• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامات قيامت شيخ عريفى كى كتاب نهاية العالم سے ماخوذ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
80-81-ایسے لوگوں کا ظہور جو بلاطلب گواہی دیں گے اور نذر پوری نہ کریں گے۔


یہ دونوں علامتیں سابقہ حدیث میں وارد ہیں "پھر اس کے بعد وہ لوگ ہوں گے جو گواہی طلب کیے بغیر ہی گواہی دینے کے لیے تیار ہوں گے۔ وہ خیانت کریں گے اور ان پر سے اعتماد جاتا رہے گا۔ وہ نذر مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے"

صحیح بخاری، الرقاق:6428
صحیح مسلم:2535

تساہل کی یہ دونوں خصلتیں، یعنی دوسروں کے خلاف علم اور طلب کیے بغیر گواہی دینا اور کثرت سے نذر ماننا اور اسے پورا نہ کرنا لوگوں کے دین کی کمزوری، ایمان کے ضعف اور دل میں اللہ کی تعظیم کا جذبہ نہ ہونے کی دلالت کرتی ہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
82 طاقتور كمزور كو کھا جائے گا:


حَدَّثَنَا هَاشِمٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: " يَا عَائِشَةُ، قَوْمُكِ أَسْرَعُ أُمَّتِي بِي لَحَاقًا "، قَالَتْ: فَلَمَّا جَلَسَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، جَعَلَنِي اللهُ فِدَاءَكَ، لَقَدْ دَخَلْتَ وَأَنْتَ تَقُولُ كَلَامًا ذَعَرَنِي، قَالَ: " وَمَا هُوَ؟ " قَالَتْ: تَزْعُمُ أَنَّ قَوْمَكَ أَسْرَعُ أُمَّتِكَ بِكَ لَحَاقًا، قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَتْ: وَمِمَّ ذَاكَ ؟ قَالَ: " تَسْتَحْلِيهِمْ
الْمَنَايَا، وَتَنَفَّسُ عَلَيْهِمْ أُمَّتُهُمْ "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: فَكَيْفَ النَّاسُ بَعْدَ ذَلِكَ، أَوْ عِنْدَ ذَلِكَ،؟ قَالَ: " دَبًى، يَأْكُلُ شِدَادُهُ ضِعَافَهُ، حَتَّى تَقُومَ عَلَيْهِمُ السَّاعَةُ


ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز میرے پاس تشریف لائے تو آپ یہ فرما رہے تھے: " اے عائشہ! میرے دنیا سے جانے کے بعد امت میں سب سے پہلے مجھے تمہاری قوم (عرب) آ کر ملے گی۔"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو میں نے کہا: میں آپ پر قربان! جب آپ اندر داخل ہوئے تو ایک ایسی بات فرما رہے تھے جس نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میں کیا کہہ رہا تھا"؟ میں نے عرض کی: آپ فرما رہے تھے:" تمہاری قوم کے لوگ میرے بعد جلد ہی مجھ سے آ ملیں گے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ہاں یہ بات ٹھیک ہے"۔ میں نے کہا یہ کیسے ہوگا؟ آپ نے فرمایا:" موت انہیں اپنے لیے مرغوب اور میٹھی چیز سمجھے گی (یعنی موت ان پر اس طرح ٹوٹ پڑے گی جس طرح کوئی مٹھائی پر ٹوٹ پڑتا ہے) اور امت کے لوگ ان سے حسد کریں گے۔" میں نے پوچھا: پھر اس وقت یا اس کے بعد لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا:" وہ بغیر پروں والی ٹڈی کی طرح ہوں گے۔ طاقتور کمزور کو کھا جائے گا حتیٰ کہ ان پر قیامت قائم ہوجائے گی"

مسند احمد:24519
وسلسلة الأحاديث الصحيحة:1953


اس حدیث میں اشارہ ہے کہ قرب قیامت ظلم اور شر بہت زیادہ ہو جائے گا حتیٰ کہ طاقتور کمزور کو کھا جائے گا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب
خواجہ صاحب آپ محنت و محبت سے بہت مفید کام کر رہے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ آپ اس کا بہترین اجر عطا فرمائے ۔
اور آپ کو مزید مفید کام کی توفیق سے نوازے ۔آمین
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
ماشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب
خواجہ صاحب آپ محنت و محبت سے بہت مفید کام کر رہے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ آپ اس کا بہترین اجر عطا فرمائے ۔
اور آپ کو مزید مفید کام کی توفیق سے نوازے ۔آمین
بارک اللہ فیک
آمین یا رب العالمین
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
83-اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنا


اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق فیصلے کرنا امت کے اہم ترین واجبات میں سے ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُ‌ونَ

اور جو لوگ اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق فیصلے نہ کریں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔

المآئدۃ 5:44

آخری زمانے میں اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی چلی جائیں گی اور جو کڑی سب سے پہلے ٹوٹے گی وہ یہ ہوگی کہ لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے کرنے چھوڑ دیں گے۔

حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ حَبِيبٍ حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَتُنْقَضَنَّ عُرَى الْإِسْلَامِ عُرْوَةً عُرْوَةً، فَكُلَّمَا انْتَقَضَتْ عُرْوَةٌ تَشَبَّثَ النَّاسُ بِالَّتِي تَلِيهَا، وَأَوَّلُهُنَّ نَقْضًا الْحُكْمُ وَآخِرُهُنَّ الصَّلَاةُ "

سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''اسلام کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹتی چلی جائیں گی۔ جب بھی کوئی کڑی ٹوٹے گی تو لوگ دوسری سے چمٹ جائیں گے۔ سب سے پہلے جو کڑی ٹوٹے گی وہ یہ ہوگی کہ حکم الٰہی کو توڑا جائے گا اور سب سے آخر میں نماز کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔"

مسند احمد:22160
المعجم الکبیر للطبرانی:7486

إسناده جيد،
عبدالعزيز بن إسماعيل بن عبيد الله بن أبي المهاجر المخزومي الدمشقي روى عنه جمع، وذكره ابن حبان في "الثقات"، وقال أبو حاتم: ليس به بأس، وباقي رجاله ثقات. سليمان بن حبيب: هو المُحارِبي الدَّاراني

نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر اسلامی ممالک میں یہ علامت ظاہر ہوچکی ہے۔ ان ممالک میں اسلام کے قوانین و احکام میں سے بس انہی امور پر عمل کیا جاتا ہے جو شادی، طلاق اور میراث وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں تک تجارتی معاملات، جرائم سے متعلق سزاؤں اور حدود و تعزیرات کا تعلق ہے تو ان معاملات میں اکثر لوگ فرانسیسی اور برطانوی قوانین کے مطابق ہی فیصلے کرتے ہیں۔ اور یہی اللہ کی نازل کردہ وحی کے ساتھ فیصلے نہ کرنا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ

یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالٰی سے بہتر فیصلہ اور حکم کس کا ہو سکتا ہے

المآئدۃ 5:50
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
84-رومیوں کی کثرت اور عربوں کی قلت:


رومیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں آج امریکی اور یورپی اقوام کے طور پر پہچانا جاتا ہے، انہیں رومی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اصفر بن روم بن عیصو بن اسحاق بن ابراہیم علیہما السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بنو اصفر بھی کہا جاتا ہے۔
التذکرہ للقرطبی:2-689

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِى مُوسَى بْنُ عُلَىٍّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ الْمُسْتَوْرِدُ الْقُرَشِىُّ عِنْدَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « تَقُومُ السَّاعَةُ وَالرُّومُ أَكْثَرُ النَّاسِ ». فَقَالَ لَهُ عَمْرٌو أَبْصِرْ مَا تَقُولُ. قَالَ أَقُولُ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ لَئِنْ قُلْتَ ذَلِكَ إِنَّ فِيهِمْ لَخِصَالاً أَرْبَعًا إِنَّهُمْ لأَحْلَمُ النَّاسِ عِنْدَ فِتْنَةٍ وَأَسْرَعُهُمْ إِفَاقَةً بَعْدَ مُصِيبَةٍ وَأَوْشَكُهُمْ كَرَّةً بَعْدَ فَرَّةٍ وَخَيْرُهُمْ لِمِسْكِينٍ وَيَتِيمٍ وَضَعِيفٍ وَخَامِسَةٌ حَسَنَةٌ جَمِيلَةٌ وَأَمْنَعُهُمْ مِنْ ظُلْمِ الْمُلُوكِ.

حضرت مستورد فہری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سےکہا کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب قیامت آئے گی تو رومیوں کی اکثریت ہوگی ، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: غور کرو تم کیا کہہ رہے ہو، انہوں نے کہا: میں وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺسے سنا ہے : سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم یہ کہتے ہو ، تو ان میں چار خصلتیں ہیں:

۔1وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں ،
۔2 مصیبت کے وقت سب لوگوں سے جلدی اس کا تدارک کرتے ہیں ،
3۔شکست کھانے کے بعد سب لوگوں سے جلدی دوبارہ حملہ کرتے ہیں ،
۔4مسکینوں ، یتیموں اورکمزوروں کے لیے سب لوگوں سےبہتر ہیں ،
اور پانچویں خصلت سب سے اچھی یہ ہے کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ بادشاہوں کو ظلم سے روکنے والےہیں۔


صحیح مسلم:7279(2898)


حَدَّثَنِى هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ حَدَّثَنِى أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ أَخْبَرَتْنِى أُمُّ شَرِيكٍ أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ « لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ مِنَ الدَّجَّالِ فِى الْجِبَالِ ». قَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ قَالَ « هُمْ قَلِيلٌ ».

سیدہ ام شریک رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا : لوگ دجال سے بھاگ کر پہاڑوں میں جا چھپیں گے ، سیدہ ام شریک نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! اس وقت عرب کہاں ہوں گے ؟(کیا وہ دجال کا مقابلہ نہیں کریں گے؟) آپﷺنے فرمایا:عرب اس زمانے میں تعداد میں بہت کم ہوں گے۔

صحیح مسلم:7393(2945)


یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ: "رومی اس وقت سب سے زیادہ ہوں گے" سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل یورپ کی زبان (انگریزی) اس وقت بہت بولی جائے گی اور لوگ عربی زبان کو چھوڑ دیں گے۔ بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ جو شخص عربی بولتا ہے وہ عرب ہے اور جو بھی شخص صحرا نشینی اختیار کرتا ہے وہ بدو ہے، خواہ وہ عجمی ہی کیوں نہ ہو۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
85-لوگوں کے پاس مال و دولت کی کثرت:


مسلمانوں نے اسلام کے ابتدائی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں بھی اور بعد میں بھی اس حال میں بسر کیے کہ ان کی زندگی بہت تنگی اور سخت فقر و فاقہ کی تھی حتیٰ کہ ایک بعد دوسرا مہینہ بھی گزر جاتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر چولہے میں آگ نہ جلتی۔ ان کا گزارہ محض دو چیزوں: پانی اور کھجور پر ہوتا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے فرمایا کرتے تھے کہ عنقریب حالات بدل جائیں گے اور قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ دولت کی ریل پیل ہوجائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مال کی اس قدر کثرت ہوجائے گی کی ایک شخص اپنی زکاۃ لے کر ایک مہینے تک پھرتا رہے گا مگر اسے کوئی مستحق نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ لوگ اس سےبہت مستغنی ہوں گے۔


سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمُ الْمَالُ فَيَفِيضَ،‏‏‏‏ حَتَّى يُهِمَّ رَبَّ الْمَالِ مَنْ يَقْبَلُ صَدَقَتَهُ،‏‏‏‏ وَحَتَّى يَعْرِضَهُ،‏‏‏‏ فَيَقُولَ الَّذِي يَعْرِضُهُ عَلَيْهِ لَا أَرَبَ لِي".

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم میں مال و دولت کی کثرت نہ ہو جائے گی۔اور لوگ اس قدر مالدار ہو جائیں گے کہ اس وقت صاحب مال کو اس کی فکر ہو گی کہ اس کی زکوٰۃ کون قبول کرے اور اگر کسی کو دینا بھی چاہے گا تو اس کو یہ جواب ملے گا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔

صحیح بخاری،كتاب الزكاة ،حدیث نمبر: 1412
صحيح مسلم،کتاب الزکاۃ، حدیث:1014


سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَطُوفُ الرَّجُلُ فِيهِ بِالصَّدَقَةِ مِنَ الذَّهَبِ،‏‏‏‏ ثُمَّ لَا يَجِدُ أَحَدًا يَأْخُذُهَا مِنْهُ،‏‏‏‏



" لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آ جائے گا کہ ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر نکلے گا لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا"

صحیح بخاری،كتاب الزكاة ،حدیث نمبر: 1414
صحيح مسلم،کتاب الزکاۃ، حدیث:1013

اہل علم میں اختلاف ہے کہ یہ علامت واقع ہوچکی ہے یا نہیں؟

کہا جاتا ہے کہ یہ علامت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے زمانے میں واقع ہوچکی ہے۔ جب انہیں بڑی بڑی فتوحات حاصل ہوئیں اور فارس و روم کی غنیمتیں ان کے پاس آئی تھیں۔

اس کے بعد پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد مسعود میں مال کی اس قدر فراوانی ہوگئی کہ ایک شخص اپنا صدقہ پیش کرتا مگر اسے کوئی ایسا شخص نہ ملتا جو اس سے یہ مال قبول کرلیتا۔ حتیٰ کہ ایک شخص کو بظاہر محتاج سمجھ کر اس کو مال پیش کیا جاتا مگر وہ کہتا کہ مجھے اس مال کی کوئی حاجت نہیں۔

اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ علامت آخری زمانے میں واقع ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ دراصل ظہورِ مہدی کے زمانے کی طرف ہے۔ اس دور میں مہدی لوگوں میں جھولیاں بھر بھر کر مال تقسیم کریں گے، اس لیے کہ مال کی کثرت اور بہتات ہوگی۔ زمین برکات و معدنیات اُگلے گی حتیٰ کہ اس کے پیٹ سے سونے اور چاندی کے ذخائر برآمد ہوں گے۔

حضرت سعید جریری، ابو نضرہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:


كُنَّا عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ۔۔۔۔قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « يَكُونُ فِى آخِرِ أُمَّتِى خَلِيفَةٌ يَحْثِى الْمَالَ حَثْيًا لاَ يَعُدُّهُ عَدَدًا ». قَالَ قُلْتُ لأَبِى نَضْرَةَ وَأَبِى الْعَلاَءِ أَتَرَيَانِ أَنَّهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَالاَ لاَ.

ہم جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو انہوں نے کہا:
رسول اللہﷺنے فرمایا:" میری امت کے آخر میں ایک خلیفہ ہوگا ، جولوگوں کو دونوں ہاتھ بھر بھر کر مال دے گا ، اور اس کو شمار نہیں کرے گا "،سعید کہتے ہیں کہ میں نے ابو نضرہ اور ابو العلاء سے پوچھا: کیا اس سے عمر بن عبد العزیز مراد ہیں ؟ ان دونوں نے کہا: نہیں۔

صحیح مسلم،كتاب الفتن وأشراط الساعة،حدیث:7315(2913)
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
86-زمین کا اپنے خزانے اُگل دینا:


آخری زمانے میں مال کی کثرت اور بہتات اس قدر ہوجائے گی کہ زمین اپنے مدفون خزانے اُگل دے گی حتیٰ کہ مال کی ریل پیل کی وجہ سے لوگ دولت سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:


« تَقِىءُ الأَرْضُ أَفْلاَذَ كَبِدِهَا أَمْثَالَ الأُسْطُوَانِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ فَيَجِىءُ الْقَاتِلُ فَيَقُولُ فِى هَذَا قَتَلْتُ .وَيَجِىءُ الْقَاطِعُ فَيَقُولُ فِى هَذَا قَطَعْتُ رَحِمِى. وَيَجِىءُ السَّارِقُ فَيَقُولُ فِى هَذَا قُطِعَتْ يَدِى ثُمَّ يَدَعُونَهُ فَلاَ يَأْخُذُونَ مِنْهُ شَيْئًا ».

زمیں اپنے جگر کے ٹکڑےسونے چاندی کے ستونوں کی شکل میں اگل دے گی ، قاتل دیکھ کر کہے گا اسی (مال)کی وجہ سے تو میں نے قتل کیا تھا۔ قطع رحمی کرنے والا آئے گا اور کہے گا اسی مال کی وجہ سے تو میں نے اپنے خون کے رشتہ داروں کو چھوڑا تھا۔چور دیکھ کر کہے گا اسی مال کی وجہ سےمیں نے چوری کی اور میرا ہاتھ کاٹا گیا تھا پھر سب اس مال کو چھوڑ دیں گے اور کوئی کچھ نہیں لے گا۔

صحيح مسلم،کتاب الزکاۃ، حدیث:2341(1013)

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حدیث میں اگلنے کے لفظ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زمین اپنے اند سے مدفون خزانے باہر نکال دے گی۔ اور 'الأُسْطُوَانِ' "الأُسْطُوَانۃ" کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں عمود یا ستون۔ سونے چاندی کے ذخائر کو ستونوں سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے تاکہ اس کی کثرت اور بہتات واضح ہوجائے۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
87-88-89
  1. مسخ
  2. خسف
  3. قذف کا ظاہر ہونا


1- "مسخ" کا مطلب ہے کسی چیز کی شکل اور جسمانی ہیئت تبدیل کرکے اسے کوئی دوسری چیز بنا دینا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو سزا کے طور پر بندر اور خنزیر بنا دیا تھا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّا عَتَوْا عَن مَّا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَ‌دَةً خَاسِئِينَ

یعنی جب، جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے ان کو کہہ دیا تم ذلیل بندر بن جاؤ

الاعراف 7:166


وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَ‌دَةَ وَالْخَنَازِيرَ‌

ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دیا

المآئدہ 5:60


2- "خسف" کا مطلب ہے زمین کا پھٹنا اور جو کچھ اس کے اوپر ہو اس کو نگل لینا۔ اس کا بیان آگے چل کر علاماتِ کبریٰ میں آئے گا۔ ان شا اللہ۔

3- "قذف"کا معنی ہے آسمان سے پتھروں کی بارش ہونا، جیسا کہ شعیب علیہ السلام کی قوم کے ساتھ ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دی تو آسمان سے پتھر برسائے گئے، یا جس طرح اللہ تعالیٰ نے ابرہہ اور اس کی قوم کو سزا دی، جب وہ کعبہ کو گرانے کے لیے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر کنکریاں برسائیں۔

یہ وہ سزائیں ہیں جو آخری زمانے میں بعض لوگوں پر مسلط کی جائیں گی اور یہ علامات قیامت میں سے ہیں۔

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:


"فِي هَذِهِ الأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ" فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَتَى ذَاكَ؟ قَالَ: "إِذَا ظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ".

'' اس امت کے بعض لوگوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا، بعض کی شکلیں مسخ کردی جائیں گی اور بعض پر پتھروں کی بارش ہوگی۔" ایک مسلمان نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ایساکب ہوگا؟ آپ نے فرمایا:'' جب گانےوالیاں اورآلاتِ موسیقی عام ہوجائیں گے اورشراب خوب پی جائے گی''۔

جامع الترمذی، الفتن، حدیث:2212

"الْقَيْنَاتُ" 'قَيْنَۃ' کی جمع ہے اور اس کے معنی ہیں:
گانے والی عورت۔


اور لفظ "الْمَعَازِفُ" کا واحد مِعزف ہے ،معنی ہیں موسیقی اور گانے بجانے کے آلات۔

لسان العرب۔ مادۃ:عزف

جب لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ طرق کردیں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ گناہوں کی کثرت ہوجائے گی اور عقوباتِ الٰہیہ قریب آجائیں گے۔

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:


"يَكُونُ فِي آخِرِ الأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ" قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ! أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: "نَعَمْ، إِذَا ظَهَرَ الْخُبْثُ".

'' اس امت کے آخری عہدمیں یہ واقعات ظاہر ہوں گے زمین کا دھنسنا ، صورت تبدیل ہونا اورآسمان سے پتھربرسنا''، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک کردے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، جب فسق وفجورعام ہوجائے گا''

جامع الترمذی، الفتن، حدیث:2185

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی خبر دی کہ یہ خسف، مسخ اور قذف ان لوگوں پر واقع ہوگا جو اہل بدعت اور صحیح عقیدے کے مخالف ہوں گے، جیسا کہ زندیق لوگ، یعنی اہل الحاد و نفاق اور فرقہ قدریہ وغیرہ۔ یہ لوگ اللہ کی تقدیر کی تکذیب کرتے ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے افعال کے لیے مقرر فرما رکھی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ،‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو صَخْرٍ ،‏‏‏‏ عَنْ نَافِعٍ ،‏‏‏‏ أَنَّ رَجُلًا أَتَى ابْنَ عُمَرَ ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ فُلَانًا يُقْرِأُ عَليْكَ السَّلَامَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ،‏‏‏‏ فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ،‏‏‏‏ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "يَكُونُ فِي أُمَّتِي أَوْ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ مَسْخٌ وَخَسْفٌ وَقَذْفٌ،‏‏‏‏ وَذَلِكَ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ".

نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا: فلاں شخص آپ کو سلام کہتا ہے، انہوں نے کہا: مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس نے دین میں بدعت نکالی ہے، اگر اس نے ایسا کیا ہو تو اسے میرا سلام نہ کہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”میری امت میں (یا اس امت میں) مسخ (صورتوں کی تبدیلی)، اور زمین کا دھنسنا آسمان سے پتھروں کی بارش کا ہونا ہو گا“، اور یہ قدریہ میں ہو گا جو تقدیر کے منکرہیں۔

جامع الترمذی:2152، سنن ابن ماجہ:4061، سنن ابو داؤد:4613، مسند احمد:5639

دوسری روایات میں اس طرح بھی آیا ہے کہ خسف اس لشکر پر ہوگا جو آخری زمانے میں کعبہ کو گرانے کے لیے آئے گا مگر اللہ ان تمام لوگوں کو زمیں میں دھنسا دے گا۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ بُقَيْرَةَ امْرَأَةَ الْقَعْقَاعِ بْنِ أَبِي حَدْرَدٍ تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمْبِجَيْشٍقَدْخُسِفَ بِهِ قَرِيبًا فَقَدْ أَظَلَّتِ السَّاعَةُ "

سیدنا قعقاع بن ابی حدرہ کی اہلیہ بقیرہ بیان کرتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا:"جب تم سنو کہ ایک لشکر کو قریب ہی کی زمین میں دھنسا دیا گیا ہے تو اس وقت سمجھ لینا قیامت بہت قریب آچکی ہے۔

مسند احمد:27129
إسناده ضعيف، ابنُ إسحاق - وهو محمد - وإن صرَّح بسماعه من محمد بن إبراهيم التيمي عند الحميدي، إلا أنه تفرَّد به، وفي بعض ما تفرَّد به، نكارة فيما قاله الذهبي في "الميزان". ثم إنه اختُلف عليه فيه

قریب ہی دھنسا دیے جانے کا مطلب ہے کہ اس لشکر کو سرزمین مدینہ کے قریب ہی زمین میں دھنسایا جائے گا۔ اس لشکر کا حال آگے چل کر علاماتِ صغریٰ میں نمبر:122 پر آئے گا۔ ان شا اللہ۔

اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ یہ سزائیں نافرمانوں پر نازل ہوں گی اور ان پر بھی جو ان کے گناہ دیکھ کر خاموش رہیں گے۔ ایک مسلمان شخص کو اس امر سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
90-ایسی بارش جس سے مٹی اور پتھر کے گھر نہ بچ سکیں گے:


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ علاماتِ قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ آسمان سے ایسی بارش نازل ہوگی جس کے سامنے مٹی اور پتھر کے گھر قائم نہ رہ سکیں گے۔ اس بارش کے سامنے صرف اونٹ کے بالوں سے بنے ہوئے خیمے ہی ٹھہر سکیں گے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، وَعَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، قَالَ: عَفَّانُ، فِي حَدِيثِهِ: أَخْبَرَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُمْطَرَالنَّاسُ مَطَرًا لَا تُكِنُّ مِنْهُ بُيُوتُ الْمَدَرِ، وَلَا تُكِنُّ مِنْهُ إِلَّا بُيُوتُ الشَّعَرِ "

"قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک آسمان سے ایسی بارش نازل نہ ہو جس سے مٹی اور پتھر کے گھر بچ نہ سکیں گے، البتہ بالوں سے بنے ہوئے خیمے اس بارش سے بچ جائیں گے۔"

مسند احمد:7564

قال الھیثمی: رجالہ رجال الصحیح
إسناده صحيح على شرط مسلم من جهة عفان بن مسلم الباهلي، وأبو كامل متابعه -وهو مظفر بن مدرك الخراساني- ثقة من رجال أبي داود في "التفرد" والنسائي
 
Top