• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامات قيامت شيخ عريفى كى كتاب نهاية العالم سے ماخوذ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
46-47-48-49 زنا،ریشم،شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجھنا


ایسے واضح حرام کام جن کی حرمت سے کوئی بھی مسلمان بے خبر نہیں، زنا، شراب نوشی، بیہودہ آلات موسیقی اور مردوں کے لیے ریشم کا استعمال ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ میری امت کا ایک گروہ آخری زمانے میں ان حرام چیزوں کو حلال کر لے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرب قیامت کی علامات میں شمار کیا ہے۔

ان محرمات کو حلال کر لینے کی دو ممکنہ صورتیں ہیں:
1- ان چیزوں کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ حلال ہیں نہ کہ حرام۔
2۔ لوگوں میں ان حرام اشیا کا استعمال اس قدر زیادہ ہو جاناکہ کوئی بھی زبان یا دل سے ان کو برا نہ کہے۔ لوگ ان اشیا کو بےدھڑک استعمال کریں اور ان کی حرمت کا احساس تک نہ کریں۔


حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ،‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِي سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ،‏‏‏‏ وَالْحَرِيرَ،‏‏‏‏ وَالْخَمْرَ،‏‏‏‏ وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ يَعْنِي الْفَقِيرَ لِحَاجَةٍ،‏‏‏‏ فَيَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا،‏‏‏‏ فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً،‏‏‏‏ وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".

ابوعامر رضی اللہ عنہ یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: اللہ کی قسم! انہوں نے جھوٹ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر (اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو (ان کی سرکشی کی وجہ سے) ہلاک کر دے گا پہاڑ کو (ان پر) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔

صحیح بخاری:5590
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ الأَشْعَرِيِّ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ، يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا، يُعْزَفُ عَلَى رُئُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ، يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمُ الأَرْضَ، وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ
ابو ما لک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے، اور اس کا نام کچھ اور رکھیں گے، ان کے سروں پر با جے بجائے جائیں گے، اور گانے والی عورتیں گائیں گی، تو اللہ تعالی انہیں زمین میں دھنسادے گا، اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنادے گا''

It was narrated from Abu Malik Ash’ari that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“People among my nation will drink wine, calling it by another name, and musical instruments will be played for them and singing girls (will sing for them). Allah will cause the earth to swallow them up, and will turn them into monkeys and pigs

.”
سنن ابن ماجه:4020
حسن
: اللہ سبحانہ و تعالى نے سورة لقمان ميں فرمايا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُواً أُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ

﴿ اور لوگوں ميں كچھ ايسے بھى ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں، تا كہ بغير كسى علم كے اللہ كى راه سے لوگوں كو روكيں، اور اسے مذاق بنائيں، انہيں لوگوں كے ليے ذلت ناك عذاب ہے ﴾لقمان ( 6 )

حبر الامۃ ابن عباس رضى اللہ عنه اس كى تفسير ميں كہتے ہيں، يہ گانا بجانا ہے.

اور مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: لہو اور ڈھول اور ناچ گانا ہے.
تفسير طبرى ( 3 / 451 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" لھو الحديث " يعنى لغو بات خريدنے كى تفسير ميں صحابہ كرام اور تابعين عظام كى تفسير ہى كافى ہے، انہوں نے اس كى تفسير يہى كى ہے كہ: يہ گانا بجانا، ہے، ابن عباس، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے يہ صحيح ثابت ہے.

ابو الصھباء كہتے ہيں: ميں نے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كو اللہ تعالى كے فرمان:

﴿ و من الناس من يشترى لھو الحديث﴾ كے متعلق سوال كيا كہ اس سے مراد كيا ہے تو ان كا جواب تھا:

اس اللہ تعالى كى قسم جس كے علاوه كوئى اور معبود برحق نہيں اس سے مراد گانا بجانا ہے ـ انہوں نے يہ بات تين بار دھرائى ـ.

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے صحيح ثابت ہے كہ اس سے مراد گانا بجانا ہى ہے.

اور لھو الحديث كى تفسير گانے يا اس طرح كى اور باتيں جو مكہ ميں نضر بن حارث اہل مكہ كو سنايا كرتا تھا تا كہ وه قرآن مجيد كى طرف دھيان نہ ديں، يہ دونوں ہى لھو الحديث ميں شامل ہوتى ہيں.

اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا تھا: لھو الحديث سے مراد باطل اور گانا بجانا ہے.
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
50 لوگوں كا موت كى تمنا كرنا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی بھی خبر دی ہے کہ ایک ایسا وقت آجائے گا کہ اس میں ظلم، فتنوں اور مصیبتوں کی کثرت ہوگی۔ حتیٰ کہ ایک شخص اپنے ساتھی کی قبر کے پاس سے گزرے گا تو تمنا کرے گا کہ کاش! اس قبر میں اپنے ساتھی کے بجائے وہ مدفون ہوتا۔


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا لَيْتَنِي مَكَانَهُ".


ابوہریره رضی اللہ عنہ نے بيان كيا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے کی قبر کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا، کاش! میں اسی کی جگہ ہوتا۔“

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The Hour will not be established till a man passes by a grave of somebody and says, 'Would that I were in his place.'

صحيح بخارى:7115

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "تم پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ اگر تم میں سے کسی کو موت فروخت ہوتی مل جائے تو وہ اسے بھی خریدنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔

السنن الواردۃ فی الفتن للدانی:3-542

یہ حدیث ان احادیث کے معارض نہیں ہے جن میں موت کی تمنا سے منع کیا گیا ہے، جیسا کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" تم میں سے کوئی مصیبت کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے۔

صحیح بخاری:6351

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کی پیش گوئی فرمائی ہے وہ آخری زمانے میں واقع ہوگی۔ وہ موت کی واضح تمنا نہیں ہوگی بلکہ وہ ایک شخص کے نہاں خانہ دل سے اٹھنے والی خواہش ہوگی کہ کاش! وہ ان برائیوں اور فتنوں والے تکلیف دہ اور پریشان کن حالات سے چھٹکارا حاصل کر لے چاہے یہ موت کے ذریعے ہو کیوں نہ ہو۔

 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
51
ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا اور شام کو کافر:



عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا


سيدنا ابوہریره رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے جلد جلد نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے-

صبح آدمی ایمان والا ہوگا اور شام کو کافر یا شام کو ایمان والا ہوگا اور صبح کافر اور دنیوی نفع کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا۔

It is narrated on the authority of Abu Huraira that the Messenger of Allah (ﷺ) observed:

Be prompt in doing good deeds (before you are overtaken) by turbulence which would be like a part of the dark night. During (that stormy period) a man would be a Muslim in the morning and an unbeliever in the evening or he would be a believer in the evening and an unbeliever in the morning, and would sell his faith for worldly

goods.

صحيح مسلم:118

حدیث کے یہ معانی ہیں کہ اس وقت سے پہلے پہلے جبکہ نیک عمل کر نا بے حد مشکل ہو جائے، نیک عمل کر لو۔ پے در پے روز افزوں فتنوں کے دور میں جو اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے اور چاندنی کا اس میں نشان تک نا ہوگا۔ یہ اس زمانے کا حال ہے جس میں انسان کا دین کمزور ہوگا ۔ دین کے بارے میں اسے بہت سے شبہات ہوں گے، دین کے قطعاّ کوئی واقفیت نہ ہوگی جس جی وجہ سے وہ دین کوترک کر دے گا یا کسے دنیوی مفاد اور ذاتی مصلحت کی وجہ سے دین کے بارے میں اس کے پائے ثبات میں لغزش پیدا ہو جائے گی۔ ہمارا موجودہ دور بھی اس حدیث کا مصداق ہے۔



 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
52مساجد كى آرائش و زيبائش اور اس پر فخر:

آخری زمانے میں کچھ لوگ مساجد بنائیں گے اور انہیں نقش و نگار سے مزین کریں گے۔ ہر شخص اپنی بنائی ہوئی مسجد کے نقش و نگار اور آرائش و زیبائش پر فخر کرے گا اور بعض اوقات اسے ذرائع ابلاغ پر نشر بھی کرے گا۔ نمازیوں کے دل عبادت سے ہٹ کر ان سجاوٹوں میں لگ جائیں گے۔


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ


انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگ مسجدوں پر فخر و مباہات نہ کرنے لگیں.




Narrated Anas ibn Malik: The Prophet said: The Last Hour will not come until people vie with one another about mosques

.

سنن ابى داود:449


بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے امت کو اس امر سے خبردار کیا ہے کہ وہ کہیں ذکر و عبادت اور اطاعت الٰہی سے توجہ ہٹا کر مساجد کی عمدہ سے عمدہ تعمیر اور ان کی تزئین و آرائش میں مشغول نہ ہو جائیں۔



حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي فَزَارَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى


عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم مسجدیں اسی طرح سجاؤ گے جس طرح یہود و نصاریٰ سجاتے تھے۔




Ibn Abbas said: You will certainly adorn them(Masjids) as the Jews and Christians did.

سنن ابى داود:448


وضاحت: یعنی ایک دوسرے پر فخر کرے گا کہ میری مسجد بلند، عمده اور مزین ہے، ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ضرورت سے زیادہ مسجدوں کی آرائش و زیبائش اور زیادہ روشنی شرعاً ممنوع اور ناپسندیدہ ہے، مسجد کی اصل زینت اور آرائش یہ ہے کہ وہاں پنچ وقتہ اذان و اقامت اور سنت کے مطابق نماز اپنے وقت پر ہو۔





امام بغوی فرماتے ہیں: تشبید کے معانی ہیں: عمارت کو بلند اور لمبا کرنا۔ یہود و نصاریٰ نے اس وقت اپنی عبادت گاہوں کو نقش و نگار سے مزئین کرنا شروع کیا تھا جب انہوں نے اپنی کتابوں میں تحریف و تبدیلی کر دی تھی۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری 1-699

امام خطابی فرماتے ہیں: یہود و نصاریٰ نے اپنے کنیسے اور گرجے اس وقت نقش و نگار سے سجائے جب انہوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف اور تبدیلی کی، چنانچہ انہوں نے دین کو ضائع کرکے تزئین و آرائش کو اپنا مطمح نظر بنا لیا۔
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری: 4-303



حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْبَجَلِيِّ، عَنْ صَخْرِ بْنِ صَدَقَةَ، أَوْ مَنْ حَدَّثَهُ عَنْهُ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ قَالَ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: «إِذَا زَخْرَفْتُمْ مَسَاجِدَكُمْ وَحَلَّيْتُمْ مَصَاحِفَكُمْ فَعَلَيْكُمُ الدِّثَارُ»


سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جب تم مساجد کی تزئین و آرائش میں مبالغہ کرنے لگو گے اور قرآن مجید کے نسخوں پر نقش و نگار بنانے لگ جاؤ گے تو تمہاری بربادی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔


المصاحف لابن ابي داود:1/340


صحیح الجامع الصغیر للالبانى:585
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
53 گھروں کی تزئین و آرائش:


ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تُسْرِ‌فُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِ‌فِينَ ﴿١٤١﴾
اسراف نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

الانعام:141

آخری زمانے میں لوگ اپنے گھروں کی دیواروں پر بہت قیمتی اور زیب و زینت والے پردے لٹکانے میں فخر و مباہات کا اظہار کریں گے۔



حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يُونُسَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَقُومُالسَّاعَةُ حَتَّى يَبْنِيَ النَّاسُ بُيُوتًا، يُشَبِّهُونَهَا بِالْمَرَاحِلِ» . قَالَ إِبْرَاهِيمُ: يَعْنِي الثِّيَابَ الْمُخَطَّطَةَ

[قال الشيخ الألباني] : صحيح


سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک لوگ منقش و مزین چادروں جیسے گھر نہ تعمیر کرنے لگیں۔
الادب المفرد للبخاری:429

حدیث کے معانی یہ ہیں کہ گھروں کو کپڑوں کی طرح دھاری دار اور منقش بنائیں گے۔ اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ گھروں میں پردے لٹکانا یا انہیں سجانا حرام ہے بلکہ حرام صرف یہ ہے کہ اس کام میں اسراف و تبذیر اور فخر و مباہات سے کام لیا جائے۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
54 کثرت سے آسمانی بجلی کا گرنا


علامات قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ لوگ آسمانی بجلی گرنے سے کثیر تعداد میں موت کا شکار ہوں گے۔
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


تكثُرُ الصَّواعقُ عندَ اقترابِ السَّاعةِ حتَّى يأتي الرَّجلُ فيقولُ مَن صُعِق قبلَكم الغداةَ فيقولونَ صُعِق فلانٌ وفلانٌ

قیامت کے قریب آسمانی بجلیاں کثرت سے گریں گی حتیٰ کہ ایک شخص کسی قوم کے پاس آ کر سوال کرے گا :آج تم میں سے کون کون بجلی کا شکار ہو کر فوت ہوا؟ وہ کہیں گے : فلاں اور فلاں شخص آج اس کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا ہے۔

مجمع الزوائد :8/12
وفيه محمد بن مصعب وهو ضعيف

فَإِنْ أَعْرَ‌ضُوا فَقُلْ أَنذَرْ‌تُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ﴿١٣﴾
اب یہ روگردان ہوں تو کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں اس کڑک (عذاب آسمانی) سے اتارتا ہوں جو مثل عادیوں اور ثمودیوں کی کڑک کے ہوگی۔

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿١٧﴾
رہے قوم ثمود، سو ہم نے ان کی بھی راہبری کی پھر بھی انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی جس بنا پر انہیں (سراپا) ذلت کے عذاب، کی کڑک نے ان کے کرتوتوں کے باعث پکڑ لیا
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
55 کتابت کی کثرت و اشاعت:


پہلے زمانے میں کتابت اور کتب کی نشر و اشاعت نہیں تھی۔ بلکہ لوگوں کی اکثریت لکھنے پڑھنے سے محروم تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں خبر دے دی تھی کہ قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ قلم،کتب اور کتابت کی کثرت ہو جائے گی۔

عن ابن مسعود قال، قال رسول الله ﷺ أَنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ تَسْلِيم الْخَاصَّةِ، وَفُشُوَّ التِّجَارَةِ، حَتَّى تُعِينَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا عَلَى التِّجَارَةِ، وَقَطْعَ الْأَرْحَامِ، وَشَهَادَةَ الزُّورِ، وَكِتْمَانَ شَهَادَةِ الْحَقِّ، وَظُهُورَ الْقَلَمِ

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :قیامت کے قریب صرف مخصوص لوگوں کو سلام کیا جائے گا ، تجارت اس قدر پھیل جائے گی کہ عورت تجارت میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹائے گی ، رشتہ دار ی توڑی جائے گی ، جھوٹی گواہی دی جائے گی ، حق چھپایا جائے گا ، اور قلم کاظہورہوگا۔
مسند احمد:3870

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ "قلم کا ظہور ہوگا" سے شاید یہ مراد ہے کہ کتابت اور کتب کی کثرت ہوگی اور وسیع پیمانے پر ان کی نشرواشاعت ہوگی حتیٰ کہ طباعت،تصویر سازی اور نشرو اشاعت کے جدید وسائل کی کثرت کے باعث لوگوں کی اکثریت آسانی سے ان تک رسائی حاصل کر لے گی، مگر اس سب کے باوجود لوگوں میں امور شریعت ودین کے بارے میں جہالت زیادہ ہوتی جائے گی۔ اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔


أَخْبَرَنَا أَنَسٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمُوهُ أَحَدٌ بَعْدِي،‏‏‏‏ سَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ وَإِمَّا قَالَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ،‏‏‏‏ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ،‏‏‏‏ وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ،‏‏‏‏ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ،‏‏‏‏ وَيَظْهَرَ الزِّنَا،‏‏‏‏ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ،‏‏‏‏ وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ،‏‏‏‏ حَتَّى يَكُونَ لِلْخَمْسِينَ امْرَأَةً،‏‏‏‏ الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ
انس رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ مرد کم ہو جائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہو گی۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا۔
صحیح بخاری:6808
صحیح مسلم:2671
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
56 زبان سے مال کمانا اور گفتگو پر فخر کرنا:


اگر جائز طریقوں سے آدمی دنیا کا مال کمائے یا شرعی طریقوں سے دنیا حاصل کرے تو کوئی عیب والی بات نہیں۔ مال کمانے کا شرعی طریقہ یہ بھی ہے کہ آدمی بیان و کلام اور دلیل کے ذریعے سے روزی کمائے جس طرح سے وکلاء (جو حق گوئی سے کام لیتے ہیں) اور اساتذہ وغیرہ، کیونکہ ان حضرات کی روزی کا زیادہ انحصار گفتگو پر ہی ہوتا ہے۔ ا
س سلسلے میں جو چیز مذموم ہے وہ یہ ہے کہ انسان چرب زبانی کے ذریعے دنیا کمائے، یا کسی غیر مستحق شخص کی ناجائز تعریف اور خوشامد کرے۔ یا پھر خریدوفروخت میں جھوٹی قسم اٹھا کر، یا غلط بیانی کرکے مال اکٹھا کرے۔ زبان کے ناجائز استعمال کے جتنے بھی طریقے ہیں سب ممنوع وناجائز ہیں۔


حَدَّثَنَا يَعْلَى، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنِي رَجُلٌ - كُنْتُ أُسَمِّيهِ فَنَسِيتُ اسْمَهُ - عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: كَانَتْ لِي حَاجَةٌ إِلَى أَبِي سَعْدٍ، قَالَ : وحَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ مُجَمِّعٍ، قَالَ: كَانَ لِعُمَرَ بْنِ سَعْدٍ إِلَى أَبِيهِ حَاجَةٌ، فَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ حَاجَتِهِ كَلامًا مِمَّا يُحَدِّثُ النَّاسُ يُوصِلُونَ لَمْ يَكُنْ يَسْمَعُهُ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: يَا بُنَيَّ قَدْ فَرَغْتَ مِنْ كَلامِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: مَا كُنْتَ مِنْ حَاجَتِكَ أَبْعَدَ، وَلا كُنْتُ فِيكَ أَزْهَدَ مِنِّي مُنْذُ سَمِعْتُ كَلامَكَ هَذَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " سَيَكُونُ قَوْمٌ يَأْكُلُونَبِأَلْسِنَتِهِمْ كَمَا تَأْكُلُ الْبَقَرَ مِنَ الأَرْضِ

عمر بن سعد کو اپنے والد سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کوئی کام تھا۔ وہ والد کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن اپنا مقصد بیان کرنے سے پہلے انہوں نے فصاحت و بلاغت سےلبریز کچھ ایسے خوشنما گفتگو کی جس طرح لوگ مطلب براری کے لیے کیا کرتے ہیں۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اس سے قبل ایسی شاندار گفتگو نہ سنی تھی۔ بیٹا جب اپنی بات مکمل کر چکا تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ گویا ہوئے: جی بیٹا! تم نے اپنی بات مکمل کر لی؟ اس نے کہا: جی ہاں کر چکا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب سے میں نے تمہاری یہ گفتگو سنی ہے تم اپنے مقصد سے زیادہ دور ہو گئے ہو اور میں تم سے اس قدر متنفر پہلے کبھی نہ تھا جتنا آج ہو ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ایک ایسی قوم ظاہر نہ ہوجائے جو اپنی زبانوں سے اس طرح کھائے گی جس طرح گائے زمین سے کھاتی ہے۔


مسند احمد:1517

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُوسَى الْخَازِنُ رَحِمَهُ اللَّهُ بِبُخَارَى، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ الْهِسِنْجَانِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْكِنْدِيُّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي الْفَوَارِسِ وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ، فَرَأَيْتُ النَّاسَ مُجْتَمِعِينَ عَلَى رَجُلٍ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مِنَ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ وَتُوضَعَ الْأَخْيَارُ، وَيُفْتَحَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ، وَيُقْرَأَ بِالْقَوْمِ الْمُثَنَّاةُ لَيْسَ فِيهِمْ أَحَدٌ يُنْكِرُهَا» قِيلَ: وَمَا الْمُثَنَّاةُ؟ قَالَ: «مَا اكْتُتِبَتْ سِوَى كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرب قیامت برے لوگ بلند کر دیے جائیں گے، اچھے لوگ پست کر دیے جائیں گے۔ گفتگو کی کثرت ہو جائے گی جبکہ عمل روک دیا جائے گا، یعنی عمل نہیں ہوگا اور لوگوں کو مثنّاۃ پڑھائی جائے گی اور کوئی اسے برا نہیں سمجھے گا۔ پوچھا گیا یہ "مثناۃ" کیا چیز ہے؟ فرمایا: جو کچھ اللہ کی کتاب کے سوا لکھا جائے۔

مستدرک حاکم:8660
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
57 قرآن کے سوا دیگر کتب کی کثرت سے اشاعت:



یہ بھی علاماتِ قیامت میں سے ہے کہ لوگوں میں اللہ کی کتاب سے زیادہ ایسی غیر دینی کتب کی خریداری کا رجحان ہو جائے گا جنہیں مکتبات تیار کرتے، شائع کرتے اور فروخت کرتے ہیں۔

حدیثِ سابق سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس میں یہ الفاظ قابل توجہ ہیں: "لوگوں کو مثناۃ پڑھائی جائے گی، پوچھا گیا مثناۃ کیا چیز ہے؟ فرمایا: جو کچھ بھی کتاب اللہ کے سوا لکھا جائے"۔
 
Top