• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ارضی قبر کے علاوہ کسی فرضی قبر کا ذکر قرآن کریم میں کسی مقام پر بھی موجود نہیں ہے۔

احادیث میں قبر کے الفاظ اس کثرت سے استعمال ہوئے ہیں کہ اگر صرف قبر کے الفاظ ہی کو احادیث سے اکٹھا کیا جائے تو اس پر ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں کتاب الجنائز میں سترہ ابواب قبر کے الفاظ کے ساتھ قائم کئے ہیں۔ اور پھر انہوں نے احادیث مبارکہ کو لا کر عرب کے محاوروں تک سے قبر کی اچھی طرح وضاحت کی ہے۔ اور ارضی قبر کو ثابت کیا ہے جبکہ امام موصوف بھی کسی فرضی یا برخی قبر سے بالکل ناواقف ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک قبر کی تعریف

قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں جہاں بھی لفظ قبر ذکر کیا گیا ہے وہاں قبر اسی مقام کو کہا گیا ہے کہ جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے اس قبر کے علاوہ کسی دوسری قبر کا ذکر قرآن و حدیث میں کہیں بھی نہیں ملتا اور الحمد للّٰہ فریق مخالف ہزار کوششوں کے باوجود ایک بھی واضح ثبوت اس سلسلہ میں آج تک پیش نہیں کر سکا ہے اور نہ کر سکے گا ان شاء اللہ العزیز۔ ڈاکٹر موصوف کا چونکہ دعوی ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ ہیں لہٰذا ضروری محسوس ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی سے قبر کی تعریف ان کی سب سے عظیم کتاب ’’الصحیح البخاری‘‘ سے پیش کر دی جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور ڈاکٹر موصوف کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ کے نام صرف دھوکا دینے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ باطل فرقوں کا دستور رہا ہے کہ وہ اپنے باطل نظریات کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث کا نام استعمال کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث سے ان کو دُور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی قبر اسی مقام کو کہتے ہیں جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے اور جس کی وضاحت پچھلے صفحات میں کی جا چکی ہے نیز امام موصوف رحمہ اللہ نے کتاب الجنائز میں مختلف ابواب قائم کر کے اس مفہوم کو اچھی طرح واضح کیا ہے۔ اور ان ابواب کی تعداد سترہ ہے ۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:

(۱) کسی شخص کا عورت سے قبر کے پاس یہ کہنا کہ صبر کرو۔

(۲) قبروں کی زیارت کا بیان۔

(۳) قبروں پر مسجدیں بنانے کی کراہت کا بیان۔

(۴) دفن کئے جانے کے بعد قبر پر نماز پڑھنے کا بیان۔

(۵) قبر پر مسجد بنانے کا بیان۔

(۶) عورت کی قبر میں کون اُترے؟

(۷) ایک قبر میں دو یا تین آدمیوں کو دفن کرنے کا بیان۔

(۸) لحد (قبر) میں پہلے کون اُترے؟

(۹) قبر میں اذخر یا گھاس ڈالنے کا بیان۔

(۱۰) کیا میت کو کسی عذر کی بنا پر قبر یا لحد سے نکالا جا سکتا ہے؟

(۱۱) قبر میں لحد اور شق کا بیان۔

(۱۲) قبر پر شاخ لگانے کا بیان۔

(۱۳) قبر کے پاس محدث کا نصیحت کرنا۔

(۱۴) عذاب قبر کے متعلق جو وارد ہوا ہے۔

(۱۵) عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا بیان۔

(۱۶) غیبت اور پیشاب سے عذاب قبر ہونے کا بیان۔

(۱۷) نبی اکرم ﷺ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبروں کا بیان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ان ابواب کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الکسوف اور کتاب الدعوات میں بھی عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا ایک ایک باب قائم کیا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے قبر کی وضاحت کرتے ہوئے ان ابواب میں بہت سی باتوں کی وضاحت بیان کی ہے۔ چنانچہ باب ما جاء فی قبر النبی ﷺ میں فرماتے ہیں: ’’نبی ﷺ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان‘‘۔
قول اللّٰہ عزوجل فاقبرہ اقبرت الرجل اذا جعلت لہ قبر و قبرتہ دفنتہ کفاتا یکونون فیھا احیاء و یذوقون فیھا امواتا
اللہ عزوجل فرماتا ہے: (سورئہ عبس میں) فاقبرہ (پس اسے قبر دی) عرب کہتے ہیں اقبر الرجل اقبرہ یعنی میں نے اس کے لئے قبر بنائی اور قبرتہ کے معنی ہیں میں نے اس کو دفن کیا۔ اور سورۃ المرسلات میں جو کفاتا کا لفظ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ زندگی بھی زمین میں پوری کروگے اور مر کر بھی اسی میں گڑو گے۔

ڈاکٹر موصوف نے فاقبرہ کے الفاظ سے جو من پسند مطلب کشید کیاتھا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا صحیح مفہوم عربی ادب کے محاوروں کے ذریعے واضح کر دیا۔ اقبرہ کے الفاظ سورۃ عبس کی آیت نمبر۲۱میں آئے ہیں اور اس کا مطلب ہے ’’اس کو قبر میں رکھوایا‘‘، اقبر اقبار (باب افعال کے وزن پر)سے جس کے معنی قبر میں رکھنے اور رکھوانے کے ہیں۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب، ہ ضمیر واحد مذکر غائب ہے۔ (لغات القرآن:۱/۱۸۳)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ کو کھول کر یوں بیان کیا ہے۔ ’’اس کی پیدائش کے بعد پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں لے گیا۔ عرب کا محاورہ ہے وہ جب کسی کو دفن کرتے ہیں تو کہتے ہیں: قبرت الرجل اور کہتے ہیں اقبرہ اللّٰہ اسی طرح اور بھی محاورے ہیں (جن کاذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس کی مزید وضاحت بیان کی ہے)۔ مطلب یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ نے اسے قبر والا بنا دیا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کر دے گا۔ اسی زندگی کو بعث بھی کہتے ہیں۔

اگلی آیت میں انشرہ کے الفاظ بھی ہیں جس کے معنی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اسے زندہ کر کے (قبر سے) اٹھا کھڑا کرے گا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص قبر میں دفن ہو گا، اسی کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔

پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے سورۃ المرسلات کی آیت الم نجعل الارض کفاتا احیاء و امواتا (کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا؟ زندوں کے لئے بھی اور مردوں کے لئے بھی) کی وضاحت بھی یوں بیان کی: ’’اسی زمین پر زندگی بسر کریں گے اور مرنے کے بعد اسی میں دفن کئے جائیں گے‘‘۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس وضاحت پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ قبر کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے اس باب کے تحت کئی احادیث نقل کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ (۱) پہلی حدیث اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نقل کرتے ہیں جس میں نبی ﷺ کی وفات کا ذکر ہے، اس حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں: و دفن فی بیتی ’’اور نبی ﷺ میرے گھر میں دفن ہوئے‘‘۔ اس حدیث کو لا کر امام بخاری رحمہ اللہ موصوف جیسے لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی قبر (موصوف کی خود ساختہ) برزخ میں نہیں بلکہ حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
(۲) دوسری حدیث بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی کی ذکر کی ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر جنہوں نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اسی ڈر کی وجہ سے آپ ﷺ کو حجرہ میں دفن کیا گیا (اور آپ ﷺ کی قبر کو کھلا نہیں چھوڑا گیا کہ) مبادا لوگ کہیں اسے سجدہ گاہ نہ بنا لیں۔ یہ حدیث بھی نبی ﷺ اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی قبروں کی وضاحت کر رہی ہے کیونکہ نبی ﷺ اور دیگر انبیاء کرام کی قبریں اسی زمین میں ہیں۔

(۳) تیسری حدیث سیدنا سفیان تمار رحمہ اللہ کی ہے جس میں وہ نبی ﷺ کی قبر کو دیکھ کر اس کی کیفیت بتاتے ہیں کہ وہ کوہان نما تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ دنیاوی قبر ہی تھی۔ ورنہ برزخ میں تو کوئی قبر نہیں ہوتی۔

(۴) چوتھی حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیان کی ہے جس میں سیدنا عروہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ولید بن عبدالملک ; کے دور میں حجرئہ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دیوار گر گئی تھی، جس کی تعمیر کے دوران ایک پاؤں دکھائی دیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نبی اکرم ﷺ کا پاؤں ہے مگر سیدنا عروہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ پاؤں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ اس حدیث میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ انگلی رکھ کر بتا رہے ہیں کہ قبر وہ ہوتی ہے جس میں ’’جسد‘‘ دفن ہو۔

(۵) پانچویں حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عرو بن میمون الاودی کی بیان کی ہے جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اُن کے حجرہ میں نبی ﷺ کی قبر کے ساتھ دفن ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کا بیان ہے اور آخر کار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا کی اجازت سے حجرئہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی میں دفن ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
غور فرمائیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور عرب کے محاوروں تک سے ایک ہی مسئلہ ثابت کرتے ہیں اور وہ مسئلہ ہے ’’ارضی قبر‘‘ کا۔ امام بخاری رحمہ اللہ دوٹوک انداز میں فیصلہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ قبر اسی مقام کو کہتے ہیں جس میں میت دفن کی جاتی ہے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ کی مخالفت کرتے ہوئے ڈاکٹر موصوف قبر کی یہ تاویل پیش کرتے ہیں۔

’’ان ساری حدیثوں نے بتلا دیا کہ سچی بات یہ ہے کہ جو شخص بھی وفات پا جاتا ہے اس کو حسب حیثیت ایک برزخی جسم ملتا ہے جس میں اس کی روح کو ڈال دیا جاتا ہے اور روح اور جسم کے مجموعہ پر سوال و جواب اور عذاب و ثواب کے سارے حالات گذرتے ہیں۔ اور یہی اس کی اصلی قبر بنتی ہے۔ قرآن اور صریح احادیث کا بیان تو یہ ہے مگر کچھ دوسرے حضرات اس بات پر مصر ہیں کہ ہر مرنے والے کی روح اسی دنیاوی جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور یہی جسم قبر میں پھر زندہ ہو جاتا ہے۔ (توحید خالص ص:۱۱و عذاب قبر صفحہ۹)۔ خود ساختہ قبر کے لئے موصوف نے کس قدر جھوٹ کا اظہار کیا ہے اور دوسروں کو دوش بھی دیا ہے کہ وہ دنیاوی قبر کے قائل ہیں۔ ایسے کذاب و دجال اور مفتری انسان کو دنیا پھر بھی نہ سمجھ سکی۔ اور اس کے جھوٹ کو بعض لوگوں نے سچ تسلیم کر لیا ہے۔ اسے کہتے ہیں الٹی گنگا بہنا۔

ڈاکٹر موصوف نے توحید خالص میں جگہ جگہ ایک ہی بات دہرائی ہے وہ یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کا ہم خیال گروہ (مراد خود موصوف کی اپنی ذات ہے) برزخی قبر کا تصور رکھتے ہیں جبکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ان کا ہم خیال گروہ ارضی قبر کا نظریہ رکھتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف کس قدر جھوٹے اور دھوکا باز ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے کتابچوں میں امام بخاری رحمہ اللہ پر بہتان باندھے ہیں اور غلط طور پر ان کی نمائندگی کی ہے۔ اب جو شخص کسی عظیم شخصیت کی اس طرح غلط طور پر ترجمانی کرے اور بغیر کسی دلیل کے انہیں اپنا ہم خیال بتائے تو اس کے جھوٹا ہونے میں کیا شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
امام بخاری رحمہ اللہ ایک اور باب میں قبر کی وضاحت اس طرح بیان کرتے ہیں:

باب موعظۃ المحدث عند القبر و قعود اصحابہ حولہ یوم یخرجون من الاجداث الاجداث: القبور بعثرت اثیرت بعثرت حوضی ای جعلت اسفلہ اعلاہ الایفاض الا سراع وقرأ الاعمش الی نصب یوفضون الی شئ منصوب یستبقون الیہ و النصب واحد والنصب مصدر یوم الخروج من قبورھم ینسلون یخرجون

قبر کے پاس محدث (عالم) کا نصیحت کرنا اور اس کے ساتھیوں کا اس کے چاروں طرف بیٹھنا۔ سورۃ القمر:۷میں اجداث کا مطلب قبور ہے۔ اور سورۃ الانفطار:۴میں بعثرت کے معنی ابھاری جائیں گی، اٹھائی جائیں گی۔ اور بعثرت حوضی کا مطلب میں نے اس کے نچلے حصے کو اوپر کر دیا۔ ایفاض (جس سے یوفضون بنا ہے) کے معنی جلدی کرنا، تیز دوڑنے کے ہیں۔ اور امام الاعمش نے سورۃ المعارج:۴۳کی اس آیت کو یوں پڑھا ہے: الی نصب یوفضون یعنی کسی بلند چیز کی طرف دوڑتے جا رہے ہیں اور نصب واحد ہے اور نصب مصدر ہے۔ اور سورئہ ق:۴۲میں ذالک یوم الخروج کا مطلب قبروں سے نکلنے کا دن۔ اور سورۃ یٰسین:۵۱میں ینسلون کے معنی ہیں نکل پڑیں گے‘‘۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کی ابتداء اس طرح فرمائی ہے کہ محدث کا قبر کے پاس نصیحت کرنا اور اس کے ساتھیوں کا اس کے چاروں طرف بیٹھنا۔ پھر اس باب کی مناسبت سے انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان فرمائی ہے جس میں وہ نبی ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے۔ قبر کے مفہوم کو اچھی طرح واضح کرنے کے لئے امام بخاری رحمہ اللہ سورۃ المعارج کی آیت: یوم یخرجون من الاجداث سراعا کانھم الی نصب یوفضون (جس دن یہ قبروں سے نکل کر اس طرح دوڑیں گے جیسے کسی پرستش گاہ کی طرف دوڑے جاتے ہیں) کے الفاظ کی بھی وضاحت کرتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں کہ اجداث کے معنی قبور (قبر کی جمع) ہے اور پھر اس آیت واذاالقبور بعثرت (اور جب قبریں شق کر کے اکھاڑ دی جائیں گی (الانفطار:۴)۔ کے صیغے بعثرت کی وضاحت کرتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں ابھاری جائیں گی، اور بعثرت حوضی کے معنی ہیں میں نے اس کے نچلے حصے کو اوپر کر دیا۔ اتنی وضاحت کے بعد بھی کیا کوئی شخص یہ تصور کر سکتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کسی اور مقام کو بھی قبر تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ بعثرت کی جو وضاحت انہوں نے کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تمام مردے قبر کے پیٹ سے باہر (اوپر) نکال دیئے جائیں گے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ مردے ارضی قبر میں دفن ہو چکے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
امام بخاری رحمہ اللہ اپنے مخصوص انداز میں ایک مسئلہ پر مختلف ابواب قائم کر کے اس مسئلہ کو اچھی طرح ذہن نشین کرا دیتے ہیں اور قبر کے مفہوم کو تو انہوں نے مختلف ابواب قائم کر کے اتنا واضح کر دیا ہے کہ کہیں معمولی سا اشتباہ بھی باقی نہیں رہ جاتا اور پوری کتاب الجنائز میں انہوں نے برزخی قبر کی طرف کوئی معمولی سا اشارہ بھی نہیں کیا اور وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے جب کہ قرآن و حدیث میں دور دور تک اس ’’فرضی قبر‘‘ کا کوئی وجود ہی دکھائی نہیں دیتا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف نے سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی خواب والی جس روایت سے زبردستی برزخی قبر کو کشید کرنے کی کوشش کی ہے اس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے سرے سے کوئی باب ہی نہیں باندھا، بلکہ صرف باب کہہ کر ہی گزر گئے۔

دراصل یہ بات بھی گزرے ہوئے باب کا تتمہ ہے۔ اوپر والے باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ما قیل فی اولاد المشرکین: ’’مشرکوں کی اولاد کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے‘‘ کو ذکر کیا تھا۔ اور اس باب میں انہوں نے تین احادیث یہاں بیان فرمائی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا (کہ جو شعور سے پہلے انتقال کر گئے) آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا فرمایا تو وہی زیادہ جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔ حدیث نمبر۱۳۸۳عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ۔ دوسری حدیث ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے جس میں یہی مضمون بیان ہوا۔ تیسری حدیث بھی سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اُسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں… حدیث نمبر ۱۳۸۵۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان اس طرف ہے کہ فطرت پر پیدا ہونے کی وجہ سے ان بچوں کا خاتمہ ایمان پر ہونا چاہیے۔ چانچہ اس باب کی وضاحت کے لئے اُنہوں نے اگلا باب قائم فرمایا اور بغیر عنوان کے انہوں نے سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث بیان فرمائی جس میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک باغ میں ایک بڑے درخت کے نیچے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اور ان کے ساتھ اولاد الناس (لوگوں کی اولاد) بھی دیکھی۔ اور اس کی مزید وضاحت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التعبیر باب ۴۸میں کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو بچے تھے ان میں اولاد المشرکین بھی تھے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! اُن کے ساتھ اولاد مشرکین بھی تھی۔ اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان فرما کر اولادِ مشرکین کا مسئلہ بھی حل فرما دیا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو اس حدیث پر باب نہیں باندھا تو ممکن ہے کہ ان کا اِرادہ ہو کہ وہ اس پر کوئی باب قائم کریں گے مگر اس کا اُنہیں موقع نہ مل سکا۔ اب موصوف کو چاہیئے کہ وہ صحیح بخاری کی شرح کا کام شروع کر دیں اور اس حدیث پر ایک باب القبور فی البرزخ کا اضافہ کر دیں، کیونکہ فتح الباری تو موصوف کے نزدیک ایسی شرح ہے جسے اگر نہ لکھا جاتا تو مناسب تھا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قبر میت کے دفن کی جگہ کو کہتے ہیں۔ اب جو لوگ برزخ میں قبر پر اصرار کرتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ برزخ میں کس چیز کو دفن کیا جاتا ہے؟ تمام برزخیوں کو میرا یہ چیلنج ہے کہ وہ میرے اس سوال کا جواب دیں۔ لیکن ان شاء اللہ تعالیٰ وہ کبھی بھی اس سوال کا جواب نہ دیں سکیں گے۔ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ایک زبردست دلیل

قرآن کریم میں ایک مقام پر یوں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے:
قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِی الْاَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَسْئَلِ الْعَآدِّیْنَ قَالَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا لَّوْ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
’’اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا ’’بتاؤ زمین میں تم کتنے سال رہے؟‘‘ وہ کہیں گے ’’ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھہرے ہیں، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئے‘‘۔ ارشاد ہو گا ’’تم تھوڑی ہی دیر دنیا میں ٹھہرے تھے کاش تم نے جانا ہوتا‘‘۔

دوسرے مقام پر اس کی مزید وضاحت فرمائی گئی ہے:
وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ کَذٰلِکَ کَانُوْا یُؤْفَکُوْنَ وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَ الْاِیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ اِلٰی یَوْمِ الْبَعْثِ فَھٰذَا یَوْمُ الْبَعْثِ وَ لٰــکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (الروم:۵۵، ۵۶)۔
’’اور جب قیامت برپا ہو گی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ (زمین میں) نہیں ٹھہرے ہیں، اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکا کھایا کرتے تھے۔ مگر جو علم اور ایمان سے بہرہ مند کئے گئے تھے وہ کہیں گے کہ اللہ کے نوشتے میں تو تم روزِ حشر تک پڑے رہے ہو، سو یہ وہی روزِ حشر ہے لیکن تم جانتے نہ تھے‘‘۔

ان آیات نے روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا کہ یہ انسان قیامت تک زمین ہی میں رہے گا جیسا کہ فی الارض عدد سنین کے الفاظ واضح کر رہے ہیں۔ اگر انسان زمین کے بجائے کسی اور مقام پر ہوتا یا کسی اور مقام پر اس کی قبر ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور وضاحت فرما دیتا لیکن ظاہر ہے کہ اس انسان نے اسی زمین میں رہنا ہے اور قیامت کے دن بھی اسی زمین سے نکلنا ہے لہٰذا یہی زمین اس کی قبر اور مستقر ٹھہری۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
عذاب القبر مرکب اضافی ہے

عذاب مضاف ہے اور القبر مضاف الیہ ہے یعنی اس مرکب میں عذاب کی نسبت قبر کی طرف کی گئی ہے اور مراد یہ ہے کہ وہ عذاب جو قبر میں ہوتا ہے اور اس وضاحت سے بھی ثابت ہو گیا کہ قبر میں میت کو عذاب ہوتا ہے۔ نبی ﷺ کا اِرشاد ہے: عذاب القبر حق (بخاری:۱۳۷۲) قبر کا عذاب حق ہے۔
 
Top