- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
حجت و وحی و رسالت
اس کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر محض ’میثاق‘ اور ’فطرت‘ کی حجت ہی پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ ان کی جانب پیغمبر مبعوث کیے، جو انھیں اس میثاق کی یاددہانی کراتے تھے، جو اللہ عزوجل نے ان سے لیا تھا۔ پھر ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں اور قرآن کریم کو سلسلہ کتب کی اپنی آخری کتاب قرار دیا، جو پہلی کتابوں کی محافظ و نگہبان ہے، جس کے آگے سے باطل راہ پاسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ اللہ عزوجل نے قرآن شریف کو تبدل و تغیر سے محفوظ رکھا ہے اور اسے ہر اس شخص کے لیے حقیقت رس اور واضح حجت قرار دیا ہے، جس تک یہ پہنچ جائے، چنانچہ فرمایا:
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ۰ۭ (الانعام19:6)
’’اور میری طرف یہ قرآن بہ طور وحی کے بھیجا گیا ہے، تاکہ میں اس کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے، ان سب کو ڈراؤں۔‘‘
پس زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کا ایک ہی دین ہے اور وہ ہے، دین اسلام۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ . (آل عمران19:3)
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین، اسلام ہی ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (المائدۃ3:5)
’’اور میں نے تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔‘‘
اتمامِ حجت:
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ عزوجل قیامت کے روز کسی کو عذاب نہ دے گا، الا یہ کہ پیغمبروں کے متنبہ کرنے سے اس پر حجت قائم ہو چکی ہو اور اس نے اعراض و عدم توجہ اور بے التفاتی کا مظاہرہ کیا ہو۔ارشادِ ربانی ہے:
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا (الاسراء 15:17)
’’ اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ( لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغمبر نہ بھیج دیں۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭوَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا (النساء 165:4)
’’ یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کومبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اورحکیم و دانا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۖ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ ﴿٨﴾ قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ۔۔۔﴿٩﴾. (الملک 8۔9:67)
’’ (جہنم) شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اُس میں ڈالا جائے گا، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے ’’ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟وہ کہیں گے کیوں نہیں (واقعی ڈرانے والا آیا تھا)۔ ‘‘
اسی طرح دنیوی زندگی میں اپنے بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ انہیں عام عذاب سے ہلاک نہیں کرتا، مگر اس کے بعد کہ ان تک رسولوں کی تنبیہ وا نذار پہنچ جائے اور پھر وہ اس کے مقابلے میں جحودو اعراض کا رویہ اختیار کریں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَلَوْ اَنَّآ اَہْلَكْنٰہُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰى (طٰہٰ 134:20)
’’ اگر ہم اس کے آنے سے پہلے ان کو کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو پھر یہی لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے ہی ہم تیری آیات کی پیروی اختیار کر لیتے۔‘‘
نیز فرمایا:
وَتِلْكَ الْقُرٰٓى اَہْلَكْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَہْلِكِہِمْ مَّوْعِدً. (الکہف 59:18)
’’ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔‘‘