الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
علامات قيامت شيخ عريفى كى كتاب نهاية العالم سے ماخوذ
قیامت کی وہ نشانیاں جو آخری زمانے میں ظاہر ہونے والی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کی اقوامِ عالم ملتِ اسلامیہ پر ٹوٹ پڑیں گی لیکن اللہ تعالیٰ اس امت کی خود حفاظت فرمائے گا۔
تاریخ کی ورق گردانی کرنے والے شخص کو معلوم ہے کہ امت اسلامیہ بڑی ہولناک جنگیں لڑچکی ہے۔ اس پر قرونِ سابقہ میں مصائب کی بارش ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر اس کی حفاظت فرمائی ہے۔ عیسائیوں نے باہم متحد ہوکر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا بازار گرم کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کی مدد فرمائی اور عیسائیت کی اجتماعی قوت شکست سے دوچار ہوئی، پھر تاتاریوں نے اسلامی ممالک کو تاراج کیا مگر ان کا مکر بھی اللہ تعالیٰ نے انہی پر الٹ دیا۔ ہمارے اس موجودہ دور میں یہودی اور عیسائی باہم مل کر امت اسلامیہ کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ہمیں اللہ کی بارگاہ سے قوی امید ہے کہ وہ اہلِ اسلام کو ان کے دین کی طرف لوٹائے گا تاکہ انہیں فتح ونصرت نصیب ہوسکے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں «وہن» ڈال دے گا“ تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! «وہن» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے“
سنن ابو داؤد:4297، سلسلۃ الصحیحۃ:958
قَصْعَۃ اس برتن کو کہتے ہیں جس میں کھانا ڈال کر کھایا جاتا ہے اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کو عموماً لکڑی سے تیار کیا جاتا تھا۔ الغثاءاس میل کچیل اور جھاگ کر کہتے ہیں جو سیلاب کے پانی کے اوپر آجاتا ہے اور الوھنکی تشریح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرما دی کی یہ دنیا سے محبت کرنے اور موت سے نفرت کرنے کا نام ہے۔
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کے دلائل اور علامات قیامت میں سے ہے۔ آج اقوامِ عالم امت اسلامیہ پر اس طرح حملہ آور ہوچکی ہیں جس طرح بھوکے کھانے کے برتن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس ذلت و رسوائی کا سبب مسلمانوں کی قلت نہیں۔ وہ کثرت میں ہیں مگر اس کے باوجود گھاس پھونس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ اس جھاگ کی طرح ہیں جو سیلاب کے پانی کے اوپر آجاتی ہے اور اس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ آج امتِ مسلمہ کا یہی حال ہے۔ ان کی تعداد آج ایک ہزار ملین (ایک ارب) سے زیادہ ہے مگر ان کی یہ کثرت کمیت کے اعتبار سے ضرور ہے مگر کیفیت کے اعتبار سے ہرگز نہیں۔
آج دشمنوں کے دلوں سے مسلمانوں کا رعب نکل چکا ہے اور وہ اہل اسلام کو بے وقعت سمجھ کران کے خلاف جنگیں برپا کرتے اور ان پر حملے کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت پر ہورہا ہے جب مسلمانوں کے دلوں میں وھن ڈال دیا گیا ہے، یعنی وہ دنیا سے محبت اور موت کے خوف میں مبتلا ہیں۔
قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں میں جہالت بہت زیادہ پھیل جائے گی حتیٰ کہ لوگوں کو نماز کی امامت کے لیے کوئی امام نہیں ملے گا۔ ایک دوسرے کو امامت کے لیے دھکیلیں گے کیونکہ وہ خود احکامِ شریعت سے جاہل ہوں گے اور قرآن مجید کی تلاوت بھی ٹھیک طریقے سے نہیں کرسکتے ہوں گے۔
حدثنا هارون بن عباد الازدي حدثنا مروان حدثتني طلحة ام غراب عن عقيلة امراة من بني فزارة مولاة لهم عن سلامة بنت الحر اخت خرشة بن الحر الفزاري قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن من اشراط الساعة: ان يتدافع اهل المسجد لا يجدون إماما يصلي بهم ".
خرشہ بن حر فزاری کی بہن سلامہ بنت حر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسجد والے آپس میں ایک دوسرے کو امامت کے لیے دھکیلیں گے، انہیں کوئی امام نہ ملے گا جو ان کو نماز پڑھائے“۔
سنن ابو داؤد:581سنن ابن ماجہ: 982 اسنادہ ضعیف
(اس کی راویہ عقیلہ اور طلحہ أم الغراب مجہول ہیں)
توضیح: یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم معنوی طور پر اس لیے صحیح ہے کہ قیامت کے قریب شرعی علم کی ناقدری ہوجائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر ایک دوسرے کو کہے گا کہ نماز کی امامت کراؤ، میں اس کا اہل نہیں ہوں کیونکہ وہ سب علم شریعت سے بے بہرہ ہونگے۔ اس لیے جو صاحب صلاحیت ہو یعنی علم و فضل سے بہرہ ور ہو تو بلاوجہ اس عمل سے انکار نہ کرے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
"لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ وہ جمع ہوں گے اور مسجدوں میں نمازیں بھی پڑھیں گے لیکن ان میں ایک بھی (کامل اور حقیقی) مومن نہیں ہوگا۔"
مستدرک حاکم:8365 التعليق - من تلخيص الذهبي - على شرط البخاري ومسلم
یہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے کیونکہ اس طرح کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی۔ اس طرح کی بات تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی کہی جاسکتی ہے۔
حالت خواب میں انسان جو کچھ دیکھتا ہے اس کے کچھ معانی اور احکام ہوتے ہیں۔ بعض خواب تو بالکل طلاع صبح کی مانند سچے ہوتے ہیں۔ بعض جھوٹے بھی ہوتے ہیں۔ اور بعض خواب محض پریشان خیالی اور حدیث نفس پر مبنی ہوتے ہیں جن کی کوئی خاص تعبیر نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوابوں کے بارے میں بعض ایسی باتوں کی خبریں دی ہیں جو علامات قیامت اور اس کے آثار سے تعلق رکھتی ہیں۔
سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتا ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے بعد نبوت سے کوئی چیز باقی نہ رہے گی سوائے 'مبشرات' کے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! 'مبشرات' کیا ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اچھا خواب جو مومن دیکھتا ہے یا اس کے لیے کسی کو دکھایا جاتا ہے۔"
مسند احمد:24977، صحیح بخاری:6990
خواب کا سچا ہونا اور اس کا مومن کے لیے بشارت ہونا قرب قیامت اور کائنات کے خاتمے کی علامت ہے۔ مومن کا خواب قرب قیامت زیادہ سچا اور امر واقع کے مطابق ہوگا اور مومن زیادہ نیک اور لوگوں میں زیادہ اجنبی ہوگا۔ ان حالات میں سچا خواب مومن کی تنہائی اور اجنبیت کو دور کرے گا اور اس کا انیس و غمخوار بنے گا اور اس کا خواب کم ہی جھوٹا ہوگا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: جب زمانہ(قیامت کے) قریب ہوجائے گا تو مسلمان کا خواب کم ہی جھوٹا ہوگا ، جو آدمی زیادہ سچا ہوگا اس کا خواب بھی زیادہ سچا ہوگا ، مسلمان کا خواب نبوت کے اجزاء میں سے پنتالیسواں حصہ ہے ۔خواب کی تین قسمیں ہیں: ایک سچا خواب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے ، دوسرا غمگین کرنے والا خواب ہے جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ، تیسرا وہ خواب ہے جو انسان کے خیالات اورخواہشات کا عکس ہوتا ہے ، اگر تم میں سے کوئی آدمی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو وہ کھڑا ہوکر نماز پڑھے اور لوگوں کو وہ خواب بیان نہ کرے ، آپﷺنے فرمایا: میں خواب میں بیڑیاں دیکھنا پسند کرتا ہوں اور طوق دیکھنا ناپسند کرتا ہوں ۔بیڑیوں سے مراد دین میں ثابت قدمی ہے۔
صحیح مسلم:5905(2263)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن ابی جمرہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ "آخری زمانے میں مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا" اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کا خواب ایسی واضح شکل میں ہوگا کہ وہ کسی حجت کا محتاج نہیں ہوگا، لہٰذا اس میں جھوٹ کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ یہ خواب سچاہوگا اور جھوٹ سے خالی ہوگا کیونکہ یہ امر واقع کے مطابق ہوگا۔ اس کے برعکس دیگر خوابوں کی تعبیر مخفی ہوتی ہے۔ تعبیر بتانے والا اس کی تعبیر بتاتا ہے مگر وہ واقع نہیں ہوتی۔ اس لیے ایسا خواب جھوٹا ہوتا ہے ، سچا نہیں ہوتا۔
اس بات کو آخری زمانے کے ساتھ خاص کرنے میں یہ حکمت ہے کہ مومن اس دور میں اجنبی ہوگا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ "اسلام اجنبیت میں شروع ہوا اور آخری زمانے میں بھی یہ غریب و نامانوس ہوجائے گا۔" ان حالات میں ایک مومن کے مونس اور غمخوار بہت کم ہوجائیں گے تو اللہ اس کو سچے خواب سے عزت عطا فرمائے گا جو اسے حق پر ثابت قدم رکھے گا اور اس کے لیے باعث بشارت ہوگا۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری:12-507 و 19-451
مومن کے سچے خواب والے زمانے کی تعین کے بارےمیں دو احتمال:
یہ وہ زمانہ ہوگا جب علم دنیا سے اٹھا لیا جائے گا، فتنوں اور لڑائیوں کی وجہ سے علامات شریعت غائب ہوجائیں گی۔ اس وقت مومن لوگوں کئ درمیان بالکل ایک اجنبی شخص کی طرح ہوگا۔ اس دشوار صورت حال میں اللہ تعالیٰ سچے خوابوں کے ذریعے مومن کی نصرت فرمائے گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباری:12-507)
یہ واقعات سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوں گے، اس لیے کہ ان کے نزول کا زمانہ امت میں صحابہ رضی اللہ عنہ کے بعد بہترین اور اقوال و احوال کے اعتبار سے سب سے سچا زمانہ ہوگا اور اس زمانے میں مومن کا خواب کم ہی جھوٹا ہوگا۔ ( فتح الباری:12-507)
جھوٹ ایک نہایت بری عادت ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ ہی کی کوشش میں لگا رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔
قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں میں جھوٹ پھیل جائے گا۔ ایک شخص اپنی گفتگو میں جھوٹ سے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا اور نہ وہ خبریں دوسروں تک منتقل کرنے سے قبل کسی قسم کی تحقیق کرے گا، یہ سب کچھ جھوٹ کی کثرت اور لوگوں پر اس کے بہت برے اثرات کے باوجود ہوگا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آخری زمانے میں دجال (جھوٹ کو سچ بنانے والے) اور کذاب (جھوٹ بولنے والے)پیدا ہوں گے وہ ایسی حدیثیں تم کو سنائیں گے جو تم نے نہ سنی ہوں گی اور نہ تمہارے باپ دادا نے ۔ اُن سے بچ کے رہنا ، ایسا نہ ہو کہ وہ تم کو گمراہ کردیں یا فتنے میں ڈال دیں۔
مقدمہ صحیح مسلم، حدیث :16
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ بَيْنَ يَدَىِ السَّاعَةِ كَذَّابِينَ فَاحْذَرُوهُمْ
"قیامت سے پہلے کچھ جھوٹے لوگ ظاہر ہوں گے، ان سے بچ کر رہنا۔"
صحیح مسلم، الامارۃ، حدیث:1822
عہد حاضر میں لوگوں کے جھوٹ بولنے سے اجتناب نہ کرنے کے باعث جھوٹی خبریں اور عجیب و غریب قصے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سنی سنائی بات کی تصدیق کرنے اور اسے آگے پہنچانے سے منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم اگر کوئی خبر سن کر آگے منتقل کررہے ہوں تو اس کی پوری تحقیق کریں تاکہ ہمارا شمار بھی جھوٹوں میں نہ ہو اور ہم گناہ و خطا میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
آج جو افواہوں کا بازار گرم ہے، خبروں میں تحقیق کا رواج نہیں اور واقعات و حالات کے بیان کرنے میں کمی بیشی نظر آتی ہے یہ سب اسی جھوٹ کی اقسام ہیں جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔
قیامت سے پہلے زلزلوں کی کثرت کے یہ معنی ہیں کہ ایک وسیع علاقے میں بڑے تسلسل کے ساتھ زلزلے آئیں گے۔ یہ زلزلے امت کے لیے یا تو رحمت اور گناہوں کا کفارہ ہوں گے جیسا کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ، بِبَغْدَادَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُكْرَمٍ، ثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمَّتِي أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ لَا عَذَابَ عَلَيْهَا فِي الْآخِرَةِ، جَعَلَ اللَّهُ عَذَابَهَا فِي الدُّنْيَا الْقَتْلَ وَالزَّلَازِلَ وَالْفِتَنَ
میری امت پر رحم کیا گیا ہے۔ اس کے لیے آخرت میں کوئی عذاب نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا عذاب دنیا میں ہی قتل، زلزلوں اور فتنوں کی صورت میں مقرر کردیا ہے۔"
مسند احمد:19678، مستدرک حاکم:8372 وصححہ و اللفظ لہ
من تلخيص الذهبي - صحيح
یا پھر یہ زلزلے لوگوں کے لیے سزا ہوتے ہیں۔ جہاں فتنہ و فساد زیادہ ہو وہاں اس زمانے کے لوگوں کے لیے عذاب کے طور پر زلزلے بھیجے دیے جاتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تقوم الساعة حتى يقبض العلم وتكثر الزلازل۔۔
قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی
صحیح بخاری، كتاب الاستسقاء، حدیث: 1036
عبداللہ بن حوالہ ازدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"يا ابن حوالة إذا رايت الخلافة قد نزلت ارض المقدسة فقد دنت الزلازل والبلابل والامور العظام والساعة يومئذ اقرب من الناس من يدي هذه من راسك "
اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس (شام )میں اتر چکی ہے، تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آ گیا ہے، اور قیامت اس وقت لوگوں سے اتنی قریب ہو گی جتنا کہ میرا یہ ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے“
جب فتنوں اور مصیبتوں کی کثرت ہوتی ہے تو لوگوں کے باہمی تعلقات میں کمزوری آجاتی ہے۔ حتیٰ کہ نوبت قطع تعلقی اور اجنبیت تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں لوگ صرف دنیوی مصلحت ہی کی خاطر ایک دوسرے سے واقفیت رکھتے ہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّاعَةِ فَقَالَ: " عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ، وَلَكِنْ أُخْبِرُكُمْ بِمَشَارِيطِهَا وَمَا يَكُونُ بَيْنَ يَدَيْهَا، إِنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا فِتْنَةً وَهَرْجًا "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، الْفِتْنَةُ قَدْ عَرَفْنَاهَا فَالْهَرْجُ مَا هُوَ؟ قَالَ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ: " الْقَتْلُ، وَيُلْقَى بَيْنَ النَّاسِ التَّنَاكُرُ فَلَا يَكَادُ أَحَدٌ أَنْ يَعْرِفَ أَحَدًا
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت کب واقع ہوگی، اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہی ہے اور وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا البتہ میں تمہیں اس کی علامات اور اس سے قبل پیش آنے والے حالات کی خبر دے سکتا ہوں۔ قیامت سے پہلے فتنہ اور ہرج ہوگا"۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: فتنہ تو ہم جانتے ہیں یہ ھرج کیا چیز ہے؟ فرمایا: "یہ حبشی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: قتل و خونریزی۔ قیامت کے قریب لوگوں کے درمیان اجنبیت ڈال دی جائے گی، کوئی کم ہی کسی کو جانتا ہوگا۔"
مسند احمد:22306
یہ حدیث لوگوں کے آج کے حالات و واقعات کے مطابق ہے۔ آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے رشتہ داروں تک کو نہیں جانتی۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک شخص اپنے ہی بعض عزیزوں سے گھر سے باہر پبلک پارک وغیرہ میں ملتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ یہ لوگ اس کے رشتہ دار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل زیادہ تر تعلقات شخصی اور ذاتی فوائد کی بنا پر استوار کیے جاتے ہیں۔ دنیوی مصلحتوں پر مبنی یہ کمزور تعلقات جس تیزی سے قائم ہوتے ہیں اسی تیزی سے اختتام پذیر بھی ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایمان باللہ اور اخوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ شخصی مصلحت کی بنا پر قائم ہوتے ہیں۔ بلکہ آدمی اپنی دنیوی مصلحت دیکھتا ہے کہ اگر ان تعلقات کے قائم کرنے سے وہ مصلحت پوری ہوتی ہو تو وہ ان تعلقات کو قائم رکھتا ہے ورنہ بہت جلد توڑ دیتا ہے۔
علاماتِ قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ آخری زمانے میں عورتوں کی تعداد زیادہ اور مردوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں عورتوں کی کثرت کا سبب وہ فتنے اور لڑائیاں ہوں گی جن میں مرد بڑی تعداد میں قتل ہوجائیں گے اور عورتیں بچ جائیں گی، اس لیے کہ لڑائی کرنا عورتوں کا کام نہیں بلکہ مرد ہی اس میں زیادہ کام آتے ہیں۔
اس سلسلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ فتوحات کی کثرت کے باعث لونڈیوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا اور ایک مرد کئی کئی لونڈیوں کو اپنے قبضہ میں لے لےگا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت کسی ظاہری سبب سے نہ ہوگی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا کہ آخری زمانے میں لڑکے کم پیدا ہوں گے اور لڑکیاں زیادہ پیدا ہوں گی۔" فتح الباری شرح صحیح بخاری:1-236
"سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: قیامت کی نشانیوں میں سے ہےکہ علم اٹھا لیا جائے گا ، جہالت پھیل جائے گی، زنا کی کثرت ہوجائے گی، شراب پی جائے گی، مرد چلے جائیں گے اور عورتیں باقی رہ جائیں گی یہاں تک کہ پچاس عورتوں کے لیے ایک مرد نگران ہوگا۔
صحیح مسلم: 6786(2671-9) العلم
اور ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
"۔۔۔زنا عام ہوگا، مرد کم ہوجائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوجائیں گی۔۔۔۔
صحیح بخاری:81
اگر آج کوئی دنیا میں پیدا ہونے والے بچوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد پر غور کرے اور ان عالمی مصدقہ رپورٹوں کا جائزہ لے جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد کا فرق بتایا گیا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ علامت ہمارے اس دور میں ظاہر ہوکر روبہ ترقی ہے۔
77- فحاشی اور عریانی کا ظہور اور اس کا علانیہ ارتکاب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں جہاں برائیوں کی کثرت اور شہوتوں کے انتشار کی پیشین گوئی کی ہے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ علامات قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ زنا بہت پھیل جائے گا اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ایک شخص راستے میں سب کے سامنے کسی عورت سے زنا کرے گا۔
یہ دو علامتیں ہیں: ایک تو یہ کہ زنا عام ہو جائے گا اور چارسو پھیل جائے گا، دوسری یہ کہ زنا علی الاعلان کیا جائے گا اور اسے دوسروں سے چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ الْهَمْدَانِيُّ، ثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْعُرَنِيُّ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَايَبْقَىعَلَىوَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ لِلَّهِ فِيهِ حَاجَةٌ، وَحَتَّى تُوجَدَ الْمَرْأَةُ نَهَارًا جِهَارًا تُنْكَحُ وَسَطَ الطَّرِيقِ، لَا يُنْكِرُ ذَلِكَ أَحَدٌ وَلَا يُغَيِّرَهُ، فَيَكُونُ أَمْثَلَهُمْ يَوْمَئِذٍ الَّذِي يَقُولُ: لَوْ نَحَّيْتَهَا عَنِ الطَّرِيقِ قَلِيلًا، فَذَاكَ فِيهِمْ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِيكُمْ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک یہ صورت حال نہ پیدا ہوجائے کہ زمیں پر کوئی بھی ایسا شخص نہ رہے گا جس کی اللہ کو ضرورت ہو۔ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ دن کی روشنی میں علی الاعلان راستے کے عین بیچ ایک عورت سے زنا کیا جائے گا اور کوئی شخص اس پر اعتراض نہ کرے گا اور نہ ہی اسے ہٹانے کی کوشش کرے گا۔ اس دن معاشرے کا بہترین شخص وہ ہوگا جو اس زانی مرد سے کہے گا کہ تم نے اسے راستے سے تھوڑا ہٹا ہی لیا ہوتا! یہ بات کہنے والے کی حیثیت اس دور میں وہی ہوگی جو آج تمہارے درمیان ابوبکر و عمر کی ہے۔"
مستدرک للحاکم:8516
سلسلۃ الضعیفۃ:1254 قال الالبانی: ضعيف جداً
اس حدیث کی تائید اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
قیامت کی نشانیوں میں سے ہےکہ علم اٹھا لیا جائے گا ، جہالت پھیل جائے گی، زنا کی کثرت ہوجائے گی، شراب پی جائے گی۔۔۔۔
صحیح مسلم: 6786(2671-9) العلم
اور ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
"۔۔۔زنا عام ہوگا، مرد کم ہوجائیں گے اور عورتیں زیادہ ہوجائیں گی۔۔۔۔
صحیح بخاری:81
یہ دونوں علامتیں ہمارے زمانے میں ظاہر ہوچکی ہیں۔ بعض ٹی وی چینل جس طریقے سے فحاشی پھیلا رہے ہیں اور حیا باختہ مناظر نشر کررہے ہیں، انٹرنیٹ پر ایسی تصویریں اور ویڈیو نشر کی جارہی ہیں جن کی طرف دیکھنے سے ایک مومن کی آنکھ شرماتی ہے۔
مومن مردوں اور خواتین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کی حفاظت کریں، نگاہیں نیچی رکھیں، شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اہل فسق و فجور سے بچ کر رہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہر وقت عصمت و پاک دامنی کی دعا مانگتے رہیں۔
قرآن مجید کی تلاوت و قراءت عبادت اور قربتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ عبادات دنیا طلبی کے لیے نہ کی جائیں بلکہ یہ خالصتاً اخروی کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونی چاہئیں۔
یہ چیز علامات قیامت میں سے ہے کہ کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو تعزیت کی مجالس اور تقریبات میں قرآن مجید کی خوبصورت تلاوت محض اس لیے کریں گے کہ اس پر مال حاصل کر سکیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ،أَوْ عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: مَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَى قَوْمٍ، فَلَمَّا فَرَغَ سَأَلَ فَقَالَ عِمْرَانُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَفَلْيَسْأَلِاللهَ بِهِ، فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَيَسْأَلُونَ النَّاسَ بِهِ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو کچھ لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کررہا تھا۔ جب وہ تلاوت کرچکا تو ان سے پیسے مانگنے لگا۔
سیدنا عمران رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھ کر إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
جو قرآن کی تلاوت کرے اسے چاہیے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی حاجات طلب کرے۔ ایک قوم ایسی بھی آنے والی ہے جو قرآن پڑھ کرلوگوں سے سوال کرے گی۔" مسند احمد:19885 حسن لغيره
حدثنا وهب بن بقية اخبرنا خالد عن حميد الاعرج عن محمد بن المنكدر عن جابر بن عبد الله قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نقرا القرآن وفينا الاعرابي والاعجمي فقال: " اقرءوا فكل حسن وسيجيء اقوام يقيمونه كما يقام القدح يتعجلونه ولا يتاجلونه ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم لوگ قرآن پڑھ رہے تھے اور ہم میں بدوی بھی تھے اور عجمی بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑھو سب ٹھیک ہے عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو اسے (یعنی قرآن کے الفاظ و کلمات کو) اسی طرح درست کریں گے جیسے تیر درست کیا جاتا ہے (یعنی وہ ریا کاری اور شہرت و ناموری کے لیے تجوید و قرآت میں مبالغہ کریں گے اور پرتکلف قراءت کریں گے) وہ اس کے ذریعے فوری دنیوی فائدہ حاصل کرنا چاہیں گے اور اخروی اجرو ثواب کے وہ خواہش مند نہیں ہوں گے۔ "
(یہ لوگ قرآن کا معاوضہ فوری طور پر لینا چاہیں گے اور آخرت تک صبر اور انتظار نہیں کریں گے)
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا زمانہ ہے جو اس کے بعد ہوں گے۔“ پھر اس کے بعد وہ لوگ ہوں گے جو گواہی طلب کیے بغیر ہی گواہی دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ وہ خیانت کریں گے اور ان پر سے اعتماد جاتا رہے گا۔ وہ نذر مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو جائے گا۔"
صحیح بخاری، الرقاق:6428
صحیح مسلم:2535
غالباً آخری زمانے میں موٹاپے کی وجہ مالی خوشحالی، آرام دہ زندگی، ہوٹلوں، قہوہ خانوں، مزیدارکھانوں اور مٹھائیوں کی کثرت ہوگی۔ ہمارے اس دور میں لوگوں کی جسمانی حرکت بہت کم ہوگئی ۔ انسان کی ہر قسم کی خدمت کے لیے مشینیں اور آلات موجود ہیں۔ وہ پیدل نہیں چلتے اور بدنی حرکت برائے نام رہ گئی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چھوٹے بڑے سب موٹاپے کا شکار ہوگئے ہیں۔ صورت حال اس حد تک خراب ہوچکی ہے کہ عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی آبادی کا قریباً چھٹا حصہ وزن میں اضافے کے مسئلے کا شکار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ایسی دواؤں کی بہت کثرت ہوگئی ہے جو وزن گھٹانے، موٹاپے کے علاج اور معدہ کی کاکردگی میں معاون ہوتی ہیں۔