ایمان بالقدر کے مراتب و درجات
ایمان بالقدر کے دو درجے ہیں اور ہردرجہ دو امور کو متضمن ہے:
پہلا درجہ:
پہلا درجہ اس امر پر ایمان سے عبارت ہے کہ اللہ عزوجل کو معلوم ہے کہ لوگ کیا اعمال کرنے والے ہیں۔ گویا اسے مخلوق میں ہونے والے تمام معاملات کا پہلے ہی سے علم ہے اور اس کے لیے اس نے تقدیر محکم، مقرر کر رکھی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِ وَلَآ اَصْغَرَ مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْبَرَ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ (یونس61:10)
’’اور تیرے رب سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں۔ نہ زمین میں نہ آسمان میں، اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی، مگر وہ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِيْرًا (الفرقان2:25)
’’اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیاتو اس کاٹھیک ٹھیک اندازہ کیا۔‘‘
نیز فرمایا:
وَكَانَ اَمْرُ اللہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا .(الاحزاب38:33)
’’اور اللہ کاحکم ایک طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے۔‘‘
بعد ازاں اللہ عزوجل نے اسے لوح محفوظ میں تحریر کیا اور مخلوق کی تقدیروں کا حصہ بنا دیا۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا:
یَا بُنَیَّ! إِنَّکَ لَا تَجِدُ حَقِیْقَۃَ الإِیْمَانِ حَتَّی تَعْلَمَ أَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمَ، فَقَالَ لَہُ أُکْتُبْ فَقَالَ: رَبِّ وَمَا ذَا اَکْتُبُ؟ قَالَ: اَکْتُبْ مَقَادِ یْرَ کُلَّ شَیْئٍ حَتَّی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ، یَا بُنَیَّ! إِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: مَإْ مَاتَ عَلَی غَیْرِ ھَذَا فَلَیْسَ مِنِّیْ.
’’اے میرے بیٹے! تو اس وقت تک ایمان کی حقیقت نہیں پاسکتا، جب تک یہ یقین نہ کرلے کہ جو مصیبت تمھیں پیش آگئی، وہ تم سے چوکنے والی نہ تھی اور جو مصیبت تم سے ٹل گئی، وہ تمہیں پیش آنے والی نہ تھی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے: ’’اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کی تخلیق فرمائی اور اسے حکم دیا کہ لکھو! اس نے عرض کیا: پروردگار! کیا لکھوں؟ فرمایا: تاقیامت آنے والی ہر شے کی تقدیر تحریر کرو۔‘ اے بیٹے! بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اس کے سوا کسی اور عقیدہ پر مر گیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۰ۭاِنَّ ذٰلِكَ فِيْ كِتٰبٍ۰ۭاِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ .(الحج70:22)
’’کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اللہ اس کو جانتا ہے؟ یہ سب چیزیں ایک رجسٹر میں درج ہیں۔ بے شک یہ اللہ کے لیے نہایت ہی آسان ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جو چاہا، لوح محفوظ میں لکھا ہے۔ جب پروردگارِ عالم جنین کی تخلیق فرماتا ہے، تو اس میں روح پھونکنے سے پہلے ایک فرشتہ بھیجتا ہے، جسے چار چیزیں تحریر کرنے کا حکم ہوتا ہے: اس کا رزق، اس کی مدتِ زیست، اس کا عمل اور یہ کہ وہ بدبخت ہوگا یا سعادت مند۔
اللہ عزوجل نے جس شے کے بارے میں لکھ دیا ہے کہ وہ وقوع پذیر ہوگی، اگر تمام مخلوقات مجتمع ہو کر اسے ظہور پذیر ہونے سے روکنا چاہیں، تو یہ ان کی قدرت سے باہر ہے۔ اسی طرح اگر وہ کسی ایسی شے کو عالم وجود میں لانا چاہیں، جو اللہ رب العزت نے نہیں لکھی، تو یہ بھی ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ قلم، وہ تمام امور لکھ کر خشک ہو چکے ہیں، جو تاقیامت رونما ہونے والے ہیں۔
جو مصیبت انسان سے ٹل گئی، وہ اسے پیش آنے والی نہ تھی اور جو اسے پیش آگئی، ٹلنا اس کے مقدر میں نہ تھا۔
دوسرا درجہ:
ایمان پر تقدیر کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیئت نافذہ اور قدرت کاملہ پر یقین رکھا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ جو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو نہیں چاہا، وہ نہیں ہوا، نیز یہ کہ زمین و آسمان کی ہر حرکت و سکون اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مشیئت کی پابند ہے۔ اس کی بادشاہت میں وہی رونما ہوتا ہے، جو وہ چاہتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اللہ عزوجل نے اپنی اور اپنے پیغمبروں کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اپنی معصیت و نافرمانی سے روکا ہے۔اللہ تعالیٰ، متقی، محسن اور انصاف پرکاربند لوگوں سے محبت فرماتا اور ان لوگوں سے راضی ہوتا ہے، جو ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں۔ رب ذوالجلال کافروں سے محبت نہیں کرتا اور نہ ہی فاسق قوم کو اپنی رضامندی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ وہ نہ بے حیائی کا حکم دیتا ہے، نہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند کرتا ہے اور نہ فساد ہی اس کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی دو مشیئتیں ہیں:
ایک اس کی
تخلیق اور دوسرا اس کا
امر۔
بہ الفاظ دیگر یوں سمجھیے کہ ایک اس کی قدرت ہے اور ایک اس کی شرع،
جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (الاعراف54:7)
’’خبردار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔‘‘
مشیئت ِ شرعیہ:
یہ اللہ عزوجل کے حکم شرعی سے عبارت ہے اور اس میں لوگ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور مخالفت بھی کرتے ہیں۔
مشیئت قدریہ:
یہ اللہ کی وہ سنت ہے، جس میں کسی نوع کا تغیر و تبدل نہیں ہوتا اور نہ ہی تکوین و تقدیر کے دائرے میں امر الٰہی کی نافرمانی کا کوئی تصور ہے۔
حاصل یہ کہ سنت الٰہیہ کے دو پہلو ہیں:
ایک کا تعلق امر و شریعت سے ہے اور دوسرا قضا و قدر سے متعلق ہے۔