خواجہ خرم
رکن
- شمولیت
- دسمبر 02، 2012
- پیغامات
- 477
- ری ایکشن اسکور
- 46
- پوائنٹ
- 86
36 مال فے کی من مانی تقسیم:
مال فے سے مراد وہ مال ہے جسے مجاہدین قتال کے بغیر ہی حاصل کر لیں، خواہ دشمن میدان جنگ سے بھاگ گیا ہو یا اس نے شکست تسلیم کر کے ہتھیار ڈال دیے ہوں یا دشمن نے وہ مال خود مسلمانوں کے سپرد کر دیا ہو۔ ایسے مال کو اسی طرح تقسیم کیا جائے گا جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٧﴾
بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالٰی تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے۔
الحشر:7
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جب مال غنیمت کو دولت ،امانت کو مال غنیمت اور زکاۃ کو تاوان سمجھا جائے "
یہ حدیث تفصیل سے آگے آئے گی۔1
جامع ترمذی:2211
وقال حدیث غریب، والحدیث فی اسنادہ رمیح الجذامی لا یعرف، ولہ شاھد عن علی رضی اللہ عنہ، فی اسنادہ فرج بن فضالۃ، وآخر عند الطبرانی عن عوف بن مالک، وفیہ عبدالحمید بن ابراہیم
1 دیکھیے علامات صغریٰ نمبر 45