ٹیگ کرنے کا شکریہ ویسے تو میں اس بات کی پبلسٹی کرنے کے خلاف ہوں کہ امی عائشہ پر تہمت لگائی گئی تھی کیونکہ کوئی بھی غیرت مند بیٹا یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی ماں پر لگائی گئی تہمت کی اس طرح تشہیر کی جائے چاہے یہ تہمت لاکھ بار بھی جھوٹی ثابت ہوئی ہو لیکن کیا کروں کہ بار بار یہ صورت حال آگے آجاتی ہے اس لئے مجبور ہوکر جواب دے رہا ہوں اور آپ سب سے یہی گذارش کروں گا کہ اب اگر کیسی نے اس واقع سے کوئی دلیل دینے کی کوشش کی تو جواب کے لئے مجھے معذور سمجھا جائے شکریہ
جب امی عائشہ پر تہمت لگائی گئی تو رسول اللہ 40 دن تک پریشان رہے پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کرکے اس تہمت سے امی عائشہ کو بری کیا
اللہ ہر چیز کا جانے والا ہے پھر 40 دن تک اللہ نے وحی نازل کیوں نہیں کی اور جو عا لمین کے لئے رحمت ہیں ان کو کیوں پریشان رکھا ؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت عالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو بہترین نمونہ قرار دیا ہے 40 دن تک وحی نازل نہ کرنے میں بھی یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ جب امت میں کسی عورت یا مرد کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو وہ فوری طور سے کوئی فیصلہ نہ کرے اور یہ بات بھی مشاہدے سے ثابت ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اللہ ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے کہ عموما مرد یا عورت اس طرح کی تہمت سے بری ہوجا تے ہیں
اور دوسری بات یہ کہ سلفی نجدی یہ بات مانتے ہیں کہ صحابہ کا یہ عقیدہ تھا حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کہ
الله ورسوله أعلم
اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں
اس عقیدے کی تصدیق محدث فورم کے ٹیکنکی ناظم شاکر صاحب نے ان الفاظ سے کی ہے
اب جب کہ صحابہ کا عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں یہ مان لیا گیا ہے اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں تو پھر یہ واقعہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ہی کا ہے تو کیا اس تہمت کے جھوٹا ہونے کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم نہیں ہوگا یقینا ہوگا مگر چونکہ یہ حضورﷺکا اپنے گھر کا معاملہ تھا اس لئے اپنی صفائی خود پیش کرنی مناسب نہ سمجھی اور وحیِ الٰہی کے منتظر رہے قرآنِ مجید نے اس موقع پر بہت زور بیان سے کام لیا اس لئے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہ کی عصمت و عفت ہی کا نہ تھا بلکہ اس خیرالبشر کی عزت و حرمت کا تھا جو ساری دنیا کے لئے معلم اخلاق بن کر آیا تھا اور جس نے کل جہاں کو نیک عملی اور پاک بازی کے آداب سکھائے تھے۔
بخاری کی اس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے:
ـ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ،
قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،
عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ،
أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ،
وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ ـ
وَهُوَ التَّعَبُّدُ ـ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ
الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ، فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ. قَالَ " مَا أَنَا بِقَارِئٍ ". قَالَ " فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ. قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ. فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ * خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ} ". فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رضى الله عنها فَقَالَ " زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي ". فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ " لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي ". فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ. فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ
عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ ـ
وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ،
فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ
مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ،
وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ ـ
فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ.
فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَبَرَ مَا رَأَى. فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صلى الله عليه وسلم يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ ". قَالَ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْىُ. (
صحيح البخاري - كتاب بدء الوحى -
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں کی شکل میں ہوئی، آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوتا پھر آپ کو تنہائی محبوب ہو گئی چنانچہ آپ غار حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروف عبادت رہتے۔ آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس واپس آتے اور تقریبا اتنے ہی دنوں کے لئے پھر توشہ لے جاتے ۔ ایک روز جبکہ آپ غار حراء میں تھے یکایک آپ کے پاس حق آگیا اور ایک فرشتے نے آکر آپ سے کہا: پڑھو! آپ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر خوب بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو! میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر دبوچا یہاںتک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی ، پھر چھوڑ کر کہا پڑھو! میں نے پھر کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے تیسری بار مجھے پکڑ کر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، اور تمہارا رب تو نہایت کریم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کو لے کر واپس آئے اور آپ کا دل دھڑک رہا تھا چنانچہ آپ (اپنی بیوی) حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "مجھے چادر اوڑھا دو مجھے چادر اوڑھا دو" انہوں نے آپ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ کوف زدگی کی کیفیت دور ہوگئی پھر آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو واقعہ کی اطلاع دیتے ہوئے کہا: "مجھے اپنی جان کا ڈر ہے" حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا نے کہاقطعا نہیں اللہ کی قسم اللہ تعالی آپ کو کبھی رسول نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں فقیروں و محتاجوں کو کما کردیتے ہیں مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلہ میں پیش آنے والے مصائب میں مدد دیتے ہیں ۔
پھر حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس آئیں۔ ورقہ دور جہالت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی بھی لکھنا جانتے تھے۔ چنانچہ عبرانی زبان میں حسب توفیق الہی انجیل لکھتے تھے اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے۔ ان سے حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا نے کہا بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اور بیان فرمادیا اس پر ورقہ نے آپ سے کہا : یہ تو وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ ) ہے جسے اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانہ نبوت میں توانا ہوتا کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپ کا زمانہ نصیب ہوا تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی رک گئی۔
مذکورہ طویل حدیث ذکر کرنے کے بعد آپ سے غیب کے بارے میں سوالات ہیں:
(1) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا تو پھر جبریل علیہ السلام کو وحی لانے کی کیا ضرورت؟
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار یہی جواب دیتے: میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں - کیا یہ علم غیب جس کی آپ بات کررہے ہیں کے خلاف تو نہیں؟
(3) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے تو پھر جبریل علیہ السلام سے ڈرے کیوں اور یہ کیوں فرمایا: "مجھے اپنی جان کا ڈر ہے" ؟ کیا ان کو پہلے سے غیب عطائی کے ذریعہ نہیں پتہ تھا کہ یہ جبریل امین ہیں ؟
(4) ورقہ بن نوفل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم الغیب ہونے کے باوجود یہ کیوںکہا: اچھا تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟
ممکن ہے آپ کہیں کہ نہیں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں ملا تھا جو بعد میں مل گیا۔ تو پھر قرآن کی اس آیت سے کیا ثابت ہوتا ہے:
وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا - إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا
(الکھف: 22 - 23)
اور ہرگز کسی بات کو نہ کہنا کہ میں کل یہ کردوں گا مگریہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کی یاد جب تو بھول جائے اور یوں کہو کہ قریب میرا رب اس سے نزدیک تر راستی کی رہ دکھائے۔
(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن )
تفسیر کنزالایمان میں ہے:
اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اصحاب کہف کا حال دریافت کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کل بتاؤں گا اور ان شاءاللہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل فرمائی ۔
(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن : خزائن العرفان فی تفسیر القرآن از سید محمد نعیم الدین مراد آبادی / صفحہ 533 / مطبوع : ضیاء القرآن پبلیکشنز لاہور)
آپ سے سوالات ہیں:
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم الغیب ہونے کے باوجود یہ کیوںکہا کہ میں کل بتاؤں گا ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم نہیں تھا جیسا کہ تم لوگوں کا دعوی ہے؟
(2) وحی رکی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پتہ تھا کہ وحی رکے گی کیا علم غیب کے باوجود ان کو پتہ نہیں تھا؟
اور آئیے اس حدیث کی طرف:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَسَهْلُ بْنُ يُوسُفَ،
عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه
أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَتَاهُ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ وَعُصَيَّةُ وَبَنُو لِحْيَانَ، فَزَعَمُوا أَنَّهُمْ قَدْ أَسْلَمُوا، وَاسْتَمَدُّوهُ عَلَى قَوْمِهِمْ، فَأَمَدَّهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِسَبْعِينَ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ أَنَسٌ كُنَّا نُسَمِّيهِمُ الْقُرَّاءَ، يَحْطِبُونَ بِالنَّهَارِ وَيُصَلُّونَ بِاللَّيْلِ، فَانْطَلَقُوا بِهِمْ حَتَّى بَلَغُوا بِئْرَ مَعُونَةَ غَدَرُوا بِهِمْ وَقَتَلُوهُمْ، فَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لِحْيَانَ. قَالَ قَتَادَةُ وَحَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّهُمْ قَرَءُوا بِهِمْ قُرْآنًا أَلاَ بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا بِأَنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا. ثُمَّ رُفِعَ ذَلِكَ بَعْدُ. (
بخاری - كتاب الجهاد والسير - باب الْعَوْنِ بِالْمَدَدِ - حدیث 3102
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے اور سہل بن یوسف نے ان دونوں نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنی لحیان (قبیلے) کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا ہم مسلمان ہوگئے ہیں لیکن ہماری قوم کے لوگ کافر ہیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے مقابل ہم کو مدد دیجشے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے (ان کی مدد اور تعلیم کیلئے) ستر(70) انصاریوں کو بھیجا۔ انس نے کہا ہم ان کو قاری کہا کرتے تھے۔ دن کو (جنگل سے) لکڑیاں لاتے (بیچ کر فقیروں کو کھلاتے) رات کو نماز پڑھتے رہتے۔ خیر جب یہ لوگ قاریوں کو لے کر بیر معونہ (مکہ اور عسفان کے درمیان) پر پہنچے تو ان سے دغا کی۔ ان کو مارڈالا تو ایک مہینہ تک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) (نماز میں) قنوت پڑھتے رہے۔ رعل اورذکوان اور بنی لحیان کیلئے بددعا کرتے رہے۔ قتادہ نے کہا ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہا صحابہ ان لوگوں کے باب میں قرآن کی یہ آیت (ایک مدت تک پڑھتے رہے۔ ہماری قوم کو یہ خبر یونہی پہنچا دو کہ ہم اپنے مالک سے مل گئے وہ ہم سے خوش ہم اس سے خوش ۔ پھر بعد میں اس کا پڑھنا موقوف ہوگیا۔
آپ سے سوال:
(1) عالم الغیب ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ کیوں نہ چلا کہ ان ستر صحابہ حفاظ قرآن کو شہید کیا جائے گا؟