- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
عقیدئہ عذاب القبر پر اعتراضات
منکرین عذاب القبر نے عقیدئہ عذاب القبر پر عقلی قسم کے بہت سے اعتراضات کئے ہیں اور ان اعتراضات کا مقصد عذاب قبر کے عقیدہ کا انکار ہے۔
٭ قبر کا تعلق آخرت سے ہے:
جب عذاب القبر کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں تو منکرین عذاب القبر ان احادیث پر ایمان لانے کے بجائے الٹا ان پر عقلی قسم کے اعتراضات شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عذاب القبر کی احادیث کو مان لیا جائے تو اس طرح پھر ہمیں تیسری زندگی کا قائل ہونا پڑے گا اور مطلب یہ ہو گا کہ قبر میں مردہ اب زندہ ہو چکا ہے۔ دیکھتا ہے، سنتا ہے اور یہ بات قرآن کریم کے خلاف ہے حالانکہ اگر یہ عقل کے پجاری قرآن و حدیث پر ایمان لے آتے تو انہیں قرآن و حدیث میں یہ بات ملتی کہ قبر کا تعلق دنیا یا دنیاوی زندگی سے نہیں بلکہ آخرت کے ساتھ ہے۔ اور دنیا سے اب ان مرنے والوں کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ مردہ کو کوئی شخص بھی قبر میں زندہ نہیں مانتا یعنی دنیاوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ اور اگر کسی نے ان کی زندگی کا ذکر کیا ہے تو اس سے مراد اُخروی زندگی ہے اور جسے عام طور پر ’’برزخی زندگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد میت پر جو جو حالات گزر رہے ہیں وہ برزخ کی وجہ سے ہمیں دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ہمارے اور میت کے درمیان اب برزخ حائل ہو چکی ہے اور یہ آخرت کے معاملات ہیں کہ جن کا ہمیں شعور نہیں ہے۔ مرنے کے بعد کے مراحل یعنی آخرت کے متعلق کچھ دلائل ملاحظہ ہوں۔
(۱) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ
’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اللہ تعالیٰ بے انصافوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔ (ابراہیم:۲۷)۔
نبی ﷺ نے اس آیت کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (صحیح بخاری:۱۳۶۹)۔
اس آیت میں دو مقامات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی دنیا اور آخرت جہاں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم اور مضبوط رکھتا ہے اور نبی ﷺ نے وضاحت فرما دی کہ قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے کیونکہ یہ آیت عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
کان النبی ﷺ اذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروا لاخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فانہ الآن یسأل
(اخرجہ ابوداؤد فی الجنائز باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف رقم ۳۲۲۱، والحاکم فی المستدرک ۱/۳۷۰، و قال ھذا حدیث صحیح الاسناد و قال الذھبی صحیح۔ رواہ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ باب ما یقول اذا فرغ من دفن المیت رقم ۵۸۵، مشکاۃ المصابیح باب اثبات عذاب القبر حدیث:۱۳۳و قال الاستاذ علیزئی اسنادہ حسن)
’’نبی ﷺ جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوتے پھر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جا رہا ہے‘‘۔