• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عقیدئہ عذاب القبر پر اعتراضات

منکرین عذاب القبر نے عقیدئہ عذاب القبر پر عقلی قسم کے بہت سے اعتراضات کئے ہیں اور ان اعتراضات کا مقصد عذاب قبر کے عقیدہ کا انکار ہے۔

٭ قبر کا تعلق آخرت سے ہے:

جب عذاب القبر کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں تو منکرین عذاب القبر ان احادیث پر ایمان لانے کے بجائے الٹا ان پر عقلی قسم کے اعتراضات شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عذاب القبر کی احادیث کو مان لیا جائے تو اس طرح پھر ہمیں تیسری زندگی کا قائل ہونا پڑے گا اور مطلب یہ ہو گا کہ قبر میں مردہ اب زندہ ہو چکا ہے۔ دیکھتا ہے، سنتا ہے اور یہ بات قرآن کریم کے خلاف ہے حالانکہ اگر یہ عقل کے پجاری قرآن و حدیث پر ایمان لے آتے تو انہیں قرآن و حدیث میں یہ بات ملتی کہ قبر کا تعلق دنیا یا دنیاوی زندگی سے نہیں بلکہ آخرت کے ساتھ ہے۔ اور دنیا سے اب ان مرنے والوں کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ مردہ کو کوئی شخص بھی قبر میں زندہ نہیں مانتا یعنی دنیاوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ اور اگر کسی نے ان کی زندگی کا ذکر کیا ہے تو اس سے مراد اُخروی زندگی ہے اور جسے عام طور پر ’’برزخی زندگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد میت پر جو جو حالات گزر رہے ہیں وہ برزخ کی وجہ سے ہمیں دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ہمارے اور میت کے درمیان اب برزخ حائل ہو چکی ہے اور یہ آخرت کے معاملات ہیں کہ جن کا ہمیں شعور نہیں ہے۔ مرنے کے بعد کے مراحل یعنی آخرت کے متعلق کچھ دلائل ملاحظہ ہوں۔

(۱) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ
’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اللہ تعالیٰ بے انصافوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔ (ابراہیم:۲۷)۔

نبی ﷺ نے اس آیت کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (صحیح بخاری:۱۳۶۹)۔

اس آیت میں دو مقامات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی دنیا اور آخرت جہاں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم اور مضبوط رکھتا ہے اور نبی ﷺ نے وضاحت فرما دی کہ قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے کیونکہ یہ آیت عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
کان النبی ﷺ اذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال استغفروا لاخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فانہ الآن یسأل
(اخرجہ ابوداؤد فی الجنائز باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف رقم ۳۲۲۱، والحاکم فی المستدرک ۱/۳۷۰، و قال ھذا حدیث صحیح الاسناد و قال الذھبی صحیح۔ رواہ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ باب ما یقول اذا فرغ من دفن المیت رقم ۵۸۵، مشکاۃ المصابیح باب اثبات عذاب القبر حدیث:۱۳۳و قال الاستاذ علیزئی اسنادہ حسن)
’’نبی ﷺ جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوتے پھر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جا رہا ہے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہ حدیث بھی مندرجہ بالا آیت کی پوری طرح وضاحت اور تشریح بیان کرتی ہے۔

(۳) اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
ما من نبی یمرض الاخیر بین الدنیا والاخرۃ (بخاری و مسلم مشکاۃ ص۵۲۷)
’’ہر نبی کو مرضِ موت میں دنیا و آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے‘‘۔

یعنی اگر وہ چاہے تو ایک مدت تک مزید دنیا میں قیام کر لے اور چاہے تو آخرت کے قیام کو اختیار کر لے۔

اس حدیث میں بھی موت کے بعد کی زندگی کو آخرت قرار دیا گیا ہے۔
(۴) سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان القبر اول منزل من منازل الاخرۃ (الترمذی، ابن ماجہ، مشکاۃ المصابیح ج۱ص ۴۸، و قال الشیخ الالبانی و علیزئی: و سندہ حسن)
’’قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے‘‘۔

(۵) اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کے مرض الموت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں:
فجمع اللّٰہ بین ریقی و ریقہ فی اخر یوم من الدنیا و اول یوم من الاخرۃ (صحیح بخاری ج۲ص۶۴۰عربی۔ کتاب المغازی باب: مرض النبی ﷺ و وفاتہ:۴۴۴۹)
’’پس اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ ﷺ کے لعاب کو آپﷺ کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن جمع فرما دیا‘‘۔

(۶) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک بیوی صفیہ بنت ابی عبید جو اپنے کھیتوں میں رہا کرتی تھیں، انہوں نے موت کو قریب دیکھ کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پیغام بھیجا:
انی فی آخر یوم من ایام الدنیا و اول یوم من الاخرۃ (سنن النسائی کتاب المواقیت باب الوقت الذی یجمع فیہ المسافرین بین الظھر والعصر)
’’میں دنیا کے آخری دن میں اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں‘‘۔ یعنی ’’قریب الموت ہوں‘‘۔

ان احادیث میں مرنے کے بعد کے لئے اور قیامت کے دن کے لئے آخرت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ البتہ بعض اہل علم نے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے احوال کے لئے برزخی زندگی اور عالم برزخ کی اصطلاح ایجاد کی ہے تاکہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کے وقفہ اور قیامت کے دن دونوں میں فرق واضح ہو جائے ورنہ مرنے کے بعد کے لئے آخرت کی اصطلاح ہی استعمال کرنا زیادہ درست ہے اور قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔ نیز برزخ کسی مقام یا جگہ کا نام نہیں بلکہ یہ دنیا اور آخرت کے درمیان صرف ایک آڑ ہے اور بس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اور آخرت کے معاملات کو دنیاوی پیمانوں پر نہیں ناپا جا سکتا۔ جو باتیں دنیا میں ناممکن ہیں وہ آخرت میں جا کر ممکن ہو جاتی ہیں چونکہ آخرت کے معاملات عقل کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں اس لئے وہ اس کے انکار کی طرف مائل ہوتی ہے اور عقل پر بھروسہ اور اعتماد کرنے والا انسان آخرت کے معاملات میں زبردست ٹھوکر کھاتا ہے۔ مثلاً عقل کہتی ہے کہ جب انسان قبر میں گل سڑ جائے گا اور اس کی ہڈیاں سرمہ ہو جائیں گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان دوبارہ زندہ ہو کر اُٹھ کھڑا ہو۔ لیکن عقل کے برخلاف قرآن و حدیث کا فیصلہ یہی ہے کہ تمام انسان بلکہ تمام مخلوقات کو قیامت کے دن زندہ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
مَاخَلْقُکُمْ وَلَابَعْثُکُمْ اِلَّاکَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ (لقمان:۲۸)
تم سب انسانوں کا پیدا کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا نہیں ہے مگر ایک جان کو پیدا کرنے اور زندہ کرنے کی طرح۔ بیشک اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

یعنی یہ کام اللہ پر بہت ہی آسان ہے کہ جسے انسان اور عقل ناممکن خیال کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف نے بھی عذاب قبر کے معاملہ میں ٹھوکر کھائی اور اس نے عذاب قبر کا انکار کر دیا۔ اور اس انکار کی دلیل اس کے پاس عقل اور فلسفہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ قرآن کریم کے شروع ہی میں اہل ایمان کی یہ نشانی بیان کی گئی ہے کہ:
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ
’’جو لوگ غیب (ان دیکھی حقیقتوں) پر ایمان لاتے ہیں’‘۔

اور فرمایا:
وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ:۴)
’’اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں‘‘۔

اور قبر آخرت کی منزلوںمیں سے پہلی منزل ہے۔ لہٰذا عذاب قبر پر یقین رکھنا آخرت پر یقین رکھنے کے مترادف ہے اور آخرت کا انکاری کافر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۲۔ میت کو بغیر روح کے عذاب کیسے ممکن ہے؟


منکرین عذاب قبر کا کہنا ہے کہ میت بے جان چیز ہے اور اس میں سے روح نکالی جا چکی ہے اور بغیر روح کے عذاب و راحت بے معنی چیز ہے۔ لہٰذا میت کو عذاب و ثواب کیسے ممکن ہے؟

الجواب: عذاب قبر کا تعلق میت کے ساتھ ہے اور قبر کا عذاب میت (مردہ) کو ہوتا ہے زندہ کو نہیں۔ اور اس لئے بھی کہ میت کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے اور اس کی دوسری ظاہری زندگی قیامت کے دن سے شروع ہو گی اور اس درمیانی وقفہ میں روح کو جنت یا جہنم میں رہنا ہو گا جبکہ میت کو قبر میں راحت یا عذاب ملتا رہے گا۔ اور مرنے کے بعد عذاب ممکن ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشادِ گرامی ہے:
وَ لَوْ لَآ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْھِمْ شَیْئًا قَلِیْلًا اِذًا لَّااَذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا
اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ تم بھی ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک جاتے۔ لیکن اگر آپ ایسا کرتے تو ہم تمہیں زندگی میں بھی اور موت میں بھی دوگنا عذاب کا مزہ چکھاتے اور پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پاتے‘‘۔ (سورئہ بنی اسرائل:۷۴۔۷۵)

حیات زندگی کو کہتے ہیں اور اس کا الٹ ممات یعنی موت ہے۔ حالت موت میں بھی عذاب کا ذکر واضح کرتا ہے کہ میت کو عذاب ہوتا ہے۔ اور قرآن مجید کی یہ آیت اس مسئلہ پر نص صریح ہے۔ نیز میت کے عذاب کی احادیث بہت کثرت سے مروی ہیں جن میں سے بعض کا اوپر بیان ہو چکا ہے۔ عقلی لحاظ سے تو یہ نظر آتا ہے کہ بے جان چیز کو عذاب کیسے ہو سکتا ہے؟ اور عقل کے یہ پجاری اسی بات کو مدنظر رکھ کر قرآن مجید کی محکم آیات اور احادیث متواترہ کا انکار کر رہے ہیں اور اپنی آخرت تباہ و برباد کر رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عذاب قبر کو سمجھنے کیلئے دو عمدہ مثالیں

عذاب قبر کو سمجھانے کے لئے یہاں دو اہم مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے یہ مسئلہ سمجھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ کی پہلی مثال ملاحظہ فرمائیں:

(۱) پہلی مثال: ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ… (الحج:۱۸)۔
کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور وہ سب جو زمین میں ہیں۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، جانور اور لوگوں کی کثیر تعداد …

اس آیت سے واضح ہوا کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کر رہی ہے۔ پہاڑ بھی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں، درخت اور جانور بھی اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ منکرین عذاب قبر اگر اپنی عادت کے عین مطابق یہ سوال کریں کہ یہ کس طرح سجدہ کرتے ہیں کیونکہ یہ سجدہ ریز ہوتے ہوئے تو نظر نہیں آتے؟ پھر زندہ مخلوق اگر سجدہ کرے تو سمجھ میں بھی آتا ہے بے جان چیزیں سورج، چاند ستارے، پہاڑ وغیرہ کیسے سجدہ کرتے ہیں؟۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں بھی معاملہ ایمان کا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یہ سب سجدہ کرتے ہیں۔ اہل ایمان نے اقرار کیا کہ بے شک یہ سب سجدہ کرتے ہیں۔ ہم اس پر ایمان لے آئے اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہ کیسے سجدہ کرتے ہیں؟ اس کیفیت کا سمجھنا ہمارے بس سے باہر ہے، ہم نے تو اپنے رب کی بات کو مان لیا ہے ورنہ بظاہر دنیا کا کوئی جانور، کوئی درخت اور کوئی پہاڑ سجدہ ریز نظر نہیں آتا۔ اسی طرح میت کو عذاب ہوتا ہے، اہل ایمان اس پر ایمان رکھتے ہیں یہ عذاب کیسے ہوتا ہے اس کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیسے؟ کس طرح؟ یہ سارے اعتراضات کوئی مومن نہیں کر سکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب نبی ﷺ نے بتایا کہ قبر میں میت کو عذاب ہوتا ہے تو انہوں نے اسے اسی طرح تسلیم کر لیا کہ گویا وہ یہ سب آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی کسی بات پر کیوں؟ کیسے؟ کس طرح؟ نہیں کہا۔ ایک مرتبہ جب قرآن کریم میں یہ بات بیان ہوئی کہ تم جو کچھ ظاہر کرو یا اپنے دلوں میں چھپاؤ، تم سے اس کا محاسبہ ہو گا‘‘ (البقرۃ ۲۸۴) تو اس پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت پریشان ہو گئے اور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ نماز، روزہ، جہاد، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا اور وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتی المقدور کیا لیکن اب جو آیت اُتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم یہود و نصاری کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا۔ تمہیں چاہیئے کہ تم یوں کہو: ہم نے سنا اور مانا۔ اے اللہ ہم تجھ سے بخشش چاہتے ہیں۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس بات کو تسلیم کر لیا اور ان کی زبانوں پر یہ کلمات جاری ہو گئے:
وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَـــیْکَ الْمَصِیْرُ
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب:۵۷)
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ان کلمات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن بنا کر نازل کر دیا۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے ایمان کو معیاری قرار دیا اور فرمایا:
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ ٰامَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (البقرۃ:۱۳۷)۔
’’پس اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم لائے ہو تو وہ ہدایت پا گئے اور اگر وہ منہ موڑیں تو یقینا وہ ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں۔ پس عنقریب ان کے مقابلہ میں اللہ تمہیں کافی ہو گا۔ وہ سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان ہی معیاری ایمان تھا اور انہیں یہ ایمان تسلیم و رضا کے بل بوتے پر نصیب ہوا۔ اور جب دین میں قیل و قال شروع ہو گیا، عقل اور فلسفہ کی باتیں ہونے لگیں تو لوگوں کے ایمان کمزور ہو گئے اور ایسے لوگ دین داری کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آگئے کہ جنہوں نے اللہ اور رسول کے فرامین کے مقابلے میں عقل و فلسفہ کو فوقیت دے دی۔ اور علم کلام اور ظاہریت پر ایمان لے آئے اور اس طرح دنیا بھی لٹی اور آخرت بھی تباہ و برباد ہو گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۲) دوسری مثال: ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِیْھِنَّ وَ اِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَ ٰلکِنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا
’’اُس کی تسبیح تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے‘‘۔

اس آیت سے واضح ہوا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتا کیونکہ یہ چیز اس کے عقل و حواس سے بالا تر ہے۔ اب قابل غور بات ہے کہ جب ہر چیز ہی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے لیکن ان کا یہ عمل ہم سے پوشیدہ ہے اور ہمارے حواس اس کا ادراک نہیں کر سکتے یہاں یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ اگر ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے تو ہمیں اس کی تسبیح کیوں محسوس نہیں ہوتی اور پھر بے جان چیزوں کا تسبیح کرنا بھی عقل سے بالاتر ہے اور ظاہر ہے کہ جو یہ اعتراض کرے گا وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا۔ اسی طرح میت کو جو عذاب ہوتا ہے وہ بھی ہمارے حواس سے بالاتر ہے اور ہمارے حواس اسے محسوس نہیں کر سکتے۔ بس ہم بن دیکھے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو میت کے عذاب کا منکر ہے خود اس کے میت ہوتے ہی وہ عذاب قبر سے دوچار ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔ اور جب اُسے اس حقیقت کا ادراک ہو جائے گا تو اس وقت وہ عذاب قبر پر ایمان لے آئے گا مگر اس وقت کا ایمان اُسے کچھ فائدہ نہ دے گا۔ لوکانوا یعلمون۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چند مزید مثالیں


اس سلسلہ کی چند مزید مثالیں بھی ملاحظہ فرمائیں:
ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ وَ ھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ

1- اللہ تعالیٰ نے جب زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تو آسمان اور زمین سے فرمایا: تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں۔ (حم السجدۃ آیت:۱۱)
اس آیت سے زمین و آسمان کا باتیں کرنا ثابت ہوا۔

یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثاُا اَخْبَارَھَا
اور قیامت کے دن زمین اپنی ساری خبریں بیان کر دے گی۔ (الزلزال:۴)۔

قیامت کے دن انسان زمین کی حرکات کو دیکھ کر تعجب کرے گا لیکن آخرت میں یہ سب ممکن ہو جائے گا۔ اسی طرح عذاب قبر کا تعلق بھی آخرت کے ساتھ ہے۔ اس لئے یہ بھی ممکن ہے۔

2- جب فرعون اور اس کا لاؤلشکر غرق ہو گیا تو:
فَمَا بَکَتْ عَلَیْھِمُ السَمَآئُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ
ان کے مرنے پر نہ آسمان رویا اور نہ زمین روئی۔ (الدخان:۲۹)۔

جبکہ مومن کے مرنے پر دونوں روتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)۔ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان روتے بھی ہیں لیکن کس طرح کچھ معلوم نہیں۔

3- اللہ تعالیٰ کا آگ کو حکم دینا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو جائے (الانبیائ:۶۹)۔ آگ نے اللہ تعالیٰ کا حکم سنا اور وہ سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو گئی حالانکہ آگ میں روح نہیں ہوتی۔ اس نے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کا حکم کیسے سنا؟

4- اگر قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کسی پہاڑ پر نازل فرما دیتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے دبتا اور پھٹ جاتا۔ ـ(الحشر:۲۱)۔ معلوم ہوا کہ پہاڑ بھی اللہ تعالیٰ سے بے انتہاء خوف کھاتا اور ڈرتا ہے حالانکہ پہاڑ زندہ نہیں اور نہ اس میں روح ہوتی ہے۔

5- پتھروں میں سے بعض ایسے پتھر بھی ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کے خوف اور ڈر سے لڑھک جاتے ہیں اور گر جاتے ہیں۔ (البقرۃ:۷۴)۔

6- بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو انہوں نے کھانے سے تسبیح کی آواز سنی۔ (بخاری کتاب المناقب، باب۲۵۔ علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث۳۵۷۹۔ مشکوٰۃ:۵۹۱۰)۔

7- رسول اللہ ﷺ کھجور کے جس تنے پر خطبہ دیا کرتے تھے جب آپ کے لئے منبر بنایا گیا اور آپ ﷺ نے اس تنے کو چھوڑ دیا تو وہ آپ ﷺ کی جدائی برداشت نہ کر سکا اور بچے کی طرح رونے لگا۔ (بخاری:۳۵۸۳۔ ۳۵۸۴۔ ۳۵۸۵۔ مشکوٰۃ: ۵۹۰۳)۔

8- مکہ میں ایک پتھر تھا جو رسول اللہ ﷺ کو آپ ﷺ کی نبوت سے پہلے سلام کیا کرتا تھا۔ (مسلم کتاب الفضائل ۔ باب نمبر۱۔ حدیث:۲۲۷۷)۔

9- رسول اللہ ﷺ نے اُحد پہاڑ کو دیکھ کر فرمایا: ھٰذَا جبل یُحِبُّنَا وَ نُحِبُّہ یہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب:۲۸۔ حدیث:۳۷۱۔ ۴۰۸۳۔۴۰۸۴۔ مسلم کتاب الحج باب:۹۳)۔

غور فرمائیں کہ جبل اُحد نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتا ہے اور نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس جبل سے محبت کیا کرتے تھے۔ لیکن اس محبت کا اظہار کیسے ممکن ہوا کیونکہ جبل اُحد بے جان ہے اور اس میں روح بھی نہیں ہے؟ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اِرشادِ گرامی بالکل سچ اور حق ہے۔

10- میت جنازہ کی چارپائی پر اپنے گھر والوں سے گفتگو کرتی ہے اور عذاب کی وجہ سے چیختی چلاتی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی:۱۳۱۶)۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔

ان دلائل سے ثابت ہوا کہ بے جان اور بے روح اشیاء میں بھی اللہ تعالیٰ نے احساس رکھا ہے اور وہ ڈر اور محبت جیسے جذبوں سے بھی معمور ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اگر میت راحت کو محسوس کرے اور عذاب دیئے جانے پر چیخے چلائے تو اس پر تعجب کیا جائے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بھلا اس میں تعجب کی کونسی بات ہے؟ ہاں یہ اور بات ہے کہ یہ چیزیں ہمارے مشاہدے میں نہیں ہیں۔ ہم صرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین کی وجہ سے ان باتوں کو مانتے ہیں۔ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کو، فرشتوں، جنت و جہنم وغیرہ کو اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے کہنے سے تسلیم کرتے ہیں۔ اگر آپ کا یہ مطالبہ ہو کہ ہم غیب کے بجائے مشاہدہ پر ایمان رکھتے ہیں، اور یہ چیزیں جب تک ہمارے مشاہدے میں نہ آجائیں تو اس وقت تک ہم ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ تو پھر یہ ہٹ دھرمی اور ضد والی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کا اِرشاد بالکل سچ ہے چنانچہ فرمایا:
لَا یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ (الشعراء:۲۰۱)
وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ دردناک عذاب کو (اپنی آنکھوں سے) نہ دیکھ لیں۔

یہود کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ وہ جب تک اللہ تعالیٰ کو ظاہر نہ دیکھ لیں تو اُس وقت تک ایمان نہ لائیں گے۔ ان کی اس گستاخی پر انہیں ایک زبردست کڑک نے آپکڑا۔ (الاعراف:۱۵۵۔ البقرۃ:۵۵)۔ یاد رکھیں کہ مرنے کے بعد غیب مشاہدہ میں بدل جائے گا لیکن پھر یہ ایمان کوئی فائدہ نہ دے گا۔ البتہ آج اگر ان باتوں پر ایمان رکھا جائے تو کل قیامت کے دن یہ ایمان نجات کا باعث بن جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

خاکستر شدہ انسان کا معاملہ یا جسے کوئی جانور کھا جائے؟

جس شخص کو درندے یا مچھلیاں کھا جائیں یا جو پانی میں ڈوب جائے یا آگ میں جل کر راکھ ہو جائے تو اس کی قبر ہی نہیں بنی اور جب اس کی قبر نہیں بنی تو اسے عذاب کیسے ہو گا؟
الجواب: جو شخص مر جائے تو آخر کار اللہ تعالیٰ اُسے زمین ہی میں واپس لے جاتا ہے کیونکہ قیامت کے دن وہ زمین ہی سے زندہ کر کے نکالا جائے گا۔ دیکھئے سورئہ طٰہٰ آیت:۵۵۔ سیدنا نوح علیہ السلام کی پوری قوم پانی میں غرقاب ہو گئی تھی اور جو پانی میں ڈوب جائے تو اُسے مچھلیاں کھا جاتی ہیں اور کنارے پر آنے کی صورت میں مردار خور جانور اسے کھا جاتے ہیں۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے عذاب کے نازل ہونے سے پہلے اپنی قوم کو وحی کے بل بوتے پر آگاہ کیا تھا کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں واپس لے جائے گا اور قیامت کے دن انہیں زمین سے زندہ کر کے نکالے گا۔ دیکھئے سورئہ نوح آیت:۱۸۔ اس کی کچھ تفصیل گزر چکی ہے۔

حدیث میں ہے: ایک شخص بہت گنہگار تھا جب مرنے لگا تو اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں نے کبھی بھی کوئی نیک کام نہیں کیا لہٰذا مرنے کے بعد مجھے جلا دینا اور میری راکھ ہوا میں اُڑا دینا اور ایک روایت میں ہے کہ کچھ راکھ دریا میں ڈال دیناکیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا کہ اس نے ایسا عذاب کسی کو بھی نہ دیا ہو گا۔ پس بیٹوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اُس شخص کے ذرات کو وہ اکٹھا کرے۔ زمین نے اکٹھا کر دیا تو وہ (اللہ کے سامنے) کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے کہا اے اللہ تیرے ڈر کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا۔ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب بعد حدیث الغار:۳۴۸۱۔ مسلم کتاب التوبہ باب:۴)۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد انسان سے جو سوال و جواب ہو گا اس میں جسم بھی شریک ہو گا ورنہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی روح سے ہی سوال کرتا اور جسم سے تعرض نہ کرتا۔ لیکن اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ ثواب و عذاب کا تعلق روح کے علاوہ جسم سے بھی ہے اور میت ثواب و عذاب میں شریک رہتی ہے اور مرنے والے کی راکھ چاہے کہیں بھی پھینک دی جائے اللہ تعالیٰ اس کی راکھ کو قبر میں ایک مقام پر جمع کر دیتا ہے جیسا کہ اس حدیث کی بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس شخص نے وصیت کی تھی کہ میری راکھ ہوا میں اُڑا دینا اور کچھ راکھ دریا میں بہا دینا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ وہ اس کی راکھ کو اکٹھا کرے۔ آخرت کے معاملات چونکہ دنیا سے مختلف ہوتے ہیں لہٰذا وہاں کے معاملات کو دنیا پر قیاس کرنا ہی غلط ہے اور یہ قیاس، قیاس مع الفارق کہلاتا ہے اور ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی قدرت و قوت کو محدود کرنا چاہتا ہے۔
 
Top