• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
آگے موصوف نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی تفصیلی روایت ذکر کی ہے جس میں بعض عذابوں کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ کو جنت کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ موصوف آگے لکھتے ہیں:

اس طرح امام بخاری نے ثابت کر دکھایا کہ وفات کے بعد نبی ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اچھے گھر میں زندہ ہیں۔ بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں:

(۱) روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے اور رُوح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دَور گذرتا ہے۔

(۲) اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔

(۳) یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے۔

(۴) دُنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں اُن کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔

(۵) نیکوکار مرنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے۔

(۶) شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے جسم سبز رنگ کے اور اُڑنے والے ہوتے ہیں۔ مسلم کی حدیث کے مطابق ان کے جسم۔

ترجمہ … مسروق رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن کی اس آیت ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللّٰہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شہداء کی روحین سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور اُن کے لئے قندیلیں عرشِ الٰہی سے لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ انکی طرف اُنکے رب نے جھانکا اور اِرشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہداء نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہداء نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے اُن کا رب اُن کو برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا کہ مالک ہماری تمنا یہ ہے کہ ہماری رُوحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب کہ مالک نے دیکھ لیا کہ اُنہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے تو پھر اُن سے پوچھنا چھوڑ دیا۔ (ترجمہ عبارت صفحہ ۱۳۵۔۱۳۶۔ مسلم جلد ۲۔ مطبوعہ دہلی)۔

امام مسلم نے یہ حدیث لا کر بہت سی باتیں بیان کر دیں۔ شہید کو نیا اُڑنے والا جسم ملتا ہے جس میں اُس کی روح ڈال دی جاتی ہے اور وہ اس جسم کے ساتھ جنت کے مزوں میں خوش و خرم رہتا ہے۔

شہید کا مالک اپنے عرش کے اُوپر سے اس پر التفاتِ خسروانہ فرمانے کے بعد گفتگو بھی کرتا ہے اور اپنی خواہشات اور تمناؤں کے اظہار پر اصرار بھی، مگر جب وہ یہ آرزو کرتا ہے کہ اُس کی رُوح کو اُس کے دنیاوی جسم میں واپس لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اس کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت مندی حاصل کرے تو اس کا مالک اپنی سنت کو نہیں بدلتا اور اُس کی اِس خواہش کو بھی پورا نہیں کرتا جس کے اظہار کا خود اُس نے اس سے باربار تقاضا کیا تھا۔

موصوف آگے مزید لکھتے ہیں:
اب ان دلائل کے بعد کہ نبی ﷺ اور شہداء اپنی دُنیاوی قبر میں زندہ نہیں بلکہ عرشِ الٰہی کے نیچے اپنے بہترین گھروں میں زندہ ہیں یہ کہا جانے لگتا ہے کہ نبی ﷺ اور شہداء کی بات ہی اور ہے کسی اور کی زندگی کو جنت میں ثابت کیا جائے۔ اِس بات کے ثبوت میں بخاری رحمہ اللہ نبی ﷺ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا واقعہ لائے ہیں:
حدثنا ابو الولید قال حدثنا شعبۃ عن عدی بن ثابت ان سمع البرآء بن عازب قال لما توفی ابراھیم قال رسول اللّٰہ ﷺ ان لہ مرضعا فی الجنۃ (بخاری جلد۱، ص۱۸۴مطبوعہ دہلی)
ترجمہ: البراء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اُس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے۔ (بخاری جلد۱صفحہ ۱۸۴، مطبوعہ دہلی)۔

اس حدیث سے ابراہیم کا جنت میں موجود ہونا اور ایسے جسم کے ساتھ جو چھاتی سے دودھ کھینچ سکے اسی طرح ثابت ہوا جیسے گزری ہوئی بخاری کی حدیث سے یہ ثابت ہوا تھا کہ عمرو بن لحی الخزاعی جہنم میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا تھا۔ یہ نہیں کہ دنیاوی قبر کے اندر دودھ پلانے والی مہیا کر دی گئی ہے۔ (عذاب برزخ ص۳، ۶، ۷، ۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الجواب بعون الوھاب

موصوف نے فرعونیوں کے اجسام کے محفوظ رہنے والی آیت (سورۃ یونس:۹۲) اور صبح و شام آگ پر پیش کئے جانے والی آیت (المؤمن:۴۵، ۴۶) پیش کر کے ان آیات سے برزخی اجسام ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ فرعونیوں کے جو اجسام دنیا میں محفوظ ہیں اور ان پر عذاب کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے بلکہ اجسام جب سے اب تک اسی حالت میں رکھے ہوئے ہیں، اس سے (موصوف کے نزدیک) یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جسد عنصری کو عذاب نہیں دیا جاتا۔ اب جو اجسام صبح و شام آگ پر پیش ہو رہے ہیں وہ چونکہ (موصوف کے نزدیک) جسد عنصری نہیں ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ برزخی اجسام ہیں کہ جنہیں صبح و شام آگ پر پیش کیا جارہا ہے۔ جدید مسائل میں بعض علماء قیاس کے قائل ہیں اور قیاس و اجتہاد کے ذریعے اُنہوں نے بہت سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ایسا کوئی عالم یا فقیہ ان پندرہ صدیوں میں نہیں گذرا کہ جس نے آخرت یا مرنے کے بعد کے مسائل میں بھی قیاس و اجتہاد کیا ہو۔ غالباً موصوف اس سلسلہ کی پہلی کڑی ہے کہ جس نے قیاس کے ذریعے برزخی اجسام ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ کیونکہ کسی بھی حدیث میں برزخی جسم کے کوئی بھی الفاظ ذکر نہیں کئے گئے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے جسم کا کوئی ذکر کسی حدیث میں موجود ہے لیکن قربان جایئے موصوف کے فہم و فراست پر کہ اس نے قیاس کے ذریعے برزخی جسم بھی ثابت کر دکھایا ہے۔ موصوف کا یہ دعوی کہ مرنے کے بعد روح کو ایک نئے جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے اور پھر قیامت تک یہی برزخی جسم ثواب یا عذاب سے ہمکنار ہوتا رہتا ہے۔ موت کے وقت روح کو جسم سے قبض کر لیا جاتا ہے۔ یعنی موت جسم اور روح کی جدائی کا نام ہے اور جب روح کو کسی جسم میں داخل کر دیا جائے تو یہ زندگی ہے اور ایسی کامل زندگی قیامت سے پہلے ممکن نہیں ہے۔ قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ میں موت کے وقت روح کے قبض ہونے کا ذکر آتا ہے۔ اگر روح کو مرنے کے بعد کسی جسم میں دوبارہ داخل کیا جاتا تو قرآن کریم یا احادیث رسول ﷺ میں اس کا واضح طور پر ذکر موجود ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس طرح کا کوئی بھی بیان یا وضاحت موجود نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد کی حالت کو قرآن کریم میں حالت موت قرار دیا گیا ہے۔
ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ
پھر یقینا تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن ہی تم زندہ کر کے اٹھائے جاؤ گے۔ (المؤمنون:۱۵۔۱۶)۔
یعنی قیامت تک روح اور جسم میں جدائی رہے گی اور قیامت سے پہلے روح اور جسم کا ملاپ ممکن نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مرنے کے بعد قبر کے سوال و جواب کے بعد ارواح جنت یا جہنم میں داخل کر دی جاتی ہیں جبکہ اجسام قبروں میں راحت یا عذاب میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ موصوف اگر احادیث کا بغور مطالعہ کرتے تو فرعونیوں کے عذاب کا مسئلہ انہیں سمجھ میں آجاتا۔ کافروں کی ارواح جہنم میں عذاب پاتی ہیں جبکہ ان کے اجسام قبروں میں عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور اس مسئلہ کو مندرجہ ذیل حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ جسے موصوف نے اپنے کتابچہ ایمان خالص (سابقہ نام توحید خالص) میں ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
باب المیت یعرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشی
حدثنا اسمعیل قال حدثنی مالک عن نافع عن عبداللہ بن عمر ان رسول اللّٰہ ﷺ قال ان احدکم اذا مات عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشی ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ و ان کان من اھل النار فمن اھل النار فیقال ھذا مقعدک حتی یبعثک اللّٰہ یوم القیمۃ

باب: میت پر اُس کا ٹھکانہ صبح و شام پیش کیا جاتا ہے۔
… عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی وفات پاجاتا ہے تو اُس کا ٹھکانہ صبح و شام اُس پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے تو جنت کا ٹھکانہ اور اہل دوزخ میں سے ہو تو دوزخ کا ٹھکانہ۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ ہے تیرا وہ آخری مقام، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھ کو جلائے (اور تو اس میں داخل ہو)۔
(ترجمہ: عبارت ۲۴۳فتح الباری شرح بخاری المجلد۳، و ص ۱۸۴جلد۱بخاری مطبوعہ دہلی) (ایمان ِ خالص ص:۲۹)

یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ارواح کو جنت یا جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے اور ان کے اجسام (میت) قبروں میں مدفون ہوتے ہیں۔ لہٰذا ارواح پر جنت یا جہنم کو پیش کرنا تو بالکل بے معنی ہے تو لا محالہ یہاں جنت و جہنم کو میت ہی پر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ سے بھی یہی بات ظاہر ہے: ان احدکم اذا مات۔ بے شک تم میں سے جب کوئی مر جاتا ہے یعنی مرنے والے میت پر اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے کیونکہ میت ابھی جنت یا جہنم میں داخل نہیں ہوئی ہے اور اس حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں: ھذا مقعدک حتی یبعثک اللّٰہ الیہ یوم القیمۃ یعنی یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے اس کی طرف اٹھائے گا۔ یعنی اس میں داخل کرے گا۔ عربی کی بخاری میں الی کا لفظ چھوٹ گیا ہے جبکہ بخاری (۱۳۷۹) اور موطا امام مالک میں الی کا لفظ موجود ہے اور موصوف نے بھی اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اور تو اس میں داخل ہو‘‘۔ اور بخاری (کتاب الرقاق باب(۴۲) سکرات الموت) اور مسلم کی روایت میں الیہ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔

ایک دوسری روایت میں اس حدیث کے یہ الفاظ ہیں:
یُعْرَضُ عَلَی ابْنِ آدَمَ مَقْعَدَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ وَ النَّارِ غُدْوَۃً وَ عَشِیَّۃً فِیْ قَبْرِہٖ
(مسند احمد ۲/۵۹۔ و قال شعیب الارنووط : اسنادہ صحیح علی شرط شرط الشیخین۔ و اخرجہ ھناد فی ’’الزھد‘‘ (۳۶۵) عن وکیع بھذا الاسناد۔ (مسند الامام احمد بن حنبل مع الموسوعۃ الحدیثیۃ جلد۹۔ ص:۱۸۹)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ابن آدم پر اُس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم اُس کی قبر میں صبح و شام پیش کیا جاتا ہے۔ اس حدیث کی سند یہ ہے: حدثنا وکیع حدثنا فضیل بن غزوان۔ عن نافع عن ابن عمر…

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جنت و جہنم ہر میت پر پیش کی جاتی ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
باب المیت یعرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشی
میت پر اس کا ٹھکانہ صبح و شام پیش کیا جاتا ہے۔

بخاری کی حدیث کے علاوہ مسند احمد کی حدیث اس سلسلے میں بہت ہی زیادہ واضح ہے۔ نیز سنن الترمذی (۱۰۷۲) میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں اور اس میں میت کے الفاظ بالکل واضح ہیں:
اذا مات المیت عرض علیہ مقعدہ بالغداة والعشی
جب میت (مرنے والا) مر جاتا ہے تو اس پر اس کا ٹھکانہ صبح و شام پیش کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم کے بیان سے واضح ہوا کہ آل فرعون کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ ان کے اجسام ہیں کہ جنہیں آگ پر پیش جا رہا ہے۔ اگرچہ ان کے اجسام دنیا میں محفوظ ہیں اور ان پر عذاب کے آثار بھی نظر نہیں آتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان اُمور کو انسانوں اور جنوں کی نگاہوں سے پوشیدہ کر دیا ہے۔ چونکہ انسانوں اور جنوں سے ایمان بالغیب مطلوب ہے لہٰذا یہ عذاب ان سے مخفی رکھا گیا ہے۔ بہرحال اس تفصیل سے واضح ہوا کہ فرعونیوں کے لئے برزخی جسموں کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2 دوسری دلیل موصوف نے عمرو بن لحی الخزاعی کی بیان کی ہے جسے نبی ﷺ نے جہنم میں اپنی آنتیں کھینچتے ہوئے دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم میں عمرو کی روح کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے جس کا نظارہ نبی اکرم ﷺ کو کرایا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ روح کا اپنا بھی ایک جسم ہوتا ہے اور روح احساس رکھتی ہے اور عذاب کو محسوس کرتی ہے لہٰذا موصوف کا اس روایت سے برزخی جسم کشید کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح کی کوئی بھی وضاحت احادیث میں موجود نہیں ہے کہ جس سے ثابت ہوتا کہ جہنم میں روحوں کو برزخی اجسام دیئے جاتے ہیں۔ یہ صرف موصوف کا کمال ہے کہ اس نے حدیث کے ظاہر سے برزخی جسم ثابت کر دکھایا ہے۔ حالت موت میں روح اور جسم میں جدائی رہتی ہے اسی لئے اسے حالت موت کہتے ہیں اور روح کو جسم قیامت سے پہلے نہیں ملتا بلکہ قیامت کے دن ہی روح کو جسم دیا جائے گا اور روح کو اگر جسم مل جائے تو یہ کامل زندگی ہو جائے گی جس کا اہل اسلام میں سے کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۳) تیسری دلیل موصوف نے سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت کی پیش کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں ارض مقدس کی طرف لے جایا گیا۔ موصوف نے لکھا ہے: ’’اور مجھے باہر نکال کر ایک ارض مقدس کی طرف لے گئے‘‘۔ ارض مقدس سے مراد بیت المقدس ہے۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا ہے:
یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَــکُمْ (المائدۃ:۲۱)
’’اے میری قوم تم ارض مقدسہ میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے‘‘۔
صحیح بخاری میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی موت کے واقعہ میں ان کی دعا کے یہ الفاظ ہیں:
فسأل اللّٰہ ان یدنیہ من الارض المقدسۃ رمیۃ بحجر
پس موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اسے ارض مقدسہ کے قریب کر دے ایک پتھر پھینکنے کے فاصلہ تک۔ (بخاری کتاب الجنائز باب(۶۸) حدیث:۱۳۳۹)

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے:
باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ او نحوھا
جو شخص ارض مقدسہ میں یا اس جیسی جگہ میں دفن ہونا پسند کرے۔

قرآن و حدیث کی تصریحات سے ثابت ہوا کہ ارض مقدسہ سے مراد بیت المقدس کا علاقہ ہے لیکن موصوف نے حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے ارض مقدس کو نکرہ بنا دیا اور ارض مقدس کا ترجمہ ’’ایک ارض مقدس‘‘ کیا۔ گویا موصوف کے نزدیک ارض مقدس اور بھی ہیں۔اور ممکن ہے کہ موصوف کے نزدیک ارض مقدس سے برزخی ارض مقدس مراد ہو۔

اس تفصیلی حدیث میں کچھ لوگوں کو عذاب میں مبتلا ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کو دکھایا گیا اور عذاب کا یہ سلسلہ زمین سے شروع ہوا اور یہ ارواح کے عذاب کے مختلف مناظر تھے جس کے بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگ ان جرائم کا ارتکاب کرنے سے پرہیز کریں۔ لیکن موصوف نے اس حدیث سے برزخی اجسام اور برزخی قبریں ثابت کرنے کی سعی نامسعود کی ہے اور جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے ہیں اس لئے کہ اس حدیث میں کسی مقام پر بھی برزخی اجسام اور برزخی قبروں کے الفاظ ذکر نہیں کئے گئے ہیں۔بلکہ موصوف کا یہ طرز استدلال دین میں زبردستی اضافہ اور بے جا مداخلت ہے اور بس۔ صحیح بخاری میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوا۔ پس میں نے وہاں رمیصاء طلحہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کو دیکھا اور میں نے جوتیوں کی چاپ بھی سنی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ پس کہا گیا یہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب۶مناقب عمر بن الخطاب:۳۶۷۹) اور ایک روایت میں ہے کہ ’’میں نے رات کو تیری جوتیوں کی چاپ اے بلال! جنت میں اپنے سے آگے آگے سنی ہے۔ (بخاری:۱۱۴۹، مسلم:۶۳۲۴)۔ رمیصاء رضی اللہ عنہا اور بلال رضی اللہ عنہ اس وقت دنیا میں ہی موجود تھے لیکن آپ ﷺ نے انہیں جنت میں دیکھا۔ ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ راحت و عذاب کے جو مناظر آپ ﷺ کو خواب میں دکھائے گئے وہ ترغیب و ترہیب کے لئے تھے۔ اور ان کے بیان کا مقصد برزخی قبروں یا برزخی اجسام کے ثبوت فراہم کرنا نہیں تھا۔ بلکہ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے اور گناہوں کے بدانجام سے ڈرانا مقصود تھا۔

اس حدیث میں ہے کہ ’’وہ شخص جس کو آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کے گال پھاڑے جارہے ہیں وہ کذاب تھا، جھوٹی بات بیان کرتا تھا اور اس بات کو لوگ لے اُڑتے تھے یہاں تک کہ ہر طرف اس کا چرچا ہوتا تھا تو اس کے ساتھ آپ نے جو ہوتے دیکھا وہ قیامت تک ہوتا رہے گا اور جس کو آپ ﷺ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا ہے یہ وہ شخص تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا پھر وہ راتوں کو قرآن سے غافل سوتا رہا اور دن کو اس کے مطابق عمل نہ کیا۔ یہ عمل قیامت تک اس کے ساتھ ہوتا رہے گا۔ اور ایک روایت میں ہے: اس شخص نے قرآن حاصل کیا تھا پھر اسے چھوڑ دیا اور فرض نماز چھوڑ کر سو جاتا تھا (بخاری:۱۱۴۳) اور جن کو آپﷺ نے ثقب (تندور) میں دیکھا تھا وہ زناکار تھے اور جس کو آپ ﷺ نے دریا میں دیکھا وہ سود خور تھا۔ (بخاری:۱۳۸۶)۔

اس حدیث میں دینی احکامات پر عمل نہ کرنے والے کے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ سزائیں انہیں قیامت تک ملتی رہیں گی۔ اس حدیث سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان اشخاص کی ارواح کو جہنم میں عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا اور اسی طرح عذاب قبر کے سلسلہ میں بھی اس طرح کے الفاظ احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بینما رجل یجر ازارہ من الخیلاء خسف بہ فھو یتجلجل فی الارض الی یوم القیٰمۃ (بخاری:۳۴۸۵)
پہلے زمانے میں ایک شخص اپنی ازار کو تکبر سے لٹکائے چلا جا رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔

جلجلۃ زوردار آواز کو کہتے ہیں۔ فھو یتجلجل فی الارض الی یوم القیٰمۃ وہ قیامت تک زمین میں گھسٹتا اور دھنستا رہے گا۔ (لغات الحدیث ص ۷۳جلد اول حرف ج)۔

سیدنا ابوہریر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ایک شخص ایک (عمدہ قسم کا) جوڑا پہن کر اور بالوں میں کنگھی کر کے اتراتا جارہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (بخاری کتاب اللباس باب من جرثوبہ من الخیلاء (۵۷۸۹)

صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
وھو یتجلجل فی الارض حتی تقوم الساعۃ (مسلم کتاب اللباس باب تحریم التبختر فی المشی مع اعجابہ بثیابہ:۲۰۸۸)
اور وہ زمین میں دھنستا چلا جائے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے‘‘۔

زمین ہی چونکہ انسان کی قبر ہے لہٰذا اس شخص کا زمین میں دھنسنا اور پھر قیامت تک دھنستے چلے جانا بھی عذاب قبر کی زبردست دلیل ہے۔ نیز جلجلہ زور کی آواز کو کہتے ہیں لیکن پردئہ غیب کی وجہ سے یہ آواز انسان اور جن نہیں سکتے۔

روح جہنم میں عذاب سے دوچار ہوتی ہے اور سیدنا سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کے مناظر نبی ﷺ کو دکھائے گئے اور جسم کو قبر میں عذاب ہوتا ہے جس کا ذکر بہت سی احادیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے اور یہ حدیث بھی قبر کے عذاب میں نص قطعی ہے۔ اور یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا۔

(۲) سنن الترمذی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو عذاب قبر کی حدیث مروی ہے اس کے آخری الفاظ یہ ہیں:
فلا یزال فیھا معذبا حتی یبعثہ اللّٰہ من مضجعہ ذلک
’’پس وہ برابر عذاب دیا جاتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کی قبر سے (قیامت کے دن) اٹھائے گا‘‘ (سنن الترمذی کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر ۱۰۷۱)

(۳) بخاری و مسلم کی حدیث بھی گذر چکی ہے جس میں ہے کہ میت پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ (جنت یا جہنم) پیش کیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ جس میں اللہ تعالیٰ تجھے قیامت کے دن اٹھا کر اس میں داخل کر دے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۴) چوتھی دلیل موصوف نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے پیش کی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں: ارواحھم فی اجواف طیر حضر۔ ’’ان (شہدائ) کی روحیں اُڑنے والے سبز (اجسام) کے پیٹوں میں ہوتی ہیں۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شہدا کو پرندوں کے اجسام دے دیئے جاتے ہیں یا وہ پرندے بن جاتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ سبز اجسام انہیں سواری کے لئے دیئے جاتے ہیں جس سے وہ جنت کی سیر کرتے ہیں جیسا کہ اسی حدیث میں آگے اس کی وضاحت موجود ہے۔ ہوائی جہاز میں سفر کرنے والا اس کے پیٹ میں بیٹھتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انسان ہوائی جہاز بن جاتا ہے بلکہ ہوائی جہاز اس کی سیر و تفریح کا ایک ذریعہ ہوتا ہے اور جنت میں ایسے کئی ذرائع موجود ہوں گے۔ لغت عربی میں طیر کے الفاظ اُڑنے والی چیز کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ طار (باب ضرب) اڑنے کے معنی میں آتا ہے۔ تطیّر کے معنی کسی چیز کا ہوا میں اڑنا ہے۔ طیر کا لفظ عموما پرندے پر بولا جاتا ہے اس لئے کہ وہ اڑتا ہے ورنہ طیر کا مطلب ہر جگہ پرندہ نہیں ہے۔ ہوائی جہاز کو بھی عربی میں طائر یا طیارہ کہتے ہیں۔ سنن ابن ماجہ میں اس روایت کے الفاظ یوں ہیں: ارواحھم کطیر خضر ان کی ارواح گویا جیسے سبز طیر ہوتے ہیں۔ (کتاب الجہاد باب۱۶فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ ۲۸۰۱) نیز ملاحظہ فرمائیں: السنن الکبری للبیھقی (۹/۱۶۳)، مجمع الزوائد (۶/۳۲۸) و قال الھیثمی: رواہ الطبرانی ورجالہ رجال الصحیح۔

اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ شہداء کو اُڑنے والے اجسام یا پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے نہ کہ انسان کو پرندہ بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ یوم الست میں جب آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا گیا تو کانھم الذر گویا وہ چیونٹیوں کی طرح تھے۔ ملاحظہ فرمائیں: مسند احمد (۶/۴۴۱) و قال الحافظ زبیر علی زئی: اسناہ صحیح (اضواء المصابیح تحقیق و تخریج مشکوٰۃ المصابیح (حدیث نمبر۱۱۹) ا ور دوسری روایت میں کالذر کے الفاظ آئے ہیں۔ (مسند احمد:۱/۲۷۲) و قال الھیثمی: رواہ احمد و رجالہ رجال الصحیح (۷/۱۸۸) مشکوۃ المصابیح باب الایمان بالقدر) اس حدیث میں ارواح کو چیونٹیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

اس حدیث کے آخری حصہ سے واضح ہوتا ہے کہ جنت میں شہداء کی روحیں بغیر جسم کے ہوتی ہیں، چنانچہ اللہ رب العالمین ان پر جھانکتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم کو کس چیز کی خواہش ہے۔ المختصر یہ کہ وہ کہتے ہیں:
یارب نرید ان ترد ارواحنا فی اجسادنا حتی نقتل فی سبیلک مرۃ اخری
اے ہمارے رب ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دے یہاں تک کہ ہم دوسری مرتبہ تیری راہ میں قتل ہو جائیں۔

اس وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ ارواح یہ مطالبہ اور درخواست کر رہی ہیں کہ انہیں ان کے اجسام میں دوبارہ لوٹا دیا جائے۔ اگر ان کے نئے اور برزخی جسم ہوتے تو وہ کبھی بھی اس طرح کا مطالبہ نہ کرتیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(۵) موصوف نے پانچویں دلیل رسول اللہ ﷺ کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی پیش کی ہے کہ ان کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے لیکن جیسا کہ واضح کیا گیا ہے کہ قیاس سے کوئی چیز ثابت نہیں کی جا سکتی بلکہ ایسا قیاس، قیاس مع الفارق ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور دین میں ایسا اضافہ ناقابل قبول ہے۔ نبی ﷺ کا اِرشاد ہے:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد (بخاری:۲۶۹۷، مسلم)
جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں موجود نہ تھی تو وہ قابل ردّ ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے معراج میں بعض انبیاء کرام علیہم السلام السلام کو دیکھا مثلاً آدم، ابراہیم، موسی، یونس، عیسیٰ علیہم السلام وغیرھم کو دیکھا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے لیکن ان کی بھی آپ ﷺ نے زیارت کی بلکہ آپ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا۔ (مسلم)۔ اسی طرح آپ نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا کہ جو آگ کی قینچیوں سے اپنے ہونٹوں کو کاٹ رہے تھے اور جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ آپ کی اُمت کے خطیب ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے لیکن اپنی جانوں کو بھلا دیتے تھے۔ (مسند احمد مع الموسوعہ ج۲۱، حدیث ۱۳۵۱۵) مشکاۃ المصابیح باب الامر بالمعروف۔ یہ حدیث موصوف نے بھی ’’اتقوا اللہ‘‘ میں نقل کی تھی۔ آپ نے جن خطیبوں کو جہنم میں دیکھا وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوتے تھے جس سے ثابت ہوتا کہ اس طرح کے واقعات لوگوں کی ترغیب و ترہیب کے لئے ہوتے ہیں تاکہ لوگ بداعمالی سے باز آجائیں۔ اور اس طرح کی روایت سے برزخی اجسام کا ثبوت آج تک کسی نے پیش نہیں کیا۔ ڈاکٹر موصوف نے برزخی اجسام کے ثبوت کے لئے جس قدر کاوش کی ہے اور جتنی روایات بھی اس سلسلے میں پیش کی ہیں ان میں سے کسی ایک سے بھی برزخی جسم کا واضح ثبوت وہ پیش نہیں کر سکے اور نہ ہی برزخی جسم کا کوئی لفظ ہی وہ کسی روایت سے ثابت کر پائے ہیں۔ اور پھر برزخی اجسام میں ارواح کے ڈالے جانے کا دعویٰ بھی وہ ثابت نہیں کر سکے ہیں۔ بلکہ ان احادیث کو پیش کر کے موصوف نے دھوکا دینے کی زبردست کوشش کی ہے۔ جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اگرچہ اُنہوں نے فن دینداری کے زبردست حربے استعمال کئے تھے لیکن انہیں مکمل ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اُس کا ہر حربہ ناکام بنا دیا۔ ان اللّٰہ سیبطلہ ان اللّٰہ لا یصلح عمل المفسدین۔ (یونس:۸۱) البتہ برزخی اجسام کا ثبوت اُن کے استاذ مرزا قادیانی کی عبارت ہے اور اس فلسفہ کو موصوف نے قرآن و حدیث کا نام دے ڈالا۔ اور اپنے استاد کے نام کو انہوں نے پردئہ اخفاء میں رکھے رکھا۔ سبحانک ھٰذا بھتان عظیم۔ وھذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عذاب قبر کی کیفیت

موت کے وقت ملک الموت روح کو قبض کر لیتے ہیں (السجدہ:۱۸) اور جسم اور روح میں جدائی واقع ہو جاتی ہے اور یہ جدائی قیامت تک رہتی ہے۔ قبرکے سوال و جواب کے بعد روح جنت یا جہنم میں داخل کر دی جاتی ہے اور میت قبر میں ہوتی ہے روح کو جو عذاب ہوتا ہے اسے عذاب جہنم کہتے ہیں اور میت (جسم) کو قبر میں جو عذاب ہوتا ہے اسے عذاب قبر کہتے ہیں اور نبی ﷺ نے ان دونوں عذابوں یعنی عذاب جہنم اور عذابِ قبر کو کو الگ الگ بتایا ہے اور اُمت کو نماز کے آخر میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے (مسلم) اور آپ بھی ہمیشہ نماز کے آخر میں ان چیزوں سے پناہ مانگا کرتے تھے (بخاری)

عذاب قبر قیامت تک جاری رہے گا لیکن موصوف نے عذاب قبر کو سمجھنے میں زبردست ٹھوکر کھائی ہے اور عذاب جہنم والی احادیث کو ذکر کر کے اسے ہی عذاب قبر قرار دے ڈالا اور اصل عذاب قبر کا صاف انکار کر دیا اور جنت اور جہنم کو برزخی قبریں قرار دے دیا۔ فاعتبروا یااولی الابصار۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ڈاکٹر موصوف کا سفید جھوٹ

ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں: ’’دوسرے حضرات اس بات پر مصر ہیں کہ ہر مرنے والے کی رُوح اسی دنیاوی جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور یہی جسم قبر میں پھر زندہ ہو جاتا ہے اور برابر زندہ رہتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ مردہ کا جسم ریزہ ریزہ ہو جائے یا آگ اسے جلا کر خاکستر کر دے تو جلا دیا جانے والا کافر تو عذاب سے بچ گیا۔ اس کے دونوں کانوں کے درمیان گرز کیسے مارا جائے گا اور عذاب کا دَور اس پر کیسے گذرے گا تو اللہ کی قدرت اور اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَئٍی قَدِیْرٌ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سبحان اللّٰہ اللہ کی قدرت سے کس کو انکار ہے لیکن قدرت کے ساتھ ساتھ اللہ کی ایک نہ بدلنے والے سنت بھی تو ہے۔ اس کو نظر انداز کر دینا بھی تو اچھا نہیں۔

قرآن و بخاری و مسلم کی احادیث نبوی کے فیصلہ کے برخلاف اب جو یہ کہا جانے لگا ہے کہ رُوح نکلنے کے بعد اسی دُنیاوی قبر کے مردے میں واپس لوٹا دی جاتی ہے اور یہ مردہ زندہ ہو جاتا ہے۔ دیکھنے اور سننے لگتا ہے۔ اور اس قبر میں اس زندہ ہو جانے والے مردے پر عذاب اور راحت کا پورا دَور قیامت تک گزرے گا۔ (عذاب برزخ ص:۱۰)۔

موصوف نے یہ بالکل سفید جھوٹ کہا ہے اس لئے کہ قرآن و بخاری و مسلم میں میت کے عذاب کا ذکر آیا ہے۔ میت راحت و آرام یا عذاب کو محسوس کرتی ہے۔ عذاب سے چیختی چلاتی بھی ہے (بخاری) اور قبر میں سوال و جواب کے وقت اعادہ روح بھی ہوتا ہے (ابوداوٗد، مسند احمد) کیونکہ یہ انتہائی اہم سوالات ہوتے ہیں کہ جن پر میت کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے اس لئے اس اہم موقع پر روح کو بھی حاضر کیا جاتا ہے لیکن روح کے اعادہ کے باوجود مرنے والا میت ہی ہوتا ہے اس لئے کہ دو زندگیاں یعنی دنیاوی زندگی اس کی ختم ہو چکی ہے اور قیامت کے دن کی زندگی ابھی شروع نہیں ہوئی اور انسان اس وقت حالت موت میں ہوتا ہے یعنی میت ہوتا ہے۔ روح کے اعادہ سے زندگی ثابت نہیں ہوتی جس طرح دنیا میں سوتے وقت روزانہ انسان پر موت طاری ہو جاتی ہے اور اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے اور جاگنے پر پھر اعادہ روح ہو جاتا ہے۔ (دیکھئے: سورۃ الزمر آیت ۴۲اور اس آیت کی تفسیر بخاری:۶۳۲۰) اور انسان جاگ جاتا ہے، لیکن اس سے کئی زندگیاں ثابت نہیں ہوتیں۔ دنیاوی زندگی میں روزانہ اعادہ روح کے باوجود بھی کئی زندگیاں اور کئی موتیں ثابت نہیں ہوتیں بلکہ اسے ایک ہی زندگی کہا جاتا ہے۔ موت کے بعد میت کی طرف سوال و جواب کے لئے اعادہ روح ہوتا ہے تو اس سے بھی زندگی ثابت نہیں ہوتی بلکہ میت بدستور میت ہی رہتی ہے۔

قرآن و حدیث میں عذاب قبر اور میت کے متعلق جو کچھ بیان ہوا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی نہ بدلنے والی سنت ہے لیکن موصوف کا خیال ہے کہ اس کے خود ساختہ اور من گھڑت نظریات اللہ تعالیٰ کی نہ بدلنے والی سنت ہے۔ ویا للعجب۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تناسخ کیا ہے؟

وارث سرہندی صاحب لکھتے ہیں: تناسخ: روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں آنا۔ (ہندوؤں کے عقیدہ کے مطابق) بار بار جنم لینا، جون بدلنا، چولا بدلنا، آواگون۔ (جامع علمی اردو لغت ص۴۶۹) نیز ملاحظہ فرمائیں: رابعہ اردو لغت جدید ص:۲۶۰۔

سید قاسم محمود صاحب تناسخ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آواگون! جون بدلنا بقول مولانا اشرف علی تھانوی ایک بدن سے دوسرے بدن کی طرف نفس ناطقہ کا انتقال۔

ہندوستان میں اس اعتقاد کے لوگ عام ہیں۔ بقول البیرونی ’’جس طرح شہادت بہ کلمہ اخلاص مسلمانوں کے ایمان کا شعار ہے، تثلیث علامت نصرانیت ہے اور سبت منانا علامت یہودیت اسی طرح تناسخ ہندو مذہب کی نمایاں علامت ہے‘‘۔ موصوف مزید لکھتے ہیں: ’’عقیدہ تناسخ روح کے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کے معنی میں متعدد شیعی فرقوں میں بھی پایا جاتا ہے‘‘۔ موصوف آخر میں لکھتے ہیں: ’’تناسخ کا عقیدہ ہندومت اور مسلمانوں کے علاوہ بدھ مت، قدیم یونانیوں اور دنیا کے دیگر مذاہب و اقوام کے ہاں بھی پایا جاتاہے۔ اسلام کی صحیح تعلیمات اس عقیدے کی مخالف ہیں اور واضح طور پر اس کی تردید کرتی ہیں‘‘۔ (شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص۵۳۴)

برزخی قبر کی طرح تناسخ کا عقیدہ بھی ہندوؤں کے علاوہ متصوفین یا مسلمانوں کے بعض فرقوں شیعہ وغیرہ میں پایا جاتا ہے اور وہاں سے ڈاکٹر موصوف نے اس عقیدہ کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا فاعتبروا یا اولی الابصار۔
 
Top