• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الغیب، نکتہ اتفاق؟

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
محترم عبد اللہ حیدر صاحب !
میں نے اپنے دروس میں اس بات کو حجج قاطعہ کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ کسی کے عطاء کرنے یعنی بتانے سے جو خبر حاصل ہو اسے علم غیب نہیں کہا جا سکتا ، البتہ اسے خبر غیب کہا جاسکتا ہے ، اور میں نے اسکی مثالیں بھی دی ہیں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پیراسٹامول بخار کے لیے مؤثر گولی ہے لیکن اس بات کے جاننے کے باوجود ہم طبیب یا ڈاکٹر نہیں کہلا سکتے ، ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں علم طب کی ایک بات معلوم ہے ،
اسی طرح ہم نے دنیا میں موجود بے شمار ممالک کو نہیں دیکھا ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ ممالک دنیا میں موجود ہیں یا روزانہ اخبارات ، رسائل و جرائد کے ذریعہ بہت سے غیب کی باتیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں ، لیکن کوئی ہمیں "عالم الغیب" نہیں کہتا !
کیونکہ علم ایک ایسی چیز ہے کہ کسی بھی جزی کو حاصل کرنے کے لیے غیر کی ضرورت سے بچاتی ہے ،
مثلا آج اگر کوئی نیا مسئلہ امت کو درپیش ہو ، تو وہ لوگ جنہیں راسخ فی العلم یا مجتہد علماء کہا جاتا ہے وہ کتاب وسنت سے اس مسئلہ کا حل دریافت کرنے پر قادر ہونگے
جبکہ ایک عامی آدمی اسی مسئلہ کو ایک صاحب علم سے سن کر معلوم کرلے گا
اب ان دونوں کے مابین علم اور خبر کا فرق ہے
یعنی عامی آدمی خود سے کسی دوسرے شخص کی مدد کے بغیر اس مسئلہ کا حل دریافت نہیں کر سکتا إلا کہ وہ بھی " عالم " بن جائے
اور اسی طرح اگر آج کوئی نئی بیماری ظہور پذیر ہو ، تو ماہرین علم طب ، اسکا حل اپنے علم کے بل بوتے پر تلاش یا متعین کر لیں گے
لیکن ایک عامی کو اسکے حل کی خبر ملے گی !
یہی معاملہ " علم غیب " کا ہے
کہ غیب کی خبر کے معلوم ہونے سے کوئی عالم الغیب نہیں بنتا
"عالم الغیب" وہ ہے جو بلا شرکت غیرے، غیب کو جان لے !
خوب سمجھ لیں !
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
مکرر عرض ہے کہ "عالم الغیب" ہونے کا مسئلہ زیر بحث ہی نہیں ہے کہ اس پر دلائل پیش کرنے کی حاجت ہو۔ لوگ دو انتہاؤں پر ہیں، ایک گروہ انبیاء و رسل کو غیب میں سے کچھ بھی دیے جانے کا انکاری ہے اور دوسرا گروہ ما کان و ما یکون کا علم ثابت کرنے لگ جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے جید علماء کی زیر نگرانی التفسیر المیسر کے نام سے ایک تفسیر شائع کی ہے۔ اس میں سورۃ الجن کی آخری آیات کی تفسیر میں لکھا ہے:
وهو سبحانه عالم بما غاب عن الأبصار، فلا يظهر على غيبه أحدًا من خلقه، إلا من اختاره الله لرسالته وارتضاه، فإنه يُطلعهم على بعض الغيب

التفسير الميسر (1 / 573)
"اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر اس شئے کا علم رکھنے والا ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہیں، وہ اپنے غیب پر مخلوق میں سے کسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے ان کے جنہیں وہ اپنی رسالت کے لیے چن لیتا اور پسند فرما لیتا ہے تو ان کو غیب میں سے بعض پر مطلع کر دیتا ہے"

امام البانی رحمہ اللہ سلسلۃ الصحیحہ میں لکھتے ہیں:
كيف يزعم هؤلاء ذلك الزعم الباطل والله عز وجل يقول في كتابه: * (عالم الغيب، فلا يظهر على غيبه أحدا إلا من ارتضى من رسول) *. فهل يعتقدون أن أولئك الأولياء رسل من رسل الله حتى يصح أن يقال إنهم يطلعون على الغيب بإطلاع الله إياهم!! سبحانك هذا بهتان عظيم.
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3 / 103):
"یہ لوگ (اولیاء کے بارے میں) یہ غلط اعتقاد کیسے رکھتے ہیں جبکہ اللہ عز و جل اپنی کتاب میں فرماتا ہے
"وہ عالم الغیب ہے پس کسی کو اپنی غیب پر مطلع نہیں فرماتا سوائے جس رسول سے راضی ہو جائے (یا اسے پسند کر لے)"
کیا یہ لوگ اولیاء کے رسول ہونے کے معتقد ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مطلع کرنے سے غیب سے واقف ہو جاتے ہوں"

شیخ الفوزان کہتے ہیں:
كل مؤمن يؤمن بأن الله تعالى يطلق من يشاء من أنبيائه ورسله على بعض المغيبات. وهذه مسألة لا تحتاج إلى جدل، كيف؟
البيان والإشهار لكشف زيغ الملحد الحاج مختار (1 / 306):


سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ ہے:
إلى غير هذا من الآيات التي تدل على أن الله سبحانه استأثر بعلم الغيب، لكن يطلع الله بعض عباده كالرسل والملائكة على بعض المغيبات، فيعلمون منها بقدر ما أعلمهم الله فقط،

کیا یہ سب علماء بھی مشرک ہیں؟
والسلام علیکم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
عبداللہ حیدر صاحب !
آپ جس شرکیہ عقیدہ کی ترویج میں لگے ہوئے ہیں ، اس کی تردید سے ہمارا مقصود آپ کو جواب دینا نہیں ہے کیونکہ آپ جیسے شرکیہ عقائد کے حامل لوگوں کو جواب دیا بھی جائے تب بھی قبول حق کی امید نا کے برابر ہوتی ہے ، آپ جیسے لوگوں کے لئے بس ہدایت کی دعاء ہی کی جا سکتی ہے ، اللہ ہدایت دے ! آمین !
ہمار مقصود صرف یہ ہے کہ دیگر بھولے بھالے لوگ آپ حضرات کے دام فریب میں آکر اپنی عاقبت برباد نہ کربیٹھیں۔
اس لئے عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لئے چندسطور پیش خدمت ہیں ۔

موضوع ہے ’’علم الغیب، نکتہ اتفاق؟‘‘، اورنکتہ اتفاٖق ہے عطائی ، حادث اور محدود لیکن آن جناب جو بھی دلائل لا رہے ہیں ان میں سے کسی ایک میں بھی ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اور محدود‘‘ کی بات سرے سے ہے ہی نہیں ، بلکہ ان میں صرف یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’بعض غیبی امور پر آگاہ کیا‘‘ اور اسے ’’علم غیب ‘‘ ہر گز نہیں کہا سکتاہے، ’’علم غیب‘‘ حس وادراک کی اس قوت کا نام ہے جس سے بیک وقت ہرظاہری وباطنی شے علم میں ہو۔
یہ صفت صرف اللہ عز وجل کی ہے اس صفت میں سے ذرہ برابر مقدار بھی کسی مخلوق کو عطاء نہیں ہوئی ہے ، یعنی ایک پل کے لئے بھی کسی مخلوق کوحس وادراک کی ایسی قوت نہیں دی گئی ہے جس سے وہ ایک محدود دائرہ ہی میں سہی لیکن بیک وقت ہرظاہر و باطنی شے کا علم رکھے، کسی مخلوق کے لئے اس طرح کے محدود سے محدود تر ’’علم غیب ‘‘ کا عقیدہ بھی صریح طور پرشرک ہے۔
اوراسے دوسری انتہاقرار دینا شرک کے معنی مفہوم سے ناواقفیت کی دلیل ہے، شرک کا مطلب ہی ہوتا ہے اللہ کی صفت میں شریک کرنا نہ کہ مکمل صفت الہی کو کسی مخلوق میں تسلیم کرلینا ، آج تک کسی بھی ایسے شرک کا سراغ نہیں ملا ہے جس میں مخلوق کو اللہ کی کوئی خوبی مکمل طورپر دے دی گئی ہوں بلکہ ہر طرح کے شرک میں یہی تصور ہوتا ہے کہ اللہ کی یہ صفتیں کسی مخلوق میں بھی ہیں مگر کمیت و کیفیت اور مقدار میں فرق ہے کیا پوری تاریخ انسانی میں کسی ایک بھی ایسے شرک کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جس میں مخلوق کے اندر اللہ کی کوئی مکمل صفت تسلیم کرلی گئی ہو؟؟؟ اگر شرک کا یہی مفہوم ہے تو کہنے دیجئے کہ افراد نسل انسانی میں آج تک شرک کا وقوع ہوا ہی نہیں۔
آپ مذکورہ مراسلے میں دئے گئے تمام حوالہ جات کو دیکھ لیں سب میں بعض امور غیب پر آگاہ کرنے کی بات ہے اس کا کوئی منکر ہے ہی نہیں لیکن اسے ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اورمحدود ‘‘ سے تعبیر کرنا زور زبردستی اورنصوص کے ساتھ کھلواڑ ہے۔

بالخصوص آخری حوالہ کو دیکھیں:
إلى غير هذا من الآيات التي تدل على أن الله سبحانه استأثر بعلم الغيب، لكن يطلع الله بعض عباده كالرسل والملائكة على بعض المغيبات، فيعلمون منها بقدر ما أعلمهم الله فقط،
اس میں ملائکہ کے لئے بھی وہی بات کہی گئی اورپہلے سوال اٹھایا جاچکا ہے کہ انبیاء کے لئے جس کیفیت میں علم غیب کا دعوی کیا جارہا ہے کیا ملائکہ کے پاس بھی اس طرح کا علم غیب ہے؟؟؟

یہ ظاہر ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امور غیب پر آگاہ کرنے کے لئے جبرئیل علیہ السلام آیا کرتے تھے تو مذکورہ فلسفہ کے تحت سب سے پہلے جبرئیل علیہ السلام ہی کو اس خوبی سے متصف کر نا چاہے لیکن اس سلسلے میں زبان نہیں کھل رہی ہے !!!!

پھر جس طرح یہ امور غیب جبرئیل علیہ السلام کے حوالہ سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اسی طرح یہی امور غیب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے امت تک پہنچے تو کیا امت محمدیہ کا ہر فر د ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اورمحدود‘‘ سے متصف ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

یہ بھی یاد درہے امورغیب پر آپ صلی اللہ کو آگاہ کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کو بھی ان امورغیب سے آگاہ کردیں جیسا مستدل آیات میں ہی اس کابیان ہے۔
مثلا:

{ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا (٢٦) إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (٢٧) لِيَعْلَمَ أَنْ قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ } [الجن: 26 - 28]
وه غیب کا جاننے واﻻ ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (٢٦) سوائے اس پیغمبر کے جسے وه پسند کرلے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کردیتا ہے (٢٧) تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے۔

دوسری آیت ہے :
{وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ } [آل عمران: 179]
اور نہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاه کردے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کر لیتا ہے، اس لئے تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو، اگر تم ایمان ﻻؤ اور تقویٰ کرو تو تمہارے لئے بڑا بھاری اجر ہے ۔

خط کشید ہ الفاظ پر غور کریں اللہ خود فرمارہاہے کہ انبیا کو امور غیب پر اگاہ کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ اسے امت تک پہنچائے اور امت اس پر ایمان لائے۔
اوریقینا انبیاء نے یہ فریضہ انجام دینے میں کسی طرح کی بخیلی نہیں کی ہے ، اس کی گواہی بھی خود اللہ ہی دے رہا ہے:
{وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ } [التكوير: 24]
اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں، (ترجمہ مولانا احمد رضا)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جن امورغیب پر آگاہ کیا گیا آپ نے اپنی امت کو ان سے آگاہ کرنے میں کوئی بخیلی نہیں کی ہے۔

اب بتلائیں کہ پھر امت کے افراد کے لئے بھی یہی عقیدہ کیوں نہیں اپنایا جارہا ہے کہ ہر مسلمان کے پاس بھی ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اور محدود ہے‘‘ ؟؟؟؟

بلکہ یوں کہنا چاہے کہ جس مسلمان کے پاس ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اورمحدود‘‘ نہ ہو وہ مسلمان ہی نہیں ہے، ذرا بریلوں کے معروف مفسر کے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:

غیب کی دوسری قِسم وہ ہے جس پر دلیل ہو جیسے صانِعِ عالم اور اس کی صفات اور نبوّات اور ان کے متعلقات احکام و شرائع و روز آخر اور اس کے احوال ، بَعث ، نشر ، حساب ، جزا وغیرہ کا علم جس پر دلیلیں قائم ہیں اور جو تعلیمِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے یہاں یہی مراد ہے ، اس دوسرے قسم کے غیوب جو ایمان سے علاقہ رکھتے ہیں ان کا علم و یقین ہر مومن کو حاصل ہے اگر نہ ہو آدمی مومن نہ ہو سکے ( خزائن العرفان مع کنزالایمان، تفسیرسورہ بقرہ آیت ٣)

کیا خیال ہے نکتہ اتفاق یہاں سے شروع کیا جائے یعنی پہلے ہر مسلم و مؤمن کے اندر ’’علم غیب ، عطائی ، حادث و محدود ‘‘ کی صفت مان لی جائے کیونکہ اس کے بغیر اسلام وایمان ہی معتبر نہیں ہے۔

اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’علم غیب ، عطائی ، حادث اور محدود پر بات کی جائے اورمنوایا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’علم غیب‘‘ کا بھی یہی عالم ہے جیسا کہ بریلیوں کے مفسر مذکور نے کھل کر صراحت کی ہے ملاحظہ ہوں بریلوی مفسر کے الفاظ:

اس دوسرے قسم کے غیوب جو ایمان سے علاقہ رکھتے ہیں ان کا علم و یقین ہر مومن کو حاصل ہے اگر نہ ہو آدمی مومن نہ ہو سکے اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں انبیاء و اولیاء پر جو غیوب کے دروازے کھولتا ہے وہ اسی قسم کا غیب ہے ( خزائن العرفان مع کنزالایمان ، تفسیرسورہ بقرہ آیت ٣ )

اب آئیے نکتہ اتفاق پر آپ کا خیر مقدم ہے !!!!


تنبیہ:
ہم نے عبداللہ حیدرصاحب کو شرکیہ عقائد کا حامل بتلایا ہے اس میں ہمیں ذرا بھی شک نہیں لیکن آں جناب مشرک ہیں یا نہیں یہ فیصلہ ہم کبار اہل علم پر چھوڑتے ہیں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
السلام علیکم،
مکرر عرض ہے کہ "عالم الغیب" ہونے کا مسئلہ زیر بحث ہی نہیں ہے کہ اس پر دلائل پیش کرنے کی حاجت ہو۔ لوگ دو انتہاؤں پر ہیں، ایک گروہ انبیاء و رسل کو غیب میں سے کچھ بھی دیے جانے کا انکاری ہے اور دوسرا گروہ ما کان و ما یکون کا علم ثابت کرنے لگ جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے جید علماء کی زیر نگرانی التفسیر المیسر کے نام سے ایک تفسیر شائع کی ہے۔ اس میں سورۃ الجن کی آخری آیات کی تفسیر میں لکھا ہے:
وهو سبحانه عالم بما غاب عن الأبصار، فلا يظهر على غيبه أحدًا من خلقه، إلا من اختاره الله لرسالته وارتضاه، فإنه يُطلعهم على بعض الغيب

التفسير الميسر (1 / 573)
"اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر اس شئے کا علم رکھنے والا ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہیں، وہ اپنے غیب پر مخلوق میں سے کسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے ان کے جنہیں وہ اپنی رسالت کے لیے چن لیتا اور پسند فرما لیتا ہے تو ان کو غیب میں سے بعض پر مطلع کر دیتا ہے"

امام البانی رحمہ اللہ سلسلۃ الصحیحہ میں لکھتے ہیں:
كيف يزعم هؤلاء ذلك الزعم الباطل والله عز وجل يقول في كتابه: * (عالم الغيب، فلا يظهر على غيبه أحدا إلا من ارتضى من رسول) *. فهل يعتقدون أن أولئك الأولياء رسل من رسل الله حتى يصح أن يقال إنهم يطلعون على الغيب بإطلاع الله إياهم!! سبحانك هذا بهتان عظيم.
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (3 / 103):
"یہ لوگ (اولیاء کے بارے میں) یہ غلط اعتقاد کیسے رکھتے ہیں جبکہ اللہ عز و جل اپنی کتاب میں فرماتا ہے
"وہ عالم الغیب ہے پس کسی کو اپنی غیب پر مطلع نہیں فرماتا سوائے جس رسول سے راضی ہو جائے (یا اسے پسند کر لے)"
کیا یہ لوگ اولیاء کے رسول ہونے کے معتقد ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مطلع کرنے سے غیب سے واقف ہو جاتے ہوں"

شیخ الفوزان کہتے ہیں:
كل مؤمن يؤمن بأن الله تعالى يطلق من يشاء من أنبيائه ورسله على بعض المغيبات. وهذه مسألة لا تحتاج إلى جدل، كيف؟
البيان والإشهار لكشف زيغ الملحد الحاج مختار (1 / 306):


سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ ہے:
إلى غير هذا من الآيات التي تدل على أن الله سبحانه استأثر بعلم الغيب، لكن يطلع الله بعض عباده كالرسل والملائكة على بعض المغيبات، فيعلمون منها بقدر ما أعلمهم الله فقط،

کیا یہ سب علماء بھی مشرک ہیں؟
والسلام علیکم
نہیں یہ مشرک نہیں ہیں !
کیونکہ آپ ان عبارات سے جو نکالنا چاہتے ہیں وہ ان میں نہیں ہے !!!
بلکہ ان میں اسی چیز کا اثبات ہے جسکا اثبات ہم کر رہے ہیں اور اسی کی نفی جسکی کہ ہم کر رہے ہیں !!!
یعنی غیب پر اطلاع پانے یا غیب کی خبر جاننے لینے یا خبر غیب عطاء کردینے کا اثبات ہے جسکے ہم قائل ہیں
اور علم غیب کے عطاء ہونے کی نفی ہے خواہ وہ حادث ، یا قدیم ، یا محدود یا کچھ بھی اور ہو !
اور دونوں باتوں میں بعد المشرقین ہے !

اب آپ ارشاد فرما رہے ہیں کہ "عالم الغیب" ہونے کا مسئلہ زیر بحث ہی نہیں ہے جبکہ پہلی پوسٹ میں علم غیب ہی کی نسبت امام الانبیاء صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے پر آپ مصر تھے
ملاحظہ فرمائیں :
السلام علیکم، کل پیر کرم شاہ صاحب الازہری کی تفسیر ضیاء القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے مسئلہ علم الغیب کی توضیح میں یہ عبارت ملی ہے:
"اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات کی طرح اس کی یہ صفت بھی قدیم ہے، ذاتی ہے اور غیر متناہی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے، اس کی عین حیات میں بھی، اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے۔ نیز اس کا یہ علم اس کا اپنا ہے۔ کسی نے اس کو سکھایا نہیں ہے نیز اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے، نہ نہایت۔ اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔

اس لیے حضور پرنور امام الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم کا علم مبارک خداوند کریم کے علم کی طرح قدیم نہیں بلکہ حادث ہے یعنی پہلے نہیں تھا، بعد میں اللہ تعالیٰ کے تعلیم کرنے سے حاصل ہوا۔ خداوند کریم کے علم کی طرح غیر متناہی اور محدود نہیں بلکہ متناہی اور محدود ہے۔ اور اللہ تعالٰ کے علم محیط کے ساتھ حضور فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم کی نسبت اتنی بھی نہیں جتنی پانی کے ایک قطرہ کو دنیا بھر کے سمندروں سے ہے۔

ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ حادث، عطائی اور محدود علم اتنا محدود نہیں جتنا بعض حضرات نے سمجھ رکھا ہے۔ اس کی وسعتوں کو یا دینے والا جانتا ہے یا لینے والا۔ یا سکھانے والے کو پتہ ہے یا سیکھنے والے کو۔ ہم تم تو کسی گنتی میں ہیں"۔
(ضیاء القرآن جلد سوم ص ٤٥٨)
کیا یہ عبارت اہل الحدیث، دیوبندی اور بریلوی حضرات کے درمیان نکتہ اتفاق قرار پا سکتی ہے؟
والسلام علیکم
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ہم نے عبداللہ حیدرصاحب کو شرکیہ عقائد کا حامل بتلایا ہے اس میں ہمیں ذرا بھی شک نہیں۔۔۔
میرا نہیں خیال کہ عبد اللہ حیدر بھائی کا یہ کوئی پختہ عقیدہ ہے بلکہ میرے خیال میں ان کے ذہن میں ایک نکتہ تھا جسے وہ مباحثہ یا مکالمہ کے ذریعے کھولنا یا سمجھنا چاہ رہے تھے اور آپ اہل علم حضرات کی تحریروں سے خوب وضاحت ہو گئی ہے اور ان کے ذہن میں جو اشکالات تھے وہ بجا تھے اور وہ بعض اہل علم کی بعض عبارتوں سے پیدا ہوئے تھے اور آپ نے ان اشکالات کی بھی خوب تشریح وتوضیح کر دی ہے پس اس مکالمہ کا خلاصہ یہی ہے کہ اس قسم کے نکات کو عقیدہ بنانا درست نہیں ہے لہذا عبد اللہ حیدر بھائی کو بھی اس بات کو قبول کرنے میں کوئی توقف نہیں ہو گا۔
انسان کا ذہن بعض اوقات ایک مسئلہ میں واضح نہیں ہوتا ہے یا الجھن کا شکار ہو جاتا ہے لہذا ایسے بھائیوں کو سوچنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ الحمد للہ! عبد اللہ حیدر بھائی سلیم الفطرت انسان ہیں لیکن ان کے ذہن میں ایک خلش یا اشکال موجود ہے، جس کو رفع کرنے کے لیے ہمارے دوسرے بھائیوں نے کافی تفصیل سے دلائل نقل کیے ہیں۔ امید ہے کہ عبد اللہ حیدر بھائی کی خلش یا الجھن دور ہو گئی ہو گی۔ اگر نہیں تو وہ ان مذکورہ بالا دلائل پر مزید غور کرتے رہیں، ان شاء اللہ، ذہن کھل جائے گا۔
اللہ تعالیی ہم سب کی حق بات کی طرف رہنمائی فرمائے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
میرا نہیں خیال کہ عبد اللہ حیدر بھائی کا یہ کوئی پختہ عقیدہ ہے
جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
اگر یہی وضاحت عبداللہ حیدر بھائی کی طرف سے ہوجائے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
یہ امت خرافات میں کھوگئی
حقیقت ’’روایات‘‘میں کھوگئی
یہ کہنے والے ہیں علامہ اقبال ۔علامہ اقبال کامطالعہ کافی وسیع تھا اورقوموں کے عروج وزوال پرگہری نگاہ تھی۔ یہاں عبداللہ حیدرصاحب نے بریلوی حضرات میں سے ایک صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کیاجوبہت حد تک اسلامی تصورات سے ہم آہنگ یااس کے قریب قریب ہے۔مقصد یہ تھاکہ بڑے صغیرمیں تین بڑے اسلام دھڑوں کے مابین جواختلافات ہیں ان میں ان میں نکتہ اشتراک زیادہ سے زیادہ نکالاجائے۔
لیکن افسوس کہ اب عبداللہ حیدرصاحب کی ذات ہی ہدف تنقید بن گئی ہے اوران کو ہی ’’شرکیہ خیالات کے حامل ‘‘جیسے الفاظ سے خطاب مل رہاہے۔
میں نے عیسائیوں اورمسلمانوں کے درمیان قرآن کریم میں موجودنکتہ اشتراک کی طرف توجہ دلائی تھی اورکہاتھاکہ اس وقت بھی ان کا تصورالہ صحیح نہیں تھا۔
کچھ حضرات نے اسی آیت کو مکمل صورت میں پیش کیاہے ۔لیکن میں نہیں سمجھتاکہ اس سے میری کہی ہوئی باتوں پر کوئی فرق پڑتاہے کیااسلامی تصورالہ صرف خدائے واحد کی عبادت اورپرستش تک ہی محدود ہے۔ عقائد کی کتابوں میں جو تفصیلات ہیں کیاوہ سب بیکار محض ہیں۔ امام طحاوی نے عقائد پر جوکتاب لکھی ہے اوراس میں تصورالہ کو تفصیل سے پیش کیاہے اوراسی طرح حضرت ابن تیمیہ اوردیگر علماء اسلام نے جوکچھ عقائد پر لکھاہے میراخیال ہے کہ جس نے بھی مطالعہ کیاہوگاوہ جانتاہے کہ اسلامی تصورالہ آیت میں پیش کردہ امور سے کہیں زائد ہے ۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ بنیادی بات آیت میں بیان کی گئی ہے۔ لیکن تفاصیل سے صرف نظر کرلیاگیاہے۔
جمشید بھائی! ذرا غور کیجئے گا کہ آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عیسائیوں کے ’تصورِ الٰہ‘ کو نکتہ اشتراک نہیں بنایا، بلکہ وہ نکتہ اشتراک اللہ رب العٰلمین - ومن أصدق من الله قيلا - نے اپنے مبارک الفاظ میں بیان فرمایا تھا کہ
أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللهِ
یہی توہم بھی کہناچاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے ایک بات کو مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان نکتہ اشتراک بنایا۔اوربقیہ تفاصیل کو ضروری نہیں سمجھا۔ اگرمخاطب اس حدتک مان لے تواس نے گویاآدھاپل پار کرلیا۔ اب محض تھوڑی کوشش کی ضرورت رہ جاتی ہے۔
بریلوی حضرات پہلے بھی علم غیب کو الفاظ کے ہیرپھیر میں چھپایاکرتے تھے اورکچھ توعلی الاعلان حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوعالم الغیب ماناکرتے تھے۔اب جب بریلویوں کے ایک مقتدر عالم نے یہ بات کھل کر کہی ہے کہ حضور بالذات اورمستقلاعالم الغیب نہیں تھے اورنہ ان کو بالذات اوراستقلالی طورپر علم غیب حاصل تھا توآدھی بات توانہوں نے طے کردی اب جو اس کی تفاصیل ہیں کہ ذاتی ،حادث وغیرہ اس پر تبادلہ خیال کیاجاسکتاہے اورصحیح اسلامی تعلیمات سے ان کو آگاہ کرایاجاسکتاہے ۔
لیکن فی الحال یہ بات نکتہ اشتراک توضرور قرارپاسکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ۔اسی کے ساتھ یہ کہنابھی ضروری ہے کہ جن کو ان خیالات سے اتفاق نہ ہو وہ علم اوردلیل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔ کسی کو شرکیہ خیالات کاحامل قراردینا بڑی جرات کی بات ہے ۔اللہ ہم سب کو دین کے صحیح فہم اوراس پر عمل کی توفیق دے۔وماعلیناالاالبلاغ
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
122
ری ایکشن اسکور
422
پوائنٹ
76
تنبیہ:
ہم نے عبداللہ حیدرصاحب کو شرکیہ عقائد کا حامل بتلایا ہے اس میں ہمیں ذرا بھی شک نہیں لیکن آں جناب مشرک ہیں یا نہیں یہ فیصلہ ہم کبار اہل علم پر چھوڑتے ہیں۔

ماشاءاللہ سبحان اللہ
عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایما امری قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال والا رجعت علیہ

شیخ اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
تنبیہ:
ہم نے عبداللہ حیدرصاحب کو شرکیہ عقائد کا حامل بتلایا ہے اس میں ہمیں ذرا بھی شک نہیں لیکن آں جناب مشرک ہیں یا نہیں یہ فیصلہ ہم کبار اہل علم پر چھوڑتے ہیں۔
ماشاءاللہ سبحان اللہ
عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایما امری قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال والا رجعت علیہ

شیخ اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
حدیث میں کافر کہنے کی بات ہے اورہم نے کسی کو کافر یا مشرک نہیں کہا بلکہ صراحۃ اس سے براءت ظاہر کی ہے آپ نے میرے کلام کا جواقتباس پیش کیا ہے خود اسی میں یہ صراحت موجود ہے کہ’’لیکن آں جناب مشرک ہیں یا نہیں یہ فیصلہ ہم کبار اہل علم پر چھوڑتے ہیں ‘‘
یاررہے کہ کسی کو شرکیہ عقائد کا حامل بتلانا اورکسی کو مشرک کہنا دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ، لیکن جن حضرات کو ’’علم غیب، عطائی، حادث،محدود‘‘ اور ’’امورغیب پرآگاہی‘‘ کا فرق معلوم نہیں ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے وہ کسی کو ’’شرکیہ عقائد کا حامل‘‘ بتلانے اور ’’مشرک‘‘ بتلانے میں فرق کریں گے۔
حالانکہ پہلے بھی اس کی وضاحت کی جاچکی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ یہ شرک کا مسئلہ ہے اس لئے اس میں ہم کسی کی طرح کی بھی مداہنت یا مفاہمت پر آمادہ نہیں ہوسکتے، اورشرک کسی بھی بھیس میں آئے ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتا۔
تنبیہہ: طنزیہ عبارت حذف کی گئی ہے۔انتظامیہ
 
Top