• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامات قيامت شيخ عريفى كى كتاب نهاية العالم سے ماخوذ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
58 قاریوں کی کثرت اور فقہا و علماء کی قلت:




رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ قراء کی تعداد زیادہ ہو جائے گی اور علمائے شریعت کم ہو جائیں گے۔





حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنِ ابْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «سَيَأْتِي عَلَى أُمَّتِي زَمَانٌ تَكْثُرُ فِيهِ الْقُرَّاءُ، وَتَقِلُّ الْفُقَهَاءُ وَيُقْبَضُ الْعِلْمُ، وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ» قَالُوا: وَمَا الْهَرْجُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «الْقَتْلُ بَيْنَكُمْ، ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَلِكَ زَمَانٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ رِجَالٌ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ زَمَانٌ يُجَادِلُ الْمُنَافِقُ الْكَافِرُ الْمُشْرِكُ بِاللَّهِ الْمُؤْمِنَ بِمِثْلِ مَا يَقُولُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ "
صحيح

مستدرک حاکم :8412

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک زمانہ آئے گا جس میں قراء کی کثرت اور فقہا کی قلت ہوگی، علم اٹھا لیا جائے گا اور ھرج زیادہ ہو جائے گا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ھرج کیا چیز ہے؟ فرمایا:تمہاری باہمی خونریزی۔ پھر اس کے بعد وہ دور آئے گا جب بعض لوگ قرآن کریم کی تلاوت تو کریں گے مگر قرآن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ پھر ایک زمانہ آئے گا جب ایک منافق، کافر اور مشرک بھی مومن سے بحث و جدال کرے گا اور مومن کی باتوں کا ترکی بہ ترکی جواب دے گا۔
معاملہ اس وقت زیادہ خراب ہو جائے گا جب ّلماء کے دنیا سے اٹھ جانے کے باعث علم رخصت ہو جائے گا۔ جب کوئی عالمِ ربانی نہ بچے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں گے۔ ان سے جب دینی مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ علم کے بغیر فتویٰ دے دیا کریں گے۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ،‏‏‏‏ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ،‏‏‏‏ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ،‏‏‏‏ حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا،‏‏‏‏ فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا"،‏‏‏‏


عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

صحیح بخاری:100، صحیح مسلم:2674
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
59 اصاغر سے علم حاصل کرنا:


عہد نبوت سے ہی لوگ بڑے علماء اور فقہاء سے علم حاصل کرتے چلے آئے ہیں۔ مگر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب کم فہم ، کم علم اور چھوٹے لوگ اس منصب پر قابض ہو جائیں گے۔ لوگ انہی سے فتویٰ طلب کریں گے اور وہ فتوے جاری کریں گے۔علماء کی قلت ہو جائے گی یہاں تک کہ چھوٹے اور جاہل لوگوں سے علم حاصل کیا جائے گا۔ وہ فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے جیسا کہ سابقہ نشانی میں ذکر ہوا۔

أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ، وَأَبُو بَكْرٍ الْوَرَّاقُ قَالَا: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ سَوَادَةَ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ اللَّخْمِيِّ، أَوْ قَالَ: الْجُمَحِيِّ،
وَالصَّوَابُ هُوَ الْجُمَحِيُّ، هَذَا قَوْلُ ابْنِ صَاعِدٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ ثَلَاثًا: إِحْدَاهُنَّ أَنْ يُلْتَمَسَ الْعِلْمُ عِنْدَ الْأَصَاغِرِ
"

سیدنا ابو امیہ جمحی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کی نشانیوں میں سے تین ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ: علم اصاغر(بونوں) کے ہاں ڈھونڈا جائے گا۔"


المعجم الکبیر للطبرانی، الحدیث رقم: ۱۷۵۳۶، الزہد والرقائق لابن المبارک رقم: ۶۱۔ قال الألبانی صحیح انظر السلسلۃ الصحیحۃ ج ۲ رقم الحدیث ۶۹۵


أَخْبَرَكُمْ أَبُو عُمَرَ بْنُ حَيَوَيْهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «لَايَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَتَاهُمُ الْعِلْمُ مِنْ قِبَلِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَكَابِرِهِمْ، فَإِذَا أَتَاهُمُ الْعِلْمُ مِنْ قِبَلِ أَصَاغِرِهِمْ، فَذَلِكَ حِينَ هَلَكُوا


عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا:

’’لوگ خیر خیریت سے رہیں گے جب تک اُن کو علم اصحابِ رسول اللہؐ سے پہنچتا رہے گا، اور ان کے بڑوں سے پہنچتا رہے گا۔ ہاں پھر جب ان کو علم اُن کے اصاغر(چھوٹوں) کے پاس سے آنے لگے گا تو یہ وہ وقت ہو گا جب وہ ہلاک ہوں گے‘‘




المعجم الکبیر للطبرانی الأثر رقم: ۸۵۱۱، کتاب الزہد والرقائق لابن المبارک، الأثر رقم: ۸۰۲




کان عمرُ یقول: إنَّ أصدق القیلِ قیلُ اللہ۔ ألا وإن أحسن الہدیِ ہدیُ محمدٍ صلی اللہ علیہ وسلم قال۔ وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ ضلالۃ۔ ألا وإن الناس بخیرٍ ما أخذوا العلم عن أکابرہم، ولم یقم الصغیر علی الکبیر، فإذا قام الصغیر علی الکبیر فقد‘‘ (شرح أصول الاعتقاد للالکائی ۱: ۸۴، الأثر رقم ۸۸۔ وذکر جزئاً منہ فی جامع بیان العلم ۱: ۶۱۵ الأثر رقم: ۱۰۵۴)


عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے:

سب سے اچھا کلام اللہ کا قول ہے۔سب سے اچھا نمونہ محمد ا کا نمونہ ہے۔ سب سے بری چیز وہ ہے جو دین کے اندر نئی نکال لی گئی ہو، اور ہر نئی نکال لی گئی بات گمراہی ہے۔ خبردار! لوگ خیر سے رہیں گے جب تک کہ وہ علم اپنے بڑوں سے ہی لیں، اور جب تک یوں نہ ہونے لگے کہ چھوٹا، بڑے کے اوپر بڑا بنے۔ ہاں جب چھوٹا، بڑے پر بڑا بننے لگا، تو تب وہ وقت ہو گا کہ..

وقال آخرون: معنیٰ حدیث ابن عمر وابن مسعود فی ذلک أن العلم إذا لم یکن عن الصحابۃ کما جاء فی حدیث ابن مسعود، ولا کان لہ أصل فی القرآن والسنۃ والإجماع، فہو علم یہلک بہ صاحبہ، ولا یکون حاملہ إماما ولا أمینا ولا مرضیا کما قال ابن مسعود، وإلیٰ ہذا نزع أبو عبید رحمہ اللہ۔ (جامع بیان العلم۔ ج ۱ ص۶۱۸۔ الأثر رقم: ۱۰۵۶)

اس معنیٰ کے کئی دیگر آثار نقل کرنے کے بعد آخر میں جا کر ابن عبد البرؒ ایک تقریر دیتے ہیں، گو اس میں بھی وہ کچھ آثار کی جانب ہی اشارہ کرتے ہیں:
دیگر بزرگانِ سلف نے بیان کیا ہے کہ: حدیث ابن عمرؓ و ابن مسعودؓ کا مفہوم اس سلسلہ میں یہ ہے کہ علم اگر صحابہؓ سے چلتا ہوا نہ آیا ہو، جیسا کہ حدیث ابن مسعودؓ میں ہے، اور نہ اس کا کوئی اصل قرآن میں ہو اور نہ سنت میں اور نہ اجماع میں تو وہ ایک ایسا علم ہو گا جو آدمی کو برباد کروا دے۔ ایسے علم کا حامل نہ امام ہو گا، نہ امانت کا محل، اور نہ قابل اطمینان، جیسا کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا۔ اور اسی معنیٰ کی جانب امام ابو عبید (قاسم بن سلام) کا میلان ہے۔



ابن عبد البر اِس حدیث کے تحت قاسم بن سلام اور عبد اللہ بن المبارکؒ کے اقوال لاتے ہیں:


وذکر أبو عبید فی تأویل ہذا الخبر عن ابن المبارک أنہ کان یذہب بالأصاغر إلیٰ أہل البدع ولا یذہب إلی السن۔ قال أبو عبید: وہذا وجہ۔ قال أبو عبید: والذی آریٰ أنا فی الأصاغر أن یؤخذ العلم عمن کان بعد أصحاب رسول اللہ ﷺ، فذاک أخذ العلم عن الأصاغر۔

(جامع بیان العلم۔ ج ۱ ص ۶۱۲۔ الأثر رقم: ۱۰۵۲)



ابو عبید نے اس حدیث کی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ ابن المبارک اس طرف گئے ہیں کہ اس میں ’’اصاغر‘‘ سے مراد ہیں اہل بدعات، اور یہ کہ اس کا تعلق کسی کی عمر سے سے نہیں۔ ابو عبید کہتے ہیں: یہ اس کا ایک مطلب ہے۔ ابو عبید نے کہا: اور جو میری رائے ہے وہ یہ کہ اصاغر سے مراد ہے دین کا علم وفہم اُن لوگوں سے لیا جائے گا جو اصحابِ رسول اللہؐ کے بعد ہیں۔ تو یہ ہوا اصاغر (بونوں) سے علم لینا۔




 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
60 ناگہانی اموات کی کثرت:


ہمارے اس عہد میں قیامت کی جو نشانیاں ظاہر ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ناگہانی اموات کی کثرت ہو گئی ہے، یعنی ایسی موت جو اچانک دل کا دورہ پڑنے ، خون جم جانے، گاڑی کے حادثے یا ہوئی جہاز کے گرنے سے واقع ہوتی ہے۔

حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَبِيرِ بْنُ الْمُعَافَى بْنِ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذَرِيحٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مِنِ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ ۔۔۔۔۔وَأَنْ يَظْهَرَ مَوْتُ الْفُجَاءَةِ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علاماتِ قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ اچانک موت کثرت سے واقع ہوگی۔

معجم الصغیر للطبرانی:1132
صحيح الجامع :5899

گزشتہ زمانے میں آدمی موت کی بعض علامات کو محسوس کرتا تھا اور کچھ عرصہ بیمار رہ کر جان لیتا تھا کہ یہ مرض الموت ہے، اس طرح وہ وصیت لکھ لیتا تھا، اپنے اہل و عیال کو الوداع کرلیتا ، اولاد کو کچھ نصیحتیں کرلینا، اپنے رب کی طرف رجوع کرکے اس سے سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرلیتا اور کلمہ توحید کا ورد شروع کر دیتا تھا تاکہ اس کی موت اسی کلمے پر واقع ہو۔
مگر عصر حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص بالکل ٹھیک ٹھاک صحت مند ہوتا ہے، اسے بالکل کوئی بیماری یا تکلیف نہیں ہوتی لیکن اچانک دل کے اٹیک سے، یا رگوں میں خون جم جانے سے یا اسی نوعیت کے دیگر حوادث و عوارض کے باعث ہم اس کی وفات کی خبر سنتے ہیں۔ ایک عقل مند انسان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہر وقت بیدار و ہوشیار رہے۔ موت اور اللہ کی ملاقات کا سامنا کرنے کے لیے ہمہ وقت اللہ کا اطاعت گزار رہے۔




اغْتَنِمْ في الْفَرَاغِ فَضْلَ رُكُوعٍ فَعَسَى أَنْ يكُون مَوْتُكَ بَغْتَةْ

كَم صَحيحٍ رَأَيْتَ مِنْ غَيْرِ سُقْمٍ ذَهَبَتْ نَفْسُهُ الْعَزِيزَةُ فَلْتَةْ






صحت و فراغت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کی فرصت کو غنیمت جانو، عین ممکن ہے کہ تمہاری موت اچانک واقع ہو جائے۔

میں نے کتنے ہی صحت مندوں کو دیکھا ہے کہ وہ بغیر کسی بیماری کے اچانک اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔


یہ اشعار امام بخاری رحمہ اللہ کے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ہدی الساری مقدمہ فتح الباری لابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ، ص:674

 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86

61 بے وقوفوں کی حکمرانی
:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ علامات قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ حکومت اور قیادت کم فہموں اور بے وقوفوں کے ہاتھ آ جائے گی، جو نہ تو کتاب و سنت سے روشنی پائیں گے اور نہ کسی نصیحت کو خاطر میں لائیں گے۔


حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ: " أَعَاذَكَ اللهُ مِنْ إِمَارَةِ السُّفَهَاءِ "، قَالَ: وَمَا إِمَارَةُ السُّفَهَاءِ؟، قَالَ: " أُمَرَاءُ يَكُونُونَ بَعْدِي، لَا يَقْتَدُونَ بِهَدْيِي، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَأُولَئِكَ لَيْسُوا مِنِّي، وَلَسْتُ مِنْهُمْ، وَلَا يَرِدُوا عَلَيَّ حَوْضِي، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَأُولَئِكَ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ، وَسَيَرِدُوا عَلَيَّ حَوْضِي. يَا كَعْبُ بْنَعُجْرَةَ، الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ، وَالصَّلَاةُ قُرْبَانٌ - أَوْ قَالَ: بُرْهَانٌ - يَا كَعْبُ بْنَعُجْرَةَ، إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ النَّارُ، أَوْلَى بِهِ. يَا كَعْبُ بْنَ عُجْرَةَ، النَّاسُ غَادِيَانِ: فَمُبْتَاعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا، وَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُوبِقُهَا "

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے کعب! اللہ تمہیں بے وقوفوں کی حکمرانی سے بچائے۔ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے وقوفوں کی حکمرانی کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد کچھ ایسے حکمران ہوں گے جو نہ میری ہدایت سے روشنی حاصل کریں گے نہ میری سنت پر عمل کریں گے۔ جو لوگ ان کے جھوٹ کی تصدیق کریں گے اور ان کے ظلم و ستم پر ان کا ساتھ دیں گے نہ وہ مجھ سے ہیں نہ میں ان سے ہوں اور نہ وہ میرے حوض پر آ سکیں گے۔ لیکن جو ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کریں اور ظلم پر ان کی اعانت نہ کریں، وہ میرے اور میں ان کا ہوں۔ اور یہ لوگ میرے حوض (کوثر) پر بھی آئیں گے۔ اے کعب روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے، نماز قربانی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز دلیل ہے۔ اے کعب! وہ گوشت جو حرام غذا سے وجود میں آیا جنت میں داخل نہ ہو سکے گا۔ اس کے لیے جہنم کی آگ ہی زیادہ مناسب ہے۔ اے کعب!لوگ گھر سے نکلتے ہیں اور اپنی جان کا سودا کرتے ہیں۔ کوئی اپنی جان کو (عذابِ الٰہی سے) آزاد کرالیتا ہے اور کوئی اسی ہلاکت و بربادی میں ڈال لیتا ہے۔

مسند احمد:14441



"سفیہ" کے معنی ہیں، ایسا شخص جو کم عقل ہو اور کم تدبیر ہو، جو دوسروں کے مسئل تو کجا اپنے بھی مسائل نہ سلجھا سکتا ہو۔ "سفاہت" کے معنی ہیں:کم عقلی۔

ایک دوسری حدیث میں ہے: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ہر قبیلے کہ قیادت منافقین کے ہاتھ میں نہ آجائے۔

المعجم الکبیر للطبرانی: 7-10

أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَصِيرَ الْعِلْمُ جَهْلًا وَالْجَهْلُ عِلْمًا

امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک علم کو جہالت اور جہالت کو علم نہ سمجھا جانے لگے گا۔


المصنف لابن ابی شیبہ:37588


زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ قَالَ أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْكِنْدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ: عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: «مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَظْهَرَ الْقَوْلُ، وَيَخْزُنَ، وَيَرْتَفِعَ الْأَشْرَارُ، وَيُوضَعَ الْأَخْيَارُ،


سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اچھے لوگ پست کر دیے جائیں گے اور برے لوگ بلند کردیے جائیں گے۔

المصنف لابن ابی شیبہ:37549
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
62 زمانے کا قریب ہوجانا:


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قربِ قیامت کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ زمانہ قریب ہو جائے گا۔

حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ،‏‏‏‏ عَنِ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ،‏‏‏‏ وَيَنْقُصُ الْعَمَلُ،‏‏‏‏ وَيُلْقَى الشُّحُّ،‏‏‏‏ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ،‏‏‏‏ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَيُّمَ هُوَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ الْقَتْلُ الْقَتْلُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےبیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”زمانہ قریب ہوتا جائے گا اور عمل کم ہوتا جائے گا اور لالچ دلوں میں ڈال دیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہونے لگیں گے اور «هرج» کی کثرت ہو جائے گی۔“ لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! یہ «هرج» کیا چیز ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قتل! قتل!

صحیح بخاری
كتاب الفتن
حدیث نمبر: 7061

صحيح مسلم:2891


زمانے کے قریب ہونے کے بارے میں علماء کے اقوال:

1۔ اس سے مراد زمانے میں برکت کا کم ہونا ہے اور وہ اس طرح کہ پہلے دور کے لوگ جو کام ایک گھنٹے میں کر لیتے تھے بعد کے دور والے وہ کام کئی گھنٹوں میں بھی نہیں کر سکیں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ صورتِ حال ہمارے زمانے میں واقع ہو چکی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دن رات ایسی تیزی سے گزر رہے ہیں کہ پہلے زمانے میں اس طرح نہ تھا۔

2۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی کہ اہل زمانہ ذرائع ابلاغ اور زمینی فضائی سواریوں کی کثرت کے باعث ایک دوسرے سے قریب ہو جائیں گے۔

3۔ اس کے ایک معنی یہ بھی ہے کہ زمانہ حقیقی طور پر بہت تیزی سے گزرے گا اور ایسا آخری زمانے میں ہو گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ دنوں کو جس طرح چاہتا ہے چھوٹا بڑا اور رات دن کو جس طرح چاہتا ہے الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں دجال کے زمانے کے ایام کی طوالت کی خبر دی گئی ہے کہ ان میں سے ایک دن ایک سال کے برابر، دوسرا مہینے کے برابر اور تیسرا ہفتہ کے برابر ہو جائے گا۔۔ دن جس طرح لمبے ہوں گے اسی طرح چھوٹے بھی ہوں گے۔ مگر یہ علامت تاحال ظاہر نہیں ہوئی۔


حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُونُ السَّنَةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَتَكُونُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ، وَيَكُونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ، وَتَكُونُ السَّاعَةُ كَالضَّرَمَةِ بِالنَّارِ".

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہوجائے گا ۱؎ سال ایک مہینہ کے برابر ہوجائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی)کے برابر ہوجائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیداہونے والی چنگاری کے برابر ہوجائے گی

سنن الترمذی:2332

4 تقارب زمان کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد انسان کی عمر کا کم ہو جانا ہے ۔ یعنی قرب قیامت سابقہ ادوار کے برخلاف عمریں مختصر ہوں گی۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
63 کم عقل لوگ دوسروں کی ترجمانی کریں گے:


ترجمانی کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ یہ ذمہ داری عقل مند، دانا اور فصیح شخص کے پاس ہو۔ لیکن قرب قیامت ایسا زمانہ آجائے گا جس میں لوگ خراب ہو جائیں گے اور ان کا ترجمان ایسا شخص ہوگا جو بے عقل اور گھٹیا آدمی ہوگا۔

حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بَكْرِ بْنِ أَبِي الْفُرَاتِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهَا سَتَأْتِي عَلَى النَّاسِ سِنُونَ خَدَّاعَةٌ، يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ، وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ، وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ، وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ " قِيلَ: وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ؟ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: " السَّفِيهُ يَتَكَلَّمُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ "

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر کچھ دھوکہ دہی والے سال آئیں گے۔ ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا، سچے کو جھوٹ سمجھا جائے گا، خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا اور امانت دار پر خائن ہونے کا شبہ کیا جائے گا اور لوگوں کے معاملات میں "رویبضۃ" بات کرے گا۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ! رویبضۃ کیا ہے؟ فرمایا بیوقوف انسان جو عام لوگوں کے معاملات میں بات کرے۔

مسنداحمد:7912
السلسلۃ الصحیحۃ:1887


یہ علامت ہمارے دور میں ظاہر ہوچکی ہے کہ معاشرے کے گھٹیا لوگ بہترین لوگوں سے زیادہ معزز بنے ہوئے ہیں، چنانچہ لوگوں کے معاملات کی باگ ڈور گھٹیا اور کم عقل کوگوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ واجب ہے کہ اہل علم و عقل اور تجربہ کار لوگوں کو آگے لایا جائے ، لوگوں کے معاملات اور سیاسیات کے بارے میں انہی کو مقدم کیا جائے، جو شخص آج لوگوں کے حالات پر غور کرے وہ دیکھ سکتا ہے کہ لوگ اپنی خواہشوں اور مصلحتوں ہی کی طرف مائل ہوتے ہیں، خواہ اس میں ان کا دین اور ایمان ہی کیوں نہ ضائع ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فسّاق و فجار کو اپنا قائد و رہنما بنا رکھا ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
64 احمق اور جاہل سب سے زیادہ خوش حال ہوں گے:


علاماتِ قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔ خائن کو امانت دار خیال کیا جائے گا اور امانت دار پر خائن ہونے کا شبہ کیا جائے گا۔ لوگوں کی قیادت بیوقوف انسان کریں گے اور ذمہ داریاں نااہلوں کے سپرد کردی جائیں گی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، قَالَ: ح و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللهِ -وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَنْصَارِيُّ الأَشْهَلِيُّ-، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكُونَ أَسْعَدَ النَّاسِ بِالدُّنْيَا لُكَعُ ابْنُ لُكَعٍ".

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیوقوفوں کی اولاد دنیامیں سب سے زیادہ خوش نصیب نہ ہوجائیں''

سنن الترمذی:2209

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:

حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بَعْضِ، أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُوشِكُ أَنْ يَغْلِبَ عَلَى الدُّنْيَالُكَعُ بْنُ لُكَعٍ،
قریب ہے کہ دنیا پر جاہلوں اور احمقوں کا غلبہ ہوجائے۔
مسند احمد:23651

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا كَامِلٌ أَبُو الْعَلَاءِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَقَالَ: " لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتَّى تَصِيرَ لِلُكَعِ ابْنِلُكَعٍ "

دنیا ختم نہیں ہوگی جب تک یہ سب سے کمینے لوگوں کی ملکیت میں نہ چلی جائے۔
مسند احمد:8320

لکع بن لکع
وہ گھٹیا شخص ہے جس کی بداخلاقی کی وجہ سے کوئی بھی اس کی تعریف نہیں کرتا۔ عربوں نے نزدیک اس کے معنی ہیں 'برا غلام'۔ لکع کے لفظ کو حماقت اور جہالت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اور عربی زبان میں مرد کو لکع اور عورت کو لکاع کہا جاتا ہے۔


قرب قیامت ایسا ہی شخص سب سے زیادہ خوشحال ہوگا۔ اس کے پاس مال و جاہ، گاڑیاں اور وسیع و عریض رہائش گاہیں ہوں گی۔ اس کے پاس دولت کی یہ کثرت اس لیے ہوگی کہ وہ سب سے زیادہ احمق و جاہل ہوگا اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال جمع کرے گا۔ وہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق ان سے معاملہ کرے گا، لہٰذا دنیا حاصل کرلے گا۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
65 مساجد کو راہگزر بنا لینا:


اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک طرف سے دوسری طرف جانے کے لیے مسجد کو راستے کے طور پر استعمال کرے گا۔ اس کا تعلق نماز اور مسجدوں سے نہیں ہوگا، یعنی آخر زمانے میں مساجد کو نماز سے زیادہ راستوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

نا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، وَأَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ يُوسُفُ: ابْنُ الْمُسَيِّبِ الْبَجَلِيُّ، وَقَالَا: قَالَ: ثنا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلَكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَقِيَ عَبْدُ اللَّهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَهُوَ يَقُولُ: «إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَمُرَّ الرَّجُلُ فِي الْمَسْجِدِ لَا يُصَلِّي فِيهِ رَكْعَتَيْنِ،

ابو الجعد بيان كرتے ہیں! عبد الله ابن مسعود رضى الله عنه سے ايك شخص كى ملاقات ہوئى تو اس نے کہا ابن مسعود تم پر سلام ہو_ عبدالله نے کہا الله اور اس كے رسول الله صلی الله عليه وسلم نے سچ فرمایا_ ميں نے الله كے رسول الله صلی الله عليه وسلم كو يہ فرماتے سنا:
قيامت کى علامات میں سے يہ بهى ہے کہ آ دمى مسجد میں داخل ہوگا مگراس میں دو ركعات ادا نہیں كرے گا_ا

صحيح ابن خزيمة:1326
مساجد نماز کی بجائے ملکی اور غیرملکی سیّاحوں کے لیے سیاحتی مراکز بن جائیں گے۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
66-67: حق مہر اور گھوڑوں کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ پھر بہت زیادہ کمی:


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَمْشَاذَ الْعَدْلُ، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِي، ثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَنْبَأَ شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ الْحَكَمِ، رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ الْبُرْجُمِيِّ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ يَوْمًا الْمَسْجِدَ، فَإِذَا الْقَوْمُ رُكُوعٌ، فَمَرَّ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: «إِنَّهُ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُتَّخَذَ الْمَسَاجِدُ طُرُقًا، وَحَتَّى يُسَلِّمَ الرَّجُلُ عَلَى الرَّجُلِ بِالْمَعْرِفَةِ، وَحَتَّى تَتْجَرَ الْمَرْأَةُ وَزَوْجُهَا، وَحَتَّى تَغْلُو الْخَيْلُ وَالنِّسَاءُ، ثُمَّ تَرْخُصَ فَلَا تَغْلُو إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ



خارجہ بن صلت برجمی کہتے ہیں کہ: میں اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک ساتھ ان کے گھر سے نکلے جبکہ لوگ رکوع کی حالت میں تھے۔ ہم ذرا فاصلے سے ہی حالت رکوع میں ہوگئے اور اسی حالت میں چلتے ہوئے صف میں جاملے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ایک شخص نے آکر کہا: اے ابو عبدالرحمٰن! تم پر سلام ہو۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اکبر! اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا۔ ہم نے نماز ادا کرنے کے بعد کہا اے ابو عبدالرحمٰن! کیا اس شخص کے سلام کرنے سے آپ کو پریشانی ہوئی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کہا جاتا تھا کہ علاماتِ قیامت میں سے یہ بھی ہے کہ مساجد کو گزر گاہ بنا لیا جائے گا، آدمی صرف جان پہچان والے کو ہی سلام کہے گا، عورت اور مرد مل کر تجارت کریں گے، عورتوں کا حق مہر اور گھوڑوں کی قیمت پہلے بہت زیادہ، پھر بہت کم ہو جائیں گے اور اس کے بعد کبھی نہیں بڑھیں گے۔

مستدرک حاکم:8379
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
68: بازاروں کا قریب ہوجانا


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے زمانے کے بارے میں خبر دی ہے کہ اس میں مسافتیں کم ہوجائیں گی۔ آج کل ایک مارکیٹ سے دوسری تک پہنچنا بہت آسان اور کم مدت میں ممکن ہوگیا ہے۔ آدمی تھوڑے سے وقت میں مختلف عالمی منڈیوںمیں گھوم سکتا ہے اور مارکیٹ کی تیزی اور مندی کا جائزہ لے سکتا ہے۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ اہل زمین کو تیز ترین وسائل نقل و حمل میسر ہیں۔ وہ گاڑیوں،ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کے باعث ایک دوسرے سے قریب ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ذرائع مواصلات، ٹیلی فون، ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ وغیرہ نے بھی اس قربت میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِمْعَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَظْهَرَ الْفِتَنُ، وَيَكْثُرَ الْكَذِبُ، وَتَتَقَارَبَ الْأَسْوَاقُ

"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک فتنے ظاہر نہ ہوجائیں، جھوٹ زیادہ نہ ہوجائے اور بازار آپس میں قریب نہ ہوجائیں۔"


مسند احمد: 10724،وسلسلۃ الصحیحۃ:2772

بازاروں کے قریب ہونے کی ممکنہ صورتیں:

  • پہلی صورت: یہ ہے کہ مارکیٹوں میں نرخ کم یا زیادہ ہوجانے کا بہت جلد علم ہوجانا۔
  • دوسری صورت: ایک مارکیٹ سے دوسری مارکیٹ تک جلد پہنچ جانا خواہ ان کے درمیان مسافت بہت زیادہ ہو۔
  • تیسری صورت: یہ ہے کہ مختلف مارکیٹوں میں اشیاء کے نرخوں کا یکساں ہونا اور نرخوں کی کمی بیشی میں ایک دوسرے کی اقتدا کرنا۔ واللہ اعلم۔
سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور تقارب کی یوں تشریح کرتے ہیں:

"حدیث میں جس تقارب کا ذکر کیا گیا ہے اس کی مناسب ترین تشریح یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں ہوائی جہازوں، گاڑیوں اور ذرائع مواصلات کے سبب شہروں اور ملکوں کا فاصلہ بہت کم ہوگیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں۔
 
Top