• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبادت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبادت

(مفہوم، مراتب، انحرافات)
استفادہ
ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن حفظہ اللہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عرض مولف
یہ پوری کائنات اور کائنات کی ہر ہر چیز (نافرمان انس و جن کے ماسوا) اللہ رب العزت کی عبادت گزار ہے البتہ عبادت کا طریقہ ہر مخلوق کے لیے الگ الگ ہے:
﴿تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ﴾ (بنی اسرائیل:۴۴)
“کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اسکی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں۔”
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَسْجُدُ لَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ﴾ (الحج:۱۸)
“کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔”
زمین و آسمان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ﴾ (فصّلت:۱۱)
“پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اس سے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں۔”
فرشتے وہ مخلوق ہیں جن کی تخلیق ایک شفاف نور سے ہوئی ہے۔ فرشتوں کی عبادت یہ ہے کہ وہ دن رات، ہر لمحے اور ہر گھڑی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور وہ کسی بھی معاملے میں اللہ کی کبھی بھی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ مسلسل اللہ کی تسبیح کرتے ہیں؛ ایک لمحہ رکنے کا نام نہیں لیتے:
﴿وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿١٩﴾ يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ﴾ (الانبیاء: ۱۹۔۲۰)
“اور جو (فرشتے) اُس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ ہی تھکتے ہیں۔ رات دن (اُس کی) تسبیح کرتے رہتے ہیں اور ذرا سی بھی کاہلی نہیں کرتے۔”
﴿لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ (التحریم:۶)
“جو حکم اللہ ان کو دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اس کو بجا لاتے ہیں۔”
انسانی تخلیق کا مقصد بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)
“اور میں نے جن اور انسان اسی لیے ہی بنائے ہیں کہ وہ میری بندگی کریں۔”
اللہ تعالیٰ نے زمین کو زیب و آرائش سے بھر دیا، انسان کے دل میں مال، اولاد اور عزت کی محبت ڈال دی اور پھر انسان کو اس کی رنگینیوں کے بیچ چھوڑ دیا تاکہ آزما ئے کہ یہ دنیا کی رنگینیوں میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی کا طلبگار رہتا ہے یا اس کے احکامات سے اعراض کرتے ہوئے شیطان کی پوجا کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾ (الدھر :۲)
“بے شک پیدا کیا ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سےتاکہ اُس کا امتحان لیں، ہم نے اُسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔”
﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملك:۲)
“اُس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کون تم میں سے نیک عمل کرنے والا ہے۔”
﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الكهف:۷)
“جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں ان میں کون نیک عمل کرنے والا ہے۔”
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ آزمانا چاہتا ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے مقصد "عبادت" کو پورا کرتا ہے یا نہیں، جب انسان کی تخلیق عبادت کے لئے ہوئی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی عبادت کا انداز کیا ہو؟ اسے کس طرح اپنے رب کی بندگی کرنی ہے؟ اور عبادت کہتے کسے ہیں؟
عبادت کے مفہوم میں کس قدر بگاڑ واقع ہو چکا ہے اس کا اندازہ محمد قطب رحمہ اللہ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:
آج جب ہم کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو بتاتے ہیں کہ: “جہان کی سب مشکلات کا حل اسلام ہے۔ سب مسائلِ عالم کی کنجی یہ لا الٰہ الا اللہ ہے۔ اِس الجھی ہوئی صورتحال سے نکلنے کی راہ صرف اللہ اکیلے کی عبادت اختیار کرنا ہے”… تو پھر کیوں نہ یہ نوجوان کندھے اچکا کر اور ایک خندۂ استہزاء کے ساتھ پوچھے: یہ اسلام جو آپ کے یہاں پایا جاتا ہے ہمارا دیکھا بھالا ہی تو ہے، آپ کا یہ لا الٰہ الا اللہ اپنا نظارہ کروا تو رہا ہے، وہ عبادت جس کو آپ حل قرار دے رہے ہیں یہاں پر ہو تو رہی ہے، پھر آپ کے یہ "مسلمان" ہی سب سے بڑھ کر پسماندہ کیوں ہیں؟ دنیا کے اندر سب سے بڑھ کر آپ کے یہ "کلمہ گو" ہی اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحرانوں میں گرفتار کیوں ہیں؟ سب سے زیادہ بدحال اور قابل ترس دنیا بھر میں آپ کے یہ مسلم معاشرے ہی کیوں ہیں؟ سب سے زیادہ ان کے ہی گھروں میں راکھ کیوں اڑتی ہے؟ کیا اِس اسلام میں ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈیں جس کے "ہوتے ہوئے" تمہارے ہاں ایسی خاک اڑتی ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنے مسائل کا حل ہم کہیں اور ڈھونڈیں؟
یہاں، ضروری ہو جاتا ہے (افراد پر حکم لگانے کے منہج سے دور رہتے ہوئے) کہ ہم خود اپنے اور پھر لوگوں کے ساتھ صراحت اور صاف گوئی سے کام لیں: دیکھئے حضرات! آج جو چیز اِن مسلم معاشروں میں پائی جا رہی ہے اس کا نام “اسلام” نہیں۔ یہ وہ “دین” نہیں جو اللہ کے ہاں سے نازل ہوا ہے۔ یہ وہ “عبادت” نہیں جس کا اللہ نے حکم دے رکھا ہے۔ یہاں “اسلام”، “ایمان”، “دین” اور “عبادت” کی بابت تصورات کو ہی سرتاپا بدلا جانا ہے اور پھر ان صحیح و مستند مفہومات کی بنیاد پر ایک مکمل نئی عمارت اٹھانی ہے۔ ہمیں اِس نوجوان کو صاف صاف یہ بتانا ہے: مسلم معاشروں میں تمہیں آج جو یہ خاک اڑتی نظر آتی ہے، یہ پسماندگی جو تہذیبی، علمی، سائنسی، عسکری، سیاسی، مادی، روحانی، اقتصادی، سماجی اور فکری ہر ہر میدان میں تم کو دکھائی دیتی ہے اس کی وجہ نہ ان کا "مسلمان" ہونا ہے اور نہ ہی کوئی نام نہاد “معاشی ادوار”! اس کا سبب صرف ایک ہے: مسلمان عمل اور کام کرنے کے میدان میں اسلام کی حقیقت سے دور ہو چکے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وہ فہم اور تصور کے میدان میں بھی اسلام کی حقیقت سے غافل ہیں۔ آج یہ جس چیز کو اسلام سمجھتے ہیں وہ اسلام نہیں کچھ اور ہے…
ورنہ…
* جس روز “وَأعِدُّوْا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنۡ قُوَّۃٍ” ایک عبادت تھی… اُس روز کسی مائی کے لال کی جرأت نہ تھی کہ وہ مسلمانوں کی زمین پر پیر بھی رکھ کر دکھائے؛ اِن کو نسل درنسل غلام بنا کر رکھنا، اِن کے وسائل کو لوٹنا اور خود اِنہی کی بیوروکریسی سے اپنے لیے ٹیکس کلکٹری کروانا تو بہت دور کی بات ہے!
* جس روز “طلب العلم فريضۃ” ایک عبادت تھی… اُس روز یہاں کوئی علمی پسماندگی اور سائنسی بدحالی نہیں تھی، بلکہ اُس روز امتِ مسلمہ علم اور آگہی میں دنیا کی امام تھی۔ یہی یورپ ہے جو اُس روز ہمارے سکولوں اور ہماری جامعات میں داخلے لیتا پھرتا تھا!
* جس روز “فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ” ایک عبادت تھی… اُس روز مسلم معاشرے دنیا کے خوشحال ترین معاشرے تھے!
* جس روز “كلكم راعٍ وكلكم مسئولٌ عن رعيتہ” ایک عبادت تھی، اور “والی” یہ جانتا تھا کہ دراصل وہ ایک راعی (چرواہا) ہے جس کو اپنے گلے کی بابت پوچھ گچھ ہونی ہے… اُس روز مسلم معاشرے کے غریبوں اور ناداروں کو جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں تھی! غربت اور معاشی ناہمواریوں کا علاج تو خود اِس شریعت کے اندر ہے جو کہ اُس روز مسلم معاشرے کے اندر قائم تھی۔
* جس روز “وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعۡرُوْفِ” ایک عبادت تھی اُس روز مسلم عورت اپنے 'حقوق' کے لیے سڑکوں پر خوار ہوتی نہیں پھر رہی تھی۔ کیونکہ سب حقوق اور سب سماجی ضمانتیں بدرجۂ اتم اس شریعت میں درج ہیں، جس کی لفظ بلفظ پابندی آپ سے آپ اللہ واحد قہار کی "عبادت" ہے!
اور جی ہاں… اس امت کا آخری حصہ ہرگز نہ سنورے گا جب تک وہ نقشہ نہ ہو جس پر اِس کا اولین حصہ سنوارا گیا تھا… (مفاہیم ینبغی ان تصحح)
عبادت کا یہ مفہوم جو سلف صالحین کے ہاں پایا جاتا تھا اسے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس رسالے میں ہم نے اس مفہوم کو کتاب و سنت کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس رسالے کو لکھنے میں استاد محمد قطب رحمہ اللہ کی کتاب (مفاہیم ینبغی ان تصحح) (جو کہ مفہومات کے نام سے مطبوع ہے) سے استفادہ کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین۔
دعاگو
ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبادت کا معنی و مفہوم
تعریف
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“عبادت ایک جامع لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کے تمام پسندیدہ و محبوب ظاہری و باطنی اقوال و افعال کو شامل ہے، چنانچہ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، سچائی، امانت کی ادائیگی، والدین سے حسن سلوک، رشتہ داروں سے نیکی، ایفائے عہد، نیکی کا حکم، برائی سے روکنا، کفار و منافقین سے جہاد، پڑوسیوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور زیر دست انسانوں اور جانوروں کے ساتھ بھلائی، نیز دعا، ذکر، قرأت وغیرہ سب عبادات ہیں، اسی طرح اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، اللہ کا ڈر، اس کی طرف رجوع، خالص اسی کی عبادت، اس کے حکم پر ڈٹ جانا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا، اس کی قضاء و قدر پر راضی ہونا، اس پر توکل کرنا، اس کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب کا خوف وغیرہ عبادات ہیں۔” (العبودیۃ: 8)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عبادت کی جو تعریف بیان فرمائی ہے وہ نہایت جامع ہے۔ اس میں عبادت کی تمام صورتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ کتاب و سنت میں عبادت کو اس کے مختلف پہلوؤں سے بیان کیا گیا ہے۔
ان میں ایک پہلو اللہ تعالیٰ کے لیے شعائر بندگی اور توحید کے اظہار اور شرک سے برأت والے اعمال کو بجا لانا ہے، جیسے دعا، ذبیحہ، نذر اسی طرح مشرکین سے برأت کرنا، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنا وغیرہ۔ شعائر بندگی میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر شعائر آتے ہیں۔ انہیں اللہ کے سوا کسی اور کے لئے بجا لانا شرک ہے۔ عبادت کا یہ پہلو انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
عبادت کا دوسرا پہلو اطاعت و فرمانبرداری سے تعلق رکھتا ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کے ہر پہلو میں، ہر معاملے میں، ہر حوالے سے اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔ عبادت کا یہ تصور انسان کی پوری زندگی کو عبادت بناتا ہے، یوں وہ اپنے مقصد تخلیق کو پورا کرتا اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹتا ہے۔ عبادت کا یہ پہلو بھی دعوتِ انبیاء علیہم السلام کا بنیادی عنوان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبادت کے بنیادی ارکان
عبادت کے دو ارکان ہیں :
۱۔ اللہ کی بندگی کرنا
۲۔ جھوٹے خداؤں کی بندگی کا کفر

اللہ کی بندگی کرنا
عبادت کی اقسام
عبادت کی درج ذیل اقسام ہیں:
۱۔ قلبی:
یہ سب سے اہم عبادات ہیں، باقی تمام عبادات کا دار و مدار اسی دل کی عبادت پر ہے۔ جس کے دل کے اعمال جتنے بہتر ہوں گے اس کے ظاہری اعمال بھی اتنے بہتر ہوں گے اور جو یہاں جتنا کمزور ہو گا وہ اپنی ظاہرہ عبادات میں بھی اتنا ہی کمزور ہو گا۔ دل کی عبادت میں محبت، خوف، توکل، امید، خشیت، انابت جیسے اعمال داخل ہیں۔ ان اعمال میں محبت کو بنیادی مقام حاصل ہے، یہ عبادت کی اساس اور بنیاد ہے۔ البتہ یہ محبت جب تک خوف اور امید کے ساتھ جڑی نہ ہو تب تک یہ اللہ کے تقرب کا درست ذریعہ نہیں بنتی۔ اللہ صورتوں کو نہیں دلوں کو دیکھتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
“إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ “ (مسلم :٢٥٦٤ )
“بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔”
تقویٰ کا اصل مرکز دل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ دل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “التَّقْوَى هَا هُنَا” (مسلم: ٢٥٦٤)
“تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے۔”
انسانی اعمال کے درست یا غلط ہونے کا دارومدار دل کے اعمال پر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
“أَلَا وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ.” (بخاري ٥٢ مسلم ١٥٩٩)
“بے شک بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ سنور گیا تو سارا بدن سنور گیا اور جب وہ بگڑ گیا تو سارا بدن بگڑ گیا اور یاد رکھو وہ ٹکڑا دل ہے۔”
پس جب دل کے اعمال درست ہوں تو ظاہری، مالی، بدنی اور دیگر تمام اعمال درست ہو جاتے ہیں اور اگر دل کی نیت ہی خالص نہ ہو تو ظاہری اعمال کی درستگی بھی کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ یہ بات ایک مومن کو بے حد خوفزدہ کرنے والی ہے کہ کہیں اس کا دل ایمان سے کفر کی جانب نہ پھر جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں وہ انہیں جیسے چاہتا ہے پھیرتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ” (مسلم: ۲۶۵۴)
“اے اللہ! دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔”
اعضاء سے عمل کرنے کی ہمت یا مہلت نہ ہو تو تب بھی اللہ تعالیٰ دل کے عمل کو دیکھتے ہوئے ظاہری عمل کا ثواب دے دیا کرتا ہے: ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
“مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ، وَلَمْ يُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ؛ مَاتَ عَلَى شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ” (مسلم: ١٩)
"جو شخص فوت ہو جائے اور اس نے جہاد نہ کیا ہو اور نہ جہاد کرنے کی نیت کی ہو تو وہ نفاق کی ایک خصلت پر فوت ہوا۔”
پس جس میں قتال کی طاقت نہ ہو تو اللہ اسے محض عزم کرنے پر اس عمل کا ثواب دے دیتا ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
“مَنْ سَأَلَ الله الشَّهَادَةَ بِصِدْقٍ؛ بَلَّغَهُ الله مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَى فِرَاشِهِ”
“جو شخص اللہ سے سچائی کے ساتھ شہادت مانگے گا تو اللہ تعالیٰ اسے شہیدوں کا درجہ دے گا اگرچہ اپنے بچھونے پر فوت ہو۔” (مسلم: ١٩٠٩)
سچے دل سے سوال کرنا دل کا عمل ہے۔ دل کی نیت خراب ہو تو اللہ بڑے بڑے اعمال کے اجر سے محروم فرما دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲۔ قولی:
زبان کے ساتھ اللہ کی تسبیح، تمجید، تہلیل اور تکبیر بیان کرنا، مشکلات میں اکیلے اللہ کو پکارنا، ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا، زبان سے کسی مسلمان کا دفاع کرنا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، دوسروں کو اذیت پہنچانے سے اپنی زبان کو روکے رکھنا۔ یہ سب زبان کی عبادات ہیں۔

۳۔ مالی:
اللہ کے نام پر نذر و نیاز، چڑھاوے اور سبیلیں لگانا۔ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا، دعوت و جہاد، مسلمانوں کی فلاح و بہبود، اسلام کے دفاع اور انسانیت کی بھلائی کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول پر پیسہ لگانا۔ یہ سب صورتیں مال کی عبادات ہیں۔

۴۔ بدنی:
اللہ کے سامنے جھکنا، قیام، رکوع، سجود اور طواف جیسی عبادات محض اللہ کے لئے بجا لانا۔ والدین کی خدمت، پڑوسیوں کے کام، بیواؤں اور یتیموں کی نگہداشت اور تربیت، مہمانوں کے اکرام، علم کے حصول اور جہاد و قتال کی خاطر اپنے بدن کو تکلیف دینا۔ یہ سب بدنی عبادات ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۵۔ اطاعت:
اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی تابعداری کرنا اور منع کردہ سے رکنا اللہ کی عبادت ہے۔ یہ اطاعت زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے، پس اللہ کا حکم انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا خانگی امور سے، معاشرتی پہلو سے متعلق ہو یا ریاستی اور سیاسی حوالے سے، الغرض زندگی کے ہر پہلو میں رب العالمین کی مان لینا ہی دراصل اللہ کی اطاعت اور عبادت کرنا ہے۔ جو کوئی زندگی کے کسی حصہ میں اللہ کی مانتا ہے اور کسی حصہ میں اللہ کے سوا کسی اور سے ہدایت لیتا ہے اور اُس حصہ میں اللہ کے احکامات کو لائق اتباع نہیں جانتا وہ درحقیقت بیک وقت دو خداؤں پر ایمان رکھتا ہے یعنی اللہ کے ساتھ شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ پس مومن وہ ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں اللہ ہی کو لائقِ اطاعت مانے اور اس کے سوا کسی کو ہدایت دینے کا مجاز نہ ٹھہرائے۔

معبودانِ باطلہ کی بندگی کا کفر
زندگی کے کسی بھی میدان میں مخلوق کی بندگی کرنا کلمہ توحید کے منافی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار اور معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار انبیاء اور رسولوں کی بعثت کا بنیادی مقصد رہا ہے۔ کوئی دوسری جزوی ذمہ داری یا مقصد انہیں ان کے اس بنیادی مقصد سے باز نہ رکھ سکا۔ یہی اسلام کا سب سے بڑا رکن ہے جسے رسول لے کر آئے۔ یہ ایک ایسا فریضہ ہے جسے نماز، روزہ، زکوۃ، حج بیت اللہ اور دوسرے فرائض و نوافل سے بھی پہلے پورا کرنا ضروری ہے۔ جب تک معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار نہ کر دیا جائے اس وقت تک نہ تو اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان مکمل ہوتا ہے، نہ کوئی عمل قبول ہوتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّـهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ} (النحل: ۳۶)
“ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (جو انہیں یہی کہتا تھا) کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو پھر کچھ ایسے لوگ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دے دی اور کچھ ایسے تھے جن پر گمراہی ثابت ہو گئی۔ سو تم زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔“
اس آیت سے معلوم ہوا کہ طاغوت سے اجتناب کی دعوت دینا تمام پیغمبروں کی پہلی ذمہ داری تھی اور کوئی بھی اس سے مستثنی نہیں تھا:
{فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} (البقرۃ: ۲۵۶)
“جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجی جانے والی ہر چیز کا انکار کیا اس کا مال اور خون (مسلمانوں پر) حرام ہے اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔” (صحیح مسلم ۲۳۔)
لہذا ضروری ہے کہ ایمان کا اظہار کرنے سے پہلے معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار کیا جائے۔ اگر معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار کیے بغیر ہی ایمان کا اظہار کر دیا گیا تو ایسا ایمان اس وقت تک فائدہ نہیں دے سکتا جب تک معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار اور شرک سے اجتناب نہیں کیا جاتا۔ ایمان باللہ اور ایمان بالطاغوت دونوں کا کسی ایک آدمی کے دل میں اکٹھا ہونا ممکن نہیں خواہ ایسا ایک لمحے کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ دونوں میں سے ایک پر ایمان دوسرے کی نفی کو مستلزم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“کسی بندہ کے دل میں ایمان اور کفر جمع نہیں ہو سکتے۔“ (سلسلہ الصحیحہ للألبانی: ۱۰۵۰)
اللہ تعالیٰ پر وہی ایمان قابل قبول ہو گا جس سے پہلے معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار کیا جائے ورنہ پھر معبودان باطلہ پر ہی ایمان ہو گا جس سے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا انکار لازم آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور معبودان باطلہ پر ایمان دونوں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے یہ ایک وقت میں ایک چیز اور اس کی ضد کو اکٹھا کرنے کے مترادف ہے۔
ایک ایسا شخص جو لا الہ الا اللہ کا اقرار تو کرتا ہے لیکن معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار نہیں کرتا وہ ایک وقت میں دو متضاد چیزوں کو اکٹھا کر رہا ہے جو کہ ایک نا ممکن سی بات ہے۔ لا الہ کلمہ توحید کا ایک حصہ ہے گویا معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار خود اسی کلمہ میں ہی شامل ہے۔ اس لیے جو کلمہ توحید کا اقرار کرنے کے باوجود معبودان باطلہ کی بندگی کا انکار نہیں کرتا وہ ایسا ہے جیسے وہ ایک طرف تو یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جبکہ دوسری طرف عملی طور پر وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور بھی معبود ہیں۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین توحید تھا۔ توحید کلمہ لا الہ الا اللہ کی معرفت اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا نام ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کلمہ کو تو سبھی لوگ پڑھتے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ بعض لوگ اسے پڑھنے کے بعد اس کا صرف یہی معنی مراد لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی خالق و رازق نہیں، اس میں اس طر ح کے دوسرے بھی کئی معانی شامل کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو اس کلمہ کے معنی اور مفہوم سے بالکل ہی ناواقف ہوتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو اس کلمہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔ قابل تعجب وہ شخص ہے جو ایک طرف اس کلمہ کو پہچانتا ہے اور دوسری طرف اس سے اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی رکھتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ قابل تعجب وہ ہے جو اس کلمہ سے محبت کرتا ہے اور اس کے ماننے والوں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے لیکن اس کے دوستوں اور دشمنوں کے درمیان فرق نہیں کر پاتا۔ سبحان اللہ! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک دین میں دو جماعتیں ہوں اور وہ حق پر ہونے کی دعویدار ہوں۔ اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں۔“ (مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیۃ: ۴/۳۳)
اس شخص کے کافر و مرتد ہونے میں کسی قسم کا کوئی پہلو مخفی نہیں جو اسلام میں داخل ہونے اور کلمہ توحید کا اقرار کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے۔ کیونکہ شرک تمام اعمال کو ضائع کر دینے کا باعث ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ} (الأنعام: ۸۸)
“اور اگر وہ لوگ (یعنی انبیاء کرام) بھی شرک کرتے تو ان کا سب کیا کرایا ضائع ہو جاتا۔“
اللہ کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولًا اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی کو حق مانے مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے اس کا نام فسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی بجائے اپنے نفس یا کسی اور کی بندگی کرنے لگے یہ کفر ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود کو خدائی منصب پر فائز کرے اور اللہ کے بندوں سے اپنی بندگی اور غیر مشروط اطاعت کروائے۔ جو اس آخری مرتبے پر پہنچ جائے اس کا نام طاغوت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جن چیزوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ بے جان: جیسے پتھر کے بت، بعض درخت اور قبریں وغیرہ
۲۔ عاقل: جیسے انسان، جنّات اور فرشتے وغیرہ
عاقل کی دو قسمیں ہیں:
۱: وہ عاقل جو اپنی بندگی کروانے پر راضی ہیں۔ جیسے شیطان اور دیگر طواغیت۔ یہ سب کافر اور جہنم میں جانے والے ہیں:
{وَمَن يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَـٰهٌ مِّن دُونِهِ فَذَٰلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ} (الأنبیاء: ۲۹)
“ان میں سے اگر کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی الٰہ ہوں تو ہم اسے دوزخ کی سزا دیں گے ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔“
ب: وہ عاقل جو اپنی بندگی پر راضی نہیں، کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو خود کو الٰہ بنائے جانے پر راضی نہیں جسے نصاریٰ عیسی علیہ السلام کو الٰہ کا درجہ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مشکلات کے حل کے لیئے پکارتے ہیں اور کچھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مدد کی فریاد کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دوسرے اولیاء اور صالحین کو اللہ کے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ لوگ اگرچہ ان کی بندگی کرتے ہیں لیکن انبیاء اور صالحین اللہ کے فرمانبردار، اللہ کی بندگی کرنے والے اور اللہ کے علاوہ ہر کسی کی بندگی سے برأت کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی بجائے اپنی عبادت پر راضی نہیں اس لیے انہیں طاغوت کہنا جائز نہیں۔
جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنی بندگی سے برأت کرتے ہوئے فرمائیں گے:
{وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ} (المائدہ:۱۱۶)
“اور جب (قیامت کے دن) اللہ فرمائے گا ”اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الہٰ بنا لینا؟ عیسیٰ جواب دیں گے: ”اے اللہ تو پاک ہے، میں ایسی بات کیونکر کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہ تھا۔“
اسی طرح فرشتے اور نیک بندے بھی کہیں گے:
{وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَـٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ﴿١٧﴾ قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا ﴿١٨ً} (الفرقان)
“اور جس دن اللہ انہیں اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں اکٹھا کرے گا تو ان سے سوال کرے گا کہ ”کیا تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی راہ سے بہک گئے تھے؟” وہ کہیں گے: ”تیری ذات پاک ہے ہماری مجال نہ تھی کہ تیرے سوا کسی کو کارساز بناتے، مگر تو نے انہیں اور ان کے آباء کو خوب دنیا کا سامان دیا، یہاں تک کہ وہ تیری یاد بھول گئے، یہ تھے ہی ہلاک ہونے والے"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
معبودان باطلہ کی عبادت کے انکار کا طریقہ
یہ بات جان لینے کے بعد کہ معبودان باطلہ کی عبادت کا انکار لازمی امر ہے اور اس کے بغیر انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا، معبودان باطلہ کی عبادت کے انکار کے طریقوں کو جاننا بھی بہت ضروری ہے تاکہ عملی زندگی میں اس کا اظہار کیا جا سکے۔ اس کا اگر صرف زبانی طور پر دعوی کیا گیا اور عملی زندگی میں اس کا کوئی اظہار نہ کیا گیا تو اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آئے گا:
{كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ} (الصف:۳)
"اللہ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرتے نہیں۔"
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"طاغوت سے کفر کے معنی یہ ہیں کہ طاغوت سے بیزاری کا اعلان کیا جائے اور اس کے گمراہ اور کافر ہونے کی گواہی دی جائے، اس سے نفرت کی جائے اگرچہ وہ طاغوت بھائی یا باپ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں مگر قبروں اور مزاروں یا ان پر بنے ہوئے قبوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتا ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتا تو ایسا شخص لا الہ الا اللہ کی گواہی میں جھوٹا ہے نہ تو اس کا اللہ پر ایمان ہے اور نہ ہی اس نے طاغوت کا کفر کیا۔ " (مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیۃ: ۴/۳۳)

۱۔ عبادت کا انکار کرنا:
ایک مومن اس عبادت کا انکار کرے جو اللہ کے سوا کسی کی ہو رہی ہو اور وہ یہ اعتراف کرے کہ عبادت کی ہر قسم صرف اللہ کا حق ہے۔
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ} (المومنون:۲۳)
"یقینا ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (اس سے) نہیں ڈرتے۔"
{أَمْ لَهُمْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ} (الطور:۴۳)
"کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی معبود ہے؟ (ہرگز نہیں) اللہ ان کے شرک سے پاک ہے۔"

۲۔ عبادت ترک کرنا:
کفر بالطاغوت کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ خود معبودان باطلہ کی عبادت کو ترک کرے اور اللہ اکیلے کی عبادت کرے۔
{قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ} (المومن:۶۶)
"آپ کہہ دیجئے!کہ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، جبکہ میرے پاس واضح دلائل آ چکے ہیں، مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ رب العالمین کا فرمانبردار بن کر رہوں۔"
{قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ ﴿٦٤﴾ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٦٥﴾} (الزمر)
"آپ ان سے کہئے جاہلو کیا تم مجھے یہ مشورہ دیتے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کروں؟ حالانکہ آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف بھی جو آپ سے پہلے تھے یہ وحی کی جا چکی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے عمل برباد ہو جائیں گے اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔"

۳۔ حق کا برملا اظہار کرنا:
کفر بالطاغوت اس صورت میں بھی ہو گا کہ حق کا برملا اعلان کرتے ہوئے اپنے عقیدہ و منہج کا کھل کر اظہار کیا جائے۔
{قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ} (یوسف ۱۰۸)
"آپ کہہ دیجئے کہ میرا راستہ یہی ہے کہ میں اور میرے فرماں بردارپورے یقین اور اعتماد کے ساتھ اللہ کی طرف بلا رہے ہیں اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔"
{لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ} (الکافرون:۶)
"تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔"

۴۔ طاغوت کو کافر قرار دینا:
کفر بالطاغوت کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں کافر قرار دیا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} (الکافرون:۱)
"آپ کہہ دیجئے: اے کافرو!۔"
اللہ تعالیٰ نے طاغوت کی بندگی کرنے والوں کو بھی کافر کہا:
{قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّـهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَـٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ ﴿٦٠﴾ وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَد دَّخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ ۚ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ ﴿٦١﴾ (المائدہ)
"کہہ دیجئے! کیا میں تمہیں اللہ کے ہاں انجام کے لحاظ سے اس سے بھی بدتر انجام والے کی خبر دوں وہ لوگ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر اس کا غضب نازل ہوا پھر ان میں سے بعض کو بندر اور سوَّر بنا دیا جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی، یہی لوگ درجے کے لحاظ سے بدتر اور سیدھی راہ سے بہت بہکے ہوئے ہیں۔ اور جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں حالانکہ کہ جب وہ آئے تب بھی کافر تھے اور جب گئے تب بھی کافر اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اللہ خوب جاننے والا ہے۔"
{إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ﴿٩٨﴾ لَوْ كَانَ هَـٰؤُلَاءِ آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٩٩﴾ (الانبیاء)
"تم اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو۔ اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے، اور یہ سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔"
اہل کتاب طاغوت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے جہنم جائیں گے:
{أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا ﴿٥١﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ ۖ وَمَن يَلْعَنِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا ﴿٥٢﴾} (النساء)
"کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ علم دیا گیا ہے وہ جبت اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان ایمان والوں سے تو یہی لوگ زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے آپ اس کا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔"
جبت سے مراد اعمال سفلیہ مثلا: جادو، شعبدہ، ٹونے ٹوٹکے، رمل جفر، فال گیری، ہاتھ کی لکیروں کا علم ، علم نجوم، آگ پر چلنا اور اس قسم کی دوسری خرافات ہیں۔
طاغوت جو دراصل خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے:
{وَمَن يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَـٰهٌ مِّن دُونِهِ فَذَٰلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ} (الأنبیاء: ۲۹)
"اور ان میں سے جو شخص کہے کہ اللہ کے علاوہ میں بھی الہٰ ہوں اسے ہم جہنم کی سزا دیں گے اور ہم ظالموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔ "
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۵۔ عداوت اور بغض رکھنا:
کفر بالطاغوت اس طریقے سے بھی ہوگا کہ ان سے اور ان کے معبودوں سے اپنی استطاعت کے مطابق عداوت، بغض، براءت اور دشمنی کا اظہار کیا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ} (الممتحنۃ: ۴)
"تمہارے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھوں میں اچھا نمونہ ہے۔ جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور ان سے جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو بیزار ہیں۔ ہم تمہارے منکر ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے (دشمنی) اور بیر پیدا ہو چکا حتیٰ کہ تم اللہ واحد پر ایمان لے آؤ۔"
{مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ} (الفتح :۲۹)
"محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت (مگر) آپس میں رحمدل ہیں۔"
{وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً} (التوبہ ۱۲۳)
"اور چاہیے کہ وہ (کفار) تم میں سختی پائیں۔"
مرتدین کے مقابلے میں جن مومنین کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی یہ صفت بیان کی جا رہی ہے کہ:
{أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ} (المائدہ:۵۴)
"وہ مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر سخت ہوں گے۔"

۶۔ علیحدگی اختیار کرنا:
کفر بالطاغوت ان سے علیحدگی کرنے اور میل جول نہ رکھنے کی صورت میں بھی ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے فرمایا:
{وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ} (مریم: ۴۸)
"میں آپ کو چھوڑتا ہوں اور انہیں بھی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔"
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا} (مریم:۴۹)
"پھر جب ابراہیم نے انہیں چھوڑ دیا اور ان کو بھی جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا فرمائے، اور ان سب کو ہم نے نبی بنایا۔"

۷۔ قتال کرنا:
کفر بالطاغوت استطاعت ہونے کی صورت میں ان کے خلاف جہاد کرنے سے بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا} (النساء:۷۶)
"جو لوگ ایمان لائے وہ تو اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ سو ان شیطان کے دوستوں سے خوب جنگ کرو یقینا شیطان کی چال کمزور ہوتی ہے۔"
{فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ} (التوبہ: ۱۲)
"تم کفر کے ان علمبر داروں سے جنگ کرو۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں۔"

۸۔ محبت اور دوستی نہ رکھنا:
کفر بالطاغوت کا لازمی خاصہ یہ بھی ہے کہ ان سے دوستی اور محبت نہ رکھی جائے، ان کی طرف میلان نہ رکھا جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ} (النساء: ۱۴۴)
"اے ایمان والو! کافروں کو دوست نہ بناؤ۔"
{وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ} (المائدہ: ۵۱)
"جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہو گا۔"
{لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ} (المجادلۃ: ۲۲)
"اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے۔"
{وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ} (ہود: ۱۱۳)
"نہ ہی ان لوگوں کی طرف جھکنا جنہوں نے ظلم کیا ورنہ تمہیں بھی آگ آ لے گی پھر تمہیں کوئی سرپرست نہ ملے گا جو تمہیں اللہ سے بچا سکے نہ ہی تمہاری مدد کی جائے گی۔"
ابن عباس رضی اللہ عنہ {تَرْکَنُوْا} کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "اس کا مطلب ہے {وَلَا تَمِیْلُوْا} یعنی تم ان کی طرف مائل نہ ہونا۔" (تفسیر ابن کثیر)
کفر بالطاغوت کے یہ طریقے ضرور اختیار کیے جا نے چاہئیں۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی طواغیت کے لیے اپنی دوستی اور محبت کو فراخ کر دے، ان کی طرف مائل ہو جائے، ان کا دفاع کرے، ان کے لیے قرآن و حدیث کے احکام میں تاویل کرے، ان سے دشمنی رکھنے والے اہل توحید کے مقابلے میں طواغیت کی مدد کرے، اس کے باوجود بھی وہ شخص یہ خیال کرے کہ وہ کفر بالطاغوت کر رہا ہے؟ ایسا شخص کبھی بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والا اور طاغوت سے کفر کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ بڑی عجیب بات ہے جس پر جتنا بھی تعجب کیا جائے کم ہے کہ کوئی طاغوت کا حمایتی بھی ہو اور اس سے کفر کرنے کا دعویدار بھی ہو۔ کیونکہ دل سے جہاد کرنا ایمان کا آخری درجہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھیجے۔ اس کے حواری اور ساتھی ہوتے تھے جو اس کے حکم کی پیروی اور اس کی سنت پر عمل کرتے پھر ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو ایسی بات کہتے جو وہ کرتے نہیں تھے اور وہ کام کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ جو شخص ان سے زبان سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ جو شخص ان سے دل سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے۔ اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔" (صحیح مسلم 179)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آئیے ذرا تفصیل کے ساتھ ان معبودان باطلہ کا تعارف حاصل کریں جن کی ہمارے زمانے میں عبادت کی جا رہی ہے۔ تاکہ ہم ان سے کفر کر تے ہوئے ان کے حوالے سے اپنی شرعی ذمہ داری پورا کر سکیں۔

معبودان باطلہ کی اقسام
پہلی قسم:
جس کی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیر مشروط اطاعت کی جائے:
صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مطلق اطاعت کی جاتی ہے، کیونکہ وہ معبود حقیقی اور الہ ہونے کی بنا پر اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے، اور صرف وہ حق اور عدل کا حکم دیتا ہے۔ جبکہ اس کے سوا تمام مخلوقات کی اطاعت ان کی ذات کے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ مخلوقات میں سے جس کسی کی غیر مشروط اطاعت کی جائے وہ الہ اور معبود کے درجہ تک پہنچ جائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ} (یوسف: ۴۰)
"فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو۔"
{وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا} (الکہف: ۲۶)
"اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔"
جو شخص مخلوق میں سے کسی سے کہے کہ تجھے شریعت وضع کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے، حلال و حرام اور اچھا و برا جاننے کے لیے ہم تیری ہی بات مانیں گے، جسے تو اچھا کہے گا وہی بات اچھی ہو گی اور جسے تو برا کہے گا وہی بات بری ہو گی۔ اول و آخر تیرا ہی اختیار چلے گا۔ ان تمام امور میں تیری اطاعت کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس نے اسے الہٰ بنا لیا۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس ذات کی بھی غیر مشروط اطاعت کی جائے وہ طاغوت ہے۔ اس کی اطاعت ہی اس کی عبادت ہے۔ کیونکہ یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ جن امور میں اس کی اطاعت کی جا رہی ہے وہ حق ہے یا باطل۔ اس کی ہر بات کو بغیر کسی اعتراض اور تردید کے مان لیا جاتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ وہ بات حق کے موافق ہے یا منافی۔ طاغوت کی عبادت کی یہ ایسی قسم ہے جس میں اکثر لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر مبتلا ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ جس کی غیر مشروط اطاعت کی جا رہی ہوتی ہے وہ کوئی حاکم ہو سکتا ہے، کسی قبیلے، گروہ، جماعت یا لشکر کا سردار ہو سکتا ہے یا عیسائیوں کے پوپ کی طرح کا کوئی مذہبی عہدیدار بھی ہو سکتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے:
{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿٣١﴾} (التوبہ:۳۱)
"ان لوگوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں، درویشوں اور مسیح ابن مریم کو رب بنایا ہے۔ حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ پاک ہے ان چیزوں سے جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں"
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس وقت میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:
"اے عدی! اس بت کو اپنی گردن سے اتار پھینک۔"
میں نے اسے اتار پھینکا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت کریمہ تلاوت فرما رہے تھے:
{اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ}
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی کی حلال کردہ اشیاء کو حرام کر دیتے تو تم بھی اسے حرام سمجھ لیتے تھے، اور وہ اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کر دیتے اور تم بھی انہیں حلال سمجھ لیتے تھے۔ میں نے کہا ایسا ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہی تو ان کی عبادت ہے۔" (سنن ترمذي: 3095)
غور کیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنے اور حلال کردہ اشیاء کو حرام کرنے کے بارے میں علماء کا اختیار ماننے کو ان کی عبادت قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ یہ بات ان کو رب ماننے کے مترادف ہے۔ اگر یہ علماء لوگوں کو اپنے لیے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کا حکم دیتے تو لوگ کبھی ان کی بات نہ مانتے بلکہ شاید انہیں رجم ہی کر دیتے۔ کیونکہ اس قسم کے تمام شعائر ظاہری عبادات میں شمار ہوتے ہیں اور عبادت کی یہ قسم عوام الناس کی نگاہ سے بھی نہیں چھپ سکتی۔ لیکن خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان علماء نے غیر مشروط اطاعت اور فرماں برداری کا مطالبہ کیا جس کا عبادت ہونا اکثر لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر لوگوں نے ان کی بات مان لی اور اس میں کوئی حرج بھی نہ سمجھا۔ اس صورت میں وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر ان کے عبادت گذار بن گئے۔
ابو البختری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
"ان لوگوں نے ان کے لیے نماز نہیں پڑھی، اگر وہ لوگوں کو رکوع اور سجود کی صورت میں اللہ کے علاوہ اپنی عبادت کرنے کا حکم دیتے تو لوگ کبھی ان کی بات نہ مانتے۔ لیکن انہوں نے اس کے لیے ایک خفیہ راستہ اختیار کیا یعنی انہوں نے اللہ تعالی کی حلال کردہ اشیاء کو حرام اور حرام کردہ اشیاء کو حلال کر دیا تو لوگوں نے ان کے اس اختیار کو تسلیم کر لیا یہ ان کی عبادت کرنے اور انہیں رب تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔" (فتاوی ابن تیمیہ: ۷/۷۶۔)
امام بغوی اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
"اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ان لوگوں نے رکوع اور سجود کی صورت میں اپنے علماء اور مشائخ کی عبادت نہیں کی تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ان کی اطاعت کی اور ان کی حلال کردہ اشیاء کو حلال سمجھا اور ان کی حرام کردہ اشیاء کو حرام جانا اس طرح انہوں نے انہیں رب بنا لیا۔" (تفسیر البغوی: ۳/ ۲۸۵)
ارشاد ربانی ہے:
{قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ} (آل عمران: ۶۴)
"آپ کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اس کی طرف آؤ، وہ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔ اگر یہ لوگ اس بات کو نہ مانیں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم (اللہ کے) فرمانبردار ہیں۔"
اسلام نے اطاعت کا قضیہ اچھی طرح حل کر دیا ہے۔ تاکہ کوئی جانتے بوجھتے یا غلطی سے اس بارے میں غلط راستے پر گامزن نہ ہو سکے۔ اسلام کا قانون ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ البتہ نیکی کے کاموں اور اللہ تعالی کی اطاعت میں مخلوق کی بات مانی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ امیر کی بات سنے اور مانے خواہ وہ اسے پسند کرتا ہو یا ناپسند، جب تک اسے اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔ اگر اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو اس کے لیے امیر کی بات سننا اور ماننا جائز نہیں۔" (بخاری ۷۱۴۴، مسلم ۱۸۳۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالی کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔" (بخاری ۷۲۵۷، مسلم ۱۸۴۰)
اور فرمایا:
"مسلمان پر مسلم حکمران کی اطاعت لازم ہے جب تک وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دے۔ اگر وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم دے تو پھر کوئی اطاعت نہیں۔" (السلسلۃ الصحیحۃ:۷۵۲)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میرے بعد ایسے لوگ تمہارے حکمران بنیں گے جو سنت کو ختم کریں گے اور بدعت کو رواج دیں گے۔ اور نمازوں کو اس کے مقررہ اوقات سے موخر کریں گے۔" میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے ام عبد کے بیٹے جو اللہ تعالی کی نافرمانی کرے اس کی اطاعت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔" (السلسلۃ الصحیحۃ: ۲۸۶۴)
اور فرمایا:
"تمہارے حکمرانوں میں سے جو تمہیں اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم دے اس کی بات ہرگز نہ مانو۔" (السلسلۃ الصحیحۃ: ۲۳۲۴)
مذکورہ احادیث میں امیر کی بات نہ ماننے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امام کے خلاف خروج کیا جائے اور اس کی مطلقا اطاعت نہ کی جائے۔ بلکہ یہاں صرف ان امور کو ماننے سے روکا گیا ہے جو اللہ تعالی کی نافرمانی کے کام ہوں۔ البتہ نافرمانی کے جن کاموں کا امیر حکم دے رہا ہو اگر ان کا تعلق ان امور سے ہو جو بندے کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں اور دین سے خارج کر دینے کا باعث ہیں تو اس صورت میں مطلق طور پر امیر کی اطاعت نہیں کی جائے بلکہ اس کے خلاف حسب استطاعت خروج بھی کیا جائے گا۔ کیونکہ ارشاد ربانی ہے۔
{وَلَن يَجْعَلَ اللَّـهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا ﴿١٤١﴾} (سورۃ النساء)
"اور اللہ تعالی کافروں کو ایمان والوں پر ہرگز راہ نہ دے گا۔"
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی، آسانی، پسند اور ناپسند پر اطاعت کی بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم اقتدار کو حکمرانوں سے نہیں چھینیں گے۔ (ہماری یہ بات سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوائے اس صورت کے کہ تم ان (اہل اقتدار) میں کفر بواح دیکھو جس کی تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل ہو۔ (مسلم: ۱۷۰۹)
اسی طرح والدین کی فضیلت اور اولاد پر ان کے احسانات کی وجہ سے شریعت نے والدین کا بہت بڑا حق رکھا ہے۔ لیکن ان کے بارے میں بھی یہ حکم دیا کہ اگر وہ اپنی اولاد کو اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیں تو ان کی بات نہ مانو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
{وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا} (لقمان:۱۵)
"اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہا نہ مان۔"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آئیے ان چند چیزوں کے بارے میں علم حاصل کریں جن کی آج کے معاشرے میں غیر مشروط اطاعت کی جا رہی ہے:

1: ابلیس (شیطان):
یہ وہ ابلیس لعین ہے جس نے قسم اٹھائی تھی کہ وہ بندوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے موڑ کر غیر اللہ کی عبادت کی طرف راغب کرے گا۔
{قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾} (الحجر)
"(شیطان نے) کہا کہ اے میرے رب! چونکہ تونے مجھے گمراہ کیا ہے تو اب میں بھی دنیا میں لوگوں کو (ان کے گناہ) خوشنما کر کے دکھاؤں گا اور ان سب کو بہکا کے چھوڑوں گا۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے (جو بچ جائیں گے)"
اسی لیے انسانوں اور جنوں کے شیاطین نے شرک، کفر اور گمراہی پھیلانے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ جبکہ مخلص لوگوں پر شیطان کی کوئی چال کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ چونکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ طاغوت وہ ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جا رہی ہو، تو پھر لوگ کس عمل میں شیطان کی عبادت کرتے ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: اس کی عبادت رکوع و سجود کے معانی میں نہیں ہے بلکہ اس کی عبادت کفر و شرک میں اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے میں ہے۔
قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ مشرکین سے پوچھے گا کہ تم نے شیطان کی عبادت کیوں کی تو شیطان کو رکوع و سجود نہ کرنے کے باوجود کوئی بھی یہ نہ کہہ سکے گا کہ ہم شیطان کی عبادت نہیں کرتے ہیں:
{أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ} (یٰس: ۶۰)
"اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول و قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا، وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔"
مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے پجاری ہیں کیونکہ شیطان نے انہیں بت پرستی کا حکم دیا اور شیطان ہی نے انہیں یہ کام خوبصورت کر کے دکھلایا اس لیے یہی حقیقت میں شیطان کے پجاری ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرما تاہے:
{إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا} (النساء: ۱۱۷)
"یہ تو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو پکارتے ہیں اور دراصل یہ صرف سرکش شیطان کو پکارتے ہیں۔"
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا والد بتوں کا پجاری، بت فروش اور بت تراش تھا۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر بتوں کی پوجا کرتا تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اسے بتلایا کہ وہ دراصل شیطان ہی کی پوجا کرتا ہے:
{يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ عَصِيًّا} (مریم :۴۴)
"اے ابا جان! آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں بے شک شیطان تو اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی نافرمان ہے"۔
امام ابن کثیر سورۃ الانبیاء کی آیت ۹۹ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"سیرت ابن اسحاق میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا۔ اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے۔ نضر بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا جب وہ لا جواب ہو گیا تو آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
{إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ﴿٩٨﴾ لَوْ كَانَ هَـٰؤُلَاءِ آلِهَةً مَّا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٩٩﴾ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ ﴿١٠٠﴾} (الانبیاء)
"تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو۔ اگر یہ (سچے) معبود ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے، اور سب کے سب اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ وہ وہاں چلا رہے ہوں گے اور وہاں کچھ بھی نہ سن سکیں گے۔"
جب آپ اس مجلس سے چلے گئے تو عبداللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا: "آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوا اور محمد یہ فرماتے ہوئے چلے گئے۔" اس نے کہا "اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں، یہود عزیر کو، نصرانی مسیح کو تو کیا یہ سب جہنم میں جلیں گے؟ سب لوگوں کو یہ جواب بہت پسند آیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عبادت کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں ہے۔ یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے یہ لوگ تو انہیں نہیں بلکہ شیطان کو پوج رہے ہیں، اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتلائی ہے۔" (ابن کثیر)
آج بھی شیطان مختلف صورتوں میں اپنی عبادت کرواتا ہے۔ جن کے چند مظاہر درج ذیل ہیں:
قبر، مزار، دربار اور بہشتی دروازہ
پاک و ہند کے تقریبا ہر شہر میں مزار اور دربار موجود ہیں۔ جب کوئی بزرگ فوت ہو جاتا ہے اس کی قبر کو پختہ کر کے اس پر مقبرہ بنایا جاتا ہے۔ قبر پر ریشمی چادر چڑھائی جاتی ہیں۔ اسے دربار عالیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی کرامتوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔ پھر لوگ اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نذرانوں کے ساتھ حاضری دیتے ہیں ان درباروں پر میلے لگتے ہیں۔ سالانہ عرس ہوتے ہیں۔ لوگ اپنی مشکلات کے حل کے لیے سفر کرتے ہیں۔ یا پیران پیر، یا دستگیر، یا غوث اعظم، یا داتا گنج بخش یا اجمیر والی سرکار کے نعرے لگاتے ہوئے، ننگے پیر، پیروں فقیروں کے نام کے رنگ برنگ جھنڈے ہاتھوں میں تھامے دربار پر حاضر ہوتے ہیں۔ وہاں مزار پر کوئی کھڑے ہو کر، کوئی جھک کر، کوئی بوسہ دیتے ہوئے آہ و زاری کے ساتھ اپنی تکالیف بیان کرتے ہیں، خصوصا عرس کے موقع پر سجادہ نشیں پیر کی صورت میں خوبصورت لباس میں گدی پر متمکن ہوتا ہے، محفل سماع منعقد کی جاتی ہے، قبر پر چراغاں کیا جاتا ہے، رقص اور موسیقی کے خصوصی پروگرام ہوتے ہیں، پیروں کے نام پر جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ دیگوں کے نذرانوں کے ساتھ لنگر چلائے جاتے ہیں۔ حکومت اسلحہ کے زور پر ان کی حفاظت کرتی ہے۔ ان کے انتظام اور دیکھ بھال کے لیے محکمہ اوقاف قائم ہے، جس کا وزیر خاص طور پر عرس کے موقع پر دربار پر حاضری دے کر اور قبر پر چادر چڑھا کر عرس میں شمولیت کرتا ہے۔
پاکپتن کے شہر میں بابا فرید کے نام پر بہشتی دروازہ ہے، جسے سال میں ایک دفعہ حکومتی سرپرستی میں کھولا جاتا ہے، لوگ اس میں سے گزرنے کے لیے پولیس کے ڈنڈے بھی کھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو ایک بار اس میں سے گزر گیا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ اس طرح شیطان ان درباروں، مزاروں اور قبروں کی عبادت کرواتا ہے جو کہ اصل میں شیطان کی عبادت ہے۔ ان درگاہوں کی عبادت کی صورت میں طاغوت دراصل شیطان ہوتا ہے۔ جس نے ان کے لیے اس شرک کو مزین کیا ہے حالانکہ یہ قبر والے کسی کو نفع و نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ﴿١٣﴾ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ} (الفاطر: ۱۳، ۱۴)
"اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کجھور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں، اگر تم ان کو پکارو، تمہاری پکار نہ سنیں گے اور اگر سن لیں تو تمہاری درخواست قبول نہیں کر سکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے"
{وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ} (الاعراف: ۱۹۷)
"اور جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمہاری مدد کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ وہ تو اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے۔"

بت، پتھر، گائے، تصویر یا صلیب (جن کی عبادت کی جا رہی ہو)
شیطان ان چیزوں کی بندگی کے ذریعے بھی اپنے اطاعت کروا رہا ہے۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ ان اشیاء کو موضوع بحث بنانا ایک فضول سی بات ہے کیونکہ ایسا تو کوئی بھی نہیں ہے جو ان چیزوں کی عبادت کرنے والا ہو یا انہیں عبادت کے کسی بھی مفہوم میں داخل کرنے والا ہو۔ خاص طور پر تو موجودہ دور میں ان اشیاء کی طرف لوگوں کا متوجہ ہونا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ علوم و فنون اور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔
اس قسم کے کم عقل لوگوں سے ہم گذارش کرتے ہیں کہ اگر تم اقوام عالم کے حالات و واقعات کا گہرائی سے مطالعہ کرو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کرہ ارض کے بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس قسم کی فضول چیزوں کی پوجا کر رہے ہیں۔
چین کو دیکھئے! جس کی آبادی ایک ارب نفوس سے بھی زیادہ ہے۔ جاپان اور بر اعظم ایشیا کے اکثر ملکوں کو دیکھئے! ان ممالک میں آپ کو اکثر لوگ بت پرست ہی ملیں گے جو کہ مختلف قسم کے بتوں، پتھروں اور تصویروں کے پجاری ہیں۔ ہندوستان میں اکثر لوگ گائے، بتوں اور مظاہر قدرت کے پجاری ہیں۔ یورپ میں عیسائیوں کے گرجے اور معبد خانے تصویروں، بتوں، مجسموں اور صلیبوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام، مریم علیہ السلام اور اپنے بڑوں اور راہبوں کے بت اور تصویریں بنا رکھی ہیں جنہیں وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجتے ہیں۔
اسی طرح موجودہ دور میں انہوں نے ایک جدید قسم کا بت ایجاد کر رکھا ہے جسے وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجتے ہیں وہ یہ ہے ہر سال کے اختتام پر وہ کرسمس ڈے کے نام پر مختلف قسم کی محفلیں منعقد کرتے ہیں جس میں کرسمس کا درخت اور بابا کا ظہور ہوتا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے وہ ہر قسم کی خیر و برکات کے نزول کا باعث ہے۔ عیسائیوں میں یہ بات عام ہو چکی ہے اس طرح وہ ہر سال اپنے علماء اور راہبوں کی مرضی سے ایک نیا معبود اور الٰہ بنا لیتے ہیں جسے وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجتے ہیں۔ عیسائیوں کے مختلف مذاہب اور فرقوں کی عبادت کے طریقہ کار پر اگر کوئی غور کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود عیسائی بت پرستی کے بہت قریب ہیں۔
اس طرح ان بتوں اور مورتیوں کے حکم میں حکمرانوں کے وہ ضخیم اور مختلف نوعیت کے مجسمے بھی شامل ہیں جو یادگار کے طور پر مختلف چوراہوں اور شہر کے داخلی راستوں میں نصب ہوتے ہیں۔
 
Top