شجرہ خبیثہ
ڈاکٹر موصوف کے ایک مایہ ناز شاگرد ابوانورگدون نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے خلاف ایک کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا نام: ’’دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی‘‘ ہے اور مثل مشہور ہے کہ شجرہ خبیثہ سے خبیث اور زہریلے پھل ہی پیدا ہوتے ہیں، چنانچہ موصوف کی چند ایک خباثتوں کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیں:
1 موصوف نے قرآن کریم کو مخلوق قرار دے کر اس کے کلام اللہ ہونے کا انکار کر دیا ہے اور اس طرح اس نے مشرکین عرب سے مکمل یکجہتی کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ کیونکہ مشرکین عرب بھی قرآن مجید کو اللہ کا کلام ماننے کے بجائے نبی اکرم ﷺ کا گھڑا ہوا کلام یعنی مخلوق مانتے تھے۔
2 موصوف نے سلف صالحین سے دشمنی کا اعلان کیا ہے اور سلف صالحین اور محدثین کرام کے دشمنوں اور اپنے سلف طالعین (بدکردار) سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا ہے مثلا جہم بن صفون، بشر بن غیاث المریسی، واصل بن عطائ، احمد بن دواد معتزلی وغیرھم۔
3 موصوف نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دشمنی کی وجہ سے ’’علم غیب‘‘ کادعویٰ بھی کیا ہے اور اس طرح خدائی منصب پر فائز ہونے کی کوشش کی ہے۔ اور اپنے اسی علم غیب کی وجہ سے اُس نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بدعقیدگی کا سراغ لگایا ہے۔ (معاذاللہ، استغفراللّٰہ)۔
4 احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قلیب بدر والوں نے نبی اکرم ﷺ کے فرمان کو سنا تھا اور اس کا اقرار ڈاکٹر عثمانی نے بھی کیا ہے لیکن موصوف لکھتا ہے: ’’اب جس میں رتی بھر بھی ایمان ہو گا وہ تو اس حدیث سے مردوں کا سماع مراد نہیں لے گا‘‘۔ (ص:۳۶)۔ نبی ﷺ، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین کرام، علماء اسلام، پوری اُمت مسلمہ غرض سب ہی قلیب بدر کے سماع کا اعتراف کرتے ہیں یہاں تک کہ ڈاکٹر عثمانی تک نے اس کا اعتراف کیا ہے لیکن یہ زندیق ان سب کے ایمان کی نفی کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کسی میں رتی بھر ایمان نہیں تھا۔ گویا جس کفر پر یہ اب قائم ہے اسی کو اس نے ایمان سمجھ رکھا ہے۔
قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مؤمنین۔ بہر حال موصوف کے کفر میں رتی بھر شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اور جو شخص اسے اپنا برزخی عثمانی ساتھی سمجھ کر کافر نہیں سمجھتا تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیئے۔
5 نبی اکرم ﷺ نے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر:۲۷یثبت اللّٰہ الذین آمنوا کے متعلق ارشاد فرمایا: نزلت فی عذاب القبر۔ یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی (بخاری) لیکن موصوف اس حقیقت کو تسلیم کرنے والوں کو فرقہ پرست، قبر پرست، جاہل اور گمراہ قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ موصوف نے یہ فتویٰ نبی ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور پوری اُمت مسلمہ پر لگایا ہے لہٰذا اب موصوف کے کفر میں کوئی ادنیٰ سا شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔
6 موصوف نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’انبیاء علیہم السلام کا مشاہدہ خواب اور بیداری میں ایک جیسا ہوتا ہے‘‘۔ (صفحہ:۴۷)۔ اہل علم جانتے ہیں کہ موصوف نے یہاں کتنی بڑی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف یہ بات کسی علم کی بناء پر نہیں بلکہ
ما وجدنا علیہ اٰبائنا کی بناء پر کہہ رہا ہے۔
7 میت کے چارپائی پر کلام کرنے والی حدیث کو نقل کر کے موصوف لکھتا ہے: ’’مردے کے بارے میں یہی تصور تو قبر پرستی کی دیومالا کی بنیاد اور سہارا ہے‘‘۔ (صفحہ:۷۸)۔ گویا موصوف یہ کہنا چاہتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ دنیا میں قبر پرستی کی تعلیم دینے کے لئے تشریف لائے تھے۔ (نعوذ باللّٰہ من ذٰلک) نبی اکرم ﷺ کے فرمان کو قبر پرستی سے تعبیر کرنے والا مرتد اور زندیق ہی ہو سکتا ہے۔ اور ایسا شخص لعنۃ اللہ علی الکاذبین کے زمرے میں شامل ہے۔
8 موصوف لکھتا ہے: ’’زمین پر رہنے والی ہر مخلوق کو فنا ہو جانا ہے اور باقی رہنے والی ذات صرف تمہارا ذوالجلال اور عظمت والا رب ہے‘‘۔ (الرحمن:۲۶)۔ اور اس کے حاشیہ میں لکھتا ہے: ’’سوائے شیطان کے جو قیامت تک کے لئے زندہ رہے گا‘‘۔ (ص:۴۸)۔ جب ہر چیز فنا ہو جائے گی تو شیطان لعین کیسے باقی رہے گا؟ معلوم نہیں کہ موصوف کو اپنے اس دوست کا خیال کیسے آگیا؟
9 حدیث میں ہے: ’’اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم مردے دفن کر چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی قبر کا عذاب سنائے جیسا کہ میں سنتا ہوں‘‘۔ (مسلم)۔ موصوف اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’…تو میں اللہ کی طرف سے تمہیں بھی قبر کا عذاب بتلا دیتا‘‘۔ (صفحہ:۳۹)۔ یعنی ترجمہ میں تحریف کر ڈالی۔ ویا للعجب۔
10 موصوف عذاب قبر کا مذاق اُڑاتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جس زندہ شخص کو مرنے والے کی یہ آنکھ لگائی گئی ہوتی وہ تو چلاتا پھرتا کہ بھائی نکالو اس آنکھ کو اس میں عذاب کی وجہ سے شدید جلن یا تکلیف ہو رہی ہے جو ناقابل برداشت ہے‘‘۔ (صفحہ:۲۹)۔
تلک عشرۃ کاملۃ