- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
حاکمیت ِالٰہی:
14) جس طرح خلق و تخلیق کی صفت اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے، اسی طرح مخلوق میں حکم اور فیصلے کا استحقاق بھی اسی کو حاصل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی نے مخلوق تخلیق فرمائی ہے اور وہی سب سے زیادہ یہ علم رکھتا ہے کہ اس کی مخلوق کے لیے کون سی شے مناسب اور موزوں ہے۔پرورد گارِ عالم کا امر، تکوینی اور تشریعی، ہر دو پہلوؤں کو محیط ہے۔ جس طرح تکوین و تقدیر کے دائروں میں حکم و فیصلے کا اختیار صرف اللہ عزوجل ہی کو حاصل ہے، یعنی وہ اس کائنات کا مدبر ہے اور اپنی حکمت کے تحت جو چاہتا ہے، فیصلے فرماتا ہے، اسی طرح ہم تشریع و تحکیم میں بھی اسی کو یکتا قرار دیتے ہیں۔ ہم اس کے حکم و فیصلے میں کسی کو شریک و دخیل مانتے ہیں اور نہ ہی اس کی عبادت میں کسی کو حصہ دار ٹھیراتے ہیں۔، لہٰذا اللہ رب العزت کی مخلوق اور بادشاہی میں صرف اسی کا حکم نافذ ہوگا، اس کے سوا ہر ایک کا حکم و امر باطل ، مردود اورمسترد کیے جانے کے لائق ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (الاعراف54:7)
’’ خبرداررہو اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ ‘‘
پس حلال وہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے حلت کی سند عطا کی ہے اور حرام وہ ہے، جسےاللہ نے حرمت سے متصف کیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِۭاَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (یوسف12:40)
’’ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
اللہ سجانہ و تعالیٰ ہی بر حق شریعت ساز ہے، ہم اس کے سوا ہر شریعت ساز سے اظہار براء ت کرتے، اس کے خلاف اعلان بغاوت کرتے اور اسے کافر ٹھہراتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی رب کے خواہش مند ہیں، نہ اس کے سوا کسی کو اپنا کار ساز مانتے ہیں اور نہ ہی اسلام کے سوا کسی دین کے طالب ہیں۔ جو اللہ عزوجل کے علاوہ کسی دوسرے کو حَکَم و فیصل اور قانون ساز تسلیم کرتا، شریعت الٰہی کے منافی اس کے قوانین کی پیروی کرتا اور تشریع و تقنین میں اس کی موافقت کرتا ہے، گویا وہ غیر اللہ کو رب قرار دیتا اور اسلام کے سوا کسی اور دین کا طلبگار ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـِٕہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْۚوَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ (الأنعام:121:6)
’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں، لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی، تو یقینا تم مشرک ہو۔‘‘
نیز فرمایا:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ (التوبۃ31:9)
’’انہوں نے اللہ کے سوا اپنے فقیہوں اور راہبوں کو رب بنا ڈالا۔‘‘
٭ اسی کا حکم عدلِ مطلق اورحق ِ مطلق ہے۔ وہی سب سے اچھا، سب سے خوبصورت اور سب سے زیادہ مفید و نافع ہے۔ اسی کی پیروی لازم ہے، اس کے مخالف ہر شے باطل اور مردود ہے، نیز وہ جاہلیت کا فیصلہ ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ (المائدہ50:5)
’’ تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں،ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘
نیز ارشاد ِ ربانی ہے:
وَاللہُ يَقْضِيْ بِالْحَقِّۭوَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا يَقْضُوْنَ بِشَيْءٍ (المومن 20:40)
’’ اور اللہ ٹھیک ٹھیک بے لاگ فیصلہ کرے گا۔ رہے وہ جن کو ( یہ مشرکین ) اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں۔‘‘
٭ ہم الوہیت، ربوبیت اور اسماء و صفات میں اللہ رب العزت کی توحید و یکتائی کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہم اس کے قائل نہیں ہیں کہ تحاکم یا حاکمیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید، چوتھی یا پانچویں قسم کی توحید ہے۔ ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ اس کے بعض پہلو تو حید الوہیت میں داخل ہیں، بعض توحید ربوبیت میں اور بعض کا تعلق توحید اسما ء و صفات سے ہے۔
توحید حاکمیت کی اہمیت
٭ ہم توحید کے اس پہلو کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور اس کا بہ طور خاص تذکرہ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے اعتقاد کی رو سے عصرِ حاضر میں امت مسلمہ اسی جہت سے فتنے کا شکار ہے کہ حاکمیت میں اللہ رب العزت کی وحدانیت و یکتائی اور توحید کی مخالفت کی جارہی ہے اور اللہ عزوجل کے حکم و شریعت سے روگردانی کر کے طاغوت کے فیصلوں اور قوانین کو اپنایا جا رہا ہے۔
14) جس طرح خلق و تخلیق کی صفت اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے، اسی طرح مخلوق میں حکم اور فیصلے کا استحقاق بھی اسی کو حاصل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی نے مخلوق تخلیق فرمائی ہے اور وہی سب سے زیادہ یہ علم رکھتا ہے کہ اس کی مخلوق کے لیے کون سی شے مناسب اور موزوں ہے۔پرورد گارِ عالم کا امر، تکوینی اور تشریعی، ہر دو پہلوؤں کو محیط ہے۔ جس طرح تکوین و تقدیر کے دائروں میں حکم و فیصلے کا اختیار صرف اللہ عزوجل ہی کو حاصل ہے، یعنی وہ اس کائنات کا مدبر ہے اور اپنی حکمت کے تحت جو چاہتا ہے، فیصلے فرماتا ہے، اسی طرح ہم تشریع و تحکیم میں بھی اسی کو یکتا قرار دیتے ہیں۔ ہم اس کے حکم و فیصلے میں کسی کو شریک و دخیل مانتے ہیں اور نہ ہی اس کی عبادت میں کسی کو حصہ دار ٹھیراتے ہیں۔، لہٰذا اللہ رب العزت کی مخلوق اور بادشاہی میں صرف اسی کا حکم نافذ ہوگا، اس کے سوا ہر ایک کا حکم و امر باطل ، مردود اورمسترد کیے جانے کے لائق ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (الاعراف54:7)
’’ خبرداررہو اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ ‘‘
پس حلال وہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے حلت کی سند عطا کی ہے اور حرام وہ ہے، جسےاللہ نے حرمت سے متصف کیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِۭاَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (یوسف12:40)
’’ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
اللہ سجانہ و تعالیٰ ہی بر حق شریعت ساز ہے، ہم اس کے سوا ہر شریعت ساز سے اظہار براء ت کرتے، اس کے خلاف اعلان بغاوت کرتے اور اسے کافر ٹھہراتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی رب کے خواہش مند ہیں، نہ اس کے سوا کسی کو اپنا کار ساز مانتے ہیں اور نہ ہی اسلام کے سوا کسی دین کے طالب ہیں۔ جو اللہ عزوجل کے علاوہ کسی دوسرے کو حَکَم و فیصل اور قانون ساز تسلیم کرتا، شریعت الٰہی کے منافی اس کے قوانین کی پیروی کرتا اور تشریع و تقنین میں اس کی موافقت کرتا ہے، گویا وہ غیر اللہ کو رب قرار دیتا اور اسلام کے سوا کسی اور دین کا طلبگار ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـِٕہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْۚوَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ (الأنعام:121:6)
’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں، لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی، تو یقینا تم مشرک ہو۔‘‘
نیز فرمایا:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ (التوبۃ31:9)
’’انہوں نے اللہ کے سوا اپنے فقیہوں اور راہبوں کو رب بنا ڈالا۔‘‘
٭ اسی کا حکم عدلِ مطلق اورحق ِ مطلق ہے۔ وہی سب سے اچھا، سب سے خوبصورت اور سب سے زیادہ مفید و نافع ہے۔ اسی کی پیروی لازم ہے، اس کے مخالف ہر شے باطل اور مردود ہے، نیز وہ جاہلیت کا فیصلہ ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ (المائدہ50:5)
’’ تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں،ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘
نیز ارشاد ِ ربانی ہے:
وَاللہُ يَقْضِيْ بِالْحَقِّۭوَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا يَقْضُوْنَ بِشَيْءٍ (المومن 20:40)
’’ اور اللہ ٹھیک ٹھیک بے لاگ فیصلہ کرے گا۔ رہے وہ جن کو ( یہ مشرکین ) اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں۔‘‘
٭ ہم الوہیت، ربوبیت اور اسماء و صفات میں اللہ رب العزت کی توحید و یکتائی کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہم اس کے قائل نہیں ہیں کہ تحاکم یا حاکمیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید، چوتھی یا پانچویں قسم کی توحید ہے۔ ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ اس کے بعض پہلو تو حید الوہیت میں داخل ہیں، بعض توحید ربوبیت میں اور بعض کا تعلق توحید اسما ء و صفات سے ہے۔
توحید حاکمیت کی اہمیت
٭ ہم توحید کے اس پہلو کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور اس کا بہ طور خاص تذکرہ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے اعتقاد کی رو سے عصرِ حاضر میں امت مسلمہ اسی جہت سے فتنے کا شکار ہے کہ حاکمیت میں اللہ رب العزت کی وحدانیت و یکتائی اور توحید کی مخالفت کی جارہی ہے اور اللہ عزوجل کے حکم و شریعت سے روگردانی کر کے طاغوت کے فیصلوں اور قوانین کو اپنایا جا رہا ہے۔