• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الغیب، نکتہ اتفاق؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
یہ بھی یاد رہے کہ یہ شرک کا مسئلہ ہے اس لئے اس میں ہم کسی کی طرح کی بھی مداہنت یا مفاہمت پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔
اللہ آپ کو خوش رکھے آمین۔جزاک اللہ خیرا
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یہ امت خرافات میں کھوگئی
حقیقت ’’روایات‘‘میں کھوگئی
یہ کہنے والے ہیں علامہ اقبال ۔علامہ اقبال کامطالعہ کافی وسیع تھا اورقوموں کے عروج وزوال پرگہری نگاہ تھی۔ یہاں عبداللہ حیدرصاحب نے بریلوی حضرات میں سے ایک صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کیاجوبہت حد تک اسلامی تصورات سے ہم آہنگ یااس کے قریب قریب ہے۔مقصد یہ تھاکہ بڑے صغیرمیں تین بڑے اسلام دھڑوں کے مابین جواختلافات ہیں ان میں ان میں نکتہ اشتراک زیادہ سے زیادہ نکالاجائے۔
لیکن افسوس کہ اب عبداللہ حیدرصاحب کی ذات ہی ہدف تنقید بن گئی ہے اوران کو ہی ’’شرکیہ خیالات کے حامل ‘‘جیسے الفاظ سے خطاب مل رہاہے۔
میں نے عیسائیوں اورمسلمانوں کے درمیان قرآن کریم میں موجودنکتہ اشتراک کی طرف توجہ دلائی تھی اورکہاتھاکہ اس وقت بھی ان کا تصورالہ صحیح نہیں تھا۔
کچھ حضرات نے اسی آیت کو مکمل صورت میں پیش کیاہے ۔لیکن میں نہیں سمجھتاکہ اس سے میری کہی ہوئی باتوں پر کوئی فرق پڑتاہے کیااسلامی تصورالہ صرف خدائے واحد کی عبادت اورپرستش تک ہی محدود ہے۔ عقائد کی کتابوں میں جو تفصیلات ہیں کیاوہ سب بیکار محض ہیں۔ امام طحاوی نے عقائد پر جوکتاب لکھی ہے اوراس میں تصورالہ کو تفصیل سے پیش کیاہے اوراسی طرح حضرت ابن تیمیہ اوردیگر علماء اسلام نے جوکچھ عقائد پر لکھاہے میراخیال ہے کہ جس نے بھی مطالعہ کیاہوگاوہ جانتاہے کہ اسلامی تصورالہ آیت میں پیش کردہ امور سے کہیں زائد ہے ۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ بنیادی بات آیت میں بیان کی گئی ہے۔ لیکن تفاصیل سے صرف نظر کرلیاگیاہے۔
یہی توہم بھی کہناچاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے ایک بات کو مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان نکتہ اشتراک بنایا۔اوربقیہ تفاصیل کو ضروری نہیں سمجھا۔ اگرمخاطب اس حدتک مان لے تواس نے گویاآدھاپل پار کرلیا۔ اب محض تھوڑی کوشش کی ضرورت رہ جاتی ہے۔
قران نے توحید کو نکتہ اشتراک بنایا ہے اور آپ شرک کو نکتہ اشتراک بنانا چاہئے۔
لطف تو یہ ہے کہ قران نے توحید کے نکتہ اشتراک کو پیش کرکے انہیں جس شرک سے روکا ہے اس میں زیربحث شرک’’مخلوق کے لئے علم غیب ، عطائی ، حادث اور محدود‘‘ بھی شامل ہے، لیکن تعجب ہے کہ آپ اسی آیت کو پیش کرکے مردودشرکیہ عقیدہ کر نکتہ اشتراک بتارہے ہیں۔
دنیائے اجتہاد کی یہ کیسی بوالعجبی ہے کہ عین نکتہ اختلاف کو نکتہ اشتراک قرار دیا جارہا ہے ، اوراللہ تعالی نے جس آیت میں لوگوں کو توحید پر متفق ہونے کی دعوت دی ہے عین اسی آیت کو پیش کرکے شرک پرمتحد ہونے کی دعوت دی جارہی ہے !!!

محترم کسی مخلوق کے لئے علم غیب عطائی ماننا ، فی نفسہ یہی شرک ہے ، یعنی نکتہ آغاز ہی شرک ہے اب آگے اس کی جوتفصیلات ہوں گی وہ شرک ہی کی تفصیلات ہوں گی ۔
محترم علم غیب کی صفت کی طرح دیگر صفات الہیہ مثلا شفاء دینا ، روزی دینا ، مدد کرنا ، اولاد دینا، نفع نقصان کے مالک ہونا وغیرہ وغیرہ کوبھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ثابت کیا جاتا ہے لیکن اگر آپ ایسے لوگوں سے سوال کریں گے کہ یہ صفات تو اللہ تعالی کی ہیں تو اس کے جواب میں وہ اسی فلسفہ ہی کو اپلائی کریں گے یعنی یہی کہیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات عطائی ، حادث اورمحدود ہیں‌ بالفاظ دیگر:
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر شفاء دینے کی صفت ہے مگر یہ صفت عطائی ، حادث اور محدود ہے۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر رزق دینے کی صفت ہے مگر یہ صفت عطائی ، حادث اور محدود ہے۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر مددکرنے کی صفت ہے مگر یہ صفت عطائی ، حادث اور محدود ہے۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر اولاد دینے کی صفت ہے مگر یہ صفت عطائی ، حادث اور محدود ہے۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر نفع ونقصان پہنچانے کی صفت ہے مگر یہ صفت عطائی ، حادث اور محدود ہے۔
ان تمام مثالوں میں نکتہ آغاز ہی شرک سے ہے اب اس کی جو بھی تفصیلات پیش کی جائیں گی، وہ شرک کی تفصیلات ہوں گی۔

اب جب بریلویوں کے ایک مقتدر عالم نے یہ بات کھل کر کہی ہے کہ حضور بالذات اورمستقلاعالم الغیب نہیں تھے اورنہ ان کو بالذات اوراستقلالی طورپر علم غیب حاصل تھا توآدھی بات توانہوں نے طے کردی
مذکورہ عقیدہ ایک بریلوی عالم کا نہیں بلکہ پوری دنیائے بریلوت کا ہے اب تک جتنے بھی بریلوی اہل علم سے اس مسئلہ پر میری بات ہوئی ہے سب نے یہی وضاحت کی ہے کہ ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کو بالذات نہیں بلکہ عطائی مانتے ہیں، اوربریلویوں کے احمد رضا صاحب نے بھی متعدد مقامات بالکل یہی بات کہہ رکھی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ آج تک شرک کی جنتی قسمیں بھی سامنے ائی ہیں سب میں مخلوق کے اندر صفات الہیہ کوبالواسطہ اورغیرمستقل ہی تسلیم کیا گیا ہے نہ کہ ذاتی اورمستقل ، ورنہ ابتدائے خلق سے لیکر آج تک کی مدت میں کسی ایک ایسے شرک کی مثال پیش کریں جس میں اللہ کی خوبی کو مخلوق کے اندر بالذات اورمستقل مانا گیا ہو!!!!!!!!!!!


اسی کے ساتھ یہ کہنابھی ضروری ہے کہ جن کو ان خیالات سے اتفاق نہ ہو وہ علم اوردلیل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔ کسی کو شرکیہ خیالات کاحامل قراردینا بڑی جرات کی بات ہے ۔اللہ ہم سب کو دین کے صحیح فہم اوراس پر عمل کی توفیق دے۔وماعلیناالاالبلاغ
جناب یہاں پر اختلاف ہی توحید و شرک کا آپ صاحبان جس نکتہ سے اتحاد کا اغاز کررہے ہیں ہمارے نزدیک وہیں سے شرک کا آغاز ہوتا ہے، ہمیں اس میں ذرا بھی شک نہیں لہٰذا ان خیالات کا حامل ہمارے نزدیک شرکیہ خیالات کا حامل ہے البتہ ہم اسے مشرک یا کافر نہیں کہتے یہ فرق اہل علم کے یہاں معروف ہے۔

میری یہ پوسٹ دوبارہ پڑھی جائے جس کی صرف ایک عبارت پر بات کی جارہی ہے اوربقیہ ساری چیزوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علم غیب عطائی وغیرہ کی نفی پر علمائے اہل حدیث اور علمائے دیوبند کا متفقہ فتوی


علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے مسلک اہل حدیث کے تعارف میں ایک کتاب لکھی ہے ’’اہل حدیث کا مذہب‘‘ علامہ رحمہ اللہ اس کتاب کے ص ٩پر لکھتے ہیں:

”اہل حدیث کا مذہب ہے کہ سوائے خدا کےعلم غیب کسی مخلوق کو نہیں ، نہ ذاتی نہ وہبی نہ کسبی، کیونکہ خدافرماتاہے:{ قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ} [النمل: 65] نیز ارشاد ہے :{ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ } [الأعراف: 188]
اس نص قطعی کے علاوہ سینکڑوں واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ہیں جن سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ حضور فداہ روحی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہ تھا۔
(اہل حدیث کا مذہب:ص٩)

ملون وخط کشید الفاظ پر علامہ رحمہ اللہ نے حاشیہ رقم کرتے ہوئے ایک فتوی پیش کیا ہے حاشیہ کی پوری عبارت ملاحظہ ہو:

اس دعوی اوردلیل کی نسبت امرتسرکے علماء حنفیہ نے مجالس وعظ میں بڑی سختی سے اعتراضات کرنے شروع کئے ، کبھی دعوی اوردلیل میں عدم مطابقت پرسوال، کبھی مستثنی پر کلام ، کبھی کفرکا لزوم، غرض کبھی کچھ کبھی کچھ۔
آخر بات بڑھتے بڑھتے مباحثہ کی ٹہری ، اورمولانا ابوعبیدمیراحمدللہ صاحب امرتسری اورمولانا ابومحمد عبدالحق صاحب مصنف تفسیرحقانی دہلوی منصف قرارپائے، اور٣ربیع الاول١٣٢١ھ کو بجودگی منصفان مباحثہ ہوا، فریقین کی تقریریں سن کرہردومنصفان نے بیک زبان فیصلہ کیا کہ عبارت مذکورہ صحیح ہے۔
پھر فریق ثانی نے خفیہ طورپرایک استفتاء علماء دیوبندکی خدمت میں بھیجا جس کی نقل میرے ایک دوست (رحمہ اللہ) مدرس دیوبند نے بمعہ دستخط مدرسین میرے پاس بھیجی، جوبطوراشتہار کی گئی وہ یہ ہے:
استفتاء:
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس شخص کے حق میں جس نے مندرجہ ذیل دو عبارتیں ایک رسالہ میں شائع کی ہوں ۔
اولا:
یہ کہ سوائے خدا کے کسی مخلوق کو علم غیب نہیں ، نہ ذاتی نہ وہبی نہ کسبی، کیونکہ خدافرماتاہے:{ قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ} [النمل: 65]
دعوی دلیل میں تطابق اورآیت کریمہ سند منع ہوسکتی ہے یا نہیں ، اورجوشخص اس قسم کا دعوی کرے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ انبیاء علیہم السلام کی مطلقا علم غیب نہ تھا نہ ذاتی ، نہ وہبی نہ کسبی، پس وہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخبر باخبارماضیہ وحالیہ واستقبالیہ کے منکرہونے سے کافر ہوا یا نہیں ؟
ثانیا:
عابدکو معبود سے جونسبت ہوتی ہے وہی عام مخلوق کو نبی ہو یا ولی، رسول ہو یا امتی ، مومن ہو یاکافر خالق سے ہے، اب اس عبارت میں یہ لفظ عابد غورطلب ہے لفظ عابد سے ’’من حیث انہ مطیع و عابد ‘‘ مراد لیا جائے گا، یا مخلوق ’’من حیث ہوہو‘‘ پس برتقدیراول بہ لحاظ عبادت واطاعت ومساوات مماثلت انبیاء علیہم السلام واولیاء کرام کی کفار ناہنجار سے ثابت کرنے والا کافرہوا یا نہیں ؟ برتقدیر ثانی اس کی غرض تنقیص شان حضرات اوران حضرات کا بعد الارتحال کا توسل نہ ہونا اس سے ثابت ہو گا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

الجواب:
اصطلاحا عالم الغیب سے مرادہے جمیع مغیبات کا کلیتا و جزیتا ازلا وابدا عالم ہو، سو یہ شان باری تعالی ہے، اورکوئی مخلوق میں سے شریک اس اس وصف میں نہیں ہے، اگر مراد قائل کی یہ ہے کہ ایساعلم کسی کو نہیں ہے نہ ذاتی نہ وہبی نہ کسبی ، پس دلیل مطابق دعوی ہے، ما ہو ظاہر من الاطلاق و لایشک فیہ غیر اہل الشقاق۔
اورجوغرض یہ ہے کہ بعض مغیبات کا علم کسی کوکسی طرح نہیں تو غلط ہے ہے ،کیونک بہت مغیبات کا علم انبیاء کرام خصوصا افضل الرسل خاتم الانبیاء علیہم السلام کو سب سے زیادہ عطاء ہواہے اوران حضرات کی وساطت سے ان کی امتیوں کو بھی بہت سی مغیبات کا علم حاصل ہوا ہے ، جوقران شریف میں ہے:{ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ }الآیہ۔
پس انکار اس کا خلاف منصوص ہے ، مگرظاہریہ ہےکہ قائل مذکورکی غرض قسم ثانی کا انکار نہیں بلکہ علم غیب علی الاطلاق کی نسبت یہ قول ہے سو معلوم ہوا کی صحیح ہے اورعقیدہ اہل سنت والجماعت حسب نصوص قطعیہ یہی ہے، کہ عالم الغیب علی الاطلاق بجز ذات باری تعالی کوئی نہیں ، اورجولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہتے ہیں سخت جہالت میں ہیں ، اورمفتری کذاب ہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی فرمایا کما رواہ البخاری یہ شرک ہے۔

صفات خاصہ باری تعالی میں امرثانی کی نسبت تفصیل یہ ہے کہ ، درحقیقت جمہ مخلوقات بندہ و جزو مخلوق ہونے میں برابر ہیں ، کسی کو خالق جل وعلی کے ساتھ شرکت نہیں ہے پس اس نسب میں عابدوغیر عابد وانبیاء عظام اوراولیاءکرام جملہ حقیق برابر ہیں یہی مطلب قائل کا معلوم ہوتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • کتبہ عزیزالرحمن عفی عنہ دیوبندی(مفتی مدرسہ)۔
  • الجواب صحیح ۔محمد حسن عفی عنہ ۔
  • الجواب صحیح ۔غلام رسول عفی عنہ۔
  • الجواب صحیح ۔احقرالزمان ، گل محمدخان (مدرسان مدرسہ عالیہ عربیہ دیوبند)
  • الجواب صحیح ۔بندہ محمود عفی عنہ (مولانا محود الحسن دیوبندی مرحوم)
  • الجواب صحیح ۔بندہ مسکین محمدیٰسن عفی عنہ ، مدرس

منقول از اہل حدیث کا مذہب : ص ٩ تا ١٤ ۔

نوٹ سوال کے دوسرے شق کے جواب کو میں نے پورا ٹائپ نہیں کیا ہے کیونکہ وہ موضوع سے متعلق نہیں۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
اگر یہی وضاحت عبداللہ حیدر بھائی کی طرف سے ہوجائے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔
السلام علیکم، فورمز پر لکھتے ہوئے چھے سات برس ہونے کو آئے ہیں۔ مختلف مواقع پر "وہابی"، دیوبندی اور اہل حدیث ہونے کے طعنےملتے رہے ہیں لیکن اپنوں کی کمین گاہ سے شرک و مشرک کے تیر پہلی دفعہ برسے ہیں :) ۔ آپ جو بھی کہہ لیں، غالب کے رقیب کی طرح ہم بھی گالیاں کھا کر بے مزہ ہونے والے نہیں ہیں ان شاء اللہ۔ تجربہ شاہد ہے کہ دینی مزاج رکھنے والے لوگ عموما مخلص لیکن تحمل کی صفت سے عاری ہوتے ہیں۔ :(

میں اپنے عقیدے سے بخوبی واقف ہوں جس کی درستگی کی سند کے لیے مجھے آپ کو الفاظ واپس لینے پر مجبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ جو لکھتے ہیں اس کا حساب آپ نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو دینا ہے۔ بہرحال، کسی بدگمانی سے بچنے کے لیے میں اپنا عقیدہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
وهو سبحانه قال { قل لا يعلم من } ولم يقل " ما " فإنه لما اجتمع ما يعقل وما لا يعقل غلب ما يعقل وعبر عنه بـ " من " لتكون أبلغ فإنهم مع كونهم من أهل العلم والمعرفة لا يعلم أحد منهم الغيب إلا الله . وهذا هو الغيب المطلق عن [ جميع المخلوقين ] الذي قال فيه { فلا يظهر على غيبه أحدا } . [ والغيب المقيد ما علمه ] بعض المخلوقات من الملائكة أو الجن أو الإنس وشهدوه فإنما هو غيب عمن غاب عنه ليس هو غيبا عمن شهده . والناس كلهم قد يغيب عن هذا ما يشهده هذا فيكون غيبا مقيدا أي غيبا عمن غاب عنه من المخلوقين لا عمن شهده ليس غيبا مطلقا غاب عن المخلوقين قاطبة . وقوله : { عالم الغيب والشهادة } أي عالم ما غاب عن العباد مطلقا ومعينا وما شهدوه فهو سبحانه يعلم ذلك كله .
والسلام علیکم
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہ عجیب ماجرادیکھاگیاہے جب دلائل کی بات ہوتوکچھ لوگ شخصیات کو درمیان میں لے آتے ہیں اورجب شخصیات کی بات ہوتوپھردلائل کا نعرہ لگاتے ہیں۔
یہاں پراس کی کوئی ضرورت نہیں بنتی کہ علماء دیوبند یاعلماء اہل حدیث کے اقوال پیش کئے جائیں۔
میں نے محض ایک چھوٹاساسوال پوچھاتھاکہ عیسائیوں سے جس نکتہ اشتراک کی قرآن نے دعوت دی تھی۔ اس وقت عیسائیوں کا تصور الہ کیااسلامی اعتبار سے بالکل ٹھیک تھا اورکیاآیت میں جتنی بات کہی گئی ہے اسلامی تصورالہ اسی قدر ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم،
علم الغیب عطا کرنے اور "علم الغیب میں سے کچھ" عطا کیے جانے میں فرق ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم اور عزیز بھائی!
آپ شائد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ عالم الغیب ہیں لہٰذا وہ کس طرح کسی کو مکمل علم الغیب عطا کر سکتےہیں؟ (یہ تو شرک فی الصفات بن جائے گا۔) البتہ وہ کسی مخلوق (انسانوں اور فرشتوں کے رسولوں کو) علم الغیب میں کچھ عطا کر سکتےہیں (کیونکہ یہ آپ کے نزدیک شرک نہیں ہے۔)
کیا میں آپ کی بات صحیح سمجھا ہوں؟!!
اگر ایسا ہی ہے کہ پھر تو اسی تھریڈ میں میری پوسٹ نمبر 8 کو ایک دفعہ دوبارہ دیکھ لیجئے گا، اس میں عرض کیا تھا کہ
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کوئی صفت کسی مخلوق کو - محدود طور پر بھی - نہیں دی، بلکہ اللہ کی صفات خالق کی صفات ہیں اور ہماری مخلوق صفات۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ ... سورة القصصکہ ’’اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاہے اور پسند فرماتا ہے ان (مخلوق) کا کچھ اختیار نہیں، پاکی اور برتری ہے اللہ کو ان کے شرک سے ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی قسم کا کوئی اختیار کسی مخلوق کو نہیں دیا، اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے خواہ محدود طور پر ہی تو یہ شرک ہے، جیسے آیت کریمہ کے آخری حصّے سے معلوم ہو رہا ہے۔
مزید فرمایا: ﴿ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴾ ... سورة السجدةکہ ’’کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف رجوع کرے گا اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کی تدبیر آسمان سے لے کر زمین تک اکیلے کرتے ہیں، اس تدبیر میں مخلوق (فرشتوں یا انسانوں) کو شامل سمجھنے کا عقیدہ غلط ہے۔ البتہ مخلوق کی صفت بھی تدبیر ہے جو مخلوق صفت ہے جس کی اللہ کی تدبیر سے کوئی نسبت نہیں، وہ تدبیر تو اللہ تعالیٰ اکیلے فرماتے ہیں۔
مزید فرمایا: ﴿ قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ ﴾ ... سورة سبأکہ ’’تم فرماؤ پکارو انہیں جنہیں اللہ کے سوا سمجھے بیٹھے ہو وہ ذرہ بھر کے مالک نہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کچھ حصہ اور نہ اللہ کا ان میں سے کوئی مددگار ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ کسی مخلوق (خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء واولیاء کرام﷩) کے پاس زمین وآسمان میں ذرّہ برابر بھی اختیار نہیں، اور نہ ہی کسی کا آسمان وزمین کی تخلیق میں کوئی حصہ ہے اور نہ ہی کوئی مخلوق کسی بھی کام میں اللہ کی مدد گار ہے، اللہ تعالیٰ اکیلے وحدہ لا شریک یہ معاملات سر انجام دے رہے ہیں۔ اور ان معاملات میں کسی کو بھی شریک سمجھنا - خواہ انتہائی محدود طور پر ہی - شرکِ اکبر ہے۔
مزید فرمایا: ﴿ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ﴾ ... سورة فاطرکہ ’’ رات لاتا ہے دن کے حصہ میں اور دن لاتا ہے رات کے حصہ میں اور اس نے کام میں لگائے سورج اور چاند ہر ایک ایک مقرر میعاد تک چلتا ہے یہ ہے اللہ تمہارا رب اسی کی بادشاہی ہے، اور اس کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو دانہ خُرما کے چھلکے تک کے مالک نہیں ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘
ان تمام آیات بینات سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو - خواہ کتنی ہی افضل کیوں نہ ہو - اپنی کوئی صفت - خواہ انتہائی محدود طور پر ہی - نہیں دی، اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے تو یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی صفات دوسروں کو دینے کا کیا فائدہ؟ (جو شرک ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے۔) فائدہ تو تب ہو جب (نعوذ باللہ) اللہ کیلئے یہ تمام کام اکیلے سنبھالنا مشکل ہو، یا اللہ تعالیٰ تھک جائیں، جو ممکن نہیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ ﴾ ... سورة قکہ ’’اور بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا، اور تکان ہمارے پاس نہ آئی ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘
محترم اور عزیز بھائی!
صرف اپنی بات پر زور دینے کی بجائے ذرا اس پر بھی غور کیجئے کہ یہ کوئی اجتہادی معاملہ نہیں ہے، بلکہ اسلام اور شرک کا معاملہ ہے، اور شرک تو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے۔ کیا ہم صرف اپنے موقف کو راجح ثابت کرنے کیلئے اپنے ایمان کو داؤ پر لگا سکتے ہیں؟!!
میرے بھائی درج ذیل حدیث مبارکہ پر غور کیجئے گا: « الشرك فيكم أخفى من دبيب النمل ، و سأدلك على شيء إذا فعلته أذهب عنك صغار الشرك وكباره ، تقول : اللهم إني أعوذ بك أن أشرك بك و أنا أعلم ، و أستغفرك لما لا أعلم » ..... صحيح الجامع: 3731
والله تعالىٰ أعلم

اللهم إنا نعوذ بك أن نشرك بك ونحن نعلم ونستغفرك لما لا نعلم

 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
السلام علیکم، فورمز پر لکھتے ہوئے چھے سات برس ہونے کو آئے ہیں۔ مختلف مواقع پر "وہابی"، دیوبندی اور اہل حدیث ہونے کے طعنےملتے رہے ہیں لیکن اپنوں کی کمین گاہ سے شرک و مشرک کے تیر پہلی دفعہ برسے ہیں :) ۔ آپ جو بھی کہہ لیں، غالب کے رقیب کی طرح ہم بھی گالیاں کھا کر بے مزہ ہونے والے نہیں ہیں ان شاء اللہ۔ تجربہ شاہد ہے کہ دینی مزاج رکھنے والے لوگ عموما مخلص لیکن تحمل کی صفت سے عاری ہوتے ہیں۔ :(
وعلیکم السلام
مختلف لوگوں سے اسلامی مسائل وعقائد پر بحث کرتے ہوئے سات سال سے زائد کا عرصہ میں بھی گذار چکا ہوں لیکن زندگی میں پہلی بار ایسے شخص کو شرکیہ عقائد کی حمایت کرتے ہوئے پایا ہے جسے اہل حدیث بتلایا جارہا ہے، فالی اللہ المشتکی۔
اور باربار وضاحت کے باوجود بھی یہ کہنا کہ مشرک کے تیر برسائے گئے ہیں غلط ہے ورنہ آپ ایسا اقتباس پیش کریں جس میں آپ کو مشرک کہا گیاہے، دوسروں پر توبدگمانی کا الزام لگاتے ہیں اورخود بہتان تراشی میں مبتلا ہو رہے ہیں ، یہی معاملہ گالیوں کا ہے ہم شیطان کوبھی گالی دینا جائز نہیں سمجھتے آپ تو خیر انسان ہیں۔
تجربہ شاہد ہے کہ دینی مزاج رکھنے والے لوگ عموما مخلص لیکن تحمل کی صفت سے عاری ہوتے ہیں۔ :(
آپ کے یہ الفاظ اسی طرح چند دوسرے الفاظ نظر سے گذرے تو میں نے فورا جواب نہیں دیا کہ شاید اس میں ترمیم ہوجائے لیکن جب ایک طول عرصہ تک یہ الفاظ فورم کی زینت بنے رہے تب معلوم ہوا کہ ابھی مجھے سیکھنا پڑھے گا کہ طنزیہ عبارت کسے کہتے ہیں ، چونکہ ہمیں اعتراف ہے کہ ہمارے اندر طنزیہ عبارت اور شائستہ عبارت میں فرق کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے سردست آپ سے کوئی شکوہ نہیں۔
نیز میرا بھی تجربہ شاہد ہے کہ نام نہاد اتحاد کا دعوی کرنے والے قبول حق کی استعداد سے محروم ہوتے ہیں۔
ویسے ابن آدم بھائی کی رہنمائی پر آپ کے کئی موضاعات و مراسلات مطالعہ میں آئے لیکن آپ کے قدیم مراسلات میں آپ کو اسمائلز کا عادی نہیں پایا ، بلکہ یہ منظر مخصوص اسلوب اورمخصوص فضاء ہی میں سامنے آرہا ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے مطالعہ میں کوتاہی ہے یا واقعی آپ کے اسلوب میں تبدیلی آگئی ہے۔
میں اپنے عقیدے سے بخوبی واقف ہوں جس کی درستگی کی سند کے لیے مجھے آپ کو الفاظ واپس لینے پر مجبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ جو لکھتے ہیں اس کا حساب آپ نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو دینا ہے۔
آپ کے دل میں آپ کا اصل عقیدہ کیا ہے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے ، ہم صرف ظاہر ہی پر حکم لگاسکتے ہیں ، اورہمیں اپنے بارے میں آپ سے زیادہ فکرہے کہ بارگاہ الہی میں اپنے ایک ایک لفظ اورایک ایک حرف کا جواب دینا ہے، جس عقیدہ کو ہم شرک سمجھتے ہیں ہیں ، اور جس کے شرکیہ ہونے میں چودہ سو سالہ دور میں اہل سنت کے بیچ کوئی اختلاف نہیں پاتے ہیں ، ایسے شرکیہ عقیدہ کو ہم مصلحۃ کوئی اور نام نہیں دے سکتے، یہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں اورنہ ہی اس مسئلہ سے متعلق نصوص غیر واضح ہیں کہ اسے اجتہادی سمجھ لیا جائے ، علم غیب کسی بھی معنی میں غیر اللہ کو حاصل نہیں ہے یہ ایک اصولی عقیدہ ہے اور اس پر دلالت کرنے والے نصوص صریح اورقطعی ہیں ان میں تاویل کی ذرا بھی گنجائش نہیں لہٰذا ہم اجتہاد کے نام پر اس شرکیہ عقیدہ کو الخلاف الجائز کے زمرے میں نہیں ڈال سکتے ۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ آپ اتفاق کے نام پر چودہ سو سالہ متفق علیہ عقیدہ کو داؤ پر لگارہے ہیں۔
بہرحال، کسی بدگمانی سے بچنے کے لیے میں اپنا عقیدہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
اس سے پہلے بھی بعض شخصیات کی عبارتیں آپ پیش کرچکے ہیں ، اور انہیں غلط معنی پہنایا ہے اورشیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی عبارت کا مفہوم بھی آپ کی نظر میں وہی ہو تو یہ حوالہ آپ کے عقیدہ کی عکاسی نہیں کرتا۔

یہ عجیب ماجرادیکھاگیاہے جب دلائل کی بات ہوتوکچھ لوگ شخصیات کو درمیان میں لے آتے ہیں اورجب شخصیات کی بات ہوتوپھردلائل کا نعرہ لگاتے ہیں۔
یہاں پراس کی کوئی ضرورت نہیں بنتی کہ علماء دیوبند یاعلماء اہل حدیث کے اقوال پیش کئے جائیں۔
میں نے محض ایک چھوٹاساسوال پوچھاتھاکہ عیسائیوں سے جس نکتہ اشتراک کی قرآن نے دعوت دی تھی۔ اس وقت عیسائیوں کا تصور الہ کیااسلامی اعتبار سے بالکل ٹھیک تھا اورکیاآیت میں جتنی بات کہی گئی ہے اسلامی تصورالہ اسی قدر ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہے؟
اولاتو علماء کے اقوال بطور حجت نہیں پیش کئے گئے ہیں ، ثانیا کیا یہ پہلا موقع ہے کہ علماء کے اقوال سامنے لائے گئے ہیں، ذرا ایک نظر اس موضوع کے پچھلے مراسلات پر ڈال لیں، تصور الہ والی بات کا جواب دیا جاچکا ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
میں نے محض ایک چھوٹا سا سوال پوچھا تھا کہ عیسائیوں سے جس نکتہ اشتراک کی قرآن نے دعوت دی تھی۔ اس وقت عیسائیوں کا تصور الٰہ کیااسلامی اعتبار سے بالکل ٹھیک تھا اور کیا آیت میں جتنی بات کہی گئی ہے اسلامی تصورالہ اسی قدر ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہے؟
محترم بھائی! اسی تھریڈ کی پوسٹ نمبر 24 میں پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے ’عقیدۂ تثلیث‘ کو نہیں بلکہ قرآن کریم کے ’عقیدۂ توحید‘ کو نکتۂ اشتراک بنایا ہے، جو قرآن کریم میں جگہ جگہ بکھرا پڑا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے تین نکات ﴿ أن لا نعبد إلا الله، ولا نشرك به شيئا، ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله ﴾ میں بیان فرمایا ہے، گویا انہی تین نکات کو نکتۂ اشتراک بنایا گیا ہے اور بس!
اب آپ کا سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت عیسائیوں کا تصورِ الٰہ (تثلیث وغیرہ) اسلامی اعتبار سے بالکل ٹھیک تھا؟!! تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں! بالکل نہیں!
اگرچہ زبانی حد تک وہ کہتے تھے (جس کا طرح مشرکین مکہ بھی کہتے تھے) کہ ہم شرک نہیں کرتے، ہم اللہ کے علاوہ کسی کے عبادت نہیں کرتے اور کسی کو رب تسلیم نہیں کرتے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بہت سی خرافاتِ شرک شامل کی ہوئی تھیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدہ کو نکتہ اشتراک بنایا ہی نہیں بلکہ ان تین جملوں کو نکتۂ اشتراک بنایا ہے جو عین حق ہیں، جن میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ نہیں اور جو زبانی حد تک (عملاً نہیں) عیسائیوں کو بھی تسلیم ہیں۔
گویا اسی آیت کریمہ کے مطابق اگر ہم بریلوں کے ساتھ ’علم الغیب‘ کے متعلّق نکتۂ اشتراک طے کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے نکات کو نکتہ اشتراک بنانا چاہئے جو عین حق ہوں، جن میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو اور جو ’زبانی حد تک‘ بریلویوں کو بھی تسلیم ہوں نہ کہ ہم مداہنت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس کے نکتہ اختلاف کو ہی نکتہ اشتراک تسلیم کر لیں؟!!
اور اگر آپ نے پیر صاحب کی عبارت میں سے کچھ الفاظ کو نکتہ اشتراک بنانا ہی ہے تو نبی کریمﷺ کے عطائی، حادث اور محدود علم الغیب (جو ہمارے نزدیک شرک ہے) کی بجائے اس عبارت کو نکتۂ اشتراک بنالیں:
اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔
اور اسی کے مطابق علم الغیب کا فیصلہ بھی کر لیں! کیا خیال ہے آپ کا؟!!
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
میرے خیال میں تو خوامخواہ موضوع کو کھینچا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے غلط فہمیاں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اہل سنت کے نزدیک علم غیب صرف اللہ کی صفت ہے۔ پھر انہیں آئمہ اہل سنت کے اقوال پیش کر کے یہ نتیجہ نکالنا کہ علم غیب عطائی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تھا کہ کیا معنی ہیں؟ رہی ان اقوال کی وضاحت تو وہ پہلے ہی کی جا چکی ہے کہ یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب تھا اور یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی خبر یا اطلاع دی گئی دونوں میں انتہائی فرق ہے۔
قرآن میں بار بار غیب کی نفی غیراللہ سے کی گئی اور غیب کی اطلاع و خبر کا اثبات انبیاء کرام علیھم السلام کے لئے کیا گیا۔ جو علم غیب اور غیب کی خبر و اطلاع میں فرق کا قائل نہیں وہ آیت بمفہوم اگر یہ (قرآن) غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت تضاد پاتے کی حقیقت پر غور فرمائیں۔ اللہ سمجھنے کی توفیق سے نوازے، آمین۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
وعلیکم السلام
آپ کے دل میں آپ کا اصل عقیدہ کیا ہے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے ، ہم صرف ظاہر ہی پر حکم لگاسکتے ہیں ، اورہمیں اپنے بارے میں آپ سے زیادہ فکرہے کہ بارگاہ الہی میں اپنے ایک ایک لفظ اورایک ایک حرف کا جواب دینا ہے، جس عقیدہ کو ہم شرک سمجھتے ہیں ہیں ، اور جس کے شرکیہ ہونے میں چودہ سو سالہ دور میں اہل سنت کے بیچ کوئی اختلاف نہیں پاتے ہیں ، ایسے شرکیہ عقیدہ کو ہم مصلحۃ کوئی اور نام نہیں دے سکتے، یہ کوئی فروعی مسئلہ نہیں اورنہ ہی اس مسئلہ سے متعلق نصوص غیر واضح ہیں کہ اسے اجتہادی سمجھ لیا جائے ، علم غیب کسی بھی معنی میں غیر اللہ کو حاصل نہیں ہے یہ ایک اصولی عقیدہ ہے اور اس پر دلالت کرنے والے نصوص صریح اورقطعی ہیں ان میں تاویل کی ذرا بھی گنجائش نہیں لہٰذا ہم اجتہاد کے نام پر اس شرکیہ عقیدہ کو الخلاف الجائز کے زمرے میں نہیں ڈال سکتے ۔
میرے بھائی! میں نے بھی کوئی نیا عقیدہ بیان نہیں کیا بلکہ اپنے عقیدے کی وضاحت کے لیے شیخ الاسلام جیسے جید عالم کے الفاظ کا سہارا لیا ہے۔ آسانی کی خاطر دوبارہ اقتباس دے دیتا ہوں۔ اس کے ایک ایک جز کا ترجمہ کیجیے اور اس میں موجود "شرک" اور "مشرکانہ عقیدے" کا بدلائل رد فرمائیے کیونکہ یہ ناقص العلم اس میں شرک کی بو پانے سے معذور ہے۔
میں اپنا عقیدہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
وهو سبحانه قال { قل لا يعلم من } ولم يقل " ما " فإنه لما اجتمع ما يعقل وما لا يعقل غلب ما يعقل وعبر عنه بـ " من " لتكون أبلغ فإنهم مع كونهم من أهل العلم والمعرفة لا يعلم أحد منهم الغيب إلا الله . وهذا هو الغيب المطلق عن [ جميع المخلوقين ] الذي قال فيه { فلا يظهر على غيبه أحدا } . [ والغيب المقيد ما علمه ] بعض المخلوقات من الملائكة أو الجن أو الإنس وشهدوه فإنما هو غيب عمن غاب عنه ليس هو غيبا عمن شهده . والناس كلهم قد يغيب عن هذا ما يشهده هذا فيكون غيبا مقيدا أي غيبا عمن غاب عنه من المخلوقين لا عمن شهده ليس غيبا مطلقا غاب عن المخلوقين قاطبة . وقوله : { عالم الغيب والشهادة } أي عالم ما غاب عن العباد مطلقا ومعينا وما شهدوه فهو سبحانه يعلم ذلك كله .
والسلام علیکم
 
Top