توحید اور ارکانِ توحید
توحید یہ ہے کہ عبادت میں اللہ عزوجل کو تنہا و یکتا قرار دیا جائے۔ توحید کے دو رکن ہیں، جن کے بغیر توحید قابلِ قبول ہے، نہ ہی درست۔
پہلا رکن یہ ہے کہ طاغوت کا انکار کیا جائے،یعنی طاغوت، اس کی عبادت اور اُس کے پجاریوں سے برأ ت اور بے زاری کا اظہار کیا جائے۔اللہ عزوجل کا فرمان ذی شان ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴿٤﴾ (الممتحنہ )
’’ تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمھارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بے زار ہیں۔ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ۔‘‘
طاغوت سے مراد ہر وہ شے ہے، جس کی اللہ کے سوا کسی بھی نوع کی عبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی ہو۔پس شیطان طاغوت ہے ۔ اسی طرح جادوگر، کاہن، اٹکل سے غیب کی خبریں بتانے والا، اللہ کی نازل کردہ شریعت کے سوا کسی اور قانون کی بنیاد پر فیصلے کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی شریعت کے بالمقابل قانون سازی کرنے والا بھی طاغوت ہے۔ اللہ رب العزت کی شریعت کے مخالف دساتیرو قوانین بھی طاغوت ہیں اور پروردگارِ عالم کے احکامات کی بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو مرجع مان کر فیصلہ کرنے والا بھی طاغوت ہے۔ جسے اللہ کے سوا بہ ذاتہ قابل اطاعت یا لائق محبت سمجھا جائے، وہ بھی طاغوت ہے۔
طاغوت کی تعریف میں رضا مندی کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ ان انبیا ء علیہم السلام اور صالحین کو طاغوت کے حکم و مسمّی سے خارج کیا جاسکے، جن کی اللہ کے سوا عبادت تو کی جاتی ہے، لیکن وہ اسے ناپسند کرتے، اس سے نفرت رکھتے اور اس سے ڈرایاکرتے تھے۔
توحید کا دوسرا اہم رکن یہ ہے کہ عبادت میں اللہ عزوجل کو یکتا مانا جائے اور اس امر کا اثبات کیا جائے کہ صرف اکیلا اللہ ہی معبود برحق اور اس لائق ہے کہ اس کی پناہ میں آیا جائے۔ شہادتِ ’لاالہ الا اللّٰہ‘کے بھی یہی معنی ہیں، یہ کلمہ نفی اور اثبات ہر دو ارکان کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔
رب کریم کے درج ذیل فرمان سے بھی یہی مراد ہے:
فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّـهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٥٦﴾(البقرہ )
’’ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ ( جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں ’العروۃ الوثقی‘ یعنی مضبو ط سہارے سے مراد ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ ہے۔
جو شخص عبادت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ تو ہوا لیکن اس نے طاغوت کا انکار کیا اورنہ ہی اس کی عبادت اور اس کے پجاریوں کی نفی کی، تو اس کی توحید ناقص ہے۔ یہ توحید مقبول ہوگی، نہ ہی وہ موحّد کہلانے کا مستحق ہوگا۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے، جو کوئی کام کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے منافی امر کا بھی مرتکب ہوتا ہے۔
اگر پوچھا جائے کہ طاغوت کا انکار کس طرح ممکن ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایمان باللہ کا اعتقاد ، قول اور عمل پر مبنی ہونا ضروری ہے، اسی طرح طاغوت کا انکار بھی عقیدہ اور قول و عمل سے کرنا لازم ہے، ان میں سے ایک شے دوسری کی جگہ کفائت نہ کرے گی۔
پس جو شخص دل میں طاغوت کے کفرو بغض کا اعتقاد رکھتا ہے، لیکن پھر زبان سے اس کے حق میں دعا کرتا، اس سے دوستی کی دعوت دیتا، اس کے باطل افکار و نظریات کو مزین کر کے پیش کرتا، اس کے کفر و شرک اور سرکشی پر نہ صرف خاموش رہتابلکہ اس کا دفاع کرتا ہے، تو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے طاغوت کا انکار کیا ہے۔
اسی طرح جو شخص اعتقاد اور قول کے ذریعے تو طاغوت سے کفر کرتا ہے، لیکن عمل سے اس کے ساتھ دوستی کا اظہار کرتا، اس کی خاطر قتال کرتا، اور اس سے مل کر ہر اس شخص سے برسرِپیکار ہوتا ہے، جو طاغوت سے دشمنی رکھتا ہے، اس نے بھی طاغوت کا انکار نہیں کیا، اگرچہ زبان سے ہزار مرتبہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ طاغوت کا انکاری ہے۔ وہ طاغوت کا انکار کرنے والا اسی صورت میں ہوگا، جب اعتقاد، قول اور عمل سے بہ یک وقت اس کی نفی کرے۔
انکارِ طاغوت کی عدم قدرت:
یہاں اس امر کی رعائت رکھنا بھی ضروری ہے کہ بعض حالات میں، مثلاً مجبوری (اکراہ)، خوف اور تقیہ وغیرہ کی بنا پر، انسان طاغوت کے انکار سے عاجز بھی ہوسکتا ہے۔
ہم نصوصِ شریعت اور ائمہ سلف کے اقوال پر عمل کرتے ہوئے، ایسے جہل کو عذر مانتے ہیں جو انسان کو عاجز کر دے اور اس کا دور کرنا ممکن نہ ہو۔ اسی طرح معتبر تاویل بھی ہمارے نزدیک قابلِ عذر ہے۔