“انشاء اللہ” نہیں
بلکہ
“ان شاء اللہ”
اصلاح کاشکریہ محترم یوسف بھائی
اآپ نے جو شعر لکھا ہوا ہے واقعی اآج ہم انسانوں کی یہی حالت ہے کہ ایک سجدہ کو تو ہم گراں سمجھتے ہیں مگر جگہ جگہ سجدے کر رہے ہوتے ہیں
میرے خیال میں اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم نے جان بوجھ کر اپنی جان کو زیادہ سجدوں کے عذاب میں ڈالا ہوا ہے بلکہ انسان تو اآرام پسند ہے اصل میں ہم جاہل انسانوں کی نظر دینا تک ہے اور کنویں کے مینڈک کی طرح ہم دنیا کی چیزوں میں جب موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں وہ ایک سجدہ بہت مشکل نظر آتا ہے چونکہ اس میں اپنی خواہشات کو قربان کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسرے ہزاروں سجدوں میں ہمیں اپنی خواہشات کو قربان نہیں کرنا پڑتا بلکہ جب اکثر سجدہ کروانے والے ہماری خواہشات کا خیال رکھتے ہیں چناچہ ہم سمجھتے ہیں کہ نہ ہنگ نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا
جو انسان علم رکھتا ہے اور کنویں کا مینڈک نہیں وہ جانتا ہے کہ فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز کہ اصل کامیابی آخرت کی ہے چناچہ وہ دیکھتا ہے کہ اگرچہ یہ ایک سجدہ مجھ پر بہت گراں ہے مگر اس کا انعام بہت زیادہ ہے تو اس کو یہ ایک سجدہ ہزار سجدوں سے آسان لگتا ہے مگر کنویں کے مینڈک کو چونکہ کنویں یعنی دنیا کے علاوہ نظر ہی نہیں آتا اس لئے اس کو ایک سجدہ گراں گزرتا ہے
اسی لئے ہمیں علم حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا کہ قول اور عمل سے پہلے علم ضروری ہے
اللہ عمل نصیب فرمائے امین