• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عباد امثالکم سے کون مراد ہیں؟

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
لا حول ولا قوۃ الا باللہ، یہی تو وہ گمراہی ہے جو آپ لوگوں میں سراعت کر چکی ہے کہ اکیلے اللہ تعالیٰ معبودِ برحق کے جو اختیارات ہیں وہ غیراللہ میں ذاتی نہیں عطائی ہیں، اس عطائی کے فلسفے سے شیطان نے آپ کو خوب گمراہ کیا ہے۔ اور اسی عطائی کے فلسفے پر اوپر ایک بھائی عبداللہ حیدر صاحب نے زبردست تبصرہ کیا ہے، آپ ایک بار دوبارہ اُن کا تبصرہ غور سے پڑھ لیں، آپ کہتے ہیں کہ غیراللہ کو پکارنا ناجائز حرام اور غلط ہو سکتا ہے لیکن شرک نہیں، جناب غیراللہ کو پکارنا ناجائز، حرام اور غلط ہے ہی شرک کی وجہ سے کہ ایسا کرنے سے انسان شرک اکبر کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
آپ قرآن مجید کی آیات یہاں دیکھیں:
دلی سے عاجز غیر مقلدین حضرات کی جہالت دیکھین کہ ان کو اتنا نہیں پتہ کہ یہ غروری نہیں کہ حرام چیز شرک ہو ۔اور رب العزت کی قسم قیامت کی صبح تک تم لوگ اپنے اس دعوے کو ثابت نہیں رسکتے فقط فتوے لگا ر قتل کرنا اور مال ہڑپنا جانتے یہو جس طرح طائف کے معصوم مسلمانوں کو اس نقلی شرک کے فتوے سے قتل کی گیا اور آج بھی داعش اسی فتوے ی بنیاد پر معصوم مسلمانوں کا قتل کر رہی آپ لوگ ادھر ادھر کی بونگیاں مار سکتے ہیں مگر نہ تو موضوع کے اوپر بات کر سکتے ہیں بلکہ کریں گئے کیسے دلیل تو ہے نہیں اور اگر ہیں تو کافروں والی بتوں والی آیات اور آپ کا برتن خالی ہے۔اور میری آدھی فیملی غیر مقلد تھی اللہ نے کرم کیا اور ہدایت بخش۔جب تک علمائے اہلسنت خاموش تھے آپ نے اسی فتوے کی بنیاد پر بہت لوگوں کو گمراہ کیا اب جب آپ لوگوں سےئ گفتگو کیجاتی ہے آپ کے جھوٹوں کی قلعی کھولی جاتی ہے تو اس قسم کی گفتگو شروع کردیتے ہو۔رب محمد کی قسم اگر کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہوتا تو قرآن میں بالمومنین کے الفاظ نہ ہوتے۔باقی ارسلان صاحب آپ کو یہاں پر چیلنج ہے اسی فارم پر اسی مسئلہ پر گفتگو فرما لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔اللہ آپ لوگون کو ہدایت دے ۔اور امت مسلمہ کو اس نقلی فتوے سے بچائے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دلی سے عاجز غیر مقلدین حضرات کی جہالت دیکھین کہ ان کو اتنا نہیں پتہ کہ یہ غروری نہیں کہ حرام چیز شرک ہو ۔اور رب العزت کی قسم قیامت کی صبح تک تم لوگ اپنے اس دعوے کو ثابت نہیں رسکتے فقط فتوے لگا ر قتل کرنا اور مال ہڑپنا جانتے یہو جس طرح طائف کے معصوم مسلمانوں کو اس نقلی شرک کے فتوے سے قتل کی گیا اور آج بھی داعش اسی فتوے ی بنیاد پر معصوم مسلمانوں کا قتل کر رہی آپ لوگ ادھر ادھر کی بونگیاں مار سکتے ہیں مگر نہ تو موضوع کے اوپر بات کر سکتے ہیں بلکہ کریں گئے کیسے دلیل تو ہے نہیں اور اگر ہیں تو کافروں والی بتوں والی آیات اور آپ کا برتن خالی ہے۔اور میری آدھی فیملی غیر مقلد تھی اللہ نے کرم کیا اور ہدایت بخش۔جب تک علمائے اہلسنت خاموش تھے آپ نے اسی فتوے کی بنیاد پر بہت لوگوں کو گمراہ کیا اب جب آپ لوگوں سےئ گفتگو کیجاتی ہے آپ کے جھوٹوں کی قلعی کھولی جاتی ہے تو اس قسم کی گفتگو شروع کردیتے ہو۔رب محمد کی قسم اگر کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہوتا تو قرآن میں بالمومنین کے الفاظ نہ ہوتے۔باقی ارسلان صاحب آپ کو یہاں پر چیلنج ہے اسی فارم پر اسی مسئلہ پر گفتگو فرما لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔اللہ آپ لوگون کو ہدایت دے ۔اور امت مسلمہ کو اس نقلی فتوے سے بچائے۔
آپ کو چاہئے کہ موضوع کے متعلق کچھ لکھیں، غیراللہ سے مافوق الاسباب مدد مانگنے کی قرآن و حدیث سے دلیل پیش کریں جس میں واضح ہو کہ غیراللہ بھی فوت ہونے کے بعد مافوق الاسباب مدد کرنے پر قادر ہیں اور اُن سے مدد مانگنے کا طریقہ انبیاء و صحابہ کا رہا ہو؟ اگر ایسی کوئی دلیل آپ کے پاس ہو تو پیش کیجئے، ہمارے علم میں تو ایسی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے قرآن میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں یہ صراحت موجود ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا جاتا ہے، ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں، یہی بات، یہی عقیدہ انبیاء علیہم السلام کا تھا اور یہی دعوت انبیاء نے اپنی قوموں کو دی، جیسا کہ اللہ کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدد مانگنے کے متعلق اپنے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو یوں تعلیم دی:
(اذا سالت فاسال الله واذا استعنت فاستعن بالله) (جامع الترمذي' صفة القيامة' باب حديث حنظلة' ح: 5216 )
"جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔"
آپ غور کیجئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابی کو یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ مشکل کشائی اور حاجت روائی کے وقت اللہ تعالیٰ سے سوال کرے اور مدد طلب کرے اور اللہ سے سوا کسی نبی کو، کسی نیک انسان کو یا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو پکارنے کی بھی دعوت نہیں دی، یہ نہیں سکھایا کہ جب میں فوت ہو جاؤں تو میری قبر پر آ کر مجھ سے مدد مانگنا، یا جہاں کہیں بھی تم مجھے میرے فوت ہونے کے بعد پکارو گے میں تمہاری مدد کروں گا، ایسا کچھ نہیں سکھایا، اور نہ ہی ایسی تعلیم دی، کیونکہ ایسا کرنا شرک ہے اور اللہ کے انبیاء شرک سے پاک ہوتے ہیں اور اپنی اُمت کو توحید کی دعوت دیتے ہیں اور دنیا میں اپنی قوموں کے پاس بھیجے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ انسانوں کا رخ حقیقی معبود برحق اللہ تعالیٰ کی جانب ہو جائے، ابراہیم علیہ السلام کے بعد اُن کے بیٹے اسحاق علیہ السلام بھی نبی تھے، اور پھر اسحاق علیہ السلام کے بیٹے یعقوب علیہ السلام بھی نبی تھے، اور پھر یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یوسف علیہ السلام بھی نبی تھے، لیکن یوسف علیہ السلام نے مشکل کے وقت یا حاجت کے وقت اپنے والد نبی، یا اپنے دادا نبی یا اپنے پردادا نبی جو اللہ کے خلیل تھے، کو نہیں پکارا بلکہ جیل میں بھی توحید کی دعوت ہی دی، اگر انبیاء کی یہ دعوت نہ ہوتی تو صاحب سجن کو یہ کہتے کہ جن کو تم پکارتے ہو وہ تو کچھ نہیں کر سکتے، ہاں البتہ میرے والد کو، میرے دادا کو، یا میرے پردادا کو پکار لیا کرو وہ تمہاری مشکل کشائی کر دیں گے، ہرگز نہیں کہا ایسا یوسف علیہ السلام نے بلکہ اُن کو توحید سمجھائی۔ تو اصل بات یہ ہے کہ توحید پر اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بے شمار دلائل موجود ہیں لیکن اگر کوئی خود غوروفکر نہ کرے اور اپنی آخرت برباد کرنے پر تلا رہے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ المبین
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
قادری صاحب! آپ کہتے ہیں کہ آپ خلیل رانا نہیں ہیں تو ہم مان لیتے ہیں، کیونکہ وہ تو کہتے تھے کہ میں ایک کھیتوں میں کام کرنے والا آدمی ہوں اور میرا ایک بھائی بھی آپکا ہم مسلک ہے اور آپ کہتے ہیں کہ آپکا کا آدھا خاندان 'غیرمقلد' تھا۔۔۔۔۔ خیر چھوڑیں اس بات کو

آئیے آپکو دکھاتے ہیں کہ آپکے احمد رضا خان بریلوی نے کیسے قرآن کے ترجمے میں تحریف سے کام لیا، اور بعینہ یہی کام طاہرالقادری نے بھی کیا، ملاحظہ ہو ایک ثبوت



hum pukartey.jpg

جب ندعوا کا ترجمہ ہی پوجنا کر دیا تو معاملہ ہی صاف ہو گیا۔ اس لیے کیا تا کہ بریلوی مقلدوں کا ذہن ہی بتوں کی طرف جائے
یہ ہی کام طاہرالقادری صاحب نے بھی کیا۔

sarey tarjumey.PNG


ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ کیسے اعلیٰ حضرت نے قرآن کے ترجمے میں تحریف کی۔

واضح ہو کہ یہ صرف دیگ کا ایک ہی دانہ ہے اگر چاہیں گے تو مزید ثبوت بھی پیش کر دئیے جائیں گے

 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93

14947 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جب ندعوا کا ترجمہ ہی پوجنا کر دیا تو معاملہ ہی صاف ہو گیا۔ اس لیے کیا تا کہ بریلوی مقلدوں کا ذہن ہی بتوں کی طرف جائے
یہ ہی کام طاہرالقادری صاحب نے بھی کیا۔

14948 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں


ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ کیسے اعلیٰ حضرت نے قرآن کے ترجمے میں تحریف کی۔

واضح ہو کہ یہ صرف دیگ کا ایک ہی دانہ ہے اگر چاہیں گے تو مزید ثبوت بھی پیش کر دئیے جائیں گے

[/QUOTE]
حضرت یہ سورت کونسی ہے؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
آپ کو چاہئے کہ موضوع کے متعلق کچھ لکھیں، غیراللہ سے مافوق الاسباب مدد مانگنے کی قرآن و حدیث سے دلیل پیش کریں جس میں واضح ہو کہ غیراللہ بھی فوت ہونے کے بعد مافوق الاسباب مدد کرنے پر قادر ہیں اور اُن سے مدد مانگنے کا طریقہ انبیاء و صحابہ کا رہا ہو؟ اگر ایسی کوئی دلیل آپ کے پاس ہو تو پیش کیجئے، ہمارے علم میں تو ایسی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کے قرآن میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں یہ صراحت موجود ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارا جاتا ہے، ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں، یہی بات، یہی عقیدہ انبیاء علیہم السلام کا تھا اور یہی دعوت انبیاء نے اپنی قوموں کو دی، جیسا کہ اللہ کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدد مانگنے کے متعلق اپنے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو یوں تعلیم دی:
(اذا سالت فاسال الله واذا استعنت فاستعن بالله) (جامع الترمذي' صفة القيامة' باب حديث حنظلة' ح: 5216 )
"جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔"
آپ غور کیجئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابی کو یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ مشکل کشائی اور حاجت روائی کے وقت اللہ تعالیٰ سے سوال کرے اور مدد طلب کرے اور اللہ سے سوا کسی نبی کو، کسی نیک انسان کو یا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو پکارنے کی بھی دعوت نہیں دی، یہ نہیں سکھایا کہ جب میں فوت ہو جاؤں تو میری قبر پر آ کر مجھ سے مدد مانگنا، یا جہاں کہیں بھی تم مجھے میرے فوت ہونے کے بعد پکارو گے میں تمہاری مدد کروں گا، ایسا کچھ نہیں سکھایا، اور نہ ہی ایسی تعلیم دی، کیونکہ ایسا کرنا شرک ہے اور اللہ کے انبیاء شرک سے پاک ہوتے ہیں اور اپنی اُمت کو توحید کی دعوت دیتے ہیں اور دنیا میں اپنی قوموں کے پاس بھیجے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ انسانوں کا رخ حقیقی معبود برحق اللہ تعالیٰ کی جانب ہو جائے، ابراہیم علیہ السلام کے بعد اُن کے بیٹے اسحاق علیہ السلام بھی نبی تھے، اور پھر اسحاق علیہ السلام کے بیٹے یعقوب علیہ السلام بھی نبی تھے، اور پھر یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یوسف علیہ السلام بھی نبی تھے، لیکن یوسف علیہ السلام نے مشکل کے وقت یا حاجت کے وقت اپنے والد نبی، یا اپنے دادا نبی یا اپنے پردادا نبی جو اللہ کے خلیل تھے، کو نہیں پکارا بلکہ جیل میں بھی توحید کی دعوت ہی دی، اگر انبیاء کی یہ دعوت نہ ہوتی تو صاحب سجن کو یہ کہتے کہ جن کو تم پکارتے ہو وہ تو کچھ نہیں کر سکتے، ہاں البتہ میرے والد کو، میرے دادا کو، یا میرے پردادا کو پکار لیا کرو وہ تمہاری مشکل کشائی کر دیں گے، ہرگز نہیں کہا ایسا یوسف علیہ السلام نے بلکہ اُن کو توحید سمجھائی۔ تو اصل بات یہ ہے کہ توحید پر اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بے شمار دلائل موجود ہیں لیکن اگر کوئی خود غوروفکر نہ کرے اور اپنی آخرت برباد کرنے پر تلا رہے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ المبین
حضرت صاحب ذارا یہ بتائیں کہ اس حدیث میں مافوق الاسباب کی تخصیص کہاں ہے؟باقی مانگنا صرف اللہ سے ہی چاہے اور میں خود اس کا قائل ہوں اور مگر غیر اللہ کی مدد کو شرک کہنا یہ غلط ہے ۔اس پر آپ کو چیلنج کیا تھا کہ آپ اس موضوع گفتگو کرکے میرے شبہات کا اذالہ فرما سکتے ہیں مگر ہوا کیا جو ہونا تھا باقی ان مسائل پر تفصیل سے بات ابن داود بھائی اور عبدہ بھائی سے ہورہی ہے وہاں دلائل بھی پیش کئے جائیں گئے ہاں آُ نے جو اس پر شرک کا فتوی لگا یا تھا اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکے ۔اور قیامت کی صبح تک اللہ کے کرم سے ثابت نہیں کر سکتے کہ غیر اللہ کو پکارنا یا مدد مانگنا شرک ہے۔
باقی اس مسئلہ کے دالائل کی بات تو انشا اللہ کل سے وہ بھی دئے جائے گئے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حضرت صاحب ذارا یہ بتائیں کہ اس حدیث میں مافوق الاسباب کی تخصیص کہاں ہے؟باقی مانگنا صرف اللہ سے ہی چاہے اور میں خود اس کا قائل ہوں اور مگر غیر اللہ کی مدد کو شرک کہنا یہ غلط ہے ۔اس پر آپ کو چیلنج کیا تھا کہ آپ اس موضوع گفتگو کرکے میرے شبہات کا اذالہ فرما سکتے ہیں مگر ہوا کیا جو ہونا تھا باقی ان مسائل پر تفصیل سے بات ابن داود بھائی اور عبدہ بھائی سے ہورہی ہے وہاں دلائل بھی پیش کئے جائیں گئے ہاں آُ نے جو اس پر شرک کا فتوی لگا یا تھا اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکے ۔اور قیامت کی صبح تک اللہ کے کرم سے ثابت نہیں کر سکتے کہ غیر اللہ کو پکارنا یا مدد مانگنا شرک ہے۔
باقی اس مسئلہ کے دالائل کی بات تو انشا اللہ کل سے وہ بھی دئے جائے گئے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ایک شیخ نے نبیﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ دو واجب کر دینے والی چیزیں کیا کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کو اس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں جائے گا اور جس کو اس حال میں موت آئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔(مختصر صحیح مسلم)
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اس آیت کی تفسیر کے تحت قرطبی میں ہے
وَلَيْسَ هَذَا إِنْكَارًا لِعِبَادَةِ الْأَصْنَامِ، بَلْ هُوَ اعْتِرَافٌ بِأَنَّ عِبَادَتَهُمُ الْأَصْنَامَ كَانَتْ بَاطِلَ
تفسیر بیضاوی میں ہے
نَدْعُوا مِنْ قَبْلُ شَيْئاً أي بل تبين لنا أنا لم نكن نعبد شيئاً بعبادتهم
جلالین میں ہے
{بل لم نكن ندعوا مِنْ قَبْل شَيْئًا} أَنْكَرُوا عِبَادَتهمْ
تفسیر نیشاپوری میں ہے
إنهم أنكروا عبادة الأصنام.
ابن کثیر میں ہے
{بَلْ لَمْ نَكُنْ نَدْعُو مِنْ قَبْلُ شَيْئًا} أَيْ: جَحَدُوا عِبَادَتَهُمْ
ان تمام تفاسیر کا خلاصہ یہ کہ مشرکین اصنام کی عبادت سے انکار کریں گئے ۔اگر اعلی حضرت نے تحریف کی ہے تو ان حضرات کو بھی محرف کہیں ۔باقی اللہ آپ کو ہدایت دے۔طالب علم@
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حضرت صاحب ذارا یہ بتائیں کہ اس حدیث میں مافوق الاسباب کی تخصیص کہاں ہے؟باقی مانگنا صرف اللہ سے ہی چاہے اور میں خود اس کا قائل ہوں اور مگر غیر اللہ کی مدد کو شرک کہنا یہ غلط ہے ۔اس پر آپ کو چیلنج کیا تھا کہ آپ اس موضوع گفتگو کرکے میرے شبہات کا اذالہ فرما سکتے ہیں مگر ہوا کیا جو ہونا تھا باقی ان مسائل پر تفصیل سے بات ابن داود بھائی اور عبدہ بھائی سے ہورہی ہے وہاں دلائل بھی پیش کئے جائیں گئے ہاں آُ نے جو اس پر شرک کا فتوی لگا یا تھا اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکے ۔اور قیامت کی صبح تک اللہ کے کرم سے ثابت نہیں کر سکتے کہ غیر اللہ کو پکارنا یا مدد مانگنا شرک ہے۔
باقی اس مسئلہ کے دالائل کی بات تو انشا اللہ کل سے وہ بھی دئے جائے گئے۔
دعا، پکار، یہ اللہ کی عبادت ہے اور عبادت میں کسی غیر کو شریک کرنا شرک اکبر ہے
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (المؤمن: ٦٠)
تمہارا رب کہتا ہے ''مجھے پکارو میں تمہاری سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے خودسر ہوتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
 
Top