عبداللہ حیدر صاحب !
آپ جس شرکیہ عقیدہ کی ترویج میں لگے ہوئے ہیں ، اس کی تردید سے ہمارا مقصود آپ کو جواب دینا نہیں ہے کیونکہ آپ جیسے شرکیہ عقائد کے حامل لوگوں کو جواب دیا بھی جائے تب بھی قبول حق کی امید نا کے برابر ہوتی ہے ، آپ جیسے لوگوں کے لئے بس ہدایت کی دعاء ہی کی جا سکتی ہے ، اللہ ہدایت دے ! آمین !
ہمار مقصود صرف یہ ہے کہ دیگر بھولے بھالے لوگ آپ حضرات کے دام فریب میں آکر اپنی عاقبت برباد نہ کربیٹھیں۔
اس لئے عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لئے چندسطور پیش خدمت ہیں ۔
موضوع ہے ’’علم الغیب، نکتہ اتفاق؟‘‘، اورنکتہ اتفاٖق ہے عطائی ، حادث اور محدود لیکن آن جناب جو بھی دلائل لا رہے ہیں ان میں سے کسی ایک میں بھی ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اور محدود‘‘ کی بات سرے سے ہے ہی نہیں ، بلکہ ان میں صرف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بعض غیبی امور پر آگاہ کیا‘‘ اور اسے ’’علم غیب ‘‘ ہر گز نہیں کہا سکتاہے، ’’علم غیب‘‘ حس وادراک کی اس قوت کا نام ہے جس سے بیک وقت ہرظاہری وباطنی شے علم میں ہو۔
یہ صفت صرف اللہ عز وجل کی ہے اس صفت میں سے ذرہ برابر مقدار بھی کسی مخلوق کو عطاء نہیں ہوئی ہے ، یعنی ایک پل کے لئے بھی کسی مخلوق کوحس وادراک کی ایسی قوت نہیں دی گئی ہے جس سے وہ ایک محدود دائرہ ہی میں سہی لیکن بیک وقت ہرظاہر و باطنی شے کا علم رکھے، کسی مخلوق کے لئے اس طرح کے محدود سے محدود تر ’’علم غیب ‘‘ کا عقیدہ بھی صریح طور پرشرک ہے۔
اوراسے دوسری انتہاقرار دینا شرک کے معنی مفہوم سے ناواقفیت کی دلیل ہے، شرک کا مطلب ہی ہوتا ہے اللہ کی صفت میں شریک کرنا نہ کہ مکمل صفت الہی کو کسی مخلوق میں تسلیم کرلینا ، آج تک کسی بھی ایسے شرک کا سراغ نہیں ملا ہے جس میں مخلوق کو اللہ کی کوئی خوبی مکمل طورپر دے دی گئی ہوں بلکہ ہر طرح کے شرک میں یہی تصور ہوتا ہے کہ اللہ کی یہ صفتیں کسی مخلوق میں بھی ہیں مگر کمیت و کیفیت اور مقدار میں فرق ہے کیا پوری تاریخ انسانی میں کسی ایک بھی ایسے شرک کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جس میں مخلوق کے اندر اللہ کی کوئی مکمل صفت تسلیم کرلی گئی ہو؟؟؟ اگر شرک کا یہی مفہوم ہے تو کہنے دیجئے کہ افراد نسل انسانی میں آج تک شرک کا وقوع ہوا ہی نہیں۔
آپ مذکورہ مراسلے میں دئے گئے تمام حوالہ جات کو دیکھ لیں سب میں بعض امور غیب پر آگاہ کرنے کی بات ہے اس کا کوئی منکر ہے ہی نہیں لیکن اسے ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اورمحدود ‘‘ سے تعبیر کرنا زور زبردستی اورنصوص کے ساتھ کھلواڑ ہے۔
بالخصوص آخری حوالہ کو دیکھیں:
إلى غير هذا من الآيات التي تدل على أن الله سبحانه استأثر بعلم الغيب، لكن يطلع الله بعض عباده كالرسل والملائكة على بعض المغيبات، فيعلمون منها بقدر ما أعلمهم الله فقط،
اس میں ملائکہ کے لئے بھی وہی بات کہی گئی اورپہلے سوال اٹھایا جاچکا ہے کہ انبیاء کے لئے جس کیفیت میں علم غیب کا دعوی کیا جارہا ہے کیا ملائکہ کے پاس بھی اس طرح کا علم غیب ہے؟؟؟
یہ ظاہر ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امور غیب پر آگاہ کرنے کے لئے جبرئیل علیہ السلام آیا کرتے تھے تو مذکورہ فلسفہ کے تحت سب سے پہلے جبرئیل علیہ السلام ہی کو اس خوبی سے متصف کر نا چاہے لیکن اس سلسلے میں زبان نہیں کھل رہی ہے !!!!
پھر جس طرح یہ امور غیب جبرئیل علیہ السلام کے حوالہ سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اسی طرح یہی امور غیب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے امت تک پہنچے تو کیا امت محمدیہ کا ہر فر د ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اورمحدود‘‘ سے متصف ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ بھی یاد درہے امورغیب پر آپ صلی اللہ کو آگاہ کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کو بھی ان امورغیب سے آگاہ کردیں جیسا مستدل آیات میں ہی اس کابیان ہے۔
مثلا:
{ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (٢٦) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (٢٧) لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ } [الجن: 26 - 28]
وه غیب کا جاننے واﻻ ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (٢٦) سوائے اس پیغمبر کے جسے وه پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے (٢٧)
تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے۔
دوسری آیت ہے :
{وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ } [آل عمران: 179]
اور نہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاه کردے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کر لیتا ہے،
اس لئے تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو، اگر تم ایمان ﻻؤ اور تقویٰ کرو تو تمہارے لئے بڑا بھاری اجر ہے ۔
خط کشید ہ الفاظ پر غور کریں اللہ خود فرمارہاہے کہ انبیا کو امور غیب پر اگاہ کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ اسے امت تک پہنچائے اور امت اس پر ایمان لائے۔
اوریقینا انبیاء نے یہ فریضہ انجام دینے میں کسی طرح کی بخیلی نہیں کی ہے ، اس کی گواہی بھی خود اللہ ہی دے رہا ہے:
{وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ } [التكوير: 24]
اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں، (ترجمہ مولانا احمد رضا)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جن امورغیب پر آگاہ کیا گیا آپ نے اپنی امت کو ان سے آگاہ کرنے میں کوئی بخیلی نہیں کی ہے۔
اب بتلائیں کہ پھر امت کے افراد کے لئے بھی یہی عقیدہ کیوں نہیں اپنایا جارہا ہے کہ ہر مسلمان کے پاس بھی ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اور محدود ہے‘‘ ؟؟؟؟
بلکہ یوں کہنا چاہے کہ جس مسلمان کے پاس ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اورمحدود‘‘ نہ ہو وہ مسلمان ہی نہیں ہے، ذرا بریلوں کے معروف مفسر کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:
غیب کی دوسری قِسم وہ ہے جس پر دلیل ہو جیسے صانِعِ عالم اور اس کی صفات اور نبوّات اور ان کے متعلقات احکام و شرائع و روز آخر اور اس کے احوال ، بَعث ، نشر ، حساب ، جزا وغیرہ کا علم جس پر دلیلیں قائم ہیں اور جو تعلیمِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے یہاں یہی مراد ہے ، اس دوسرے قسم کے غیوب جو ایمان سے علاقہ رکھتے ہیں ان کا علم و یقین ہر مومن کو حاصل ہے اگر نہ ہو آدمی مومن نہ ہو سکے ( خزائن العرفان مع کنزالایمان، تفسیرسورہ بقرہ آیت ٣)
کیا خیال ہے نکتہ اتفاق یہاں سے شروع کیا جائے یعنی پہلے ہر مسلم و مؤمن کے اندر ’’علم غیب ، عطائی ، حادث و محدود ‘‘ کی صفت مان لی جائے کیونکہ اس کے بغیر اسلام وایمان ہی معتبر نہیں ہے۔
اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اور محدود پر بات کی جائے اورمنوایا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’علم غیب‘‘ کا بھی یہی عالم ہے جیسا کہ بریلیوں کے مفسر مذکور نے کھل کر صراحت کی ہے ملاحظہ ہوں بریلوی مفسر کے الفاظ:
اس دوسرے قسم کے غیوب جو ایمان سے علاقہ رکھتے ہیں ان کا علم و یقین ہر مومن کو حاصل ہے اگر نہ ہو آدمی مومن نہ ہو سکے اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں انبیاء و اولیاء پر جو غیوب کے دروازے کھولتا ہے وہ اسی قسم کا غیب ہے ( خزائن العرفان مع کنزالایمان ، تفسیرسورہ بقرہ آیت ٣ )
اب آئیے نکتہ اتفاق پر آپ کا خیر مقدم ہے !!!!
تنبیہ:
ہم نے عبداللہ حیدرصاحب کو شرکیہ عقائد کا حامل بتلایا ہے اس میں ہمیں ذرا بھی شک نہیں لیکن آں جناب مشرک ہیں یا نہیں یہ فیصلہ ہم کبار اہل علم پر چھوڑتے ہیں۔