• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ طائفہ منصورہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
حب صحابہ و اہل بیت

جناب رسول اللہ ﷺ سے محبت کی بنا پر ہم آپ ﷺ کے آل بیتِ اطہار، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور قیامت تک آنے والے اتباع و انصار سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ ہمیں ان سے محبت ہے اور ہم ان میں سے کسی سے اظہار بے زاری نہیں کرتے، بلکہ اس شخص سے نفرت کرتے ہیں، جو اپنے دل میں ان کے لیے بعض و عداوت کے جذبات رکھتا اور ناروا انداز سے ان کا تذکرہ کرتا ہے۔ ہم ان کا تذکرہ ہمیشہ اچھے لفظوں ہی میں کرتے ہیں۔ ان کی محبت ہمارے نزدیک دین، ایمان اور احسان ہے، جس کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کے قرب و خوشنودی سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔

ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ، فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سمیت تمام اہل بیت کے مقام و مرتبہ کا اعتراف و اقرار کرتے ہیں۔ ہمیں ان سے محبت ہے، لیکن ہم ان کے بارے میں غلو کا شکار نہیں ہیں۔ قحطانی کے ’نونیہ‘ میں ہے:

واحفـظ لأھل البـیـت واجب
حقھم واعرف علیا أیما عرفان

’’اور اہل بیت کے حقوق کی پاسداری کرو، نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ کامقام و مرتبہ بھی اچھی طرح پہچان لو۔‘‘​

لا تنتقص ولا تزد فـی قدرہ
فعلیہ تصلی النـار طائفتان

’’جناب علی کی قدر و منزلت کی تنقیص کرو اور نہ ہی ان کی شان میں غلو سے کام لو، کہ انھی کی وجہ سے دو گروہ واصلِ جہنم ہوں گے۔‘‘​

إحداھمـا لا ترتضیہ خـلیفۃ
وتـنــصہ الأخری إلـھًـا ثانی

’’ان میں سے ایک تو آپ کی خلافت ہی کا منکر ہے اور دوسرا آپ کو معبود قرار دیتا ہے۔‘‘​

اس کے ساتھ ساتھ ہم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں:
مَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہٗ. (مسلم:4867)
’’عمل میں سستی و کوتاہی برتنے والے کو اس کا نسب کچھ بھی فائدہ نہ دے گا۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ہم تمام اصحاب پیغمبر رضی اللہ عنہم کے لیے خوشنودیِ رب کے طالب ہیں، وہ انصار ہوں یا مہاجرین ، یا ان کے علاوہ فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والے۔ ہم ان سے محبت رکھتے ہیں، نیز ان لوگوں سے بھی ہمیں محبت ہے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ جو اصحاب پیغمبر سے بغض و عداوت رکھتا ہے، ہم بھی اس سے دشمنی رکھتے ہیں۔ جو ان پر لعنت کرے ، ہم اس پر لعنت کرتے ہیں اور جو انہیں کافر قرار دے، ہم اس کی تکفیر کرتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا درحقیقت دین مبین، کتاب اللہ اور سیدالانبیا والمرسلین ﷺ پر طعن ہے۔ پس صحابہ رسول کو ہدف مطاعن ٹھہرانے اور ان پر اظہار غیظ و غضب اور برہم ہونے کی جرأت محض منافق اور کافر ہی کرتا ہے۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَۃَ عَلَيْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا(الفتح 18:48)
’’ اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں کا حال اس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی۔‘‘

درخت کے نیچے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم ﷺ کے دست ِ اقدس پر بیعت کی تھی، ان کی تعداد چودہ سو سے زائد تھی۔ جب اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوا، تو اس کی خوشنودی کا سبب ان کا دین، اعمال صالحہ، حسن جہاد اور نصرتِ رسول ﷺ تھی۔

نیز ربّ کریم فرماتا ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّ‌سُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‌ رُ‌حَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَ‌اهُمْ رُ‌كَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ‌ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْ‌عٍ أَخْرَ‌جَ شَطْأَهُ فَآزَرَ‌هُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّ‌اعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ‌ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَ‌ةً وَأَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿٢٩(الفتح)
’’ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں، جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے، جس نے پہلے کونپل نکالی، پھراسے مضبوط کیا پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی۔کسانوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار کو ان کے پھلنے پھولنے کی وجہ سے غہ آئے، ان میں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘

نبی مکرم ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے مہاجر اور انصاری صحابہ ؓ ہی تھے۔ یہ آیت اس امر پر بھی دلالت کناں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر محض کافر لوگ ہی غصے و برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔
جیسا کہ فرمایا :
لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ
’ ’ تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ ‘‘

نیز ارشادِ ربانی ہے:
وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَ‌سُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُ‌وا قَدْ كَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِ‌مِينَ ﴿٦٦(التوبۃ)
’’ کہو، کیا تم اللہ سے ، اس کی آیات سے اور اس کے رسول سے ہنسی دل لگی کر رہے تھے۔ بہانے مت بناؤ، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر دیں تو دوسرے گروہ کو تو ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہیں۔‘‘

یہ لوگ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے، انہوں نے بہ طورِ خاص اللہ عزوجل ، اس کی آیات اور اس کے رسول کا ٹھٹھا نہیں اڑایا تھا، بلکہ انہوں نے تو محض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے استہزاء کیا تھا۔ ان لوگوں نے اصحاب رسول کے بارے میں یہ کلمات کہے تھے کہ:

مَارَأَْیْنَا مِثْلَ قُرَّائِنَا ھٰئُولَائِ یَعْنِیْ اَصْحَابَ النَّبِیِّ ﷺ اَرْغَبَ بُطُوْنًا، وَلَا اَکْذَبَ لِسَانًا، وَلَا اَجْبَنَ عِنْدَ اللِّقَاءِ!! (تفسیر طبری، زیر آیت مذکورہ)
’’ہم نے اپنے ان قرآن خوانوں یعنی اصحاب پیغمبر جیسے لوگ نہیں دیکھے، جو کھانے میں پیٹو، زبان کے جھوٹے اور میدان جنگ میں بزدلی دکھانے والے ہیں۔‘‘

ان کی اس بات کو اللہ عزوجل سے استہزاء قرار دیا گیا، جس اللہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزگیِ نفس بیان کی اور ان کی تعریف و ستایش کی۔ اسے آیاتِ الٰہی سے ٹھٹھا قرار دیا گیا، جن آیات میں صحابہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے راضی ہونے کا تذکرہ ہے اور ان ریمارکس کو رسول اکرمﷺ کا مذاق اڑانے کے مترادف کہا گیا کیونکہ آپ ﷺنے اپنے اصحاب کی بھلائی کے ساتھ تعریف و توصیف فرمائی ہے، لہٰذا اس بنا پر وہ ایمان کے بعد کافر ہوگئے۔

ہم روافض کے طریق کار سے بری ہیں، جو اصحاب پیغمبر رضی اللہ عنہم سےبغض رکھتے اور ان پر سب و شتم کرتے ہیں۔ ہم ناصبیوں کے طرز عمل سے بھی بے زار ہیں، جو اہل بیت اطہار سے عداوت و دشمنی کی روش پرگامزن ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
عدالت صحابہ


ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں ، وہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے بہتر و افضل ہیں۔ ان کا زمانہ ’خیرالقرون‘ یعنی بہترین زمانہ ہے۔ وہ اپنے بعد آنے والوں کی نسبت سب سے بڑھ کر فقیہ، سب سے زیادہ عالم ، سب سے زیادہ پختہ کار و دانشمند اور سب سے بڑھ کر راہِ سلامتی پر گامزن تھے۔ جو ان کے طریق کار اور منہج پر چلتا اور ان کے فہم و بصیرت کی تلاش و جستجو کرتا ہے، وہ رشد و ہدایت اور نجات سے سرفراز ہوتا ہے اور جوان کی مخالفت کرتا اور ان کے منہج و راستے کو چھوڑ کر کسی اور شے کی پیروی کرتا ہے، وہ ضلالت و گمراہی سے ہمکنار ہوتا ہے۔
ربّ ذوالجلال فرماتا ہے:
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّ‌سُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ‌ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرً‌ا ﴿١١٥﴾.(النساء)
’’ جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالاں کہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو، تو ہم اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔‘‘

’سبیل المؤمنین‘ کے اطلاق میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ لائق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔

سب سے افضل صحابہ وہ ہیں جن کے فضل و شرف پر امت کا اجماع ہے اور وہ یہ ہیں:
سیدنا ابو بکر صدیق، پھر
سیدنا الفاروق عمر بن خطاب، پھر
سیدنا عثمان بن عفان اورپھر
سیدنا علی بن ابی طالب
رضی اللہ عنہم۔

ہمارا اعتقاد ہے کہ نبی مکرم ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد سب سے بہتر زمانہ احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے تابعین کا ہے۔ یہ دوسرا زمانہ ہے اور اس کے بعد تیسر اتبع تابعین کا زمانہ ہے ۔ بعد ازاں جھوٹ عام ہو جائے گا اور امانت و دیانت میں انتہائی ضعف و کمزوری آجائے گی حتی کہ ازراہ تعجب یوں کہا جائے گا کہ فلاں قبیلہ میں ایک شخص ہے جو امانت و دیانت سے اتصاف پذیر ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ.

خیرو فضیلت کی سند رکھنے والے قرون ثلاثہ کے بعد آنے والوں کی قدروقیمت اور مقام و مرتبے کا تعین اس امر سے ہوگا کہ وہ دین و شریعت اورفہم سلف کا کس قدر التزام کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو اس باب میں بہت مالا مال ہیں اور بعض کی پونجی قلیل ہے۔ باری تعالیٰ ہم سب کا شمار ان میں کرے جن کے دامن کثرتِ عمل سے بھرے ہوئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اخوتِ ایمانی

ہمارا عقیدہ ہے کہ اہل ایمان بلا شبہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ا ن میں باہمی محبت کا ہونا واجب ہے۔ وہ اپنے علاوہ دیگر لوگوں کے مقابلے میں دستِ واحد کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا ادنیٰ فرد بھی ان کے عہد و پیمان کا پاس رکھتا ہے۔ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہے۔ وہ نہ اس کی مدد سے دست کش ہوتا ہے اور نہ اس کی تحقیر و توہین کرتا ہے۔

ایک مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ اس کے خلاف کسی بھی معاملے میں زیادتی کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح محض ظن و تخمین اور مرجوح و متشابہ امور کی بنا پر کسی مسلمان کو کافر قرار دینا بھی درست نہیں ہے، الا کہ اس سے ایسا کھلا کفر صادر ہو، جس میں کسی تاویل و توجیہ کی گنجایش نہ ہو اور ہمارے پاس اس سے متعلق کتاب اللہ اور سنتِ رسول سے کوئی صریح دلیل موجود ہو۔

جو شخص عامۃ المسلمین سے نفرت کرے ، انہیں گالی دےاوربلا تاویل ان کی تکفیر کرے، تو وہ کافر و منافق ہے، اس لیے کہ تمام مسلمانوں سے محض وہی بغض رکھ سکتا ہے جو منافق، اسلام کا منکر اور اس سے نفرت رکھتا ہو۔

ہم اہل ایمان میں سے گنہگار افراد کے لیے استغفار کرتے اور ان کے بارے میں اللہ کی پکڑ سے ڈرتے ہیں، لیکن ہم انھیں رحمت ایزدی سے ناامید بھی نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی عقوبت سے بے خوفی اور اس کی رحمت سے مایوسی، دونوں ہی رویے ملت اسلام سے خارج کردیتے ہیں، اور اہل حق کا طریق ان کے درمیان میں ہے،

ہم اہل قبلہ میں سے عام مسلمانوں کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر انھیں مکلف نہیں ٹھہراتے، چنانچہ ہم ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ شرط عائد نہیں کرتے کہ وہ ’نواقض اسلام‘ سے باخبر ہوں یا انھیں شرائط ’لاالٰہ الا اللہ‘ کی تعداد معلوم ہو اور وہ انھیں یاد بھی ہوں۔ ان کے اسلام کے لیے محض یہی کافی ہے کہ ان میں ’اصل توحید‘ موجود ہو اور وہ شرک سے کنارہ کش رہیں، بہ شرطیکہ وہ کسی ناقض کے مرتکب نہ ہوں۔

ہم تکفیر کی شرائط کا لحاظ کرتے اور موانع پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ہم ان حالات و ظروف کا بھی اعتبار کرتے ہیں، جن میں لوگ ضعف و کمزوری کے عالم میں رہنے پر مجبور ہیں کہ اسلامی ریاست و حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے، جہل کے دور دورہ ہے اور قلت علم اور علمائے ربانی کے اُٹھ جانے سے شہبات پھیل چکے ہیں۔

ان وجوہ کی بنا پر، ہم گنہگار اہل ایمان سے، اس طرح اظہار لاتعلقی نہیں کرتے، جیسا کہ کافروں، مشرکوں اور مرتدوں سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں، بلکہ گنہگار مومن، موالاتِ ایمانی کے دائرے میں داخل ہیں اور جب تک وہ مسلمان ہیں، ہم انھیں اس سے خارج نہیں کرتے۔ ہم صرف ان کی معاصی اور فسق و فجور سے اظہار بے زاری کرتے ہیں، لیکن ان سے کفار کا سا معاملہ روا نہیں رکھتے۔

ایسا مسلمان جس میں نیکی بھی ہو اور فسق بھی، تو اس میں محبت و دوستی اور بے رخی و سرد مہری ہر دو کے اسباب موجود ہیں۔ پس اس سے ایک پہلو سے محبت کی جائے گی اور ایک پہلو سے بے رخی برتی جائے گی، اور اس طرزِ عمل کا مدار اس کی نیکی اور فسق کو ٹھیرایا جائے گا۔ علی الاطلاق کسی سے دشمنی اور بے مروّتی نہیں رکھی جائے گی، سواے اس شخص کے جس نے کفر و شرک کو ایمان پر ترجیح دی اور مجرموں کے زمرہ میں داخل ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
علماءکا مقام و مرتبہ


ہم اپنے ارباب علم کا احترام اور تعظیم بجا لاتے اور ان کے فضل و شرف اور حقوق کا اعتراف کرتے ہیں۔ جن معاملات میں ان سے خطا ہو جائے، ان میں تاویل کا باب کھلا رکھتے ہیں۔ لیکن ہم ان کی عصمت کا اعتقاد رکھتے ہیں اور نہ انہیں غلطی یا تنقید سے ماورا سمجھتے ہیں۔ اہل علم اس سے بھی بالاتر نہیں ہیں کہ ان کی تغلیط و تصویب نہ کی جا سکے۔

ہم علما کے حق میں تعصب رکھتے ہیں اور نہ ہی اِ ن کے خلافِ حق افکار و نظریات کے لیے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی لغزشوں اور خطاؤں میں ہم ان کی اتباع نہیں کرتے۔ حق، اس امر کے زیادہ لائق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور وہ ہمیں ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
یوم آخرت

ہم اہل ایمان کے لیے قبر کی آزمائش اور انھیں وہاں حاصل ہونے والی نعمتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ جو لوگ سزا کے مستحق ہیں، وہ عذاب قبر سے دو چار ہوتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے ثابت ہے۔ اس ضمن میں ہم اہل بدعت کی تاویلات کو چنداں لایق التفات نہیں سمجھتے۔
اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں فرماتا ہے:
النَّارُ‌ يُعْرَ‌ضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ﴿٤٦(غافر)
’’آگ ہے، جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں۔ اورجب قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔‘‘

سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
فَلَوْ لَا أَنْ لَّا تُدَافِنُوْا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبَرِ الَّذِیْ أَسْمَعُ مِنْہُ.
’’اگریہ خطرہ نہ ہوتا کہ تم فوت شدگان کو دفن کرنا چھوڑ دوگے، تو میں اللہ عزوجل سے دعا کرتا کہ وہ تمھیں عذاب قبر سنا دے، جو میں سنتا ہوں۔‘‘

پھر آپ ﷺ ہمارے جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا:
تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ. (مسلم:512)
’’عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو۔‘‘

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ سے مروی ایک طویل حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب مومن قبر میں فرشتوں کے سوالوں کا جواب دیتا ہے تو:

فَیُنَادِی مُنَادٍ فِیْ السَّمَاءِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِیْ، فَاَفْرِشُوْہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَأَلْبِسُوْہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَافْتَحُوْا لَہٗ بَابًا إِلَی الْجَنَّۃِ.(مسند احمد:7803؛ ابوداوٗد:4753)
’’آسمان میں ایک منادی کرنے والا یہ اعلان کرتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، پس اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اسے جنتی لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
فتنہ قبر


فتنہ قبر سے مراد یہ ہے کہ منکر نکیر انسان سے اس کے پرورد گار، دین اور پیغمبر کے بارے میں سوال کریں گے۔ اس موقع پر اللہ عزوجل، اہل ایمان کو قول محکم کے ذریعے ثبات عطا فرمائے گا۔ اے اللہ! اے اسلام اور مسلمانوں کے مدد گار!ہمیں قول ثابت کے ذریعے دنیا و آخرت میں ثبات عطا فرما!

کافر، ان سوالوں کے جواب میں کہے گا ’ھا؟ ھا؟‘! یعنی میں نہیں جانتا۔ منافق اور دین کے معاملہ میں اکثریت کی اندھی تقلید کرنے والا شخص یوں جواب دے گا:

لَا أَدْرِیْ! سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ قَوْلًا فَقُلْتُہٗ .(بخاری ۱۳۷۴)
’’مجھے نہیں معلوم!میں جو لوگوں سے سنتا تھا، وہی کہہ دیتا تھا۔‘‘

برزخ کے احوال، غیبی امور سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا علم صرف میت کو ہوتا ہے، دوسروں کو نہیں اور دنیوی زندگی میں حواس کے واسطہ سے ان کا فہم و ادراک ممکن بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر ایمان ہی کے ذریعہ سے یہ امتیاز ہوتا ہے کہ کون غیب پر ایمان رکھتا ہے اور کون تکذیب و انکار کی روش پرگامزن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
علامات قیامت


ہم قیامت کی ان تمام نشانیوں پر ایمان رکھتے ہیں، اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ نے کتاب و سنت میں جن کی خبر دی ہے، مثلاً دجال حقیقتاً خروج کرے گا۔ اس سلسلہ میں ہم بدعتی حضرات کی تاویلوں کی جانب متوجہ نہیں ہوتے، اگرچہ ہمارے اعتقاد کی رو سے فتنہ دجال کی اصل ہردور میں موجود رہی ہے، تا آنکہ برسبیل حقیقت اس کے خروج کا زمانہ آن پہنچے گا۔

ہم، نزول عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام ہی دجال کو قتل کریں گے۔

ہمارا ایمان ہے کہ سورج، مغرب سے طلوع ہو گا اور ’دابۃ الارض‘ ظہور کرے گا۔ ہم قرآن و حدیث میں مذکور تمام علامات قیامت کو تسلیم کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
جزا و سزا

ہم موت کے بعد اٹھائے جانے اور روز قیامت اعمال کی جزا دیے جانے پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا ایمان ہے کہ لوگ اللہ عزوجل کے حضور پیش ہوں گے، ان کا حساب و کتاب ہو گا، وہ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور قیامت کے دن میزان نصب کیا جائے گا۔
اللہ ذوالجلال فرماتا ہے:
ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ. (مومنون16:23)
’’پھر تم قیامت کے دن اُٹھائے جاؤ گے۔‘‘

پھر لوگ پرورد گار عالم کے سامنے اس حالت میں کھڑے ہوں گے کہ وہ ننگے بدن، برہنہ پا اور غیر مختون ہوں گے۔
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ. (الانبیاء104:21)
’’جس طرح ہم نے پہلی خلقت کا آغاز کیا، اسی طرح ہم پھر اسی کا اعادہ کریں گے۔ یہ ہم پر ایک حتمی وعدہ ہے، بے شک ہم یہ کرکے رہیں گے۔‘‘

نیز فرمایا:
وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا۰ۭوَاِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَابِہَا۰ۭوَكَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ (الانبیاء47:21)
’’اور قیامت کے دن ہم میزانِ عدل قائم کریں گے، تو کسی جان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کا رائی کے دانہ برابر بھی کوئی عمل ہوگا، تو ہم اُس کو موجود کردیں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
حوضِ کوثر

ہم قیامت کے دن اپنے پیغمبر سیدنا محمد علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حوض کوثر پر بھی ایمان رکھتے ہیں، جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہو گا۔ اس کے برتنوں کی تعداد آسمان کے ستاروں جتنی ہوگی۔ حوض کوثر کا طول و عرض ایک مہینہ کی مسافت کے بہ قدر ہو گا۔ جو ایک مرتبہ آبِ کوثر نوش جاں کرے گا،اس کے بعد کبھی پیاس کی کیفیت سے دو چار نہ ہو گا۔ ہم اللہ کے حضور، جو اسلام اور اہل اسلام کا سر پرست و آقا ہے، ملتجی ہیں کہ وہ ہمیں اس سے محروم نہ فرمائے!

قیامت کے اُس ہولناک دن میں امت محمدیہ علیہا وعلی صاحبہا الصلوٰۃ السلام کے کچھ لوگوں کو حوض کوثر سے دھتکار دیا جائے گا اور وہاں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس روز سورج انسانوں کے انتہائی قریب ہو گا، یہاں تک کہ لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں غرق ہوں گے، چنانچہ بعض لوگ ٹخنوں تک، بعض گھٹنوں تک اور بعض کمر تک پسینے میں ڈوبے ہوں گے، جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ پسینہ ان کے حلق تک پہنچا ہو گا۔

جنھیں حوض کوثر سے دور ہٹایا جائے گا، ان میں ایک گروہ وہ ہوگا، جنھوں نے اللہ کے دین کو بدل دیا یا اس میں بدعات اور خود ساختہ اضافے کر ڈالے۔
اس موقع پر رسول اللہ ﷺ فرمائیں گے:
سُحْقًا سُحْقًا لِّمَنْ بَدَّلَ بَعْدِیْ. (بخاری:6528؛ مسلم:4243)
’’دور ہو جاؤ، دور ہوجاؤ، جس نے میرے بعد (دین میں) تغیر و تبدل کردیا۔‘‘
 
Top