کافر حکمران
٭ ہم اس حکمران کے کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں جو شریعت الٰہی کو کفریہ قوانین و دساتیر سے بدل ڈالتا ہے۔ یہی حال اس حاکم کا ہے جو خاصیت تشریع و قانون سازی میں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا ہمسر ٹھیراتا اور اللہ عزوجل کی شرع کے بالمقابل شریعت سازی کرتا ہے۔ جو حکمران شریعت الٰہیہ سے انحراف کرتے ہوئے اپنے معاملات و مقدمات قوانین ِ طاغوت کے سامنے پیش کرتا ہے اور ان طاغوتی قوانین کو شرع الٰہی پر مقدم ٹھیراتا ہے، وہ بھی کافر ہے۔
٭ ہم اس حکمران کے کفر کا بھی اعتقاد رکھتے ہیں، جو کفر و شرک کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ اسی طرح وہ حکمران جو قوانین و دساتیر کفر کی حفاظت کرتا اور ان کی خاطر میدانِ جنگ میں اترتا ہے ، اور وہ حکمران جو حکم الٰہی کو تکبّر، جحود، عناد، ناپسندیدگی یا استحلال کی بنا پر رد کر دیتا ہے، اور وہ حکمران جو شریعت اسلامیہ کےمطابق کسی طور ہی فیصلے نہیں کرتا، اور وہ حکمران جو شریعت الٰہی کے خلاف برسرِ پیکار ہوتا ہے اور ان لوگوں سے جنگ کرتا ہے جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں، محض اس بنا پر کہ وہ اللہ رب العزت کے نازل کردہ قوانین کے موافق فیصلہ کرنے کی طرف بلاتے ہیں، اور وہ حکمران جو امت مسلمہ کے خلاف دشمنانِ ملت سے محبت و دوستی رکھتا ہے اور احکامات الٰہیہ کے نفاذ سے زیادہ ان کے احکامات اور منصوبوں کو امت میں نافذ کرنے کی خواہش رکھتا ہے، تو یہ تمام حکمران کافر ہیں۔ جو حاکم بھی اوپر بیان شدہ خصایل میں سے کسی خصلت کو یقینی طور پر اپناتا ہے، وہ کافر اور مرتد ہے۔ اس کی اطاعت و فرمانبرداری جائز ہے، نہ ہی مسلمانوں اور ان کے خطوں پر اُسے بالادستی و اقتدار کا حق حاصل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قدرت و استطاعت موجود ہو تو اسے برطرف کرنا اور اس کے خلاف خروج و بغاوت کرنا واجب ہے۔
٭ اوپر جن حکمرانوں کا تذکرہ ہوا ہے ان تمام کے کفر کی دلیل اللہ عزوجل کا یہ ارشاد ہے:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ (المائدہ 44:5)
’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔‘‘
نیز ارشاد ربانی ہے:
وَلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِہٖٓ اَحَدًا (الکہف 26:18)
’’اور وہ اپنے حکم (قانون) میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘
نیز فرمایا:
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۰ۭ .(الشوریٰ 21:42)
’’کیا ان لوگوں نے اللہ کےایسے شریک مقرر کر رکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دئیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں ۔‘‘
نیز فرمایا:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۰ۭوَيُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا (النساء 60:4)
’’اے نبی! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں ، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔‘‘
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (النساء 65:4)
’’ اے محمدﷺ! تیرے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔‘‘
نیز رب کریم نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى ۙ الشَّيْطَانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلَىٰ لَهُمْ ﴿٢٥﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّـهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ ۖ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ ﴿٢٦﴾(محمد 25,26:47)
’’جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل اُلٹے پھر گئے اس کے بعد کہ اُن کے لیے ہدایت واضح ہو چکی یقینا شیطان نے اُن کو فریب دیااوراللہ نے انہیں ڈھیل دے رکھی ہے۔ اسی لیے انہوں نے اللہ کے نازل کردہ دین کو ناپسند کرنے والوں سے کہہ دیا کہ بعض معاملات میں ہم تمہاری مانیں گے، اللہ ان کی یہ خفیہ باتیں خوب جانتا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَرِہُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ (محمد 9:47)
’’کیونکہ انہوں نے اس چیز کو ناپسند کیا، جسے اللہ نے نازل کیاہے۔ لہٰذا اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔‘‘
نیز پروردگار عالم کا ارشاد ہے:
وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۰ۭوَمَآ اُولٰىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ (النور 47:24)
’’ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول ﷺ پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہر گز مومن نہیں ہیں۔‘‘
یہ تمام آیات مقدم الذکر ’طواغیت الحکم‘ یعنی طاغوتی حکمرانوں کے کفر پر صحیح طور پر دلیل بننے کے لائق ہیں۔
چنانچہ یہ مسئلہ ایک ہی آیت میں محصور نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں، کہ آیت کریمہ ’
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ‘ ہی اس مسئلہ سے متعلق ہے۔ اس سے ان کا مقصود یہ ہے کہ مذکورہ آیت کی تفسیر ، مفاہیم و مطالب اور شانِ نزول میں معرکہ بحث وجدل بپا کرسکیں، گویا مسئلہ زیر بحث پر کتاب اللہ اور سنت ِ رسول ﷺ سے کوئی دلیل ہی موجود نہیں سواے اس ایک آیت ِ مبارکہ کے!!
ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو حکمران اللہ عزوجل کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، ان میں سے بعض کا کفر، کمتر درجے کا یعنی ’کفردون کفر‘ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم سطورِ بالا میں جن حکمرانوں کا تذکرہ گزرا ہے، ان کا کفر، ’کفر دون کفر‘ یا ’کفرِ اصغر‘ نہیں، بلکہ کفرِ اکبر ہی ہے۔
کفر کی ایک قسم کفر اکبر ہے، جس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کی دوسری قسم کفر اصغر ہے، جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا۔ شرک ، ظلم، فسق اور نفاق کی بھی یہی صورتحال ہے یعنی ان میں سے ہر ایک کی دو دو قسمیں ہیں۔