اس مسئلے پر بحث کرنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جہاں تک سری نماز میں امام کے پیچھے قراءت کا مسئلہ ہے تو اس پر تمام صحابہ کا تفاق ہے کہ قراءت کرنی چاہیے۔
البتہ جہری نمازوں میں قراءت کا مسئلہ ایسا ہے کہ جس پر صحابہ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے، بعض اس کے قائل ہیں جبکہ بعض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی روایات سے استدلال کرتے ہوئے اس کے قائل نہیں ہیں جن میں ابن عمر شامل ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس قسم کے اختلاف کو مسلکی اختلاف کی شکل نہیں دینی چاہیے۔
میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے روایت پیش کی اور اس پر سند اور متن کے حوالہ سے پوچھا تھا ۔
بات اب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے موقف کی طرف نکل گئی ہے ۔ خیر اس پر بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں
اگر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ھوجاتا ہے کہ وہ سری و جہری نمازوں میں قرات خلف الامام کے قائل نہیں تھے تو اس سے فاتحہ خلف الامام کے مسئلے میں نہیں پیش کیا جائے گا اور نہ میرا مقصد اس مسئلہ کو یہاں ڈسکس کرنا ہے ۔ فاتحہ خلف الامام کو ثابت کرنے کے لیئے پہلے قرآن سے پھر حدیث سے ثابت کرنا ہو گا
آپ نے کہا کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سری نماز میں خلف الامام کے قرات کے قائل تھے تو میں نے جو روایت پیش کی اس میں سری و جہری دونوں نمازوں میں خلف الامام کی ممانعت ھے ۔ کیا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا موقف تبدیل کر لیا تھا ؟؟؟