- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
آگے موصوف نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی تفصیلی روایت ذکر کی ہے جس میں بعض عذابوں کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ کو جنت کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ موصوف آگے لکھتے ہیں:
اس طرح امام بخاری نے ثابت کر دکھایا کہ وفات کے بعد نبی ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اچھے گھر میں زندہ ہیں۔ بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں:
(۱) روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے اور رُوح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دَور گذرتا ہے۔
(۲) اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔
(۳) یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے۔
(۴) دُنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں اُن کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔
(۵) نیکوکار مرنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے۔
(۶) شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے جسم سبز رنگ کے اور اُڑنے والے ہوتے ہیں۔ مسلم کی حدیث کے مطابق ان کے جسم۔
ترجمہ … مسروق رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن کی اس آیت ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللّٰہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شہداء کی روحین سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور اُن کے لئے قندیلیں عرشِ الٰہی سے لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ انکی طرف اُنکے رب نے جھانکا اور اِرشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہداء نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہداء نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے اُن کا رب اُن کو برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا کہ مالک ہماری تمنا یہ ہے کہ ہماری رُوحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب کہ مالک نے دیکھ لیا کہ اُنہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے تو پھر اُن سے پوچھنا چھوڑ دیا۔ (ترجمہ عبارت صفحہ ۱۳۵۔۱۳۶۔ مسلم جلد ۲۔ مطبوعہ دہلی)۔
امام مسلم نے یہ حدیث لا کر بہت سی باتیں بیان کر دیں۔ شہید کو نیا اُڑنے والا جسم ملتا ہے جس میں اُس کی روح ڈال دی جاتی ہے اور وہ اس جسم کے ساتھ جنت کے مزوں میں خوش و خرم رہتا ہے۔
شہید کا مالک اپنے عرش کے اُوپر سے اس پر التفاتِ خسروانہ فرمانے کے بعد گفتگو بھی کرتا ہے اور اپنی خواہشات اور تمناؤں کے اظہار پر اصرار بھی، مگر جب وہ یہ آرزو کرتا ہے کہ اُس کی رُوح کو اُس کے دنیاوی جسم میں واپس لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اس کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت مندی حاصل کرے تو اس کا مالک اپنی سنت کو نہیں بدلتا اور اُس کی اِس خواہش کو بھی پورا نہیں کرتا جس کے اظہار کا خود اُس نے اس سے باربار تقاضا کیا تھا۔
موصوف آگے مزید لکھتے ہیں:
اب ان دلائل کے بعد کہ نبی ﷺ اور شہداء اپنی دُنیاوی قبر میں زندہ نہیں بلکہ عرشِ الٰہی کے نیچے اپنے بہترین گھروں میں زندہ ہیں یہ کہا جانے لگتا ہے کہ نبی ﷺ اور شہداء کی بات ہی اور ہے کسی اور کی زندگی کو جنت میں ثابت کیا جائے۔ اِس بات کے ثبوت میں بخاری رحمہ اللہ نبی ﷺ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا واقعہ لائے ہیں:
حدثنا ابو الولید قال حدثنا شعبۃ عن عدی بن ثابت ان سمع البرآء بن عازب قال لما توفی ابراھیم قال رسول اللّٰہ ﷺ ان لہ مرضعا فی الجنۃ (بخاری جلد۱، ص۱۸۴مطبوعہ دہلی)
ترجمہ: البراء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اُس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے۔ (بخاری جلد۱صفحہ ۱۸۴، مطبوعہ دہلی)۔
اس حدیث سے ابراہیم کا جنت میں موجود ہونا اور ایسے جسم کے ساتھ جو چھاتی سے دودھ کھینچ سکے اسی طرح ثابت ہوا جیسے گزری ہوئی بخاری کی حدیث سے یہ ثابت ہوا تھا کہ عمرو بن لحی الخزاعی جہنم میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا تھا۔ یہ نہیں کہ دنیاوی قبر کے اندر دودھ پلانے والی مہیا کر دی گئی ہے۔ (عذاب برزخ ص۳، ۶، ۷، ۹)۔
اس طرح امام بخاری نے ثابت کر دکھایا کہ وفات کے بعد نبی ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اچھے گھر میں زندہ ہیں۔ بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں:
(۱) روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے اور رُوح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دَور گذرتا ہے۔
(۲) اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔
(۳) یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے۔
(۴) دُنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں اُن کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔
(۵) نیکوکار مرنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے۔
(۶) شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے جسم سبز رنگ کے اور اُڑنے والے ہوتے ہیں۔ مسلم کی حدیث کے مطابق ان کے جسم۔
ترجمہ … مسروق رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن کی اس آیت ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللّٰہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شہداء کی روحین سبز اُڑنے والے قالبوں میں ہیں اور اُن کے لئے قندیلیں عرشِ الٰہی سے لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ جنت میں جہاں چاہیں گھومتے پھرتے ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ انکی طرف اُنکے رب نے جھانکا اور اِرشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی تمہیں خواہش ہے؟ شہداء نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں، جب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہداء نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی خواہش کا اظہار نہ کریں گے اُن کا رب اُن کو برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا کہ مالک ہماری تمنا یہ ہے کہ ہماری رُوحوں کو پھر ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بار تیری راہ میں شہید کئے جائیں۔ اب کہ مالک نے دیکھ لیا کہ اُنہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے تو پھر اُن سے پوچھنا چھوڑ دیا۔ (ترجمہ عبارت صفحہ ۱۳۵۔۱۳۶۔ مسلم جلد ۲۔ مطبوعہ دہلی)۔
امام مسلم نے یہ حدیث لا کر بہت سی باتیں بیان کر دیں۔ شہید کو نیا اُڑنے والا جسم ملتا ہے جس میں اُس کی روح ڈال دی جاتی ہے اور وہ اس جسم کے ساتھ جنت کے مزوں میں خوش و خرم رہتا ہے۔
شہید کا مالک اپنے عرش کے اُوپر سے اس پر التفاتِ خسروانہ فرمانے کے بعد گفتگو بھی کرتا ہے اور اپنی خواہشات اور تمناؤں کے اظہار پر اصرار بھی، مگر جب وہ یہ آرزو کرتا ہے کہ اُس کی رُوح کو اُس کے دنیاوی جسم میں واپس لوٹا دیا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر اس کی راہ میں جہاد کر کے شہادت کی سعادت مندی حاصل کرے تو اس کا مالک اپنی سنت کو نہیں بدلتا اور اُس کی اِس خواہش کو بھی پورا نہیں کرتا جس کے اظہار کا خود اُس نے اس سے باربار تقاضا کیا تھا۔
موصوف آگے مزید لکھتے ہیں:
اب ان دلائل کے بعد کہ نبی ﷺ اور شہداء اپنی دُنیاوی قبر میں زندہ نہیں بلکہ عرشِ الٰہی کے نیچے اپنے بہترین گھروں میں زندہ ہیں یہ کہا جانے لگتا ہے کہ نبی ﷺ اور شہداء کی بات ہی اور ہے کسی اور کی زندگی کو جنت میں ثابت کیا جائے۔ اِس بات کے ثبوت میں بخاری رحمہ اللہ نبی ﷺ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کا واقعہ لائے ہیں:
حدثنا ابو الولید قال حدثنا شعبۃ عن عدی بن ثابت ان سمع البرآء بن عازب قال لما توفی ابراھیم قال رسول اللّٰہ ﷺ ان لہ مرضعا فی الجنۃ (بخاری جلد۱، ص۱۸۴مطبوعہ دہلی)
ترجمہ: البراء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اُس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے۔ (بخاری جلد۱صفحہ ۱۸۴، مطبوعہ دہلی)۔
اس حدیث سے ابراہیم کا جنت میں موجود ہونا اور ایسے جسم کے ساتھ جو چھاتی سے دودھ کھینچ سکے اسی طرح ثابت ہوا جیسے گزری ہوئی بخاری کی حدیث سے یہ ثابت ہوا تھا کہ عمرو بن لحی الخزاعی جہنم میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا تھا۔ یہ نہیں کہ دنیاوی قبر کے اندر دودھ پلانے والی مہیا کر دی گئی ہے۔ (عذاب برزخ ص۳، ۶، ۷، ۹)۔