• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
برزخ کیا ہے؟

برزخ لغت میں آڑ، حاجز، فاصل اور پردہ کو کہتے ہیں۔ دو حالتوں اور دو چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اسے برزخ کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں برزخ کے الفاظ تین مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ دو مقامات پر برزخ کو دو دریاؤں یعنی میٹھا اور کھاری کے درمیان ایک روک اور آڑ قرار دیا گیا ہے۔ اور سورۃ الفرقان میں برزخ کی وضاحت کرتے حجر محجورا سے کی گئی ہے۔ حجر کا مطلب رکاوٹ اور محجور کا مطلب منع کیا ہوا۔ روکا ہوا ہے۔ مراد رکاوٹ ہے۔ دیکھئے سورۃ الفرقان آیت نمبر۵۳۔ اور سورۃ الرحمن آیات ۱۹، ۲۰۔ اور ایک مقام پر اسے حاجز یعنی رکاوٹ یا آڑ (النحل:۶۱) کہا گیا ہے۔ اور تیسرے مقام پر اسے دنیا اور آخرت کے درمیان ایک آڑ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (المؤمنون:۱۰۰)
’’اور ان مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) ہے قیامت کے دن تک‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے مرنے والوں کے پیچھے ایک برزخ قائم کر دی ہے اور مرنے والوں پر اب جو حالات بھی قیامت تک گذریں گے انہیں دیکھنا اور محسوس کرنا ہمارے بس سے باہر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان مرنے والوں کے درمیان ایک آڑ حائل کر دی ہے۔ ایک رکاوٹ ہے کہ جس نے ہمیں میت کے ساتھ پیش آنے والے حالات کو دیکھنے سے روک رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میت پر جو حالات گذرتے ہیں ہم ان کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ میت ابھی چارپائی پر ہوتی ہے کہ فرشتے اس کے منہ اور پیٹھ پر ضربیں لگانے لگتے ہیں اور سختی سے اس کی روح قبض کرتے ہیں۔ (الانعام:۹۴، الانفال:۵۰) اسی طرح جب میت کو قبرستان کی طرف لے جاتے ہیں تو نافرمان کی میت چیخنے چلانے لگتی ہے اور اس کی چیخ و پکار کو جن و انس کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت و ھو علی الجنازۃ قدمونی) لیکن برزخ کے حائل ہونے کی وجہ سے یہ تمام کاروائی جنوں اور انسانوں سے پوشیدہ رہتی ہے۔ اور اسی وجہ سے ہم میت کی چیخ و پکار اور آواز نہیں سن سکتے۔

برزخ کسی مقام کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک آڑ یا پردہ ہے۔ پردہ سے مراد یہاں دنیاوی پردہ نہیں ہے جیسا کہ بعض کوتاہ فہموں کو غلط فہمی ہوئی ہے بلکہ یہ ایک ایسا مضبوط پردہ اور آڑ ہے کہ جسے کراس کرنا انسانی بس سے باہر ہے البتہ یہ پردہ قیامت کے دن دور ہو جائے گا۔ لقد کنت فی غفلۃ من ھذا فکشفنا عنک غطاء ک فبصرک الیوم حدید۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا ہم نے تیرے سامنے سے اب وہ پردہ ہٹا دیا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔ (سورۃ ق آیت نمبر۲۲) اور یہی پردہ برزخ ہے۔ برزخ کی مزید تفصیل کے لئے علامہ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی کتاب مترادفات القرآن صفحہ ۷۶تا ۷۸کا مطالعہ فرمائیں۔

ایک اعتراض کا جواب

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ برزخ دنیا میں نہیں بلکہ آسمانوں میں ہوتی ہے اور یہ کہنا کہ ہمارے اور میت کے درمیان برزخ حائل ہوتی ہے تو اس بات کو بھی وہ غلط قرار دیتے ہیں۔ تو ایسے حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ غور سے اس آیت کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس آیت میں دو باتیں ذکر کی گئی ہیں۔ (۱) مرنے والوں کے پیچھے برزخ ہے۔ اب مرنے کا اطلاق کس پر ہو گا؟۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد جسم ہے۔ کیونکہ اس پر موت واقع ہوئی ہے۔ (۲) دوسری بات اس آیت میں یہ ہے کہ برزخ اُس دن تک قائم رہے گی کہ جب لوگ قبروں سے اُٹھائے جائیں گے اور ظاہر بات ہے کہ قبروں سے کیا اُٹھایا جائے گا؟ وہ جسم ہی ہو گا۔ تو معلوم ہوا کہ برزخ مرنے والوں اور دنیا کے درمیان ایک آڑ ہے۔ وللہ الحمد۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
برزخی قبر کا تصور کہاں سے آیا؟

قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر زمین میں ہوتی ہے جسے ارضی قبر کہتے ہیں اور کسی فرضی (برزخی) قبر کا قرآن و حدیث میں کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ لیکن موصوف اس بات پر مصر ہیں کہ قبر برزخ میں ہوتی ہے اس سلسلہ میں جب ہم نے تحقیق کی تو اس کی ایک دلیل مل گئی اور معلوم ہوا کہ برزخ میں قبر کا تصور شیعوں کے ہاں پایا جاتا ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
فقال اما فی القیامۃ فکلکم فی الجنۃ بشفاعۃ النبی المطاع او وصی النبی ولکنی واللّٰہ اتخوف علیکم فی البرزخ قلت و ما البرزخ قال القبر منذحین موتہ الی یوم القیامۃ (الفروع من الکافی ج۳ص۲۴۲طبع تہران)
عمرو بن یزید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام شیعہ جنت میں ہیں۔ المختصر یہ کہ امام صاحب نے فرمایا کہ جنت میں تمام شیعہ رسول اللہ ﷺ یا وصی رسول ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے جائیں گے لیکن اللہ کی قسم میں تمہارے حال پر ڈرتا ہوں، برزخ میں۔ عرض کیا: برزخ کیا ہے؟ فرمایا: ’’وہ قبر ہے جو موت کے وقت سے لے کر قیامت کے دن تک ہے‘‘۔

معلوم ہوا کہ برزخ میں قبر کا تصور ملت جعفریہ کے ہاں پایا جاتا ہے جسے ڈاکٹر موصوف نے وہاں سے اسمگل کر کے عام مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش کی ہے اور برزخی قبر کو نہ ماننے والوں کو کافر قرار دے دیا۔ غور کیجئے کہ شیعیت کے لئے کیسے کیسے ہاتھ کام کر رہے ہیں؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر ڈاکٹر عثمانی نے شیعہ ہونے کا بہتان بھی لگایا ہے جیسا کہ منکر حدیث تمنا عمادی وغیرہ نے امام زہری رحمہ اللہ جیسے عظیم محدث پر شیعہ ہونے کا بہتان باندھا ہے۔ دیکھئے: امام زہری و امام طبری صفحہ۲۱۔ لیکن خود تمنا عمادی مرزا غلام احمد قادیانی اور اُس کے خلفاء کو رحمۃ اللہ علیہ لکھتا ہے۔ دیکھئے ان کی کتاب ’’الطلاق مرتٰن‘‘ طبع قدیم۔ امام الزھری رحمہ اللہ جیسے عظیم محدث اور اولیاء اللہ کے سرخیل شیخ الاسلام کے متعلق اُس بہتان کا بدلہ اُسے یہ ملا کہ وہ قادیانی کذاب اور اس کی ذُرّیت کو رحمۃ اللہ علیہ لکھ کر دنیا سے چلا گیا اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص یہ بات لکھ جائے اہل اسلام کے نزدیک اُس کی کسی دوسری بات کا کیا اعتبار ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ اور نبی ﷺ کا فرمان ہے: المرء من احب۔ انسان (قیامت کے دن) اُسی کے ساتھ ہو گا کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ (بخاری:۶۱۶۸،۔ مسلم: ۲۶۴۰) لہٰذا منکرین حدیث کو قادیانیوں سے محبت مبارک ہو۔

ڈاکٹر موصوف کے اس بہتان عظیم کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح دیا کہ وہ خود شیعی عقائد کا مبلغ بن گیا اور لوگوں کے سامنے برزخی قبر کا عقیدہ پیش کر دیا۔ نیز موصوف عقیدئہ تناسخ کے بھی قائل ہیں۔

واضح رہے کہ دنیاوی قبر، دنیاوی جسم، برزخی قبر اور برزخی جسم کی اصطلاحات موصوف کی ایجاد کردہ ہیں اور ان سے جہاں قرآن و حدیث کا صاف انکار لازم آتا ہے وہاں یہ اصطلاحات بدعات کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔ اور انہیں ہم عثمانی بدعات کہہ سکتے ہیں اور یہ سب کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار کا مصداق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
دو زندگیاں اور دو موتیں

اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْـِــیــــیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (البقرۃ:۲۸)
’’تم اللہ (کے ایک معبود ہونے) کا کیسے انکار کرتے ہو کہ تم مردہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر (قیامت کے دن) وہ تمہیں زندہ کرے گا اور پھر تم اُسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے‘‘۔

دوسرے مقام پر اِرشاد فرمایا:
ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَـِــیّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ
’’پھر یقینا تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے‘‘۔ (المؤمنون:۱۵۔۱۶)

قَالُوْا رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَ اَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ (سورۃ المومن آیۃ:۱۱)
کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو نے واقعی ہمیں دو مرتبہ موت اور دو دفعہ زندگی دے دی اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں۔ کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟

ثابت ہوا کہ ہر انسان کو دو زندگیاں اور دو موتیں ہی عنایت کی گئی ہیں اور ڈاکٹر موصوف نے بھی اس کا ذکر کیا ہے بلکہ ان لوگوں کا زبردست ردّ کیا ہے کہ جو بقول ان کے دو زندگیوں کے بعد تیسری زندگی کے قائل ہیں۔ اور ان پر کفر کے فتوے بھی داغے ہیں۔ لیکن پھر انتہائی تعجب کی بات ہے کہ موصوف اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی خود تیسری زندگی کے قائل ہیں اور اس کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد اگر نئے برزخی جسم کے ساتھ تیسری زندگی تسلیم کر لی جائے تو یہ بات بالکل درست ہے بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ڈاکٹر عثمانی تیسری زندگی کے قائل تھے؟

موصوف نے عذاب قبر کے ماننے والوں کو دو زندگیوں اور دو موتوں کا انکاری قرار دیا ہے لیکن آپ کو حیرت ہو گی کہ خود موصوف حقیقتاً دو زندگیوں اور دو موتوں کے انکاری اور تین زندگیوں اور تین موتوں کے قائل تھے۔ چنانچہ موصوف لکھتے ہیں:
’’اللہ کے فرمان سے معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے اس کی لاش کو جلا کر خاک کر دیا جائے یا اُس کی میت درندوں اور مچھلی کے پیٹ کی غذا بن جائے۔ یہی وہ اصلی قبر ہے جہاں رُوح کو دوسرے (برزخی) جسم میں ڈال کر قیامت تک رکھا جائے گا۔ اور اسی پر راحت یا عذاب کا پورا دور گذرے گا۔ اور یہ معاملہ صرف مومنوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ کافر، مشرک، فاسق و فاجر و منافق ہر ایک کے ساتھ یہی ہو گا۔ قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے۔ ۔۔۔۔۔۔

قرآن کے بیان سے معلوم ہوا کہ فرعون کی لاش اس دُنیا میں عبرت کے لئے محفوظ، اور اُس کے ساتھیوں کی لاشیں بھی اسی دنیا میں لیکن اُن کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ثابت ہوا کہ ان کو کوئی دوسرا قیامت تک باقی رہنے والا اور عذاب برداشت کرنے والا جسم دیا گیا ہے۔ جسد عنصری وہ بہر حال نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔

بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں:

(۱) روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے، اور رُوح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دور گزرتا ہے۔

(۲) اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائے گا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔

(۳) یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے۔

(۴) دُنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں اُن کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔

(۵) نیکوکار مرنے والے مردوں عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے۔

(۶) شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے جسم سبز رنگ کے اور اُڑنے والے ہوتے ہیں۔ مسلم کی حدیث کے مطابق ان کے جسم۔

ان ساری حدیثوں نے بتلا دیا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ جو شخص بھی وفات پاجاتا ہے اُس کو حسب حیثیت ایک برزخی جسم ملتا ہے جس میں اُس کی رُوح کو ڈال دیا جاتا ہے اور اس جسم اور روح کے مجموعہ پر سوال و جواب اور عذاب و ثواب کے سارے حالات گذرتے ہیں اور یہی اس کی اصلی قبر بنتی ہے۔ قرآن اور صحیح احادیث کا بیان تو یہ ہے۔ ……… (عذاب برزخ ص۲، ۳،۶، ۹)۔

موصوف کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد ہر انسان کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے جسے موصوف برزخی جسم قرار دیتے ہیں۔ اور روح کو اس جسم میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس مکمل انسان کو قیامت تک راحت یا عذاب کے مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ عذاب کے نتیجے میں یہ جسم ریزہ ریزہ بھی ہو جاتا ہے اور پھر جب یہ جسم دوبارہ درست ہو جاتا ہے تو اس جسم میں دوبارہ روح کو ڈال دیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بار بار اعادہ روح ہوتا رہتا ہے اور ثواب و عذاب کا یہ سلسلہ قیامت تک رہتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جسم چاہے نیا ہو یا پرانا، برزخی ہو یا عنصری، اگر روح اس میں ڈال دی جائے تو یہ ایک زندہ انسان ہو جائے گا۔ اور مرنے والے کو یہ ایک کامل و مکمل زندگی حاصل ہو جائے گی اور جب قیامت آئے گی تو پھر نیا جسم فوت ہو جائے گا اور پرانا جسم دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ اور موصوف کی اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ موصوف میت (مردہ) کے عذاب کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ کے عذاب کے قائل ہیں اور مرنے کے بعد اس کے بقول روح کو ایک نئے جسم کے ساتھ زندگی دی جاتی ہے۔

موصوف مزید لکھتے ہیں:
’’اس آیت سے تو معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قیامت کے دن اُٹھایا جائے گا پھر قیامت سے پہلے مرنے والا اس قبر کے اندر کیسے زندہ ہو جاتا ہے اور اس طرح قبر میں زندہ ہو جانے کے بعد آخر اسے پھر موت کب آتی ہے اور ان تین زندگیوں کے ثبوت میں آخر دلیل کیا ہے تو خاموشی چھا جاتی ہے۔ قرآن کی طرح بخاری کی حدیث بھی یہی بیان کرتی ہے کہ دنیاوی جسم کو مٹی کھا لیتی ہے اور صرف قیامت کے دن عجب الذنب پر یہ جسم عنصری پھر بنے گا میدانِ محشر میں فیصلہ کے لئے حاضر کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔

آخر جب قیامت سے پہلے رُوح واپس ہی نہیں لوٹتی اور مٹی جسم کو برباد کر دیتی ہے تو اس دُنیاوی قبر کے مردہ سے سوال جواب کیسا اور بغیر رُوح کے مردہ کا احساسِ راحت و الم اور اُس کی چیخ و پکار کیا معنی؟ (عذاب برزخ صفحہ۱۱)۔

موصوف عذاب قبر کے قائلین سے سوال کر رہے ہیں کہ قبر میں اگر عذاب مان لیا جائے تو بقول موصوف کے یہ تیسری زندگی ہو جائے گی اور ان تین زندگیوں کے ثبوت کی آخر دلیل کیا ہے؟ لیکن خود موصوف جس حقیقی زندگی کے قائل ہیں اس کا ان کے پاس کیا ثبوت ہے؟ اور جن احادیث کو دلیل بنانے کی اس نے کوشش کی ہے اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔ پھر موصوف آگے لکھتے ہیں کہ روح کے بغیر عذاب و راحت کا احساس بے معنی ہے۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عذاب قبر میت کے بجائے زندہ کو ہونا چاہیئے اور وہ خود زندہ کے عذاب ہی کے قائل ہیں۔ بالفاظ دیگر موصوف گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میت کو عذاب نہیں ہو سکتا بلکہ یہ عذاب زندہ انسان کو ہونا چاہیئے کیونکہ روح کے بغیر عذاب و راحت بے معنی ہے۔ بہت خوب۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
اللہ کے قانون میں تبدیلی

اس طرح موصوف اللہ کے قانون کو بدلنا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ قبر کا عذاب میت کو دیا جائے گا اور موصوف کا فیصلہ یہ ہے کہ میت کو روح کے بغیر عذاب نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے موصوف نے مرنے کے بعد روح کے لئے ایک نیا برزخی جسم بھی بنا ڈالا اور اس طرح اس نے اللہ کے کلمات یعنی اللہ کے قانون کو بدلنے کی کوشش کی۔ جبکہ اللہ کے قانون کو کوئی بھی نہیں بدل سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لااَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ (یونس:۶۴)۔
اور اللہ کی باتوں میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ نیز فرمایا:
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلااًا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلااًا (فاطر:۴۳)
پس تم اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔ اور تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تغیر نہ پاؤ گے۔

اس وضاحت سے روزِ روشن کی واضح ہو گیا کہ موصوف تیسری زندگی کے قائل ہیں اور اعادئہ روح کے بھی۔ نئے جسم میں پہلی بار جب روح کو داخل کیا گیا تو وہ زندہ انسان بن گیا۔ اب عذاب کے نتیجے میں جب یہ جسم ریزہ ریزہ ہو گیا تو اسے دوبارہ بنا دیا گیا۔ اور پھر بار بار نئے جسم کی طرف اعادئہ روح ہوتا رہے گا اور یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا۔ روح کے نئے جسم میں ڈالے جانے والے عقیدہ سے ہندوؤں کے عقیدئہ تناسخ کو بھی تقویت ملتی ہے۔ گویا موصوف ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کے بھی قائل تھے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ من عادی لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب (بخاری۔ کتاب الرقاق باب:۳۸، ح:۶۵۰۱) ’’جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے‘‘ (بخاری)۔ موصوف محدثین کرام کے سخت دشمن تھے اور ان پر کفر کے فتوے لگانا اس کا روزمرہ کا معمول تھا۔ دراصل موت روح اور جسم کی جدائی کا نام ہے اور روح کے جسم میں داخل ہونے کا مطلب زندگی ہے اور رُوح کے جسم میں داخل ہونے کا عقیدہ قرآن کریم کے سراسر خلاف ہے۔ فافھم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
یہی وجہ ہے کہ موصوف تیسری زندگی، اعادئہ روح اور ہندوؤں کے عقیدئہ تناسخ کے قائل ہو کر اس دنیا سے برزخ کی طرف رواں دواں ہوئے ہیں۔ ثابت ہوا کہ موصوف:

(۱) تیسری زندگی کے قائل تھے۔

(۲) باربار اعادہ روح کے قائل تھے۔

(۳) ہندوؤں کے عقیدئہ تناسخ کے بھی قائل تھے۔

(۴) میت کے عذاب کے برخلاف وہ زندہ کے عذاب کے قائل تھے اور اس اصول کے مطابق وہ عذاب قبر کے انکاری تھے اور برزخی قبر میں عذاب کے قائل تھے جبکہ برزخی قبر کا عقیدہ شیعوں کا ہے۔

(۵) موصوف تکفیری فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ موصوف نے برزخی جسم کے ثبوت کے لئے جو احادیث ذکر کی ہیں ان میں سے کسی میں بھی جسم کے الفاظ ثابت نہیں ہیں اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ روح کو برزخی جسم میں ڈال دیا جاتا ہے بلکہ موصوف نے زبردستی ان احادیث سے برزخی جسم کو کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جہنم میں ارواح کے عذاب کے مناظر ہیں جو نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مختلف موقعوں پردکھائے ہیں اور بس۔ لیکن موصوف نے نبی ﷺ پر جو واضح اور کھلا جھوٹ باندھا ہے اس کی سزا جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینے کے مترادف ہے۔ (بخاری و مسلم)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
تین زندگیاں یا بے شمار زندگیاں؟؟؟

موصوف کے بار بار اعادہ روح کے عقیدہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ موصوف تین زندگیوں ہی کے نہیں بلکہ بے شمار زندگیوں کے قائل تھے کیونکہ برزخی جسم کا ریزہ ریزہ ہو جانا پھر اس جسم کا دوبارہ بننا اور پھر اس میں روح کا اعادہ! اس طرح تو ایک ہی دن میں بے شمار زندگیاں بن جاتی ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر کفر کے فتوے لگانے والے سوچیں کہ انکے پیر مغان پر اب کفر کے کتنے فتوے لگ سکتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے پرستار ان پر کفر کے فتوے لگانے کا کب آغاز کرتے ہیں؟۔

موصوف معجزات کو دلیل بنانے والوں سے کہتے ہیں: ’’نبی کے معجزہ کو معمول بنا کر اپنے عقیدہ کے ثبوت میں پیش کرنا بلا کی چابکدستی ہے‘‘ (عذاب برزخ ص۱۹)۔ لیکن خود موصوف ان احادیث سے برزخی جسم کشید کرنے لگ گئے اور انہیں یہ خیال تک نہ آیا کہ معجزات سے بھلا کبھی دلیل اخذ کی جا سکتی ہے؟ کسی چیز کا نفس الامر میں موجود ہونا اور معجزہ اسے صرف ظاہر کرے مثلاً کسی میت پر عذاب ہو رہا ہے اور آپ ﷺ وحی کے ذریعہ بتا دیں کہ اسے عذاب ہو رہا ہے، یہ معجزہ نہیں بلکہ وحی کی ایک شکل ہے چاند کے دو ٹکڑے ہو جانا بھی ایک معجزہ ہے لیکن اس سے کوئی عام دلیل اخذ نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ اسے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ پھر حیرت اس بات پر ہے کہ جرائم جسم عنصری کرے اور عذاب نئے برزخی جسم کو دیا جائے!! یہ کیا بوالعجبی ہے اور کیا جہالت ہے؟؟

ڈاکٹر موصوف نے قبر کے عذاب کے ماننے والوں پر کفر کے فتوے داغے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قبر کے عذاب کو اگر تسلیم کر لیا گیا تو یہ بات دنیاوی قبر میں عذاب قبر کا اثبات حیات فی القبر کے ہم معنی اور قبر پرستی کے شرک کی اصل اور بنیاد ہے (عذاب قبر ص:۲۶)۔

یہ بات تو درست ہے کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا، وہاں چادر، بکرا، مٹھائی وغیرہ چڑھانا قبروں کی پوجا پاٹ کرنا، بزرگوں سے دعائیں مانگنا، انہیں مدد کے لئے پکارنا وغیرہ شرکیہ افعال ہیں۔ لیکن قبر کے اندر کے معاملات پر لب کشائی کرنا، آخرت کے حالات کو دنیا پر قیاس کرنا اور قبر کے عذاب و ثواب پر ایمان لانے کے بجائے الٹا اس پر فتویٰ بازی کرنا جہالت کی انتہاء ہے اور احادیث صحیحہ متواترہ کا انکار ہے۔ عذاب قبر کے بیان پر اس قدر کثرت کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ جن کا کوئی شمار ہی نہیں اور ان احادیث کے ماننے والوں پر فتویٰ بازی کرنا یقینا سخت گمراہی ہے۔ اور ایسا شخص یقینا ضال و مضل ہے یعنی خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہا ہے۔

حیرت اس بات پر ہے کہ خود موصوف مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے ایک ایسی مکمل زندگی کے قائل ہیں کہ اس طرح کی زندگی کا قائل اس اُمت مسلمہ میں کوئی بھی نہیں ہے۔ اور دنیاوی قبر میں عذاب کے قائل کو موصوف نے حیات فی القبر اور قبر پرستی کے شرک کا اصل مجرم قرار دے ڈالا ہے۔ لیکن جو شخص مرنے کے بعد ایک کامل و مکمل تیسری زندگی کا قائل ہو اس پر کون کونسے فتوے چسپاں ہو سکتے ہیں؟ ان فتوؤں کا ان کے پرستار خود ہی تعین کر دیں تو بہتر ہو گا۔ موصوف ہی الفاظ میں:

فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
مرزا غلام احمد قادیانی اور ڈاکٹر عثمانی کے عقیدہ میں مماثلت

سوال یہ ہے کہ موصوف نے نئے جسم میں روح کے داخل ہونے کا عقیدہ آخر کہاں سے اخذ کیا؟ دراصل ڈاکٹر موصوف نے نئے جسم میں روح کے داخل ہونے کا عقیدہ مرزا غلام احمد قادیانی سے لیا ہے۔ چنانچہ پہلے مرزا قادیانی کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

’’سو ان تمام دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ روح کے افعالِ کاملہ صادر ہونے کے لئے اسلامی اصول کے رُو سے جسم کی رفاقت روح کے ساتھ دائمی ہے۔ گو موت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہو جاتا ہے مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لئے جسم ملتا ہے۔ وہ جسم اس جسم کی قسم میں سے نہیں ہوتا بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو جسم تیار ہوتا ہے۔ گویا کہ اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں۔ ایسا ہی خدا کے کلام میں بار بار ذکر آیا ہے۔ اور بعض جسم نورانی اور بعض ظلماتی قرار دیئے ہیں جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ظلمت سے تیار ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ راز ایک نہایت دقیق راز ہے مگر غیر معقول نہیں۔ انسانِ کامل اسی زندگی میں ایک نورانی وجود اس کیفیت جسم کے علاوہ پا سکتا ہے اور عالمِ مکاشفات میں اس کی بہت مثالیں ہیں۔ اگرچہ ایسے شخص کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے جو صرف ایک موٹی عقل کی حد تک ٹھہرا ہوا ہے لیکن جن کو عالمِ مکاشفات میں سے کچھ حصہ ہے وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے تیار ہوتا ہے۔ تعجب اور استبعاد کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اس مضمون سے لذت اٹھائیں گے۔

غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے۔ یہی عالم برزخ میں نیک و بد کی جزا کا موجب ہو جاتا ہے۔ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں باربار بعض مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے۔ اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے۔ غرض میں اس کوچہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں اور میں زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے ایسا ہی ضرور مرنے کے بعد ہر ایک کو ایک جسم ملتا ہے خواہ نورانی خواہ ظلماتی۔ انسان کی یہ غلطی ہو گی اگر وہ ان نہایت باریک معارف کو صرف عقل کے ذریعہ سے ثابت کرنا چاہے۔ بلکہ جاننا چاہیئے کہ جیسا کہ آنکھ شیریں چیز کا مزہ نہیں بتلا سکتی اور نہ زبان کسی چیز کو دیکھ سکتی ہے۔ ایسا ہی وہ علومِ معاد جو پاک مکاشفات سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ صرف عقل کے ذریعہ سے ان کا عقدہ حل نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں مجہولات کے جاننے کے لئے علیحدہ علیحدہ وسائل رکھے ہیں۔ پس ہر ایک چیز کو اس کے وسیلہ کے ذریعہ سے ڈھونڈو تب اسے پالو گے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی از مرزا غلام احمد قادیانی کذاب ص۱۳۵، ۱۳۶، روحانی خزائن ج۱۰، ص۴۰۴)۔

مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ پر صریح جھوٹ بھی کہا اور ارواح کے نئے جسم میں داخل ہونے کے عقیدہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا اور یہی حال موصوف کا بھی ہے کہ اس نے احادیث کا سہارا لے کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کہا۔ حالانکہ نئے جسم کے عقیدے کا بانی مرزا قادیانی ہے اور اسی عقیدے کو نعمت غیر مترقبہ جان کر ڈاکٹر موصوف نے اسے سینہ سے چمٹا لیا۔ اس وضاحب سے ثابت ہوا کہ برزخی جسم کا عقیدہ ’’قادیانی عقیدہ‘‘ ہے اور جسے ڈاکٹر موصوف نے اپنے روحانی استاذ مرزا قادیانی کذاب سے اخذ کیا ہے۔ ویا للعجب۔

اس وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ موصوف نے نئے جسم کا عقیدہ مرزا قادیانی سے اسمگل کیا ہے اور جسے مرزا قادیانی نے ’’ایک نہایت دقیق راز‘‘ قرار دیا ہے۔ اور ڈاکٹر موصوف اسے ایک اہم عقیدہ قرار دے کر اُمت مسلمہ میں پھیلا رہے ہیں اور اس عقیدہ کی طرف لوگوں کو دعوت دی جارہی ہے۔ اور اس عقیدہ کا ماننے والا مؤمن اور اس کا انکار کرنے والا موصوف کے نزدیک کافر ہے۔ ثابت ہوا کہ موصوف چھپا قادیانی بھی ہے کیونکہ وہ قادیانی عقیدہ کی لوگوں کو دعوت دے رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
برزخی جسم کی حقیقت

ڈاکٹر عثمانی چونکہ تیسری زندگی کا قائل تھا اور اس کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد روح کو ایک نئے برزخی جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے اور اسی جسم کو قیامت تک راحت یا عذاب ہوتا رہتا ہے۔ اب جسم چاہے نیا ہو یا پرانا جب روح کو اس میں داخل کر دیا گیا تو یہ ایک کامل و مکمل زندگی بن جاتی ہے۔ اور اس طرح ڈاکٹر موصوف اپنے ہی فتوے سے کافر ثابت ہو گئے۔ اس سلسلہ میں موصوف کے پاس سوائے مغالطوں، دھوکے اور فراڈ کے سوا کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے۔ چنانچہ اس مضمون میں موصوف کی ان شاطرانہ چالوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

موت روح اور بدن کی مفارقت اور جدائی کا نام ہے اور قیامت کے دن روحوں کو دوبارہ جسموں میں داخل کر دیا جائے گا اور انسانوں کو قیامت کے دن دوبارہ حقیقی زندگی حاصل ہو گی۔ قیامت سے پہلے روح کا جسم کے ساتھ اتصال ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
وَ اِذَ النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التکویر آیت:۷)
اور جب روحیں (جسموں سے) ملا دی جائیں گی۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے: ’’پھر روحیں چھوڑ دی جائیں گی اور ہر روح اپنے جسم میں آجائے گی، یہی معنی ہیں: وَ اِذَ النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ۔ یعنی روحیں جسموں میں ملا دی جائیں گی۔ (ج:۵ص:۵۹۰، اُردو ترجمہ مکتبہ قدوسیہ لاہور)۔

نیز اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
ثُمَّ اِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ
پھر یقینا تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے۔ (المؤمنون:۱۵۔۱۶)۔

روح جنت یا جہنم میں ہوتی ہے جبکہ جسم قبر میں راحت یا عذاب سے دوچار ہوتا ہے۔ قیامت سے پہلے روح کسی عارضی بدن میں داخل نہیں کی جاتی۔ لیکن ڈاکٹر موصوف کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد روح ایک نئے برزخی جسم میں داخل کر دی جاتی ہے اور یہ جسم راحت یا عذاب کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ موصوف برزخی جسم کے خود ساختہ دلائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیتِنَا لَغٰفِلُوْنَ (یونس:۹۲)
تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد کے آنے والے لوگوں کیلئے نشانِ عبرت بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت ہماری نشانیوں سے غفلت برتتی ہے۔

فرعون کی لاش عبرت کے لئے دنیا میں، اور اللہ تعالیٰ کا سورۃ المؤمن میں اِرشاد کہ آلِ فرعون کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے:
فَوَقٰہُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْآ اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (سورۃ المؤمن آیات:۴۵۔۴۶)
ترجمہ: آخر کار ان لوگوں نے جو بری سے بری چالیں اُس مومن کے خلاف چلیں، اللہ نے اُن سب سے اُس کو بچا لیا۔ اور آلِ فرعون خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے۔ دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح و شام وہ پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہو گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کردو۔

قرآن کے بیان سے معلوم ہوا کہ فرعون کی لاش اس دُنیا میں عبرت کے لئے محفوظ، اور اُس کے ساتھیوں کی لاشیں بھی اِسی دُنیا میں لیکن اُن کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ثابت ہوا کہ اُن کو کوئی دوسرا قیامت تک باقی رہنے والا اور عذاب برداشت کرنے والا جسم دیا گیا ہے۔ جسد عنصری وہ بہرحال نہیں ہے۔

اسی طرح عمرو بن لحی الخزاعی کو نبی ﷺ نے جہنم کی آگ میں اپنی انتڑیوں کو کھینچتے ہوئے دیکھا (پیٹ کے پھٹنے کے بعد) وہ پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم (عربوں میں) رائج کی تھی۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
حدثنا محمد بن ابی یعقوب عبداللّٰہ الکرمانی قال حدثنا حسان ابن ابراھیم قال حدثنا یونس عن الزھری عن عروۃ عن عائشۃ قالت قال رسول اللّٰہ ﷺ رایت جھنم یحطم بعضھا بعضا و رأیت عمرا یجر قصبہ وھو اول من سیب السوائب (بخاری جلد ۲عربی ص:۶۶۵مطبوعہ دہلی)
ترجمہ … عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اُس کا بعض حصہ بعض کو برباد کئے دے رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن لحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا۔ وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔ (بخاری جلد ۲عربی ص:۶۶۵مطبوعہ دہلی)

اسی طرح بخاری کی دوسری روایت میں راحت و عذاب دونوں کا ذکر برزخی جسموں کے ساتھ ثابت ہے۔
 
Top