- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
برزخ کیا ہے؟
برزخ لغت میں آڑ، حاجز، فاصل اور پردہ کو کہتے ہیں۔ دو حالتوں اور دو چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اسے برزخ کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں برزخ کے الفاظ تین مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ دو مقامات پر برزخ کو دو دریاؤں یعنی میٹھا اور کھاری کے درمیان ایک روک اور آڑ قرار دیا گیا ہے۔ اور سورۃ الفرقان میں برزخ کی وضاحت کرتے حجر محجورا سے کی گئی ہے۔ حجر کا مطلب رکاوٹ اور محجور کا مطلب منع کیا ہوا۔ روکا ہوا ہے۔ مراد رکاوٹ ہے۔ دیکھئے سورۃ الفرقان آیت نمبر۵۳۔ اور سورۃ الرحمن آیات ۱۹، ۲۰۔ اور ایک مقام پر اسے حاجز یعنی رکاوٹ یا آڑ (النحل:۶۱) کہا گیا ہے۔ اور تیسرے مقام پر اسے دنیا اور آخرت کے درمیان ایک آڑ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (المؤمنون:۱۰۰)
’’اور ان مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) ہے قیامت کے دن تک‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ قائم کر دی ہے اور مرنے والوں پر اب جو حالات بھی قیامت تک گذریں گے انہیں دیکھنا اور محسوس کرنا ہمارے بس سے باہر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان مرنے والوں کے درمیان ایک آڑ حائل کر دی ہے۔ ایک رکاوٹ ہے کہ جس نے ہمیں میت کے ساتھ پیش آنے والے حالات کو دیکھنے سے روک رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میت پر جو حالات گذرتے ہیں ہم ان کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ میت ابھی چارپائی پر ہوتی ہے کہ فرشتے اس کے منہ اور پیٹھ پر ضربیں لگانے لگتے ہیں اور سختی سے اس کی روح قبض کرتے ہیں۔ (الانعام:۹۴، الانفال:۵۰) اسی طرح جب میت کو قبرستان کی طرف لے جاتے ہیں تو نافرمان کی میت چیخنے چلانے لگتی ہے اور اس کی چیخ و پکار کو جن و انس کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت و ھو علی الجنازۃ قدمونی) لیکن برزخ کے حائل ہونے کی وجہ سے یہ تمام کاروائی جنوں اور انسانوں سے پوشیدہ رہتی ہے۔ اور اسی وجہ سے ہم میت کی چیخ و پکار اور آواز نہیں سن سکتے۔
برزخ کسی مقام کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک آڑ یا پردہ ہے۔ پردہ سے مراد یہاں دنیاوی پردہ نہیں ہے جیسا کہ بعض کوتاہ فہموں کو غلط فہمی ہوئی ہے بلکہ یہ ایک ایسا مضبوط پردہ اور آڑ ہے کہ جسے کراس کرنا انسانی بس سے باہر ہے البتہ یہ پردہ قیامت کے دن دور ہو جائے گا۔ لقد کنت فی غفلۃ من ھذا فکشفنا عنک غطاء ک فبصرک الیوم حدید۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا ہم نے تیرے سامنے سے اب وہ پردہ ہٹا دیا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔ (سورۃ ق آیت نمبر۲۲) اور یہی پردہ برزخ ہے۔ برزخ کی مزید تفصیل کے لئے علامہ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی کتاب مترادفات القرآن صفحہ ۷۶تا ۷۸کا مطالعہ فرمائیں۔
ایک اعتراض کا جواب
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ برزخ دنیا میں نہیں بلکہ آسمانوں میں ہوتی ہے اور یہ کہنا کہ ہمارے اور میت کے درمیان برزخ حائل ہوتی ہے تو اس بات کو بھی وہ غلط قرار دیتے ہیں۔ تو ایسے حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ غور سے اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس آیت میں دو باتیں ذکر کی گئی ہیں۔ (۱) مرنے والوں کے پیچھے برزخ ہے۔ اب مرنے کا اطلاق کس پر ہو گا؟۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد جسم ہے۔ کیونکہ اس پر موت واقع ہوئی ہے۔ (۲) دوسری بات اس آیت میں یہ ہے کہ برزخ اُس دن تک قائم رہے گی کہ جب لوگ قبروں سے اُٹھائے جائیں گے اور ظاہر بات ہے کہ قبروں سے کیا اُٹھایا جائے گا؟ وہ جسم ہی ہو گا۔ تو معلوم ہوا کہ برزخ مرنے والوں اور دنیا کے درمیان ایک آڑ ہے۔ وللہ الحمد۔
Last edited: