا دوسری طلاق) ایسی عورت کے شوہر کو رجوع کرنے کے حق کی مدت تین حیض ہے۔ اگر اس مدت کے اندر شوہر نے رجوع نہ کیا تو مطلقہ عورت بائنہ ہو جائے گی، پھر وہ جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے ۔ اگر دونوں میاں بیوی راضی ہوں اور یکجا رہنا چاہیں تو اس طلاق دینے والے شوہر سے بھی نکاح کے ساتھ عورت دوبارہ بغیر حلالہ کے لوٹائی جا سکتی ہے۔’’وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَء ٍ وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ أَن یَکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّہُ فِیْ أَرْحَامِہِنَّ إِن کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَبُعُولَتُہُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذَلِکَ ‘‘ (البقرۃ:۲۲۸)
’’یعنی مطلقہ عورتیں اپنے کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں اور اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لئے حلال نہیں کہ ان کے رحم میں جو چیز اللہ نے پیدا کر رکھی ہے اسے چھپائیں اور تین حیض کی اس مدت انتظار میں ان کے شوہر ان سے رجوع کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں‘‘
اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیت میں فرمایا ہے:
لیکن جن عورتوں کو حیض نہیں آتا کسی بیماری کی وجہ سے یا بڑھاپا یا کم سنی کی وجہ سے یا جو عورتیں حاملہ ہوں ان کے لئے مدت انتظار دوسری آیت میں اس طرح بیان فرمائی ہے:’’وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَن یَنکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَیْنَہُم بِالْمَعْرُوفِ ‘‘ (البقرۃ:۲۳۲)
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی مدت پوری کر چکیں تو تم ان کو ان کے خاوندوں سے جب وہ آپس میں دستور کے موافق راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکا کرو‘‘
اس آیت میں صراحت کی گئی ہے کہ کبر سنی و صغر سنی یا کسی وجہ سے حیض نہ آنے والی عورتوں کو پہلی مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کرنے کی جو مدت شریعت نے مقرر کی ہے وہ تین مہینہ ہے اور حاملہ سے رجوع کرنے کی عدت وضع حمل ہے۔ اس مدت کو اس آیت میں ’’عدت‘‘ اور’’اجل‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اس سے پہلے والی اور بعد والی آیت میں اسی عدت و اجل کو’’مدت تربص‘‘ یعنی مدت انتظار کہا گیا ہے۔ یعنی زمانہ رجوع کا نام اصطلاح شریعت میں عدت ،اجل، اور مدت تربص ہے۔’’وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِیْ لَمْ یَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَن یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ‘‘
’’(یعنی کبر سنی و صغر سنی کی وجہ سے) جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ان کی عدت تین مہینہ ہے اور حاملہ عورت کی اجل یعنی عدت وضع حمل ہے‘‘
لیکن جن عورتوں کے خاوند فوت ہو جائیں ان کی عدت اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
اس آیت شریفہ میں اس عورت کی عدت جس کا شوہر فوت ہوگیا ہے اللہ تعالیٰ نے چار ماہ دس دن مقرر فرمائی ہے۔’’ وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ أَنفُسِہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ‘‘ (البقرۃ:۳۳۴)
’’جو لوگ مرتے ہوئے اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں وہ چار مہینے دس دن بیٹھا کریں، پھر جب اپنی مدت پوری کر چکیں تو جو کچھ وہ اپنے حق میں موافق دستور کریں تو تم پر کوئی گناہ نہیں‘‘