• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ طائفہ منصورہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پل صراط

ہم جہنم کے اوپر نصب شدہ پل صراط پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ یہ پل، جنت اور جہنم کے درمیان ہے۔ لوگ اس پر سے، اپنے اعمال کے مطابق گزریں گے، چنانچہ بعض لوگ پلک جھپکتے ہی گزر جائیں گے، بعض برق کی مانند، بعض ہوا کی رفتار سے، بعض تیز رفتار گھوڑوں کی طرح اور بعض اونٹ کی رفتار سے اس پل کو عبور کریں گے۔ کچھ لوگ دوڑتے ہوئے، کچھ پیدل چلتے ہوئے اور کچھ گھسٹتے ہوئے گزریں گے۔ بعض ایسے بد نصیب بھی ہوں گے، جنھیں اچک کر جہنم کی نذر کر دیا جائے گا۔ اس پل پر ایسے کانٹے نصب ہیں، جو لوگوں کے اعمال کی بنا پر انھیں اچک لیں گے۔ جو شخص پل صراط عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ہم اللہ کے حضور دست بہ دعا ہیں کہ وہ ہمیں دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔
پل عبور کرنے والے جب اس حصے میں پہنچیں گے، جو جنت اور جہنم کے مابین ہے، تو وہاں کچھ دیر کے لیے ٹھہریں گے، اور بعض آپس میں لین دین کر کے اپنا حساب چکائیں گے ، پھر جب صفائی کے بعد وہ پوری طرح آلائشوں سے پاک کر دیے جائیں گے، تو انھیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جاے گی۔

جنت کا دروازہ سب سے پہلےرحمۃ اللعالمین محمد ﷺ کھلوائیں گے اور سب سے پہلے آپ ﷺ ہی کی امت جنت میں داخل ہونے کا شرف حاصل کرے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جنت و دوزخ

ہم جنت اور جہنم پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ دونوں مخلوق ہیں، لیکن فنا نہیں ہوں گی۔
جنت نعمتوں کی جگہ ہے، جو اہل ایمان کے لیے ایک پائیدار مقام عزت میں ایک مقتدر بادشاہ کے پاس تیار کی گئی ہے۔ اس میں ایسی ابدی نعمتیں ہیں، جنھیں کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال ہی آیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْيُنٍ۰ۚجَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(السجدۃ17:32)
’’ کسی کو پتا نہیں کہ ان لوگوں کے واسطے، ان کے اعمال کے صلہ میں، آنکھوں کی کیا ٹھنڈک پوشیدہ ہے۔‘‘

دوزخ ، جائے عذاب ہے، جو اصلاً تو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے،
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ. (آل عمران131:3)
’’اور اس آگ سے ڈرو، جو کافروں کے لیے تیار ہے۔‘‘

البتہ گنہگار مسلمان بھی اس میں داخل ہوں گے، لیکن یہ ان کا اصل ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ نہیں رہیں گے، بلکہ اپنے گناہوں کے بہ قدر عذاب جھیلیں گے، پھر ان کا ٹھکانہ جنت ہو گا، جو اہل ایمان کا حقیقی مستقر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شفاعت مصطفوی

ہم شفاعت پر بھی ایمان رکھتے ہیں، جس کی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمد ﷺ کو اجازت دے رکھی ہے۔ روز قیامت آپ ﷺ کو تین قسم کی شفاعت حاصل ہو گی:

پہلی قسم کی شفاعت وہ ہے، جو آپ ﷺ لوگوں کا حساب شروع کرانے کے لیے کریں گے۔ یہ اس وقت ہو گی، جب لوگ سیدنا آدم، سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا موسی اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جا کر سفارش کی درخواست کریں گے، لیکن وہ اس سے انکار کر دیں گے، بالآخر لوگ جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے شفاعت کے ملتمس ہوں گے ۔

دوسری شفاعت، اہل جنت کے لیے ہو گی کہ انھیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔

یہ دونوں شفاعتیں محمد مصطفی ﷺ کی خصوصیت ہیں۔ واضح رہے کہ رسول اکرم ﷺ کو ایک اور خاص شفاعت بھی حاصل ہے، جو آپ ﷺ اپنے چچا ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے لیے کریں گے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔(بخاری:۳۸۸۵،مسلم :۲۰۹)

تیسری قسم کی شفاعت وہ ہے، جو آپ ﷺ ان اہل توحید کے لیے کریں گے جو دوزخ کے سزا وار ہیں۔نبی رحمت ﷺ سفارش فرمائیں گے، کہ انھیں جہنم سے رہائی عطا فرمائی جائے، یا دوزخ میں داخل ہی نہ کیا جائے۔ شفاعت کی یہ نوع آپ ﷺ کے علاوہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام، صدیقین، شہدا اور ان تمام لوگوں کو حاصل ہو گی، جنھیں اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔ پس وہ اللہ کی بارگاہ میں شفاعت کریں گے کہ دوزخ کے مستحق کو اس میں نہ پھینکا جائے اور جو اس میں داخل ہو چکے ہیں، ان سے متعلق سفارش ہو گی کہ انھیں وہاں سے نکال لیا جائے۔

اللہ رب العزت کچھ لوگوں کو اپنے فضل و رحمت سے بلا شفاعت بھی جہنم سے چھٹکارا عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد بھی جنت کی وسعتیں مزید افراد کی طالب ہوں گی، چنانچہ اللہ عزوجل اور لوگوں کو تخلیق فرما کر جنت کا مہمان بنائے گا۔

شفاعت پر ایمان ہمارا وہ امتیازی و صف ہے، جس کی بنا پر ہم خوارج کے مخالف ہیں، جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب افراد کو دائمی جہنمی قرار دیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شفاعت مصطفوی

ہم شفاعت پر بھی ایمان رکھتے ہیں، جس کی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمد ﷺ کو اجازت دے رکھی ہے۔ روز قیامت آپ ﷺ کو تین قسم کی شفاعت حاصل ہو گی:

پہلی قسم کی شفاعت وہ ہے، جو آپ ﷺ لوگوں کا حساب شروع کرانے کے لیے کریں گے۔ یہ اس وقت ہو گی، جب لوگ سیدنا آدم، سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا موسی اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جا کر سفارش کی درخواست کریں گے، لیکن وہ اس سے انکار کر دیں گے، بالآخر لوگ جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے شفاعت کے ملتمس ہوں گے ۔

دوسری شفاعت، اہل جنت کے لیے ہو گی کہ انھیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔

یہ دونوں شفاعتیں محمد مصطفی ﷺ کی خصوصیت ہیں۔ واضح رہے کہ رسول اکرم ﷺ کو ایک اور خاص شفاعت بھی حاصل ہے، جو آپ ﷺ اپنے چچا ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے لیے کریں گے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔(بخاری:۳۸۸۵،مسلم :۲۰۹)

تیسری قسم کی شفاعت وہ ہے، جو آپ ﷺ ان اہل توحید کے لیے کریں گے جو دوزخ کے سزا وار ہیں۔نبی رحمت ﷺ سفارش فرمائیں گے، کہ انھیں جہنم سے رہائی عطا فرمائی جائے، یا دوزخ میں داخل ہی نہ کیا جائے۔ شفاعت کی یہ نوع آپ ﷺ کے علاوہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام، صدیقین، شہدا اور ان تمام لوگوں کو حاصل ہو گی، جنھیں اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔ پس وہ اللہ کی بارگاہ میں شفاعت کریں گے کہ دوزخ کے مستحق کو اس میں نہ پھینکا جائے اور جو اس میں داخل ہو چکے ہیں، ان سے متعلق سفارش ہو گی کہ انھیں وہاں سے نکال لیا جائے۔

اللہ رب العزت کچھ لوگوں کو اپنے فضل و رحمت سے بلا شفاعت بھی جہنم سے چھٹکارا عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد بھی جنت کی وسعتیں مزید افراد کی طالب ہوں گی، چنانچہ اللہ عزوجل اور لوگوں کو تخلیق فرما کر جنت کا مہمان بنائے گا۔

شفاعت پر ایمان ہمارا وہ امتیازی و صف ہے، جس کی بنا پر ہم خوارج کے مخالف ہیں، جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب افراد کو دائمی جہنمی قرار دیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دیدار باری تعالیٰ

ہم اس حقیقت پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اہل ایمان روز قیامت اور جنت میں اپنے پرورد گار کی زیارت سے بہرہ مند ہوں گے۔
ارشاد باری ہے:
وُجُوْہٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ۲۲ۙ اِلٰى رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ (القیامۃ23-24:75)
’’اس روز بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے۔ اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ سے مروی، متواتر احادیث سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ مومن قیامت کے دن اپنے رب کو اس طرح دیکھیں گے، جیسے چودھویں رات کے چاند کا نظارہ کرتے ہیں اور اسے دیکھنے میں انھیں کسی پریشانی یا مشقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

واضح رہے کہ ہم رب کریم کو اس کی کسی مخلوق سے تشبیہ نہیں دے رہے، بلکہ اس مقام پر محض رؤیت کو حقیقت اور عدم مزاحمت میں دوسری رؤیت سے تشبیہ دی جارہی ہے، دیکھی جانے والی شے کو تشبیہ نہیں دی گئی۔

اس موقع پراللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ حقیقت بھی نگاہ میں رہے کہ
لَا تُدْرِكُہُ الْاَبْصَارُ۰ۡوَہُوَيُدْرِكُ الْاَبْصَارَ۰ۚ . (الانعام103:6)
’’نظریں اسے پا نہیں سکتیں جبکہ وہ نظروں کو پا لیتا ہے ۔‘‘

ہم اللہ عزوجل کے بارے میں اسی شے کا اثبات کرتے ہیں، جس کا اثبات اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب نظر کا اور رسول اللہ ﷺ نے مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی زیارت کا اثبات کیا ہے، چنانچہ ہم بھی انھیں ثابت مانتے ہیں۔

واضح رہے کہ ’نظر‘ اور ’رؤیت‘ کی حقیقت، ’ادراک‘ سے جدا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حدود کے پاس ٹھہر جاؤ اور نصوص وحی سے وہ مفہوم اخذنہ کرو، جس کا ان میں احتمال نہیں ہے اور نہ ہی ان سے ثابت شدہ کسی شے کی تردید کا رویہ اپناؤ، بہ صورت دیگر اس باب میں لغزش، ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایمان بالآخرت کے ثمرات

آخرت پر ایمان کی بدولت انسان دل و جان سے نیکی کی سعی و کاوش کرتا ہے، تاکہ ان نعمتوں سے بہرہ یاب ہو سکے، جو اللہ نے اہل ایمان کے لیے تیار کر رکھی ہیں اور اس سزا سے خلاصی پاسکے، جس کی وعید اللہ تعالیٰ نے نا فرمانوں اور کافروں کو سنائی ہے۔

ایمان بالآخرت، قلب و ذہن میں جلوہ گر ہو، تو مومن، دنیوی مال و متاع کی محرومی پر بے تاب اور مایوس نہیں ہوتا۔ اسی طرح وہ ایمان اور دعوت و جہاد کی راہ میں پیش آنے والے مصائب و مشکلات پر بھی گھبراہٹ اور خوف کا شکار نہیں ہوتا، کیونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ آخرت میں اس کا بدلہ مل جائے گا اور وہ ثواب و نعیم کی لذتوں سے لطف اندوز ہو گا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی، ایمان بالآخرت کے بے شمار فوائد ہیں، چنانچہ یہ محض چند امور کے علم و معرفت کا نام نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ یہ اس ایمان، تصدیق اور اقرار سے عبارت ہے، جو عمل کی ترغیب دیتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تقدیر

ہم اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس امر پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ عزوجل نے مخلوق کو تخلیق فرمایا، پھر ان کی تقدیریں مقرر فرمائیں اور ان کا عرصہ حیات متعین فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کو تخلیق سے قبل ہی معلوم تھا کہ وہ کیا عمل کریں گے۔ اسے ہر اس شے کا علم ہے، جو وقوع پذیر ہوچکی ہے یا آیندہ ہونے والی ہے۔ جو شے معرضِ وجود میں نہیں آسکی، وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ اگر وہ ظہور پذیر ہوتی، تو کیونکر ہوتی۔

اللہ عزوجل نے لوگوں کو خیر و شر، ہر دو کی راہیں سجھا دی ہیں۔ اس نے انھیں اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا اور اپنی معصیت و نافرمانی سے روکا ہے۔ ہر شے اس کی تقدیر اور مشیئت ہی کے مطابق رونما ہوتی ہے۔

اللہ رب العزت ہی کی مشیئت نافذ ہوتی ہے، نہ کہ بندوں کی، سوائے اس کے جواللہ ان کے لیے چاہے۔ جو اللہ تعالیٰ ان کے لیے چاہتا ہے، وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا، وہ نہیں ہوتا۔اللہ تعالی جسے چاہتا ہے، ہدایت سے سرفراز فرماتا اور اپنے فضل سے نجات عطا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے، ضلالت سے ہمکنار کرتا اور اپنے عدل کی رو سے بدبختی و ذلت سے دوچار کرتا ہے۔ بندگانِ الٰہی اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے مطابق، اس کے فضل اور عدل کے مابین متغیر رہتے ہیں۔ کوئی اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو رد کرسکتا ہے، نہ اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کرسکتا ہے اور نہ اس کے امر وحکم پر کسی کو غلبہ ہی حاصل ہے:

ما للعباد علیہ شیئٌ واجبٌ
کلا ولا سعیٌ لدیہ ضائعُ

’’بندوں کا کوئی حق اللہ تعالیٰ پر لازم نہیں ہے، لیکن اس کے ہاں کوئی سعی و کاوش، ہرگز رائیگاں نہ ہوگی۔‘‘​

إِن عذبو فَبِعَدْلِہِ أو نُعِّموا
فبفضلہ وھو الکبیرُ الواسعُ

’’اگر بندوں کو عذاب ہوا، تو یہ اس کا عدل ہوگا اور اگر وہ انعامات سے بہرہ یاب کیے گئے، تو یہ اس کا فضل ہوگا اور وہ کبیر و واسع ہے۔‘‘​

بہر حال بندوں کے لیے خیر و شر کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو صرف انھی امور کا مکلف ٹھیرایا ہے، جن کی وہ طاقت رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی فرد و بشر کے لیے گناہ اور معصیت سے بچنا ممکن نہیں ہے، الا یہ کہ اسے اللہ عزوجل کی نصرت و اعانت حاصل ہو۔ اسی طرح کسی میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجا لانے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی طاقت و قوت نہیں ہے، مگر یہ کہ اللہ کی توفیق اس کے شامل حال ہو۔ ’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘ کے یہی معنی ہیں۔

جس طرح مسببات، متعین شدہ تقدیر الٰہی کا حصہ ہیں، اِسی طرح ان کے اسباب کا تعلق بھی اللہ عزوجل ہی کی تقدیر سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایمان بالقدر کے مراتب و درجات

ایمان بالقدر کے دو درجے ہیں اور ہردرجہ دو امور کو متضمن ہے:

پہلا درجہ:
پہلا درجہ اس امر پر ایمان سے عبارت ہے کہ اللہ عزوجل کو معلوم ہے کہ لوگ کیا اعمال کرنے والے ہیں۔ گویا اسے مخلوق میں ہونے والے تمام معاملات کا پہلے ہی سے علم ہے اور اس کے لیے اس نے تقدیر محکم، مقرر کر رکھی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ (یونس61:10)
’’اور تیرے رب سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں۔ نہ زمین میں نہ آسمان میں، اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔‘‘

نیز فرمایا:
وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِيْرًا (الفرقان2:25)
’’اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیاتو اس کاٹھیک ٹھیک اندازہ کیا۔‘‘

نیز فرمایا:
وَكَانَ اَمْرُ اللہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا .(الاحزاب38:33)
’’اور اللہ کاحکم ایک طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے۔‘‘

بعد ازاں اللہ عزوجل نے اسے لوح محفوظ میں تحریر کیا اور مخلوق کی تقدیروں کا حصہ بنا دیا۔

سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
یَا بُنَیَّ! إِنَّکَ لَا تَجِدُ حَقِیْقَۃَ الإِیْمَانِ حَتَّی تَعْلَمَ أَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَہُ أُکْتُبْ فَقَالَ: رَبِّ وَمَا ذَا اَکْتُبُ؟ قَالَ: اَکْتُبْ مَقَادِ یْرَ کُلَّ شَیْئٍ حَتَّی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ، یَا بُنَیَّ! إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: مَإْ مَاتَ عَلَی غَیْرِ ھَذَا فَلَیْسَ مِنِّیْ.
’’اے میرے بیٹے! تو اس وقت تک ایمان کی حقیقت نہیں پاسکتا، جب تک یہ یقین نہ کرلے کہ جو مصیبت تمھیں پیش آگئی، وہ تم سے چوکنے والی نہ تھی اور جو مصیبت تم سے ٹل گئی، وہ تمہیں پیش آنے والی نہ تھی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کی تخلیق فرمائی اور اسے حکم دیا کہ لکھو! اس نے عرض کیا: پروردگار! کیا لکھوں؟ فرمایا: تاقیامت آنے والی ہر شے کی تقدیر تحریر کرو۔‘ اے بیٹے! بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اس کے سوا کسی اور عقیدہ پر مر گیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۭاِنَّ ذٰلِكَ فِيْ كِتٰبٍ۰ۭاِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ .(الحج70:22)
’’کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ اس کو جانتا ہے؟ یہ سب چیزیں ایک رجسٹر میں درج ہیں۔ بے شک یہ اللہ کے لیے نہایت ہی آسان ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جو چاہا، لوح محفوظ میں لکھا ہے۔ جب پروردگارِ عالم جنین کی تخلیق فرماتا ہے، تو اس میں روح پھونکنے سے پہلے ایک فرشتہ بھیجتا ہے، جسے چار چیزیں تحریر کرنے کا حکم ہوتا ہے: اس کا رزق، اس کی مدتِ زیست، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہوگا یا سعادت مند۔

اللہ عزوجل نے جس شے کے بارے میں لکھ دیا ہے کہ وہ وقوع پذیر ہوگی، اگر تمام مخلوقات مجتمع ہو کر اسے ظہور پذیر ہونے سے روکنا چاہیں، تو یہ ان کی قدرت سے باہر ہے۔ اسی طرح اگر وہ کسی ایسی شے کو عالم وجود میں لانا چاہیں، جو اللہ رب العزت نے نہیں لکھی، تو یہ بھی ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ قلم، وہ تمام امور لکھ کر خشک ہو چکے ہیں، جو تاقیامت رونما ہونے والے ہیں۔

جو مصیبت انسان سے ٹل گئی، وہ اسے پیش آنے والی نہ تھی اور جو اسے پیش آگئی، ٹلنا اس کے مقدر میں نہ تھا۔

دوسرا درجہ:
ایمان پر تقدیر کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیئت نافذہ اور قدرت کاملہ پر یقین رکھا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ جو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو نہیں چاہا، وہ نہیں ہوا، نیز یہ کہ زمین و آسمان کی ہر حرکت و سکون اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مشیئت کی پابند ہے۔ اس کی بادشاہت میں وہی رونما ہوتا ہے، جو وہ چاہتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اللہ عزوجل نے اپنی اور اپنے پیغمبروں کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اپنی معصیت و نافرمانی سے روکا ہے۔اللہ تعالیٰ، متقی، محسن اور انصاف پرکاربند لوگوں سے محبت فرماتا اور ان لوگوں سے راضی ہوتا ہے، جو ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں۔ رب ذوالجلال کافروں سے محبت نہیں کرتا اور نہ ہی فاسق قوم کو اپنی رضامندی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ وہ نہ بے حیائی کا حکم دیتا ہے، نہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند کرتا ہے اور نہ فساد ہی اس کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی دو مشیئتیں ہیں:
ایک اس کی تخلیق اور دوسرا اس کا امر۔
بہ الفاظ دیگر یوں سمجھیے کہ ایک اس کی قدرت ہے اور ایک اس کی شرع،
جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (الاعراف54:7)
’’خبردار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔‘‘

مشیئت ِ شرعیہ:
یہ اللہ عزوجل کے حکم شرعی سے عبارت ہے اور اس میں لوگ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور مخالفت بھی کرتے ہیں۔

مشیئت قدریہ:
یہ اللہ کی وہ سنت ہے، جس میں کسی نوع کا تغیر و تبدل نہیں ہوتا اور نہ ہی تکوین و تقدیر کے دائرے میں امر الٰہی کی نافرمانی کا کوئی تصور ہے۔

حاصل یہ کہ سنت الٰہیہ کے دو پہلو ہیں:
ایک کا تعلق امر و شریعت سے ہے اور دوسرا قضا و قدر سے متعلق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
افعال العباد

جہاں تک انسانوں کے افعال کا مسئلہ ہے، تو یہ رب تعالیٰ کی تخلیق ہیں اور بندوں کا فعل۔ انسان، افعال کے حقیقی طور پر فاعل ہیں اور اللہ عزوجل ان کے افعال و اعمال کا خالق ہے۔ یہ بندہ ہے، جو مومن یا کافر ہوتا ہے، نیک یا فاسق و فاجر ہوتا ہے اور نمازی یا روزہ دار ہوتا ہے۔ انسانوں کو اپنے افعال پر قدرت حاصل ہوتی ہے اور وہی ان کا ارادہ کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت انسانوں کا بھی خالق ہے اور ان کے ارادہ و قدرت کا بھی۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَاللہُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ (الصٰفٰت:96:37)
’’اللہ ہی نے پیدا کیا ہے تم کو بھی اور ان چیزوں کو بھی، جن کو تم بناتے ہو۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ . (التکویر29-81)
’’اور تم نہیں چاہ سکتے مگر وہی کچھ جو اللہ رب العالمین چاہتا ہو۔‘‘

تقدیر کے اس پہلو سے متعلق مختلف گروہ افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں، چنانچہ قدر یہ فرقے نے تو اس کی تکذیب ہی کردی، جبکہ ایک گروہ نے اس کے اثبات میں اس قدر غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا کہ انسان کے اختیار و قدرت ہی کو سلب کرلیا اور اللہ عزوجل کے افعال و احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں کو یکسر نظر انداز کردیا۔

ہم تقدیر کے باب میں ’جبریہ‘ اور ’قدریہ‘ کے مابین راہِ اعتدال پر گامزن ہیں۔ ہمارے افعال اور مشیت مخلوق ہیں اور انسان اپنے افعال کا حقیقی طور پر فاعل اور مختار ہے، نیز وہ ارادہ و مشیئت کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہے۔ پروردگارِ عالم کے وہ اولیاء، جن کے قلوب و اذہان کو اس نے منور کررکھا ہے، ان کے لیے مسئلہ تقدیر کی یہ مختصر وضاحت کافی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حقیقت تقدیر

تقدیر کی اصل حقیقت محض اسی قدر ہے کہ یہ مخلوق میں اللہ تعالیٰ کا راز ہے، جس کے علم کی تفصیلات اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے پوشیدہ رکھی ہیں اور انھیں اس میں غور و تعمق سے روکا ہے،
چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا:
لَا يُسْـَٔلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَہُمْ يُسْـَٔلُوْنَ. (الانبیاء23:21)
’’وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے کوئی سوال نہیں کر سکتا مگر ان سے ضرور بازپرس ہو گی۔‘‘

پس جو یہ پوچھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں کیا؟ تو وہ حکم قرآنی کو رد کرتا ہے اور جو قرآنی حکم کو رد کرے، وہ کفر کا مرتکب ٹھہرتا اور خسارہ و ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔

اس کی وضاحت یوں ہے کہ علم دو قسموں پر ہے، ایک وہ علم ہے، جو اللہ عزوجل نے مخلوق میں اتارا ہے، پس یہ موجود ہے۔

دوسرا علم وہ ہے، جسے اللہ نے مخلوق سے چھپا رکھا ہے، فلٰہذا یہ مفقود ہے۔

اب ’علم موجود‘ کا انکار بھی کفر ہے اور ’علم مفقود‘ کا ادعا بھی کفر ہے۔ انسان کا ایمان اسی صورت میں پایۂ ثبوت کو پہنچتا ہے، جب ’علم موجود‘ کو قبول کیا جائے اور ’علم مفقود‘ کی تلاش و جستجو اور طلب چھوڑ کر اسے اللہ کے سپرد کیا جائے۔
 
Top