• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اللہ اور رسول ﷺ دونوں ہی کو معیار قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے سامنے قرآن کریم کا نزول ہوتا رہا۔ اور انہوں نے قرآن کریم کو جس طرح سینہ سے لگایا اور اس امانت کو اپنے بعد والوں کی طرف منتقل کیا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم کی وضاحت و تشریح سنت رسول ﷺ اور اُسوئہ رسول ﷺ کی صورت میں حاصل کی اور اس امانت کو بھی انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کی طرف منتقل کر دیا۔ اب یہ کیا انصاف ہے کہ قرآن کریم کو تو ایک مکمل اور محفوظ کتاب مانا جائے اور احادیث رسول ﷺ میں سے کیڑے نکالے جائیں؟ لہٰذا ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ قرآن و حدیث دونوں پر مکمل ایمان رکھا جائے اور نفس و شیطان کی بندگی سے اجتناب کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو احادیث رسول ﷺ کے متعلق ایک ایسا میزان عنایت فرما دیا جو اسماء الرجال اور اسانید کی صورت میں ہے۔ اور ایسا میزان کسی بھی اُمت کو نہیں ملا۔ کوئی عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کا قول آپ کو سند صحیح کے ساتھ نہیں سنا سکتا۔ یہ صرف اس اُمت مسلمہ کی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے نبی ﷺ کے قول و فعل اور تقریر کو سند کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اور یہ فن اس اُمت مسلمہ کی خصوصیت ہے۔ اور اس کے باوجود بھی احادیث سے کیڑے نکالے جائیں اور انہیں مشکوک قرار دیا جائے؛ اس سے زیادہ ناانصافی اور کیا ہو گی؟ فافہم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کیا مشرکوں کی قبریں انسان؟

کسی بشیر خان جیولرز آف لاہور نے ایک کتابچہ شائع کیا ہے جس میں اس نے عذاب قبر کا شدت سے انکار کیا ہے۔ اور عذاب قبر کو جھٹلانے کے لئے کچھ سائنسی تحقیقات کا سہارا لیا ہے۔ اس کے کتابچہ کا نام ’’کیا مشرکوں کی قبریں انسان؟ غلط نظریئے کے خوفناک نتائج، عذاب قبر کی حقیقت‘‘ ہے۔

یہ صاحب پہلے ڈاکٹر عثمانی کے قافلے میں شامل تھے پھر اس سے جدا ہو کر کھلے منکر حدیث بن گئے اور اب عذاب قبر کو تسلیم کرنے ہی سے نالاں ہے۔ حالانکہ عذاب قبر کی احادیث اس کثرت سے وارد ہوئی ہیں کہ جو درجہ تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین و تبع تابعین اور سلف صالحین کے دَور ہی سے یہ اہل اسلام کا عقیدہ رہا ہے اور صرف باطل فرقوں ہی نے اس عقیدہ کا انکار کیا۔

موصوف نے عذاب قبر کو جھٹلانے کے لئے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ انسانوں کے جسم کے ذرّات اور اجزاء متفرق اور منتشر ہونے کے بعد درختوں اور پودون اور غلوں کی صورت میں انسانی جسم میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرح زندہ انسان مردہ انسانوں کے قبرستان بن جاتے ہیں۔ اسی طرح ان صاحب نے یہ فلسفہ بھی پیش کیا کہ کسی زندہ انسان کو مردہ کافر انسان کی آنکھ، ٹانگ، دل، دماغ وغیرہ لگا دیا جائے تو کیا مردہ کو ان اعضاء کے بغیر عذاب ہو گا؟ اس طرح موصوف نے عذاب قبر کا بھی مذاق اُڑایا ہے۔

قرآن کریم میں ہے کہ کافروں نے ہر دور میں انبیاء کرام کا ہمیشہ مذاق اُڑایا ہے۔ موصوف کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب قبر کوئی چیز نہیں ہے بلکہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے۔ اور جسم چونکہ مٹی میں مل جاتا ہے لہٰذا جسم کو کوئی عذاب وغیرہ نہیں ہوتا۔ تفصیل اگرچہ گذشتہ اوراق میں گذر چکی ہے لیکن وضاحت کے لئے قرآنی آیات کا صرف ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ طٰہٰ آیت ۵۵میں ارشاد فرمایا:

1- ’’(اے انسان) ہم نے تمہیں زمین ہی سے پیدا کیا ہے اور پھر ہم تمہیں دوبارہ زمین میں لوٹا دیں گے اور قیامت کے دن اسی زمین سے ہم تمہیں زندہ کر کے نکالیں گے‘‘۔

معلوم ہوا کہ موصوف کا سائنسی نظریہ قرآن مجید سے بھی متصادم ہے کیونکہ انسانی ذرات کو اللہ تعالیٰ زمین ہی میں اکٹھا کر دیتا ہے نہ کہ وہ دنیا میں ہر جگہ منتشر رہتے ہیں۔ نیز موصوف کا یہ نظریہ کہ مردہ کو مطلقاً کوئی عذاب نہیں ہوتا تو اس طرح موصوف نے قرآن مجید کا بھی انکار کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

2- (اے نبی) اگر ہم تمہیں مضبوط و ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ تم بھی ان (کافروں) کی طرف کچھ نہ کچھ جھک جاتے، لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم تمہیں زندگی میں بھی دُگنا عذاب دیتے اور موت میں بھی دُگنا عذاب دیتے اور پھر ہمارے مقابلے میں آپ کوئی مددگار نہ پاتے‘‘۔ (بنی اسرائیل:۷۴، ۷۵)۔

اس آیت مبارکہ میں حیات اور ممات دونوں میں دُگنا عذاب دیئے جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ حیات کا اُلٹ ممات (موت) ہے اور حالت موت میں بھی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ لہٰذا قرآن مجید سے بھی ثابت ہو گیا کہ میت کو عذاب ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے احادیث میں اس عذاب کو عذاب قبر کہا گیا ہے۔

3- دوسرے مقام پر ارشاد ہے: ’’اور آل فرعون کو بدترین عذاب نے گھیر لیا یعنی آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں۔ اور جس دن قیامت قائم ہو گی (تو حکم ہو گا) آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کر دو‘‘ (المومن:۴۵۔ ۴۶)۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ آل فرعون کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ کافر کی روح کو قبض روح کے بعد جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں: سورئہ نوح: ۲۵۔ التحریم:۱۰۔ النحل:۲۸۔ الانعام:۹۳۔ الانفال:۲۵۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جبکہ قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہے کہ کافر کی روح کو قبض روح کے بعد جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے تو اب یہ صبح و شام کیا چیز ہے کہ جسے آگ پر پیش کیا جا رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ اجسام ہی ہیں کہ جنہیں قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اور صحیح بخاری میں یہ حدیث بھی موجود ہے کہ مومن و کافر پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم پیش کیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ تجھے (قیامت کے دن) یہاں سے اُٹھا کر داخل کرے گا۔

یہاں یہ اعتراض کہ پھر میت کا یہ عذاب دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ تو جواب یہ ہے کہ یہ پردئہ غیب کا معاملہ ہے اور دنیا میں عذاب قبر کا دکھائی دینا ناممکن ہے۔ فافہم۔ عذاب قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے۔ اور جسے دنیاوی پیمانوں سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اختلاف کے وقت اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ (النساء آیت:۵۹)۔ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویدار ہے تو اس کے لئے اس حکم پر عمل کرنا ضروری ہے، بلکہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:

’’تیرے رب کی قسم یہ لوگ کبھی بھی ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ اختلافی مسائل میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں اور جو فیصلہ آپ نے فرما دیا اس کے خلاف دل میں بھی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ اس کے آگے سرتسلیم خم کر لیں‘‘ (النساء:۶۵)۔

نبی اکرم ﷺ کے فرمان کا انکاری نبی ﷺ کے فرمان ہی کا انکار نہیں کرتا بلکہ وہ نبی ﷺ کا بھی منکر ہے۔ اور انبیاء کرام کو جھٹلانے والے منکرین حق یقینا اللہ کے عذاب اور عذاب قبر سے نہیں بچ سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مختصر مختصر

1- ڈاکٹر موصوف نے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر۴۰کا انکار کیا جس میں ہے: ’’کافر کی روح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے‘‘۔ اور اس آیت کے معنی میں تحریف کی بھی زبردست کوشش کی ہے۔ نیز اس آیت کا مذاق بھی اُڑایا ہے (دیکھئے: عذابِ برزخ ص۲۲)

علاوہ ازیں موصوف نے قرآن مجید کی چھ مزید آیات کا بھی انکار کیا ہے۔ چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: ’’یہ حضرات اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ کے بجائے اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس کو صحیح نہیں سمجھتے، (دعوت الی اللہ ص:۱۵طبع قدیم)۔ یہ آیات درج ذیل ہیں:
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ (آل عمران:۱۷۹، النساء:۱۷۱،)(النساء:۱۵۰، ۱۵۱، ۱۵۲) (الحدید:۱۹، ۲۱)

مگر موصوف کی موت کے بعد اب اس عبارت کو بدل دیا گیا ہے۔

2- موصوف نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں سخت گستاخی کا ارتکاب کیا ہے اور آپ کی سخت توہین بھی کی ہے یعنی آپ پر ’’بحرانی کیفیت‘‘ طاری ہونے کا الزام لگایا ہے ( دیکھئے: عذاب برزخ ص۲۰)

3- موصوف نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے 1 سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو بدحواسی کی حالت میں کفر پر مرنے والا قرار دیا اور 2 بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ پر بھی فتوی لگایا ہے اور ان دونوں صحابہ پر دبے الفاظ میں کفر کے فتوے داغے ہیں۔ (نعوذ باللّٰہ من ذالک)۔ (عذاب برزخ ص۱۸۔۱۹)

4- موصوف نے اس اُمت کے جم غفیر یعنی تمام محدثین کرام اور پوری اُمت مسلمہ پر کفر کے کھلے اور واضح فتوے داغے ہیں۔ (عذاب برزخ ص:۲۶) اور یہ فتوے پلٹ کر ان پر چسپاں ہو چکے ہوں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔

5- موصوف اپنے نظریہ کے دفاع کے لئے احادیث کو نقل کرنے میں قطع و برید سے بھی کام لیتے ہیں اور جو حدیث ان کے نظریہ سے ٹکراتی ہے اس کے اہم الفاظ ہی سرے سے نقل نہیں کرتے۔ (دیکھئے: عذاب برزخ ص۱۷۔۱۸)۔

6- ڈاکٹر موصوف نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ تین زندگیوں کے قائل تھے یعنی وہ قبر میں مردہ کو زندہ سمجھتے تھے اور اس الزام کی بناء پر اس نے امام موصوف رحمہ اللہ کو کافر قرار دے ڈالا لیکن جب تحقیق مزید کی گئی تو معلوم ہوا کہ معاملہ یہاں بالکل الٹ اور برعکس ہے اور خود ڈاکٹر موصوف ہی حقیقتاً تین زندگیوں اور تین موتوں کے قائل تھے جیسا کہ اس کی تحریریں اس بات پر شاہد ہیں۔ اور اس طرح اپنے ہی فتویٰ کی رُو سے وہ خود ہی کافر قرار پا گئے۔ و یا للعجب۔ تفصیل پچھلے صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔

7- برزخی قبر کا عقیدہ شیعی عقیدہ ہے جسے ڈاکٹر موصوف نے شیعوں سے اسمگل کیا ہے۔ (دیکھئے: الفروع من الکافی ج:۳، ص:۲۴۲۔ طبع تہران)۔

8- برزخی جسم کا عقیدہ، قادیانی عقیدہ ہے اور موصوف نے یہ عقیدہ مرزا غلام احمد قادیانی کذاب سے حاصل کیا ہے۔ (دیکھئے: اسلامی اصول فلاسفی ص:۱۳۵، روحانی خزائن۔ جلد:۱۰صفحہ۴۰۴)

9- ڈاکٹر موصوف ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کا بھی قائل تھا۔ (دیکھئے عذاب برزخ ص:۲، ۳،۶، ۹)

10- موصوف خود ساختہ برزخی جسم میں اعادہ روح کا بھی قائل تھا۔ (دیکھئے عذاب برزخ ایضاً)۔

تلک عشرۃ کاملہ

الغرض آپ جس قدر بھی غور کریں گے تو آپ کو ڈاکٹر موصوف کی شخصیت دھوکا و فریب اور جھوٹ سے مزین کفر کی مشین گن اور عجمی سازش معلوم ہو گی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
شجرہ خبیثہ

ڈاکٹر موصوف کے ایک مایہ ناز شاگرد ابوانورگدون نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے خلاف ایک کتاب لکھی ہے۔ کتاب کا نام: ’’دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی‘‘ ہے اور مثل مشہور ہے کہ شجرہ خبیثہ سے خبیث اور زہریلے پھل ہی پیدا ہوتے ہیں، چنانچہ موصوف کی چند ایک خباثتوں کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیں:

1 موصوف نے قرآن کریم کو مخلوق قرار دے کر اس کے کلام اللہ ہونے کا انکار کر دیا ہے اور اس طرح اس نے مشرکین عرب سے مکمل یکجہتی کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔ کیونکہ مشرکین عرب بھی قرآن مجید کو اللہ کا کلام ماننے کے بجائے نبی اکرم ﷺ کا گھڑا ہوا کلام یعنی مخلوق مانتے تھے۔

2 موصوف نے سلف صالحین سے دشمنی کا اعلان کیا ہے اور سلف صالحین اور محدثین کرام کے دشمنوں اور اپنے سلف طالعین (بدکردار) سے مکمل یکجہتی کا اعلان کیا ہے مثلا جہم بن صفون، بشر بن غیاث المریسی، واصل بن عطائ، احمد بن دواد معتزلی وغیرھم۔

3 موصوف نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دشمنی کی وجہ سے ’’علم غیب‘‘ کادعویٰ بھی کیا ہے اور اس طرح خدائی منصب پر فائز ہونے کی کوشش کی ہے۔ اور اپنے اسی علم غیب کی وجہ سے اُس نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بدعقیدگی کا سراغ لگایا ہے۔ (معاذاللہ، استغفراللّٰہ)۔

4 احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قلیب بدر والوں نے نبی اکرم ﷺ کے فرمان کو سنا تھا اور اس کا اقرار ڈاکٹر عثمانی نے بھی کیا ہے لیکن موصوف لکھتا ہے: ’’اب جس میں رتی بھر بھی ایمان ہو گا وہ تو اس حدیث سے مردوں کا سماع مراد نہیں لے گا‘‘۔ (ص:۳۶)۔ نبی ﷺ، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین کرام، علماء اسلام، پوری اُمت مسلمہ غرض سب ہی قلیب بدر کے سماع کا اعتراف کرتے ہیں یہاں تک کہ ڈاکٹر عثمانی تک نے اس کا اعتراف کیا ہے لیکن یہ زندیق ان سب کے ایمان کی نفی کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کسی میں رتی بھر ایمان نہیں تھا۔ گویا جس کفر پر یہ اب قائم ہے اسی کو اس نے ایمان سمجھ رکھا ہے۔ قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مؤمنین۔ بہر حال موصوف کے کفر میں رتی بھر شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ اور جو شخص اسے اپنا برزخی عثمانی ساتھی سمجھ کر کافر نہیں سمجھتا تو اسے اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیئے۔

5 نبی اکرم ﷺ نے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر:۲۷یثبت اللّٰہ الذین آمنوا کے متعلق ارشاد فرمایا: نزلت فی عذاب القبر۔ یہ آیت عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی (بخاری) لیکن موصوف اس حقیقت کو تسلیم کرنے والوں کو فرقہ پرست، قبر پرست، جاہل اور گمراہ قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ موصوف نے یہ فتویٰ نبی ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور پوری اُمت مسلمہ پر لگایا ہے لہٰذا اب موصوف کے کفر میں کوئی ادنیٰ سا شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔

6 موصوف نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’انبیاء علیہم السلام کا مشاہدہ خواب اور بیداری میں ایک جیسا ہوتا ہے‘‘۔ (صفحہ:۴۷)۔ اہل علم جانتے ہیں کہ موصوف نے یہاں کتنی بڑی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف یہ بات کسی علم کی بناء پر نہیں بلکہ ما وجدنا علیہ اٰبائنا کی بناء پر کہہ رہا ہے۔

7 میت کے چارپائی پر کلام کرنے والی حدیث کو نقل کر کے موصوف لکھتا ہے: ’’مردے کے بارے میں یہی تصور تو قبر پرستی کی دیومالا کی بنیاد اور سہارا ہے‘‘۔ (صفحہ:۷۸)۔ گویا موصوف یہ کہنا چاہتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ دنیا میں قبر پرستی کی تعلیم دینے کے لئے تشریف لائے تھے۔ (نعوذ باللّٰہ من ذٰلک) نبی اکرم ﷺ کے فرمان کو قبر پرستی سے تعبیر کرنے والا مرتد اور زندیق ہی ہو سکتا ہے۔ اور ایسا شخص لعنۃ اللہ علی الکاذبین کے زمرے میں شامل ہے۔

8 موصوف لکھتا ہے: ’’زمین پر رہنے والی ہر مخلوق کو فنا ہو جانا ہے اور باقی رہنے والی ذات صرف تمہارا ذوالجلال اور عظمت والا رب ہے‘‘۔ (الرحمن:۲۶)۔ اور اس کے حاشیہ میں لکھتا ہے: ’’سوائے شیطان کے جو قیامت تک کے لئے زندہ رہے گا‘‘۔ (ص:۴۸)۔ جب ہر چیز فنا ہو جائے گی تو شیطان لعین کیسے باقی رہے گا؟ معلوم نہیں کہ موصوف کو اپنے اس دوست کا خیال کیسے آگیا؟

9 حدیث میں ہے: ’’اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم مردے دفن کر چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی قبر کا عذاب سنائے جیسا کہ میں سنتا ہوں‘‘۔ (مسلم)۔ موصوف اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’…تو میں اللہ کی طرف سے تمہیں بھی قبر کا عذاب بتلا دیتا‘‘۔ (صفحہ:۳۹)۔ یعنی ترجمہ میں تحریف کر ڈالی۔ ویا للعجب۔

10 موصوف عذاب قبر کا مذاق اُڑاتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جس زندہ شخص کو مرنے والے کی یہ آنکھ لگائی گئی ہوتی وہ تو چلاتا پھرتا کہ بھائی نکالو اس آنکھ کو اس میں عذاب کی وجہ سے شدید جلن یا تکلیف ہو رہی ہے جو ناقابل برداشت ہے‘‘۔ (صفحہ:۲۹)۔

تلک عشرۃ کاملۃ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چیلنج

کیماڑی کے منکرین عذاب قبر یعنی برزخی عثمانیوں کو ہمارا کھلا چیلنج ہے کہ وہ اپنے ان خود ساختہ مسئلوں کا قرآن و حدیث سے مدلل اور ٹھوس جواب دیں اور ان باتوں کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل سے ثابت کریں۔ اگر کوئی برزخی عثمانی ان مسائل میں ٹال مٹول سے کام لے اور ان پر گفتگو کرنے سے گریز کرے تو سمجھ لیں کہ ان کا مذہب باطل ہے کیونکہ اگر ان کا مذہب سچا ہوتا تو اس کے کھرے کھرے دلائل وہ قرآن و حدیث سے پیش کرتے۔ ان کا ٹال مٹول سے کام لینا اور گفتگو سے کنی کترانے کا مطلب بالکل واضح ہے کہ ان کے پاس اپنے اس خود ساختہ عقیدہ کی کوئی دلیل نہیں ہے اور وہ غلط اور باطل مذہب کے پرستار بن چکے ہیں۔ اور ڈاکٹر عثمانی نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چند مسائل جن کا جواب برزخی عثمانیوں کے ذمہ ہے، ملاحظہ فرمائیں:

1 برزخی قبر کا ثبوت؟ حدیث وہ پیش کرنی ہو گی کہ جس میں واضح طور پر القبر فی البرزخ کے الفاظ موجود ہوں۔ اور اگر وہ اس کا ثبوت پیش نہ کر سکیں تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔

2 برزخی اجسام کا ثبوت؟ حدیث میں یہ وضاحت موجود ہو کہ قبض روح کے بعد ارواح کو برزخی اجسام میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ جس طرح کہ روح کے قبض ہونے کا ذکر واضح طور پر قرآن و حدیث میں موجود ہے، اسی طرح ارواح کے دوبارہ نئے برزخی اجسام میں ڈالے جانے کا ذکر بھی کسی حدیث سے واضح کیا جائے۔ اور اگر وہ ایسا ثبوت پیش نہ کر سکیں تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔

3 برزخ کسی مقام یا جگہ کا نام ہے یا برزخ صرف آڑ (پردہ) کو کہتے ہیں؟ اگر برزخ آڑ کے علاوہ کسی جگہ یا مقام کا نام ہے تو اس کے دلائل پیش کئے جائیں۔ اور اگر برزخی عثمانی اپنے اس دعویٰ پر کوئی دلیل پیش نہ کر سکیں تو سمجھ لیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔

4 عموماً برزخی عثمانی جب دلائل دینے سے عاجز ہوتے ہیں تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہم مباہلہ کریں گے لیکن وہ مباہلہ کے اصول سے ناواقف ہوتے ہیں۔ مباہلہ سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اپنے عقائد کی وضاحت کی جائے اور قرآن و حدیث سے اس کے دلائل پیش کئے جائیں۔ نجران کے عیسائی وفد نے جب اپنے باطل عقائد پیش کئے تو اللہ تعالیٰ نے ان عقائد کی تردید فرمائی اور جب وہ اپنے عقائد کو ثابت نہ کر سکے تو آخر میں ان کو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا لیکن انہوں نے مباہلہ سے بھی راہِ فرار اختیار کی (آل عمران:۶۱)۔ مباہلہ کی وضاحت بھی برزخی عثمانی گروپ کو پیش کرنا ہو گی۔

5 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر جو کفر کے فتوے لگائے گئے ہیں، ان کا ثبوت پیش کیا جائے ورنہ پھر اپنے کافر ہونے کا اعلان کیا جائے۔

فی الحال ان پانچ سوالوں کے جوابات برزخی عثمانی فرقہ کے ذمہ ہیں اور اگر وہ ان سوالوں کے جوابات نہ دے سکے تو ان کا اہل باطل ہونا ثابت ہو جائے گا۔ جواب میں اگر کوئی مظالطہ اور دھوکا دیا گیا اور جھوٹ بولا گیا تو پھر اس فرقہ کو اپنی شکست لکھ کر دینا ہو گی۔

مناظرہ

اگر کوئی فرقہ پرست برزخی عثمانی مناظرہ کے کئے تیار ہو جائے تو مندرجہ بالا سوالات کے علاوہ اسے یہ بھی واضح کرنا ہو گا کہ حدیث کی کون کونسی کتابیں ان کے ہاں معتبر ہیں کہ جنہیں وہ مناظرہ میں پیش کرنا پسند کریں گے؟ بصورت دیگر انہیں منکرین حدیث ہونے کا اعلان کرنا ہو گا۔

ہمارے سوالوں کے صحیح جوابات دینے والے برزخی عثمانیوں کو فی سوال دس روپے انعام سے نوازا جائے گا۔ ھل من مبارز؟

قارئین کرام سے ایک درخواست: ہمارا لٹریچر پڑھ کر اسے دوسرے بھائیوں تک پہنچانے کا انتظام فرمائیں کیونکہ یہ فتنہ عام ہوتا جا رہا ہے اور لوگ منکرین حدیث بنتے چلے جا رہے ہیں۔ لہٰذا اس فتنہ کا سدباب کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ چھوٹی کتابیں شائع کر کے اسے متاثرین تک پہنچائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بے حد و بے حساب اجر و ثواب عنایت فرمائے گا۔ ھٰذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب۔ کتبہ ابوجابر عبداللہ دامانوی۔

بروز جمعرات ۷رجب ۱۴۲۷ھ (03-08-2006ء)
 
Last edited:

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
الحمد للہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلاۃ و السلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین و علی آلہ و صحبہ اجمعین۔
شیخ الکل سید حسین دہلوی رحمہ اللہ کے پوتے (سعید احمد الحریری یا ریشم والے) اپنی حیات میں کہا کرتے تھے کہ اہلحدیث کی یہ شان رہی ہے کہ کتاب کوئی شروع کرتا ہے اور اسے مکمل کوئی اور کرتا ہے۔ (خیر وہ تو موت و حیات کے حوالے سے بات کیا کرتے تھے)
آج مجھے ایک فون موصول ہوا جس میں یہ حقیقت میری حیات میں ہی مجھ پر واضح ہو گئی۔
کتاب تو راقم نے شروع کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسے مکمل کرنے کا سہرا جناب نعیم یونس بھائی کے سر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔
فون پر میں نے انہیں بتایا کہ پچھلی عید کو پر سارا دن دوستوں کے نام خطاطی کرتے کرتے مکمل ہوا۔ اس عید پر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
بہرحال
کھلے ہیں سب کے لئے غریبوں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس بھائی یا بہن کو شوق ہو وہ بتا دیں۔ شاید تکمیل ہمارے ہاتھوں سے ہی ہو جائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
دونوں معزز اراکین کو مزید ایک نیک کام کی تکمیل پر بہت بہت مبارکباد ۔ اللہ تعالی دین و دنیا میں بہترین اجر عطا فرمائے ۔
اختتام رمضان اور اختتام کتاب ۔ بہت ہی خوب اتفاق ۔
 
Top