• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الغیب، نکتہ اتفاق؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
السلام علیکم،

میرے بھائی! میں نے بھی کوئی نیا عقیدہ بیان نہیں کیا بلکہ اپنے عقیدے کی وضاحت کے لیے شیخ الاسلام جیسے جید عالم کے الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ آسانی کی خاطر دوبارہ اقتباس دے دیتا ہوں۔ اس کے ایک ایک جز کا ترجمہ کیجیے اور اس میں موجود "شرک" اور "مشرکانہ عقیدے" کا بدلائل رد فرمائیے کیونکہ یہ ناقص العلم اس میں شرک کی بو پانے سے معذور ہے۔
میں اپنا عقیدہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
وهو سبحانه قال { قل لا يعلم من } ولم يقل " ما " فإنه لما اجتمع ما يعقل وما لا يعقل غلب ما يعقل وعبر عنه بـ " من " لتكون أبلغ فإنهم مع كونهم من أهل العلم والمعرفة لا يعلم أحد منهم الغيب إلا الله . وهذا هو الغيب المطلق عن [ جميع المخلوقين ] الذي قال فيه { فلا يظهر على غيبه أحدا } . [ والغيب المقيد ما علمه ] بعض المخلوقات من الملائكة أو الجن أو الإنس وشهدوه فإنما هو غيب عمن غاب عنه ليس هو غيبا عمن شهده . والناس كلهم قد يغيب عن هذا ما يشهده هذا فيكون غيبا مقيدا أي غيبا عمن غاب عنه من المخلوقين لا عمن شهده ليس غيبا مطلقا غاب عن المخلوقين قاطبة . وقوله : { عالم الغيب والشهادة } أي عالم ما غاب عن العباد مطلقا ومعينا وما شهدوه فهو سبحانه يعلم ذلك كله .
جی بھائی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی اس عبارت میں شرک کا نام و نشان تک نہیں ، بلکہ اس سے قبل ، آپ علامہ البانی اوردیگراہل علم رحمہم اللہ کی عبارات پیش کرچکے ، ان میں بھی شرک کا نام ونشان نہیں ہے، لیکن محترم بھائی ان عبارت سے آپ جو مطلب کشید کرتے ہیں ہم اس سے اتفاق کرنے پر معذورہیں، وضاحت کی جاچکی ہے اب کتنی بار اعادہ کیا جائے۔
نیز شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے اقتباس بالا کے اس حصہ پر غور کریں :
وَالْغَيْبُ الْمُقَيَّدُ مَا عَلِمَهُ بَعْضُ الْمَخْلُوقَاتِ مِنْ الْمَلَائِكَةِ أَوْ الْجِنِّ أَوْ الْإِنْسِ وَشَهِدُوهُ فَإِنَّمَا هُوَ غَيْبٌ عَمَّنْ غَابَ عَنْهُ لَيْسَ هُوَ غَيْبًا عَمَّنْ شَهِدَهُ. وَالنَّاسُ كُلُّهُمْ قَدْ يَغِيبُ عَنْ هَذَا مَا يَشْهَدُهُ هَذَا فَيَكُونُ غَيْبًا مُقَيَّدًا [مجموع الفتاوى 16/ 110]

بھائی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ جن غیبی چیزوں بارے میں آگاہی کو غیراللہ کے لئے ثابت کررہے ہیں وہ غیراللہ کون ہیں ؟؟؟ ملون اورخط کشیدہ الفاظ پر دھیان دیں گے تو درج ذیل فہرست آپ کے سامنے آئے گی:
  • ملائکہ۔
  • جن۔
  • انس۔

اب آپ بتائیں کہ آپ علم غیب کی جس قسم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت کررہے ہیں کیا آپ اسی علم غیب کو ملائکہ ، جن اور انس کے لئے بھی ثابت کریں گے۔


عقیدہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب سے متعلق ، اور فاضل عبداللہ حیدر بھائی نے اپنے عقیدہ کی وضاحت کے لئے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایسی عبارت پیش کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی صراحت تو دور کی بات کسی بھی نبی کے نام کی صراحت نہیں ہے، بلکہ سرے سے رسول یا نبی کا لفظ ہی نہیں ہے۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
جی بھائی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی اس عبارت میں شرک کا نام و نشان تک نہیں ، بلکہ اس سے قبل ، آپ علامہ البانی اوردیگراہل علم رحمہم اللہ کی عبارات پیش کرچکے ، ان میں بھی شرک کا نام ونشان نہیں ہے، لیکن محترم بھائی ان عبارت سے آپ جو مطلب کشید کرتے ہیں ہم اس سے اتفاق کرنے پر معذورہیں، وضاحت کی جاچکی ہے اب کتنی بار اعادہ کیا جائے۔
چلیں ٹھیک ہے۔ آپ کو میرے پیش کردہ حوالہ جات میں کچھ نہیں ملا تو مزید بحث فضول ہو گی۔ میرے لیے خاص دعا کرتے رہیے کہ جو بھی حق ہے اللہ اس کو سمجھنے اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابہ
والسلام علیکم
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
محترم بھائی! اسی تھریڈ کی پوسٹ نمبر 24 میں پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے ’عقیدۂ تثلیث‘ کو نہیں بلکہ قرآن کریم کے ’عقیدۂ توحید‘ کو نکتۂ اشتراک بنایا ہے، جو قرآن کریم میں جگہ جگہ بکھرا پڑا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے تین نکات ﴿ أن لا نعبد إلا الله، ولا نشرك به شيئا، ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله ﴾ میں بیان فرمایا ہے، گویا انہی تین نکات کو نکتۂ اشتراک بنایا گیا ہے اور بس!
اب آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت عیسائیوں کا تصورِ الٰہ (تثلیث وغیرہ) اسلامی اعتبار سے بالکل ٹھیک تھا؟!! تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں! بالکل نہیں!
اگرچہ زبانی حد تک وہ کہتے تھے (جس کا طرح مشرکین مکہ بھی کہتے تھے) کہ ہم شرک نہیں کرتے، ہم اللہ کے علاوہ کسی کے عبادت نہیں کرتے اور کسی کو رب تسلیم نہیں کرتے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہت سی خرافاتِ شرک شامل کی ہوئی تھیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدہ کو نکتہ اشتراک بنایا ہی نہیں بلکہ ان تین جملوں کو نکتۂ اشتراک بنایا ہے جو عین حق ہیں، جن میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ نہیں اور جو زبانی حد تک (عملاً نہیں) عیسائیوں کو بھی تسلیم ہیں۔
گویا اسی آیت کریمہ کے مطابق اگر ہم بریلوں کے ساتھ ’علم الغیب‘ کے متعلّق نکتۂ اشتراک طے کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے نکات کو نکتہ اشتراک بنانا چاہئے جو عین حق ہوں، جن میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو اور جو ’زبانی حد تک‘ بریلویوں کو بھی تسلیم ہوں نہ کہ ہم مداہنت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس کے نکتہ اختلاف کو ہی نکتہ اشتراک تسلیم کر لیں؟!!
اور اگر آپ نے پیر صاحب کی عبارت میں سے کچھ الفاظ کو نکتہ اشتراک بنانا ہی ہے تو نبی کریمﷺ کے عطائی، حادث اور محدود علم الغیب (جو ہمارے نزدیک شرک ہے) کی بجائے اس عبارت کو نکتۂ اشتراک بنالیں:

اور اسی کے مطابق علم الغیب کا فیصلہ بھی کر لیں! کیا خیال ہے آپ کا؟!!
واللہ تعالیٰ اعلم!
کچھ مسائل کی وجہ سے اس تھریڈ کی جانب توجہ نہیں دے سکا اوراب دیکھتاہوں توعجیب ماجراہے۔
محترم ا نس نظر صاحب فرماتے ہیں کہ
نکتہ اشتراک تثلیث نہیں توحیدتھا
فیض احمد فیض کاشعر ہے۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے۔
پاکستان کے ہی ایک اورشاعر ہیں طالب الرحمن ان کا شعر ہے
ہمین ان سے کچھ واسطہ ہی نہیں
جوالزام ہم پر لگائے گئے
محترم!میں نے کب کہایالکھاکہ نکتہ اشتراک تثلیت تھا۔میں نے اپنے سابقہ پوسٹ میں یہی لکھاہے کہ نکتہ اشتراک خدائے واحد کی پرستش اورعبادت ہے۔
آپ نے میرے سوال کا جوجواب دیاہے وہ اپنے اندرکافی اجمال رکھتاہے۔اس سے قطع نظر کہ جیساکہ آپ نے کہاکہ قرآن نے جس وقت عیسائیوں کو نکتہ اشتراک کی طرف بلایاتھااس وقت ان کا تصورالہ صحیح نہیں تھا۔
آپ کایہ بھی مانناہے کہ نکتہ اشتراک ایساہوناچاہئے جس میں شرک کاکوئی شائبہ نہ ہو۔
اب مزید کچھ سوال ابھرتے ہیں۔ بقول آنجناب قرآن نے توحید کونکتہ اشتراک بنایا چلئے اسے مان لیتے ہیں۔۔اس کا تعلق اللہ رب العزت سے ہے اوراللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کا صحیح تصوراورعلم کا تعلق بھی توحید سے ہے۔
اب آپ اگریہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عین اس وقت جب کہ ان کا تصور الہ درست نہ تھا اس وقت ان کو توحید کی جانب بلایاتو اب جب کہ بریلویوں کے ایک مقتدر عالم کھل کرکہہ رہے ہیں کہ رسول پاک کا علم غیب ذاتی نہ تھا۔تواس کو نکتہ اشتراک بنایئے اوربقیہ چیزیں جووہ ٹانکتے ہیں اس کو عیسائیوں کے نادرست تصورالہ کی طرح بحث اورتبادلہ خیال کا موضوع بنایئے۔
ویسے اس سلسلے میں یہ میری آخری تحریرہے۔اگرکوئی سمجھ سکے توفبہا اورنہ سمجھ سکے توبھی مرحبا۔والسلام
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اب آپ اگریہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عین اس وقت جب کہ ان کا تصور الہ درست نہ تھا اس وقت ان کو توحید کی جانب بلایاتو اب جب کہ بریلویوں کے ایک مقتدر عالم کھل کرکہہ رہے ہیں کہ رسول پاک کا علم غیب ذاتی نہ تھا۔تواس کو نکتہ اشتراک بنایئے اوربقیہ چیزیں جووہ ٹانکتے ہیں اس کو عیسائیوں کے نادرست تصورالہ کی طرح بحث اورتبادلہ خیال کا موضوع بنایئے۔
محترم بھائی، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ آپ کے مطالعہ کی کمی ہی ہوگی ورنہ میرے ناقص علم میں بریلویوں کا ایک بھی عالم ایسا نہیں جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کو ذاتی قرار دیتا ہو۔ جیسا کہ کفایت اللہ بھائی نے بھی سمجھایا ہے۔ اور اسی علم غیب عطائی ہی پر علمائے دیوبند اور علمائے اہلحدیث آج تک بریلوی احباب سے بحث کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا مزعومہ نکتہ اشتراک یہاں کبھی موجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی ’بریلویوں کے ایک مقتدر عالم‘ نے کوئی نئی چیز پیش کی ہے کہ جس پر آج نئے سرے سے افہام و تفہیم کی ضرورت پیش ہو۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم!میں نے کب کہا یا لکھاکہ نکتہ اشتراک تثلیت تھا۔میں نے اپنے سابقہ پوسٹ میں یہی لکھاہے کہ نکتہ اشتراک خدائے واحد کی پرستش اورعبادت ہے۔
آپ نے میرے سوال کا جوجواب دیاہے وہ اپنے اندرکافی اجمال رکھتاہے۔اس سے قطع نظر کہ جیساکہ آپ نے کہاکہ قرآن نے جس وقت عیسائیوں کو نکتہ اشتراک کی طرف بلایاتھااس وقت ان کا تصورالہ صحیح نہیں تھا۔
آپ کایہ بھی مانناہے کہ نکتہ اشتراک ایساہوناچاہئے جس میں شرک کاکوئی شائبہ نہ ہو۔
اب مزید کچھ سوال ابھرتے ہیں۔ بقول آنجناب قرآن نے توحید کونکتہ اشتراک بنایا چلئے اسے مان لیتے ہیں۔۔اس کا تعلق اللہ رب العزت سے ہے اوراللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات وصفات کا صحیح تصوراورعلم کا تعلق بھی توحید سے ہے۔
جزاکم اللہ خیرا!
اب آپ اگریہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عین اس وقت جب کہ ان کا تصور الہ درست نہ تھا اس وقت ان کو توحید کی جانب بلایاتو اب جب کہ بریلویوں کے ایک مقتدر عالم کھل کرکہہ رہے ہیں کہ رسول پاک کا علم غیب ذاتی نہ تھا۔تواس کو نکتہ اشتراک بنایئے اوربقیہ چیزیں جووہ ٹانکتے ہیں اس کو عیسائیوں کے نادرست تصورالہ کی طرح بحث اورتبادلہ خیال کا موضوع بنایئے۔
ویسے اس سلسلے میں یہ میری آخری تحریرہے۔اگرکوئی سمجھ سکے توفبہا اورنہ سمجھ سکے توبھی مرحبا۔والسلام
میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ
اور اگر آپ نے پیر صاحب کی عبارت میں سے کچھ الفاظ کو نکتہ اشتراک بنانا ہی ہے تو نبی کریمﷺ کے عطائی، حادث اور محدود علم الغیب (جو ہمارے نزدیک شرک ہے) کی بجائے اس عبارت کو نکتۂ اشتراک بنالیں:
اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔
اور اسی کے مطابق علم الغیب کا فیصلہ بھی کر لیں! کیا خیال ہے آپ کا؟!!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آج کسی ضرورت سے اس تھریڈ تک پہنچا تو سوچا کچھ عرض کر دیا جائے ۔
اس ضمن میں بنیادی بات یہ ہے کہ پیر کرم شاہ صاحب کی تحریر تمام بریلوی علما کی نمایندگی نہیں کرتی کیوں کہ فاضل بریلوی عالم ما کان و مایکون مانتے ہیں رسول اکرم ؑ کو ۔ اگر تمام بریلوی اس عبارت کو مان لیں تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے ؛ باقی لفظیات کا جھگڑا رہ جاتا ہے اور کچھ نہیں ۔ عبداللہ حیدر بھائی کا جذبہ قابل تحسین ہے کہ مسلکی اختلافات کی شدت میں کمی کے لیے نقطہ ہاے اشتراک تلاش کیے جائیں اور انھیں اجاگر کیا جائے ؛ ربنا یبارک فیہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
درج ذیل باتوں کو ذہن میں ہر وقت رکھیں؛
1) لفظ ’’الغیب‘‘ مشترک ہے ’’عالم الغیب‘‘ اور ’’انباء الغیب، اخبار الغیب‘‘ میں۔
2) ’’غیب‘‘کہتے ہیں جس کا ادراک حواس خمسہ سے نہ ہو سکے۔
3) ’’نبی‘‘ اسے کہتے ہیں جو ’’غیب‘‘ کی ’’خبر‘‘ دے۔
4) پہلے کے انبیاء ’’محدود مدت‘‘ اور بعض ’’محدود علاقہ‘‘ کے لئے تھے۔
5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’خاتم الانبیاء‘‘ تھے ۔
6) انبیاء کو ان کی پہچان کے لئے بعض اوقات ’’معجزات‘‘ اور بعض اوقات ’’انباء الغیب، اخبار الغیب‘‘ دیئے جاتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ’’خاتم الانبیاء‘‘ تھے اس لئے انہیں باقی انبیاء کی نسبت بہت ہی زیادہ ’’انباء الغیب، اخبار الغیب ‘‘ دیئے گئے۔ انہیں کس قدر ’’انباء الغیب، اخبار الغیب‘‘ سے نوازا گیا اس کا اندازہ لگانے کے نہ تو ہم مکلف ہیں اور نہ ہی اس جھمیلے میں پڑنا چاہئے۔ ہاں البتہ پچھلی قوموں کی طرح غلو کا شکار نہیں ہونا چاہیئے کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے۔ لہٰذاجن میں پچھلی قومیں مبتلا ہوئیں ان کے مبادی سے بھی بچنا چاہیئے۔ وماعلینا الا البلاغ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
درج ذیل باتوں کو ذہن میں ہر وقت رکھیں؛
1) لفظ ’’الغیب‘‘ مشترک ہے ’’عالم الغیب‘‘ اور ’’انباء الغیب، اخبار الغیب‘‘ میں۔
2) ’’غیب‘‘کہتے ہیں جس کا ادراک حواس خمسہ سے نہ ہو سکے۔
3) ’’نبی‘‘ اسے کہتے ہیں جو ’’غیب‘‘ کی ’’خبر‘‘ دے۔
4) پہلے کے انبیاء ’’محدود مدت‘‘ اور بعض ’’محدود علاقہ‘‘ کے لئے تھے۔
5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’خاتم الانبیاء‘‘ تھے ۔
6) انبیاء کو ان کی پہچان کے لئے بعض اوقات ’’معجزات‘‘ اور بعض اوقات ’’انباء الغیب، اخبار الغیب‘‘ دیئے جاتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ’’خاتم الانبیاء‘‘ تھے اس لئے انہیں باقی انبیاء کی نسبت بہت ہی زیادہ ’’انباء الغیب، اخبار الغیب ‘‘ دیئے گئے۔ انہیں کس قدر ’’انباء الغیب، اخبار الغیب‘‘ سے نوازا گیا اس کا اندازہ لگانے کے نہ تو ہم مکلف ہیں اور نہ ہی اس جھمیلے میں پڑنا چاہئے۔ ہاں البتہ پچھلی قوموں کی طرح غلو کا شکار نہیں ہونا چاہیئے کہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے۔ لہٰذاجن میں پچھلی قومیں مبتلا ہوئیں ان کے مبادی سے بھی بچنا چاہیئے۔ وماعلینا الا البلاغ
محترم بھائی!
اگر آپ اپنی ان باتوں کو بحوالہ لکھتے تو اچھا ہوتا.
براہ کرم حوالہ بھی لکھ دیں
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
کا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے کسی طور پر پیچھے اور کم نظر نہیں آتا۔ ک
جھوٹ بولنے سے پہلے تھوڑا شرم کر لیا کریں اس کس عالم نے کہا ہے؟
السلام علیکم، کل پیر کرم شاہ صاحب الازہری کی تفسیر ضیاء القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے مسئلہ علم الغیب کی توضیح میں یہ عبارت ملی ہے:
"اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات کی طرح اس کی یہ صفت بھی قدیم ہے، ذاتی ہے اور غیر متناہی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے، اس کی عین حیات میں بھی، اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے۔ نیز اس کا یہ علم اس کا اپنا ہے۔ کسی نے اس کو سکھایا نہیں ہے نیز اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے، نہ نہایت۔ اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔
اہلسنت بریلوی اور دیابنہ کا عقیدہ یہی ہے سلفیوں کا مجھے پتا نہیں
عطائی تسلیم کیا جائے یا نہ۔ کیونکہ جب موصوف کا اپنا وجود ہی ذاتی نہ ہو تو پھر اس کی کسی
نہ تو آپ کا علم ذاتی ہے نا ہی آپ ذاتی طور پر پڑھتے ہیں نہ ہی آپ ذاتی طور لکھتے ہیں تو کیوں نہ اس قاعدے کے رو سے میں آپ کو جاہل تسلیم کر لوں؟
اگر علم سکھا دینے سے علم، علم نہیں ریتا تو آپ کو سچ میں کچھ علم نہیں سراپا جہالت ہی جہالت ہے.
ثابت کیا ہے کہ کسی کے عطاء کرنے یعنی بتانے سے جو خبر حاصل ہو اسے علم غیب نہیں کہا جا سکتا ، البتہ اسے خبر غیب کہا جاسکتا ہے
جب علم غیب بتانے والی ذات خود غیب ہے وحی بھی غیب ہے، جبریل بھی بعض اوقات غیبی صورت میں آتے تھے اب یہ کہنا کہ علم غیب بتانے یا سکھانے سے غیب نہیں ریتا یہ فقط جہالت ہے، کئی خبریں حضور صلی الله تعالی عليه وآله وسلم جانتے ہیں جو ہمارے لئے غیب ہے اس پر انہیں عالم غیب کہہ دینے میں کیا حرج؟ کہنے والا نبی کے علم غیب کو رب کا عطا کیا ہوا اور محدود مناتا ہے.

امام جلال الدین سیوطی :
وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما
اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے. (سورۃ النساء، 113)
اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں امام جلال الدین سیوطیفرماتے ہیں،
من الحکام والغیب، یعنی احکام اور غیب

ابن حجر قسطلانی رحمة الله عليه :

قد اشتھر وانتشر امرہ صلی الله تعالی علیه وسلم بین اصحابه بالاطلاع علی الغیوب
بے شک صحابہ کرام میں مشہور و معروف تھا کہ نبی ﷺ کو غیبوں کا علم ہے۔
( المواہب اللدنیة ،المقصد الثامن، الفصل الثالث، ۳ /۵۵۴)

النبوأۃ ماخوذۃ من النباء وھو الخبر ای ان ﷲ تعالٰی اطلعه علٰی غیبه

حضور کو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ﷲ تعالٰی نے حضور کو اپنے غیب کا علم دیا۔
( المواہب اللدنیہ ،المقصد الثانی، ۲ /۴۵ و ۴۶)

قاضی عیاض رحمة الله علیه

( ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعه صلی الله تعالی علیہ وسلم علی الغیب ( المعلومة علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا او التردد فیہا لا حدٍ من العقلاء ( لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذا لا ینافی الاٰیات الدالة علی انه لایعلم الغیب الا ﷲ وقوله ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمه من غیر واسطة وامّا اطلاعه صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی له فامر متحقق بقوله تعالٰی فلا یظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول._

رسول الله صلی الله تعالی عليه وسلم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے، کہ ﷲ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے۔
(نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض، ومن ذٰلک ما اطلع علیه من الغیوب ۳ /۱۵۰)

امام زرقانی رحمة الله علیه :

اصحابه صلی الله عليه وسلم جازمون ليش علی الغیب

صحابہ کرام یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول ﷲ صلی الله تعالی عليه وسلم کو غیب کا علم ہے۔
(شرح الزرقانی، علی المواہب الدنیة، الفصل الثالث، ۷ /۲۰۰)

امام ابن حجر مکی رحمة الله تعالى علیه :

انه تعالی اختص به لکن من حیث الاحاطة فلا ینافی ذلک اطلاع الله تعالی لبعض خواصه علی کثیر من المغیبات حتی من الخمس التی قال صلی الله تعالى علیه وسلم فیھن خمس لا یعلمھن الا الله
غیب ﷲ کے لیے خاص ہے مگر بمعنی احاطہ تو اس کے منافی نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے اپنے بعض خاصوں کو بہت سے غیبوں کا علم دیا یہاں تک کہ ان پانچ میں سے جن کو نبی صلی الله تعالی علیه وسلم نے فرمایا کہ ان کو ﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔
(افضل القراء القراء ام القرٰی، تحت شعرلک ذات العلوم ۴۴ ۔ ۱۴۳)

ابوعبدالله شیرازی رحمة الله علیه :

مولٰنا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابوعبدﷲ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں :

نعتقدان العبدینقل فی الاحوال حتی یصیر الی نعت الروحانية فیعلم الغیب
ہمارا عقیدہ ہے کہ بندہ ترقیِ مقامات پا کر صفتِ روحانی تک پہنچتا ہے اس وقت اسے علمِ غیب حاصل ہوتا ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان الفصل الاول، تحت حدیث ۲، ۱ /۱۲۸)

ملا علی قاری رحمة الله علیه :

تجلی کل شیئ وعرفت
ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی
(جامع سنن الترمذی، حدیث ۳۲۴۶)
علمه صلی الله تعالی علیه وسلم حاو لفنون العلم (الٰی ان قال) ومنہا علمه بالامور الغیبیة
رسول الله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کا علم اقسام علم کو حاوی ہے غیبوں کا علم بھی علمِ حضور کی شاخوں سے ایک شاخ ہے۔ (الزبدۃ العمدۃ ص ۵۷)

علامہ شامی رحمة الله تعالى علیه :

الخواص یجوزان ان یعلموا الغیب فی قضیة اوقضایا کما وقع لکثیر منھم و اشتھر
جائز ہے کہ اولیاء کو کسی واقعے یا وقائع میں علم غیب ملے جیسا کہ ان میں بہت کے لیے واقع ہو کر مشتہر ہوا۔
(الاعلام بقواطع الاسلام، ص۳۵۹)

امام ابن جریر طبری رحمة الله تعالى علیه :

قال انّک لن تستطیع معی صبرا، وکان رجلا یعلم علم الغیب قد علم ذٰلک
حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے موسٰی علیہ السلام سے کہا : آپ میرے ساتھ نہ ٹھہر سکیں گے۔ خضر علمِ غیب جانتے تھے انہیں علم غیب دیا گیا تھا۔
(جامع البیان، تحت آیة ۱۸/ ۶۷، ۱۵ /۳۲۳)

امام بوصیری رحمة الله تعالى علیه :

فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
یارسول ﷲ ! دنیا و آخرت دونوں حضور کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم، حضور کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے۔(مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰)

امام نیسابوری رحمة الله تعالى علیه :
ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون
یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضور تو خود فرماتے ہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے.
(غرائب القرآن، تحت آلایة ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)

تفسیر انموذج جلیل میں ہے :
معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا ﷲ اوبلا تعلیم الا ﷲ اوجمیع الغیب الاﷲ
آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ اﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے۔

تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے :
لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ الوحی
رسول ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی۔ (غرائب القرآن (تفسیر النیساپوری) تحت آیۃ ۴۶ /۹ ، ۸ /۲۶ )

تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے :
وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو
یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں ﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء ً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی۔ (عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی ،تحت آیتہ ۶ /۵۸، ۴ /۷۳)

تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے
( قل لا اقول لکم ) لم یقل لیس عندی خزائن ﷲ لیعلم ان خزائن ﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون
یعنی ارشاد ہوا کہ اے نبی ! فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس ہیں مگر حضور لوگوں سے انکی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں، اور وہ خزانے کیا ہیں، تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضور تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے
(غرائب القرآن تحت آلایۃ ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)

ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ ﷲ تعالٰی فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ ﷲ تعالی
یعنی ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ ﷲ تعالٰی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی، فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو۔ ( فتاوٰی حدیثیہ ابن حجر مکی ،مطلب فی حکم مااذا.. الخ، ص ۲۲۸)

تفسیر کبیر میں ہے :
قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات
یعنی آیت میں جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا، اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں۔ (مفاتح الغیب)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :
پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں

چنانچہ میں (حضور ﷺ) نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی
(اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ ۱ /۳۳۳)

ابن حجر قسطلانی فرماتے ہیں،
ولا شک ان ﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین
اور کچھ شک نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا
(المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ وسلم من الغیب ۳ /۵۶۰)
 
Top