• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عقیدئہ عذاب القبر اور منکرین حدیث

عذاب القبر کا عقیدہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ ہے، ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا انکار گویا قرآن کریم ہی کا انکار ہے۔ کوئی شخص اگر سورج کے وجود کا انکار کر دے تو اس کی عقل پر صرف ماتم ہی کیاجا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عذاب قبر کے ثبوت کے لئے احادیث اس کثرت سے مروی ہیں کہ جن کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ احادیث متواترہ کا انکار کفر و الحاد کی راہ کے علاوہ انسان کو کسی دوسرے راستے کی طرف نہیں لے جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عقیدہ کا انکار ہمیشہ باطل پرستوں ہی نے کیا ہے۔ اور صحیح العقیدہ اہل العلم نے ہر دور میں ایسے باطل پرستوں کا مقابلہ کیا ہے اور انہیں ہزیمت سے دوچار کیا ہے۔ ذلت و رسوائی ہر دور میں ایسے لوگوں کا مقدر بنی ہے۔
فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّالْعَذَابِ وَمَااللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (البقرۃ:۸۵)
واضح رہے کہ عذاب قبر کے عقیدہ کا اثبات اہل سنت و جماعت کے علماء نے ہر دور میں کیا ہے چنانچہ اس سلسلہ میں بعض علماء کرام کی تصریحات مقدمہ میں ملاحظہ فرمائیں۔

موجودہ دور میں بعض فرقوں نے عذاب قبر کا انکار انتہائی کثرت سے کیا ہے اور اس سلسلہ میں مفت کتابیں شائع کر کے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی زبردست کوشش کی جارہی ہے ان فرقوں میں سے ایک فرقہ نے قیامت سے پہلے کسی قسم کے عذاب کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، اس کا نکتہ نظر یہ ہے کہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بعد ہی جزاء و سزا کا سلسلہ قائم ہو گا اور قیامت سے پہلے کسی قسم کا کوئی عذاب و ثواب انسان کو نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلہ میں اس فرقہ نے ایک کتابچہ ’’عذاب قبر قرآن و حدث کی روشنی میں ایک مکمل جائزہ‘‘ شائع کیا ہے۔ یہ کتابچہ انجمن احباب کراچی کا شائع کردہ ہے جس میں ’’آپ کا ایک خیر خواہ بھائی‘‘ کا تعاون بھی شامل ہے اور یہ کسی محمد فاضل کا لکھا ہوا ہے۔ موصوف عذاب قبر کے سلسلہ میں اپنی رائے کا یوں اظہار فرماتے ہیں:

’’عذاب قبر یا برزخ کا معاملہ ایسے عقائد ہیں جن کا قرآن میں ادنی سا اشارہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ باربار حشر کے دن فیصلہ کئے جانے کے بعد بدلہ دیئے جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لئے عذاب قبر کی ہر بات چاہے وہ کسی کی بھی ہو خود بخود جھوٹ غلط ثابت ہو جاتی ہے ایسے غلط جھوٹ بات کا ماننا دراصل قرآن کو غلط و جھوٹ قرار دینے کے ہم معنی ہے۔ (عذاب قبر صفحہ:۱۰)۔

اس عبارت کو پڑھیں اور موصوف کی جہالت کا اندازہ لگائیں۔ دراصل یہ منکرین حدیث ناظرہ قرآن کریم بھی پڑھے ہوئے نہیں ہوتے اور صرف اردو ترجمہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پوری کتاب موصوف کی جہالت کا شاہکار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عذاب قبر مرنے کے بعد اور قیامت قائم ہونے سے پہلے ہوتا ہے

قیامت سے پہلے عذاب کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات سے ثابت ہے چنانچہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے خطاب فرماتا ہے:
وَ لَوْ لَآ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْھِمْ شَیْئًا قَلِیْلاً اِذًا لَّااَذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا (سورئہ بنی اسرائیل:۷۴۔۷۵)
اور اگر ہم تمہیں مضبوط نہ رکھتے تو قریب تھا کہ تم بھی ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھک جاتے لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں زندگی میں بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے اور موت میں بھی دوہرے عذاب کا مزہ چکھاتے اور پھر ہمارے مقابلے میں تم کوئی مددگار نہ پاتے۔

حیات کا الٹ اور متضاد ممات ہے۔ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زندگی میں بھی اور حالت موت میں بھی عذاب کا ذکر فرمایا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ حالت موت میں بھی عذاب کا ہونا بالکل ممکن ہے اور حق ہے۔ موصوف کے جھٹلانے اور انکار کرنے سے یہ اٹل حقیقت بدل نہیں سکتی۔ موصوف کو قرآن کریم میں عذاب قبر کا ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں مل سکا اس لیے کہ وہ خود بھی جاہل مطلق ہے اور کسی جاہل استاد کا شاگرد ہے۔ اگر اس نے قرآن کریم کسی متبع سنت عالم سے پڑھا ہوتا تو وہ کبھی بھی ایسی الٹی سیدھی نہ ہانکتا لیکن اس کی عبارت پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف قرآن کریم کی راہ سے بھی بہت بھٹک چکا ہے اور گمراہی کے کسی عمیق غار میں جاپڑا ہے۔ افسوس کہ ایسے لوگ جو ابلیس کے ایجنٹ بن چکے ہیں اور خود تو گمراہ ہو چکے ہیں لیکن وہ اہل اسلام کو بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور قرآن و حدیث کی صاف ستھری شاہراہ سے انہیں ہٹانا چاہتے ہیں۔ سوچئے کہ ایسے لوگوں کو ان کی اس جدوجہد کا کیا صلہ ملے گا؟ صرف چند روزہ زندگی میں کچھ مال و دولت اور کوئی عہدہ لیکن اس کے بعد پھر جہنم کا ابدی عذاب ان لوگوں کا مقدر بنے گا۔ افسوس صد افسوس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دوسری آیت
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰاتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔

موصوف نے اس آیت میں تحریف معنوی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ الیوم کا لفظ قیامت اور حشر کے لیے متعدد جگہ استعمال ہوا ہے (ص:۱۸) حالانکہ یہاں عین موت کے وقت عذاب کا ذکر ہو رہا ہے اور قبض روح کے وقت کو الیوم سے تعبیر کیا جا رہا ہے کہ آج قبض روح کے دن تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ یعنی گویا اب آج سے عذاب کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کاش کہ تو ان ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھتا جبکہ فرشتوں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور وہ مارپیٹ کر رہے ہوں گے۔ یہ محاورہ (باسطوا ایدیھم) مارپیٹ سے ہے جیسے ہابیل کابیل کے قصے (سورئہ مائدہ:۲۸) میں ہے۔
لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ
’’اور اگر تو نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ تو مجھے قتل کر دے تو بھی میں تمہاری طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا‘‘۔ (المائدہ:۲۸)۔

اور سورئہ الممتحنہ آیت نمبر ۲میں ہے:
وَّ یَبْسُطُوْآ اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھُمْ وَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالسُّوْٓئِ وَ وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ
’’اور ایذا رسانی کے لئے تم پر اپنے ہاتھ بھی بڑھائیں اور زبانیں بھی اور وہ چاہتے ہیں کہ کاش تم بھی کافر بن جاؤ‘‘۔ (الممتحنہ:۲)۔

ضحاک اور ابو صالح نے بھی یہی تفسیر کی ہے۔
خود قرآن کی سورئہ انفال، آیت نمبر ۵۰میں ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ
’’کاش کہ تم دیکھ سکتے کہ جب فرشتے ان لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے وہ ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں اب چکھو آگ کے عذاب کا مزا‘‘۔ (الانفال:۵۰)۔

نیز سورئہ محمد ﷺ آیت نمبر۲۷میں فرمایا:
فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ
’’پھر کیسا (حال ہو گا ان کا) جب فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے ان کی روحیں قبض کریں گے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ یہ عذاب قبض روح کے وقت ہوتا ہے اور موصوف قیامت کے دن کی آیات کو درمیان میں لا کر اس مسئلہ کو الجھانا چاہتے ہیں۔ موصوف کو غالباً یوم اور الیوم میں فرق بھی معلوم نہیں ہے۔ الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ:۳) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے‘‘۔ کیا اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ قیامت کے دن یہ دین مکمل ہو گا؟ بہرحال یہ جہالت کی بھی انتہا ہے اور جھوٹ کی بھی۔ کیونکہ موصوف نے قیامت سے پہلے عذاب کو جھوٹ قرار دیا تھا۔ اب جو شخص اللہ پر جھوٹ بات کہے یا جھوٹا بہتان باندھے اس کا صلہ کیا ہو گا؟
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰٰیتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ (الانعام:۲۱)
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ یقینا ظالم فلاح نہیں پاتے۔

دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ (النحل:۱۰۵)
’’جھوٹ تو صرف وہی لوگ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں‘‘۔

اس سلسلے کی مزید آیات کے لئے ملاحظہ فرمائیں: سورۃ المومن:۴۵۔۴۶۔اور سورئہ طٰہٰ:۱۲۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یوم اَلست میں ذریت آدم کے جسموں کا مسئلہ

موصوف یوم اَلست کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ اقرار روحوں سے نہیں بلکہ ذریت آدم (آدم کی اولاد یعنی جسم و جان کے مرکب) سے لیا گیا‘‘۔ (ایضاً۔صفحہ:۱۱)۔

دنیا میں آنے سے پہلے اجسام پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، صرف روحیں موجود تھیں لیکن موصوف نے ان روحوں کو جسم و جان بھی عنایت کر دیئے۔ اور اس کی کوئی دلیل بھی موصوف نے پیش نہیں کی اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ دیا۔ سبحان اللّٰہ ھذا بھتان عظیم۔

گویا موصوف کے فرمان کو تسلیم کرنا ہی درست بات ہے چاہے اس کی کوئی بھی دلیل موجود نہ ہو۔ ویاللعجب۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
درمیانی زندگی کا تصور؟

موصوف حاشیہ میں لکھتا ہے: ’’موت کے بعد کوئی زندگی نہیں بلکہ فنا ہو کر انسان عدم میں چلا جاتا ہے۔ (ایضاً۔ ص:۱۲)۔ اور حرف اول میں لکھا ہے: ’’اس طرح تیسری زندگی کا کوئی تصور اسلام پیش ہی نہیں کرتا، ایک لامتناہی عرصہ ہے جو دنیاوی موت اور قیامت کی زندگی کے درمیان ہے اور وہ برزخ جس کا حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے‘‘۔ آگے لکھتا ہے: ’’اور درمیانی عرصہ ایک گہری طویل نیند ہے۔ ایک بے خبری ہے جس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے‘‘۔ (ص۳)

لیکن موصوف نے جو قرآنی آیات نقل کی ہیں وہ موصوف کے اس باطل نظریہ کو پاش پاش کر دیتی ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:

الانعام:۹۳: اور اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان کھڑے یا کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے درآں کہ اُس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو۔ یا جو اللہ کی نازل کردہ چیز کے مقابلہ میں کہے کہ میں بھی ایسی چیز نازل کر کے دکھاؤں گا؟ کاش تم ظالموں کو اُس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت کی ڈبکیاں کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں ’’لاؤ نکالو اپنی جان آج تمہیں اُن باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر نا حق بکا کرتے تھے اور اُس کی آیت کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔

الانفال:۵۰: کاش تم اِس حالت کو دیکھ سکتے جب کہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے وہ ان کے چہروں اور اُن کے کولہوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ’’لو اب جلنے کی سزا بھگتو‘‘۔

النحل:۲۸: ہاں اُنہی کافروں کے لئے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہوئے جب ملائکہ کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں تو (سرکشی چھوڑ کر) فوراً ڈگیں ڈال دیتے ہیں ور کہتے ہیں ’’ہم تو کوئی قصور نہیں کر رہے تھے‘‘۔ ملائکہ جواب دیتے ہیں کہ کیسے نہیں کر رہے تھے اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے‘‘۔

النحل:۳۲: وہ متقین جن کی رُوحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’سلام ہو تم پر، جاؤ جنت میں اپنے اعمالوں کے بدلے‘‘۔

محمد:۲۷: پھر اُس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے اُن کی رُوحیں قبض کریں گے اور اُن کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے۔

ٰیسن ٓ :۲۶: (آخر کار اِن لوگوں نے اُسے قتل کر دیا اور) اِس شخص سے کہہ دیا گیا کہ ’’داخل ہو جا جنت میں‘‘ اُس نے کہا ’’کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی۔

المومن:۴۶: دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہو گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کر و۔ (عذاب قبر:صفحہ:۱۳)۔

اوپر جو کچھ کہا گیا تھا یہ تمام آیات اس کی نفی کر رہی ہیں اور یہ منکرین جب بھی قرآن کریم کی طرف رجوع کریں گے تو قرآن کریم اُن کے باطل عقائد و نظریات کی نفی ہی کرے گا اور یہ حضرات قرآن کریم سے اپنے خودساختہ نظریات بالکل ثابت نہیں کر سکتے چنانچہ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ خود ان کے اس کتابچہ میں بھی تضاد ہے۔ پھر اس طرح یہ حضرات احادیث ہی کا نہیں بلکہ قرآن کریم کا بھی انکار کر رہے ہیں۔

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
حَتّٰیٓ اِذَا جَآئَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلاَّ اِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَآئِلُھَا وَ مِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (المؤمنون:۹۹۔۱۰۰)
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجاتی ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دے کہ جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ اُمید ہے کہ میں صالح عمل کروں گا۔ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہتا ہے، اب ان سب مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) ہے قیامت کے دن تک۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے والا اللہ تعالیٰ سے مہلت طلب کرتا ہے کہ اسے دوبارہ دنیا ہی میں بھیج دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ اس کی اس تمنا کو رَدّ کر دیتا ہے اور یہ مکالمہ قیامت کے قائم ہونے سے پہلے اور موت کے وقت ہی ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت کے الفاظ حتی اذا جاء احدھم الموت اور الی یوم یبعثون اس پر دلالت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
کیا آخرت کے معاملات دنیا کی طرح ہیں؟

موصوف آخرت کے معاملات کو دنیا پر قیاس کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’اور فیصلہ سے پہلے سزا دنیا میں بھی ایک سنگین جرم مانا جاتا ہے‘‘
لیکن موصوف کی یہ بات بالکل غلط اور باطل ہے کیونکہ موصوف خالق کائنات کے معاملہ کو دنیا کے انسانوں پر قیاس کر بیٹھا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل:۷۴)
پس تم اللہ کے لئے (دنیا والوں کی) مثالیں بیان نہ کرو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات جانتا ہے جب کہ تم (اور دنیا والے کچھ) نہیں جانتے۔

اللہ تعالیٰ انسان کے تمام اعمال سے باخبر ہے بلکہ انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ کون شقی ہے اور کون سعید؟ کون صالح ہے اور کون نافرمان۔ وہ اگر کسی کو سزا دیتا ہے تو عدل و انصاف کے ساتھ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لہٰذا قیامت کے دن سے پہلے بھی نافرمانوں کا عذاب میں مبتلا ہونا اللہ تعالیٰ کا عین انصاف ہے۔

دراصل جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو موت کے وقت فرشتے اس کے جسم سے روح کو قبض کر لیتے ہیں یعنی نکال لیتے ہیں، جسم اور روح کی اسی جدائی کا نام موت ہے۔ اور پھر صالح انسانوں کی ارواح کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے جبکہ نافرمانوں کی ارواح کو جہنم میں ۔ ملاحظہ فرمائیں سورۃ النحل:۲۸اور ۳۲، الفجر ۲۷تا۳۰۔ سورئہ یٰسین:۲۶،۲۷۔ سورئہ نوح:۲۵۔ سورئہ الانعام:۹۳۔ سورئہ تحریم:۱۰۔

قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ انسان کو دوبارہ زندہ کرے گا اور روح جسم میں داخل ہو جائے گی تو اس مکمل انسان کو اللہ تعالیٰ وعدے کے مطابق نیک انسان کو اس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں اور نافرمان کو اس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں عطا کرے گا۔ اب صالح انسان کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور نافرمان کو جہنم میں۔ اور یہ معاملہ اس مکمل انسان کے ساتھ ہو گا جبکہ قیامت سے پہلے صرف ارواح کو جنت یا جہنم میں داخل کیا گیا تھا۔ اجسام قبروں میں راحت یا عذاب میں مبتلا تھے جیسا کہ صحیح احادیث اس کی گواہی دیتی ہیں۔

اگرچہ اللہ تعالیٰ کو ہر شخص کے متعلق معلوم ہے کہ کون صالح ہے اور کون نافرمان۔ اور وہ اپنے عدل و انصاف کے مطابق انہیں جنت یا جہنم میں داخل کر سکتا ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے عدل و انصاف کا بھرپور مظاہرہ فرمائے گا تاکہ ہر شخص یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کتنا زبردست اور قوت و طاقت اور اقتدار کا مالک ہے اور وہ ہر ہر انسان سے عدل و انصاف کرے گا۔ اس دن جہاں وہ نافرمانوں پر غضب ناک ہو گا وہاں مومنوں کے لئے اس کی صفت رحمت عروج پر ہو گی۔ اب اگر اللہ رب العالمین قیامت سے پہلے بھی نیک انسانوں کو نعمتوں سے نوازے اور نافرمانوں کو عذاب میں مبتلا کر دے تو یہ بھی اس کا عدل و انصاف ہی ہے کیونکہ وہ ہر طرح کی حقیقت سے واقف اور باریک بین ہے۔ اسے پہلے ہی سے معلوم ہے کہ کون جنت کا مستحق ہے اور کون جہنم کا حقدار ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس بات کا پابند نہیں ہے کہ دنیا کی عدالتوں کی طرح کسی شخص کے متعلق جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو جائے اس فیصلہ سے پہلے اسے مجرم یا بے گناہ نہیں مانا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے معاملات دنیا کے ججوں اور حکمرانوں کی طرح نہیں ہیں۔ وہ ہرہر بات سے واقف اور باریک بین ہے۔ انسان کو موت آتی ہے تو اسی وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی؟ یہ اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور وہ عالم الغیب والشھادۃ اور علام الغیوب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نافرمان قوموں کو ہلاک کر دیتا ہے

بلکہ انسان ابھی دنیا میں ہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی وجہ سے اس پر مختلف عذاب بھیج دیتا ہے اور اسے تباہ و برباد کر دیتا ہے اور دنیا سے اس کا نام و نشان مٹا دیتا ہے۔ کئی قوموں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب کے ذریعے ہلاک کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشادِ گرامی ہے:
فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَمِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَ مِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَ ٰلکِنْ کَانُوْآ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ (العنکبوت:۴۰)
آخر کار ہرایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا پھر ان میں سے کچھ وہ بھی جن پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کچھ وہ بھی جن کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا اور کچھ وہ بھی جن کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ وہ بھی کہ جن کو ہم نے غرق کر دیا، اللہ نہیں تھا ان پر ظلم کرتا مگر وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔

قوم نوح، عاد، ثمود، آل فرعون، قارون، قوم شعیب، یعنی اصحاب مدین، قوم لوط …… وغیرھم کیا ان کے واقعات موصوف نے قرآن کریم میں نہیں پڑھے کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے ہلاک کر دیا تھا؟ اور اس طرح قیامت کے آنے سے پہلے دنیا میں ہی ان کا صفایا کر دیا اور انہیں شدید عذاب سے دوچار کر دیا۔ تباہی و بربادی اور ہلاکت ان کا مقدر بن گئی تھی۔

فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ

(الفجر:۱۳۔۱۴)
پھر تیرے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا بے شک تمہارا رب ایسے لوگوں کی گھات میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اب موصوف بتائیں کہ یوم الحساب سے پہلے ان لوگوں کو شدید عذاب میں مبتلا کرنا اور انہیں تباہ و برباد کر دینا، اسے وہ اللہ تعالیٰ کا انصاف قرار دیں گے یا نہیں؟ اور پھر اگر دنیا میں انہیں عذاب ہو سکتا ہے تو عذاب قبر سے انہیں کون سی چیز مانع ہو سکتی ہے؟؟ ؎

آپ خود ہی اپنی اداؤں پہ پر ذرا غور کریں

ہم جو عرض کریں گے تو شکایت ہو گی

اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ موصوف قرآن کریم کا سطحی قسم کا بھی مطالعہ نہیں رکھتا اور دعوے اس نے ایسے زبردست کئے ہیں کہ الامان والحفیظ۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ (النحل:۱۰۵)
صرف وہی لوگ جھوٹ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔

بہرکیف موصوف کے دعوؤں کی قلعی اب کھل چکی ہے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرنے والوں کو ایسے دجال و کذاب قسم کے لوگوں سے دور رہنا چاہیئے ورنہ اللہ تعالیٰ ان کی آخرت بھی تباہ و برباد کر ڈالے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
احادیث رسول ﷺ کے متعلق موصوف کے خود ساختہ اصول

احادیث رسول ﷺ کے متعلق بھی موصوف نے من گھڑت اور خود ساختہ قسم کے اصول بیان کر کے انہیں ناقابل اعتبار قرار دینے کی کوشش کی ہے جبکہ موصوف کے ان تمام خود ساختہ اصولوں سے قرآن کریم کی بھی نفی ہوتی ہے۔ جس نبی نے اس اُمت کو قرآن کریم عنایت کیا یعنی آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سپرد قرآن کریم کیا انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کی سنت اور آپ کی سیرت کو بھی محفوظ فرما لیا تھا۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تابعین اور تابعین نے تبع تابعین اور پوری اُمت کے حوالے قرآن کریم بھی کیا اور سنت رسول ﷺ اور آپ ﷺ کی سیرت بھی۔ یہ کونسا انصاف ہے کہ آپ کے نزدیک قرآن کریم تو محفوظ رہ گیا اور سنت رسول ﷺ اور احادیث رسول ﷺ کا معاملہ مشکوک قرار پاگیا؟

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم ﷺ سے جس طرح قرآن مجید اخذ کیا اُسی طرح اُنہوںنے نبی ﷺ سے سنت اور احادیث کو بھی اخذ کیا۔
وَ یَعْلَمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃِ وَ یُزَکِّیْھِمْ
اور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کتاب (قرآن مجید) کی اور حکمت (سنت و حدیث) کی تعلیم دی اور ان کا تزکیہ کیا۔ البقرۃ:۱۲۹، ۱۵۱۔ آل عمران:۱۶۴، الجمعہ:۲۔

صحابہ کرام دین اسلام کے چشم دید گواہ تھے۔ اور پھر انہوں نے قرآن و سنت کو پوری اُمت مسلمہ کے سامنے پیش کر دیا۔ اب یہ ممکن نہیں کہ قرآن مجید تو محفوظ رہ گیا ہو اور سنت و حدیث باطل قرار پاگئی ہو۔ بلکہ احادیث کے لئے اسانید کا ایک ایسا سلسلہ قائم کر دیا گیا جس کی نظر ماضی میں کسی اُمت کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ یہ صرف اس اُمت کی خصوصیت اور اعزاز ہے کہ جو حدیث رسول ﷺ کو اخذ کرنے کے لئے ایسا اہم اور لاثانی اُصول استعمال کرتی ہے۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ ذُواالْفَضْلِ العَظِیْمِ۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو محفوظ فرمایا اسی طرح احادیث رسول ﷺ کو بھی محفوظ فرما دیا ہے۔ اور اس کی گواہی خود قرآن کریم نے دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً (النساء:۵۹)
پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
 
Top