• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ وہ نبی ﷺ کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس وقت آئیں جب کہ سورج کو گرہن لگ چکا تھا اور لوگ کھڑے ہوئے نماز ادا کر رہے تھے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نماز ادا کر رہی تھیں۔ ……… (سورج کے روشن ہو جانے اور نماز سے فارغ ہو جانے کے بعد) رسول اللہ ﷺ جب مڑے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں کہ جسے میں نے اس مقام پر نہ دیکھ لیا ہو یہاں تک کہ جنت اور جہنم کو بھی اور میری طرف یہ وحی بھی کی گئی کہ بے شک تم قبروں مین دجال کے فتنہ کے مثل یا اس کے قریب آزمائے جاؤ گے۔ اور قبر میں تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور تم سے کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟ جو مومن یا موقن (یقین رکھنے والا) ہو گا وہ کہے گا وہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور ہمارے پاس کھلے دلائل اور ہدایت لے کر آئے پس ہم نے مان لیا اور ہم ایمان لے آئے اور ہم نے اتباع اختیار کی۔ پس اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو جا۔ ہمیں معلوم تھا کہ آپ یقین رکھنے والے ہیں۔ اور جو منافق یا مرتاب (شک کرنے والا) ہو گا وہ کہے گا کہ میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کہتا ہوں کہ جو لوگ کہتے تھے۔ (بخاری کتاب الکسوب باب صلوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف ح:۱۰۵۳۔ مسلم کتاب الکسوف باب۳۔ ح:۲۱۰۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ایک خاص نکتے کی وضاحت

عذاب قبر کا ذکر قرآن کریم کی بہت سی آیات میں موجود ہے جیسے سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر:۲۷میں ہے:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔ (ابراہیم:۲۷)۔

رسول اللّٰہ ﷺ نے اس آیت کے متعلق فرمایا کہ یہ عذابِ قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے (بخاری)۔ اور ان آیات میں کفار اور مشرکین کے عذاب کا ذکر کیا گیا اور یہ مکی دَور کی آیات تھیں۔ لیکن ان آیات میں اس بات کی وضاحت نہیں تھی کہ اہل ایمان کو بھی قبر کا عذاب ہو گا۔ بلکہ اس آیت میں اہل ایمان کا ثابت قدم اور مضبوط رہنا واضح ہو رہا ہے۔ جس سے یہ مفہوم سمجھا گیا کہ اہل ایمان کو قبر کا عذاب نہیں ہو گا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جب یہودیہ نے عذاب قبر کے متعلق خبر دی اور ان سے کہا کہ اللہ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے تو انہوں نے (مسلمانوں کے لئے) عذاب قبر کا انکار کیا۔ لیکن جب نبی اکرم ﷺ نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ قبر کا عذاب (اہل اسلام کے لئے) بھی ممکن ہے اور گناہوں کی وجہ سے اُنہیں بھی عذاب ہو گا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کے فرمان کو تسلیم کر لیا۔ یہ واقعہ احادیث کی بہت سی کتب میں مفصل اور مختصر بیان ہوا ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو پہلی مرتبہ ایک یہودی عورت نے عذاب القبر کے متعلق بتایا لیکن انہوں نے اس کی تصدیق نہ کی۔ نبی ﷺ نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا بعد میں آپ ﷺ پر وحی بھیجی گئی اور آپ ﷺ کو عذاب القبر کے بارے میں بتایا گیا۔ اسی دن سورج کو گرہن لگ گیا اور آپ ﷺ کے بیٹے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال بھی ہو گیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اسی دن سورج گہن کی نماز صلوٰۃ الکسوف پڑھائی۔ اور پھر خطبہ دیا۔ اور اس خطبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عذاب القبر کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ ماہر فلکیات نے سورج گرہن کی نسبت سے اسے ۱۰ہجری کا واقعہ قرار دیا ہے۔ گویا نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے واقعات میں سے آخری دنوں کا واقعہ ہے۔ پھر نبی ﷺ ہر نماز کے بعد برابر عذاب القبر سے پناہ مانگنے لگے اور صحابہ کرام کو بھی اس سلسلہ کی دعا سکھائی اور انہیں حکم دیا کہ وہ بھی ہر نماز کے آخر میں عذاب القبر سے پناہ مانگا کریں۔ معراج کا واقعہ نبی ﷺ کی مکی زندگی میں پیش آچکا تھا اور معراج میں آپ ﷺ کو نافرمان انسانوں کو عذاب دیئے جانے کے کچھ مشاہدات بھی کرائے گئے تھے جیسا کہ خواب میں آپ ﷺ نے کچھ نافرمانوں کو مبتلائے عذاب دیکھا تھا ان واقعات کا تعلق عام عذاب سے ہے خاص عذاب القبر سے نہیں عام عذاب کا مطلب یہ ہے کہ یہ ارواح کے عذاب کے مشاہدات تھے اور روح کے جہنم میں مبتلائے عذاب ہونے کے مشاہدات آپ ﷺ کو کرائے گئے اور صلوٰۃ الکسوف کے دوران یہ مشاہدہ بھی کرایا گیا۔ جیسے عمرو بن لحی الخزاعی کی روح کو عذاب جہنم ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ اور یہ احادیث بتا رہی ہیں کہ عذاب القبر ایک بالکل الگ شے ہے جیسا کہ ان احادیث کے مطالعہ سے یہ حقیقت الم نشرح ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ عذاب القبر اور عذاب جہنم دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں جن پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ لیکن ڈاکٹر موصوف عذاب جہنم والی احادیث پیش کر کے اسے ہی عذاب قبر قرار دینے پر مصر ہے۔ اور عذاب قبر کی جو خاص احادیث ہیں ان کے انکار کے درپے ہے۔ نبی ﷺ عذاب جہنم اور عذاب قبر دونوں سے پناہ مانگا کرتے تھے اور اس طرح آپ نے واضح فرما دیا کہ عذاب جہنم اور عذاب قبر دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ لیکن اس کا کیا جائے کہ موصوف کو یہ اتنی آسان سی بات بھی سمجھ میں نہیں آئی۔ نبی ﷺ کو عذاب جہنم کے علاوہ عذاب قبر کی حقیقت سے بھی آگاہ کیا گیا اور آپ ﷺ کو اس کا مشاہدہ بھی کروایا گیا جیسا کہ حدیث کے الفاظ ہیں:
انی قد رأیتکم تفتنون فی القبور
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
دوسرا اہم نکتہ

ان احادیث سے ایک خاص بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ عذاب جہنم اور عذاب قبر دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور وہ یہاں عذاب سے دوچار ہوتی ہے اور اس کی روح کو جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے اور وہ جہنم میں عذاب سے دوچار ہوتی ہے۔ اور جب قیامت قائم ہوگی تو پھر عذاب قبر کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور صرف عذاب جہنم باقی رہ جائے گا اور پھر جسم و روح کے مجموعے (مکمل انسان) کو جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔ ڈاکٹر موصوف جس چیز کو ’’برزخی قبر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں وہ یہی عذاب جہنم ہے کہ جس سے انہیں مغالطہ ہوا ہے یا وہ مغالطہ دے رہے ہیں اور اس عذاب کا ان کو اقرار ہے مگر عذاب قبر کے وہ انکاری ہیں اور وہ اسی عذاب جہنم کو عذاب قبر ثابت کرنے کے درپے ہے اور اس کے لئے اسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم تک کی احادیث سے انکار کرنا پڑ رہا ہے۔

نبی ﷺ نے عقیدہ عذاب القبرکے متعلق مزید وضاحت بیان فرمائی کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اسے تمام جانور بھی سنتے ہیں اور دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ جن و انس کے علاوہ تمام چیزیں اس عذاب کی آواز کو سنتی ہیں۔ (صحیح بخاری)۔ اور جن و انس چونکہ مکلف مخلوق ہیں لہٰذا وہ نہیں سن سکتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
(۵) پانچویں حدیث:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دو قبروں پر سے گذرے۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں ایسی چیز میں عذاب نہیں دیا جا رہا کہ جس سے بچنا ان کے لئے کوئی بڑی بات تھی بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھا (اور مسلم: ۲۹۲کی ایک روایت میں لا یستنرہ من البول کے الفاظ ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھتا تھا۔

اور دوسرا چغل خور ی کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی لی اور اسے درمیان میں سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہو جائیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کر دے گا‘‘۔ (بخاری و مسلم۔ مشکاۃ المصابیح باب آداب الخلاء)۔ (بخاری رقم:۲۱۶، ۲۱۸، ۱۳۶۱، ۱۳۷۸، ۶۰۵۲، ۶۰۵۵۔ مسلم:۲۹۲)۔

صحیح مسلم میں جناب جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب قبر میں کمی نبی ﷺ کی دعا اور شفاعت کے ذریعے ہوئی تھی۔ (صحیح مسلم۔ ۲/۴۱۸عربی حدیث:۳۰۱۲)

بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ لوگ ان گناہوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بڑے گناہ ہیں۔ بعض منکرین عذاب قبر نے اس روایت کی بڑی عجیب توجیہہ بیان کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ان قبر والوں کو یہاں نہیں بلکہ برزخی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا لیکن یہ حدیث ان کی اس باطل تأویل کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ صحیح بخاری کی بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
اما ھذا فکان لا یستتر من بولہ و اما ھذا فکان یمشی بالنمیمۃ
رہا یہ شخص تو پس یہ پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھااور رہا یہ شخص پس یہ چغل خوری کیا کرتا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب الغیبۃ)۔

اس روایت کے اگلے الفاظ یہ ہیں:
ثم دعا بعسیب برطب فشقہ باثنین فغرس علی ھذا واحدا و علی ھذا واحدا … (بخاری ۶۰۵۲)
پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی منگوائی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا پھر ایک ٹہنی کو اس (قبر) پر اور دوسری ٹہنی کو اس (دوسری قبر) پر گاڑھ دیا۔

ایک روایت میں آخری الفاظ اس طرح ہیں:
فجعل کسرۃ فی قبر ھذا و کسرۃ فی قبر ھذا (بخاری:۶۰۵۵، کتاب الادب)
پس آپ ﷺ نے ایک ٹکڑے کو اس قبر پر اور دوسرے کو اس (دوسری) قبر پر گاڑھ دیا۔

اس حدیث میں اسم اشارہ قریب ’’ھذا‘‘ کا استعمال کر کے آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان دونوں قبر والوں کو انہی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور اس کی وضاحت سے ڈاکٹر عثمانی کی باطل تاویلات بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔

اس حدیث میں دونوں اشخاص کے لئے ھذا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ھذا اسم اشارہ قریب کے لئے آتا ہے یعنی اس شخص کو اور اس شخص کو! اس اس بنا پر عذاب ہو رہا ہے۔ اور دوسری حدیث کے مطابق ٹہنی کا ایک حصہ اس قبر پر اور دوسرا اس قبر پر۔ لہٰذا ان احادیث کی بناء پر منکرین کے تمام شبہات غلط ثابت ہوجاتے ہیں اور پھر برزخی قبر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے لہٰذا حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو کون تسلیم کرے گا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
(۶) چھٹی حدیث:
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
’’جب میت کو چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے اور مرد اس کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ میت نیک ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہیں ہوتی تو اپنے گھر والوں سے کہتی ہے کہ ہائے بربادی مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اس میت کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے اور اگر کوئی انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت و ھو علی الجنازۃ، باب کلام المیت علی الجنازۃ۔ مسند احمد۳/۴۱، ۸۵)۔

یہ حدیث صحیح بخاری میں تین مقامات پر کتاب الجنائز میں موجود ہے۔ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
’’جب نیک آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’مجھے آگے لے چلو، مجھے آگے لے چلو‘‘۔ اور جب برے آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’ہائے بربادی و افسوس مجھے تم کہاں لے جارہے ہو‘‘۔ (سنن النسائی کتاب الجنائز باب السرعۃ بالجنازۃ، صحیح ابن حبان ۷۶۴، مسند احمد ۲/۲۹۲، ۵۰۰)۔

اور البیہقی کی روایت میں مومن اور کافر کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ (السنن الکبری ج۴ص۲۱)
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ عذاب میت کو ہوتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ میت گفتگو کرتی ہے اور عذاب کو دیکھ کر چیختی چلاتی ہے جسے انسان کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔ چونکہ انسان و جنات کو عذاب سنانا مصلحت کے خلاف ہے لہٰذا ان سے اس عذاب کو پردہ غیب میں رکھا گیا ہے۔ اور یہ مکلف مخلوق اس عذاب کو نہیں سن سکتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ان احادیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں


(۱) میت کو عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے اور ان احادیث میں یہی عام قانون بیان ہوا ہے منکرین عذاب القبر چند استثنائی صورتیں ذکر کر کے جو عذاب القبر کا انکار کرتے ہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ اس طرح منکرین عذاب القبر اپنی عقل پر تو ایمان رکھتے ہیں اور قرآن و حدیث کا انکار کرتے ہیں اور عملاً وہ اپنے نفس کی پوجا کر رہے ہیں۔

(۲) عذاب القبر میت کو ہوتا ہے زندہ کو نہیں اور میت کا مطلب ہے مردہ، لاش کہ جس میں روح موجود نہیں ہوتی۔ اور احادیث میں قبر کے عذاب کا ذکر میت ہی کے متعلق ذکر ہوا ہے۔ لیکن منکرین عذاب القبر کا خیال ہے کہ بغیر روح کے عذاب کیا معنی رکھتا ہے گویا منکرین عذاب القبر میت کے بجائے زندہ کے عذاب کے قائل ہیں۔ اور یہ فلسفہ ڈاکٹر عثمانی کا خود ساختہ ہے۔

(۳) احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میت عذاب کی وجہ سے چیختی چلاتی ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جن و انسان کے علاوہ قریب کی ساری مخلوق سنتی ہے اور جن و انسان چونکہ مکلف مخلوق ہے اس لئے ان کو عذاب کا سنانا مصلحت کے خلاف ہے البتہ کبھی کبھی عذابِ قبر کی کوئی جھلک اللہ تعالیٰ عام لوگوں کو دکھا بھی دیتا ہے۔

(۴) منکرین عذاب قبر لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے کہتے ہیں کہ ہم عذاب قبر کو مانتے ہیں لیکن پھر اسی لمحہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں کہ عذاب اس گڑھے میں یا دنیاوی قبر میں نہیں ہوتا بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے۔ تو ان کا یہ دعوی بالکل جھوٹ ہے اس لیے کہ قبر اسی مقام کو کہتے ہیں کہ جس میں میت دفن کی جاتی ہے اور برزخ میں اگر کوئی قبر ہے تو اس میں کون دفن ہوتا ہے؟ کیا روح کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ یہ جہالت کی انتہاء ہے۔ پھر برزخی قبر کا تصور شیعہ مذہب کی پیداوار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
قبر کسے کہتے ہیں؟

میت کو دفن کرنے کی جگہ کو قبر کہتے ہیں۔ اور جس میت کو دفن نہ کیا گیا ہو تو وہ بھی آخر کار زمین میں لوٹا دی جاتی ہے اور زمین ہی میں اس کی قبر بن جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ضابطہ اور قانون بھی یہی ہے۔ کیونکہ قیامت کے دن انسان زمین ہی سے زندہ ہو کر نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی
اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار (قیامت کے دن) نکالیں گے۔ (طہ:۵۵)۔

سیدنا نوح علیہ السلام کی تمام اُمت پانی کے عذاب سے غرقاب ہو گئی تھی اور ان میں سے کسی کو بھی دفن ہونا نصیب نہ ہوا تھا۔ لیکن سیدنا نوح علیہ السلام نے وحی کے بل بوتے پر انہیں خبر دی تھی کہ وہ مرنے کے بعد زمین میں واپس چلے جائیں گے اور جس کے الفاظ اس طرح ہیں:
وَ اللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْھَا وَ یُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا (نوح:۱۷،۱۸)
اور اللہ نے تم کو زمین سے اُگایا (پیدا کیا) ہے پھر وہ تمہیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اسی سے تمہیں (قیامت کے دن) نکالے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ہر انسان کی قبر زمین ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس:۲۱،۲۲)
پھر اس (انسان کو) موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا تو اسے (قبر سے) اٹھا کھڑا کرے گا۔

اقبرہ کا مطلب ہے کہ اسے قبر میں پہنچایا یا قبر میں رکھوایا۔امام بخاری رحمہ اللہ اقبرہ کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اقبرہ اقبرت الرجل اقبرہ کے معنی ہیں میں نے اس کے لئے قبر بنائی۔ قبرتہ کے معنی ہیں: میں نے اسے قبر میں دفن کیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز)

اقبرہ کا مطلب ہے: ’’اس کو قبر میں رکھوایا‘‘ ۔ اقبرہ اقبار (باب افعال) سے ہے جس کے معنی قبر میں رکھنے اور رکھوانے کے ہیں۔ ماضی کا واحد مذکر غائب۔ (لغات القرآن:۱/۱۸۳)۔

قبر مصدر ہے۔ قَبَرَ یَقْبِرُ (باب ض۔ن) سے ہے۔ قَبَرَ اُس نے دفن کیا فعل ماضی معروف واحد مذکر غائب۔ اور قَبَرَ سے قُبِرَ وہ دفن کیا گیا فعل ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ ایک حدیث میں ہے:
عن انس قال ان النبی ﷺ صَلَّی عَلَی قَبْرِ بَعْدَ مَا قُبِرَ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب۳۲، ح:۱۵۳۱)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قبر پر اس (میت) کے دفن ہونے کے بعد نماز پڑھی۔

اس حدیث میں قُبِرَ مجہول استعمال ہوا ہے اور اگلی حدیث میں بھی یہی صیغہ استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ سنن الترمذی کی روایت میں ہے:
اِذَا قُبِرَ الْمَیِّتُ (۱۰۷۱) جب میت کو دفن کیا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ان احادیث میں بھی قبر کے الفاظ دفن کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ لہٰذا اقبرہ کا مطلب بھی قبر میں رکھنے اور دفن کرنے کے ہیں۔ یہ عربی کے الفاظ ہیں اور ان کا کوئی خود ساختہ مطلب قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور اس آیت کے سیاق ہی سے ثابت ہے کہ ہر انسان کی قبر زمین ہی ہے کیونکہ اگلی آیت میں فرمایا کہ اللہ جب چاہے گا اسے قبر سے اٹھائے گا اور ظاہر ہے کہ انسان قیامت کے دن اسی ارضی قبر ہی سے اٹھایا جائے گا۔ قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَ اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ (الحج۷)
اور بے شک اللہ ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں (قیامت کے دن) اٹھائے گا

قرآن کریم میں آٹھ مقامات پر قبر کا ذکر آیا ہے جن میں سے دو کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اوربقیہ چھ مقامات یہ ہیں: التوبہ:۸۴، الانفطار:۴، العادیات:۹، الممتحنہ:۱۳، فاطر:۲۲، التکاثر:۲۔

ایک مقام پر واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان چاہے زندہ ہو یا میت اس کا مقام زمین ہی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًا اَحْیَآئً وَّ اَمْوَاتًا (المرسلات:۲۵،۲۶)
کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا زندوں کے لئے بھی اور مردوں کے لئے بھی۔

معلوم ہوا کہ انسان زندہ ہو یا مردہ اس نے زمین میں ہی رہنا ہے۔ زندہ اس کی پیٹھ پر زندگی گذارتے ہیں اور مردے اس کے پیٹ میں رہتے ہیں۔ قبر کی اب اس سے زیادہ وضاحت اور تشریح ممکن نہیں ہے۔ عقلمند کے لئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ ماننے والوں کے لئے ایک ہی دلیل کافی ہوتی ہے اور نہ ماننے والوں کے لئے دلائل کے انبار بھی ناکافی ہوتے ہیں اور ایسے منکرین کو جہنم کی آگ ہی سمجھائے گی۔

اسی طرح قبر کے لئے قرآن کریم میں اجداث کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں جن کی واحد جدث ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ (یس:۵۱)
اور جب صور میں پھونکا جائے گا تو یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لئے قبروں سے نکل پڑیں گے۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ کَاَنَّھُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ (القمر:۷)
اور وہ قبروں سے اس طرح نکلیں گے کہ گویا وہ بکھرے ہوئے پروانے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
نیز ملاحظہ فرمائیں: سورۃ المعارج آیت:۴۳، ان گیارہ مقامات پر قبر کے علاوہ دو مقامات پر مستودع (جہاں وہ سونپا جائے گا یعنی قبر) کے الفاظ بھی ارضی قبر کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل مقامات میں بھی زمین ہی کو انسان کا مستقر اور قیامت کے اُٹھنے کا مقام قرار دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: الاعراف:۱۴، ۲۵۔ نوح:۱۷، ۱۸۔ المرسلات: ۲۵۔ ۲۶۔ الروم: ۱۹ ۔ ۲۵۔ ۵۵۔ ۵۶۔ المومنون: ۱۶۔ ۳۷۔ ۸۲۔ ۱۰۰۔ ۱۱۲تا ۱۱۴۔ الانفطار: ۴۔ ق: ۱۱۔ ۴۲۔ یٰسین: ۵۱۔ ۵۲۔ مریم: ۱۵۔ ۳۳۔ ۶۶۔ الاحقاف:۱۷۔ الزخرف:۱۱۔ فاطر۹ ۔ الملک: ۱۵۔ الفرقان: ۳۔ ۴۰۔ المائدہ:۳۱۔ الانعام: ۲۹۔۳۶۔ الحج: ۵۔ ۶۔ ۷۔ الجن: ۷۔ المجادلہ: ۶۔ ۱۸۔ التغابن: ۷۔ الحجر: ۳۶۔ النحل:۲۱۔ الشعرائ: ۸۷۔ النمل:۶۵۔ الصافات: ۱۶۔ ۴۴۔ ص۔ ۷۹۔ لقمان: ۲۸۔ ھود: ۷۔ الاسرائ: ۴۹۔ ۹۸۔ الواقعہ: ۱۴۷۔ المطففین:۴۔
 
Top