ایک زبردست مغالطہ
برزخی قبر کو ثابت کرنے کے لئے ایک صحیح حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے:
اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
انما مر رسول اللّٰہ ﷺ علی یھودیۃ یبکی علیھا اھلھا فقال انھم یبکون علیھا و انھا لتعذب فی قبرھا (بخاری:۱۲۸۹۔ مسلم:۹۳۲)
رسول اللہ ﷺ ایک یہودیہ پر سے گزرے اس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر موصوف نے اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی ﷺ ایک یہودی ـ(عورت) پر گذرے (قبر پر نہیں) اس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ اس (یہودیہ) پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ بخاری ص ۱۷۲جلد۱اور مسلم میں یہ واقعہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک یہودی کا جنازہ گذرا اور لوگ اس یہودی کے اوپر رو رہے تھے پس نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں اور اسے عذاب ہو رہا ہے۔ (مسلم عربی ص۳۰۳جلد۱)۔
بخاری کی اس حدیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ وہ یہودی عورت ابھی زمین کی قبر میں دفن بھی نہیں کی گئی تھی زمین کے اوپر تھی اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس یہودی عورت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں قبر سے مراد برزخی قبر ہے دنیاوی نہیں۔ اور یہی بات مسلم کی حدیث بھی ثابت کرتی ہے۔‘‘ (عذاب برزخ ص۱۶)۔
الجواب: باطل فرقوں کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ دلائل کے بجائے مغالطوں اور دھوکا دہی سے کام لیتے ہیں اور فراڈ کے ذریعے اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف اس حدیث کو ذکر کرکے اس سے برزخی قبر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک یہودی (عورت) پر گذرے۔ بریکٹ میں لکھتے ہیں (قبر پر نہیں) یعنی حدیث لکھنے میں بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور دھوکا دینا چاہتے ہیں اور شروع شروع میں موصوف نے اس حدیث پر اسٹیکر بھی شائع کیا تھا کہ عذاب ارضی قبر میں نہیں بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے اور جب ان کی گرفت کی گئی تو سارے اسٹیکر غائب ہو گئے۔ اس حدیث کا سیاق کیا ہے اور ڈاکٹر موصوف اس سے کیا مسئلہ ثابت کرنے کے درپے ہے اور پھر یہ اصول ہے کہ ایک حدیث کی وضاحت دوسری حدیث کرتی ہے۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے جس پس منظر میں یہ بات بیان کی ہے اسے محدثین نے مختلف سندوں سے ذکر کیا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے جواب میں بیان کی تھی:
ان المیت لیعذب فی قبرہ ببکائِ اھلہ (علیہ) (بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل:۳۹۷۸۔ مسلم ۹۳۲)
’’بیشک البتہ میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اس کے اہل کے اس پر رونے کے سبب سے‘‘۔
اس حدیث میں میت اور قبر دونوں الفاظ موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کو اسکی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا انکار نہیں کیا بلکہ انکا موقف یہ تھا کہ نوحہ کی وجہ سے مومن کو عذاب نہیں ہوتا بلکہ کافر کے عذاب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ لَیَزِیْدُ الْکَافِرَ عَذَابًا بِبُکَائِ اَھْلِہٖ عَلَیْہِ
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب میں زیادتی کر دیتا ہے، اس کے گھر والوں کے اُس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے۔ (دیکھئے بخاری:۱۲۸۸) ۔
اور دوسری روایت میں انہوں نے ذکر کیا کہ دراصل یہ بات نبی ﷺ نے یہودیہ کے متعلق فرمائی تھی۔ ایک اور روایت میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ الفاظ مروی ہیں:
انما مر النبی ﷺ علی قبر فقال ان صاحب ھذا لیعذب و اھلہ یبکون علیہ (مسند احمد ۲/۳۸، ابوداود مع عون المعبود ۳/۱۶۳، النسائی ۱/۲۶۲)
’’رسول اللہ ﷺ ایک قبر پر سے گذرے پس فرمایا کہ بے شک اس صاحب (قبر) کو عذاب دیا جارہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں‘‘۔
اس حدیث کے اور طریق بھی موجود ہیں جو ڈاکٹر موصوف کے جھوٹ کا پول کھولنے کے لئے کافی و شافی ہیں اور جس کا ذکر ہم نے اپنی مفصل کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔ اور صحیح بخاری کی اس روایت کو بھی اگر غور سے پڑھا جائے تو اس میں بھی قبر کے الفاظ موجود ہیں چنانچہ الفاظ یہ ہیں:
فقال انھم یبکون علیھا و انھا لتعذب فی قبرھا (بخاری:۱۲۸۹)
’’پس آپ نے فرمایا کہ بے شک یہ اس پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے‘‘۔
حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے الفاظ یہیں سے شروع ہو رہے ہیں اور آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ یہ اس پر رو رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ الفاظ خود واضح کر رہے ہیں وہ عورت دفن ہو چکی تھی۔ اسی لئے تو رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے واضح الفاظ ارشاد فرمائے ہیں۔ یعنی ’’یہ اس یہودیہ پر رو رہے ہیں جبکہ اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے‘‘۔ اتنی صاف اور واضح بات ہونے کے باوجود بھی ڈاکٹر موصوف نے یہاں دھوکا دینے کی زبردست کوشش کی ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ ’’چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘۔ حدیث میں یہ الفاظ کہ آپﷺ ایک یہودیہ پر گزرے اب ان الفاظ کا کبھی تو یہ ترجمہ کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ ایک یہودیہ کی لاش پر سے گزرے۔ یا آپ ﷺ ایک یہودیہ پر گزرے۔ اصل میں ڈاکٹر موصوف کو یہ کاوشیں اس لئے کرنا پڑیں کہ وہ برزخ میں قبر کا وجود ثابت کرنا چاہتے تھے اور اس حدیث کے بیان کرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ قرآن و حدیث کے کسی ماخذ سے برزخ میں قبر کا ثبوت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اگر برزخ میں پہلے قبر کا وجود ثابت کیا جاتا اور پھر ڈاکٹر موصوف اس روایت سے اس طرح کا استدلال کرتے تو اس کے استدلال میں کچھ وزن ہوتا۔ اور جب یہ بات سرے سے موجود ہی نہیں تو پھر اس سے اس طرح کااستدلال بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔
اذا لیس فلیس۔ اسی لئے کسی نے کہا ہے
ثَبِّتِ الْعَرْشَ ثُمَّ انْقُشْ پہلے عرش ثابت کیجئے پھر اس پر نقش و نگار کی بات کیجئے۔