• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب ۸
حدیثی علوم کی انواع

امام ابن الصلاح ؒنے علوم حدیث کی کل 65انواع بتائی ہیں اور ان کے بقول یہ حتمی انواع نہیں بلکہ مزیدکی گنجائش بھی ہو سکتی ہیں۔ ابن الملقن نے دوسو سے زائد انواع بتائی ہیں۔امام ابن حبان نے صرف ضعیف حدیث کی انچاس اقسام بتائی ہیں۔ جنہیں مدغم کرکے کم بھی کیا جاسکتا ہے۔مگرہر نوع کی اپنی مستقل حیثیت ہے۔اور اس پر کتاب بھی۔

۱۔ علم مختلف الحدیث:
اسے اختلاف الحدیث، تلفیق الحدیث، تأویل مختلف الحدیث، تأدیل مشکل الحدیث وغیرہ بھی کہتے ہیں۔جس سے مراد: دو ایسی مقبول احادیث جو معنوی موافقت کے باوجود بظاہر متعارض ہوں جن کا جائزہ بغیر تکلف واشکال کے ہو اور ان کے مابین تطبیق یا جمع کرنا ممکن ہو۔ابن الصلاح لکھتے ہیں:

اس بظاہرباہمی مخالفت کی نفی کرکے تطبیق دینا اور انہی دونوں احادیث کے مطابق فتوی دینا ہی تعارض کو رفع کرنا ہے۔(مقدمہ ابن الصلاح: ۱۴۳)

ظاہر تعارض کا مطلب یہ ہے کہ سنت نبوی میں حقیقی تعارض محال ہے۔(الکفایۃ : ۴۳۳)

مثال:۔ صحیح بخاری میں حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :

لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا ھَامَةَ، وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الاَسَدِ۔ بیماری کی چھوت ، نہ بدفالی، اور نہ ہی الو اور نہ ہی کوئی صفر مہینے کی نحوست ہے ۔اور مجذوم سے اس طرح بھاگو جیسا کہ شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو۔

اور پھرصحیح مسلم کی یہ حدیث :

لَا یُوْرَدُ مُمَرِّضٌ عَلَی مُصِحٍّ۔ بیمار کو صحت مند کے پاس مت لایا جائے۔

آپﷺ نے بدو کے اس سوال پر کہ:

أَرَأَیْتَ الإبِلَ تَکُونُ فِی الرَّمَالِ أَمْثَالَ الظِّبَاءِ ، فَیَأتِیْھَا الْبَعِیْرُ الاَجْرَبُ فَتَجْرَبُ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: فَمَنْ أَعْدَی الاَوَّلَ؟ آپ یہ بتائیے کہ اونٹ جو صحرا میں ہرنیوں کے مانند پھیلے ہوتے ہیں تو ان کے پاس ایک خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے اور دوسروں کو خارش ہوجاتی ہے؟ تو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پہلے کو کس نے خارش زدہ کیا؟

جمع کی صورت:
ان بظاہر متعارض احادیث میں علماء نے جمع کی صورت یہ نکالی ہے کہ معجزہ پر ایمان رکھنے والی قوم کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ (فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ) اللہ تعالی ہی ہے۔ اسباب بھی اسی کے ہیں اور مسبب بھی وہی ہے۔ سبب ہو مسبب نہ ہو یہ بھی عام دیکھنے میں آتا ہے اسی طرح مسبب ہومگر سبب نہ ہو یہ بھی ممکن ہے۔ ان احادیث میں ان خیالات کو ختم کیا گیا ہے جو عرب یا مختلف اقوام رکھتی تھیں کہ بعض بیماریاں متعدی ہوتی ہیں۔ نہیں بلکہ بیماری حکم الٰہی سے ہوتی ہے نہ کہ کسی کی چھوت لگنے سے۔جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ گھر میں ایک فرد نزلہ وزکام کی وجہ سے بیمارہے تو باقی سبھی صحت مند ہیں۔باقی شیر سے بھاگنے اور صحتمند کا بیمار کے پاس نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ متعدی کا عقیدہ غلط ہے کہ نتائج کو اسباب کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ یہ عقلی بات تو ہے کہ جو اسباب اللہ تعالی نے رکھے ہیں انہیں اختیار کرنے سے شریعت منع نہیں کرتی۔مگر جو اللہ تعالی نے قدر میں لکھا ہے وہ بھی توہوکر رہے گا۔اسی لئے جمع کے بعد دونوں احادیث محکم ہوجاتی ہیں۔یعنی معارضت سے یہ محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اکثر احادیث محکم ہی ہیں کوئی معارض نص نہ تو قرآن کریم میں ملتی ہے اورنہ حدیث میں خواہ وہ ظاہری ہی کیوں نہ ہو۔اگر کہیں کسی کو تعارض یا اختلاف نظر آتا ہے تو یہ اس کے فہم کا ہے جو کم یاکوتاہ ہوسکتا ہے۔امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:

علم حدیث کی یہ انتہائی اہم نوع ہے۔ علماء فنون اسے جاننے اور سمجھنے پر مجبور ہیں۔اس کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جو حدیث وفقہ دونوں کا علم رکھتا ہو نیز اس کی باریکیوں کا واقف حال بھی۔(اصول الحدیث از صبحی صالح: ۲۸۴)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غالباً اسی بناء پر امام ابن الصلاحؒنے امام ابن خزیمہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:
میں نہیں سمجھتا کہ دو احادیث میں تضاد ہو۔ اگرکوئی سمجھتا ہے کہ ان میں تعارض ہے تو میرے پاس انہیں لائیے میں یہ تناقض دور کر کے دکھا دوں گا۔ (مقدمہ: ۲۸۵)

اختلاف کی شروط:
۱۔دونوں احادیث مقبول ہوں۔
۲۔ جس حدیث سے اختلاف ہے وہ دوسری ہو جو پہلی سے بظاہر اختلاف کرتی ہو۔ جن کا پہلا حصہ دوسری حدیث کے آخری حصہ سے یا آخری حصہ پہلے حصہ سے متعارض ہو ان احادیث کومشکل الحدیث میں شامل کیا گیا ہے۔
۳۔ متعار ض حدیث قابل احتجاج ہو اگرچہ وہ رتبہ میں صحیح، حسن کے لحاظ سے اپنے معارض کے باربر نہ بھی ہو۔
۴۔ ان دو متعارض احادیث میں جمع وتطبیق بھی ممکن ہو۔
۵۔ احادیث میں اختلاف یاتعارض کے ثبوت کے لئے ایسی دو صحیح احادیث کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ضروری ہے جو ہم پلہ ہوں اور ان کے درمیان صحت و ضعف یا ناسخ و منسوخ کا مسئلہ نہ ہو۔ورنہ ایسی احادیث کے درمیان جمع و تطبیق ( Combination & Adjustment)نہیں ہوسکتی۔ مسائل کا استنباط تو بہت دور کی بات ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ازالہ کی صورتیں:

محدثین کرام نے ایسی احادیث کے مابین تعارض کو رفع کرنے کی متعدد شکلیں بیان فرمائی ہیں۔ مثلاً:
۱۔ اولاً یہ کوشش کی جائے کہ دو متعارض روایات کی ایسی تشریح کی جائے جس میں بغیر کسی تکلف کے دونوں روایات کا تعارض دور ہو جائے۔اگر یہ تعارض دور ہوجائے تو ان احادیث کو باہم جمع کرنا اور دونوں پر عمل کرنا بھی واجب ہوگا۔
۲۔ثانیاً اس روایت کو ترجیح دی جائے جو راویوں کی کثرت یا ان کی عدالت و القاب کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتی ہو۔ (مقدمہ ابن الصلاح: ۲۸۴)
نوٹ: جس طرح قرآن کریم میں بظاہر لفظی ومعنوی اختلاف مثلاً: عصا کو پتھر پر مارنے سے جو پانی پھوٹا اس کے لئے قرآن مجید میں کہیں فانفجرت کا لفظ ہے تو کہیں فانبجست کا۔ اسی طرح متوفی یا یتوفی کے الفاظ ہیں۔یہی حال حدیث کے متن کا بھی ہے۔ علمائے تفسیرنے جس طرح ان مختلف الفاظ کے معنی ومفہوم میں جمع و تطبیق کی اور اس کے تعارض کو رفع کیا ہے اسی طرح مختلف احادیث کے مابین محدثین نے بھی جمع و تطبیق کی ہے۔
نوٹ: یہ تعارض شاید اس اختلاف سے نسبتاً بہت کم ہے جوایک ہی مسلک کے فقہاء کے مابین فروع واصول میں پایا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام نووی رحمہ اللہ المجموع شرح المہذب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
واعْلَمْ أَنَّ کُتُبَ الْمَذْھَبِ فِیْھَا اخْتِلَافٌ شَدِیْدٌ بَیْنَ الاَصْحَابِ بِحَیْثُ لَا یَحْصُلُ لِلْمُطَالِعِ وُثُوْقٌ یَکُوْنُ مَا قَالَہُ مُصَنِّفٌ مِنْھُمْ ھُوَ الْمَذْھَبُ۔تمہیں علم ہونا چاہئے کہ مذہبی فقہی کتابوں میں اصحاب مذہب کے مابین بڑا شدید اختلاف اس حد تک ہے کہ مطالعہ کرنے والے کو مذہب کے بارے میں وہ وثوق حاصل نہیں ہوپاتا جو مصنف نے کہا ہوتا ہے۔ (ص: ۱۸)
اگرچہ اس اختلاف کو چھپانے کیلئے مُفْتٰی بِھَا کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے مگرپھر بھی فقہی کتب میں موجود شدیداختلاف اپنی جگہ بدستور ہے۔
تصانیف:
اولاً اس موضوع پر امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب اخْتِلافُ الْحَدِیْثِ لکھی جو الگ چھپ چکی ہے۔ اسی طرح امام ابومحمد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ(م: ۲۷۶ھ) نے تَأوِیُلُ مُخْتَلَفِ الْحَدِیثِ لکھی ۔ ابوبکر محمد بن الحسن بن فورک انصاری (م:۴۰۶ھ) نے مُشْکِلُ الْحَدِیْثِ وَبَیَانُہُ لکھی جو مطبوع ہے۔
۲۔علم ناسخ ومنسوخ:
لغت میں نسخ: ازالہ و نقل وتحویل کو کہتے ہیں۔

اصطلاح میں:
حکم شرعی کا تعلق متأخر حکم شرعی سے بذریعہ شرعی دلیل ختم کردیا جائے۔ حکم کو رفع کرنے سے مراد اس کا تعلق مکلف لوگوں سے کاٹ دیا جائے۔کیونکہ قدیم حکم مرتفع نہیں ہوتا۔ جب مکلف صحتمند ہو تو کہا جاتا ہے : اس سے حکم شرعی متعلق ہے اور اگر پاگل ہوجائے: تو کہتے ہیں: اِرتَفَعَ عَنْہُ الْحُکْمُ۔ اس سے حکم اٹھ گیا ہے۔یعنی حکم کا تعلق اب اس سے نہیں رہا۔

ناسخ:
ایسی دلیل جس سے پہلا حکم شرعی ختم ہوجائے یا واضح ہوجائے۔یہ مجازی نام ہے کیونکہ درحقیقت ناسخ اللہ تعالی ہی کی ذات ہے نہ کہ متاخر دلیل۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ ۔۔}۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں صحابہ کرام نسخ کا لفظ وضاحت کے معنی بھی استعمال کرتے تھے۔ یعنی جہاں ابہام ہوتا دوسری جگہ اس کی وضاحت کردیتی۔ (تفسیر ابن کثیر، البقرۃ : ۲۸۵)

منسوخ:
یہ سابق حکم ہوتا ہے جو متأخر دلیل سے ختم ہوجاتا ہے۔جیسے: آپ ﷺ سے سرگوشی سے قبل صدقہ کا حکم اور پھر بعد میں ختم کردینا۔ یا متوفی عنہا زوجہا کا ایک سال انتظار کرنے کا حکم جو منسوخ ہوگیا۔

یہ علم، علوم حدیث کا انتہائی اہم، مشکل اور دقیق علم ہے۔امام زہریؒ فرمایا کرتے:

أَعْیَا الْفُقَھَاءَ وَأعْجَزَھُمْ أَن یَعْرِفُوا ناسخَ الحَدیثِ مِنْ مَنْسُوخِہِ۔ حدیث میں ناسخ ومنسوخ کے علم نے فقہاء کو تھکا مارا اور عاجز کردیا کہ وہ اس علم کو پہچان سکیں۔

امام شافعی رحمہ اللہ کو اس علم میں ید ِطولیٰ حاصل تھا۔امام احمد بن حنبل ؒ نے ایک بار محمد بن مسلم بن وارۃ (م: ۲۷۰ھ)سے جو مصر سے آئے تھے۔ دریافت کیا:

کَتَبْتَ کُتُبَ الشَّافِعِی؟ کیا تم نے امام شافعی کی کتب لکھی ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: فَرَّطتَّ۔ آپ نے بہت زیادتی کی۔ مَا عَلِمْنَا الْمُجْمَلَ مِنَ الْمُفسرِ، و لاناسخَ الحدیثِ ومَنسوخَہُ حَتّٰی جَالَسْنَا الشَّافِعِیَّ۔ ہم تو مجمل کو مفسر سے یا ناسخ حدیث و منسوخ کوپہچان ہی نہ سکے جب تک ہم امام شافعی رحمہ اللہ کے پاس بیٹھ کر مستفید نہ ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک قصہ گو کے پاس سے گذرے تو اس سے دریافت کیا : کیا تم ناسخ و منسوخ کو جانتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ؓ نے فرمایا: ھَلَکْتَ وَأَھْلَکْتَ۔ تم بھی ہلاک ہوئے اور لوگوں کو بھی تم نے ہلاک کیا۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کوئی سوال ہوا تو فرمانے لگے فتوی تو وہ دیا کرتا ہے جو ناسخ ومنسوخ کو جانتا ہو۔ لوگوں نے پوچھا : ایسا کون ہوسکتا ہے؟ فرمایا: سیدناعمر۔ رضی اللہ عنہ۔
حدیث میں ناسخ ومنسوخ کو اس وقت زیر بحث لایا جاتا ہے جب دو احادیث یا نصوص متعارض ہوں۔ اور ان کے مابین جمع کی کوئی صورت نہ ہو۔ناسخ ومنسوخ میں ہر حدیث کی تاریخ دیکھی جاتی ہے کہ ان میں کون سی متقدم ہے اور کون سی متأخر۔ متأخر نص ناسخ بن جاتی ہے اور متقدم منسوخ۔

نسخ کو جاننے کا طریقہ:
مختلف طریقے علماء نے بتائے ہیں۔ جن میں:

کبھی یہ ناسخ آپ ﷺ کے ارشاد سے واضح ہوجاتا ہے۔ مثلاً: بریدہ بن الحصیب الاسلمی سے مروی ہے:

کُنْتُ نَھَیتُکُم عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُور فَزُورُوھَا، وَنَھَیْتُکُمْ عَنْ لُحُوْمِ الاَضَاحِیْ فَوْقَ ثَلَاثِ فَأَمْسِکُوْا مَا بَدَا لَکُمْ، وَنَھَیْتُکُمْ عَنِ النَّبِیْذِ إِلاَّ فِیْ سِقَاءٍ فَاشْرَبُوا فِی الاَسْقِیَةِ کُلِّھَا وَلَا تَشْرَبُوا مُسْکِرًا۔ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا ۔ پس قبرستان جایا کرو۔ میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ کے لئے جمع کرنے سے روکا تھا اب جو دل چاہے جمع کرلو۔میں نے تمہیں نبیذ سے روکا تھا سوائے مخصوص برتنوں میں پینے سے۔ اب تمام برتنوں میں نبیذ پی سکتے ہو اور مسکر مت پینا۔ (صحیح مسلم: ۳؍۶۵)

اورکبھی یہ علم تاریخ اور علم سیرت سے مستفاد ہوتا ہے جو ناسخ ومنسوخ حدیث کی پہچان میں بڑا مددگار ثابت ہوا ہے۔مثلاً: شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کی روایت: أَفْطَرَ الْحَاجِمَ وَالْمَحْجُومَ۔ مگر سیدنا ابن عباس کی حدیث جس میں : اِحْتَجَمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَ ھُوَ مُحْرِمٌ وَصَائِمٌ۔ کے الفاظ ہیں۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ پہلی حدیث فتح مکہ کے دوران کی ہے ۔ اور دوسری حدیث حجۃ الوداع کی ہے۔ اس لئے یہ پہلی حدیث کی ناسخ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح صحابی کے قول سے بھی اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہے: جیسے: جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: کَانَ آخِرَ الامْرَیْنِ دو کاموں میں آخری کام یہ تھا۔(سنن النسائی، کتاب الظہارۃ) یاسیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت: کَانَ الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ رُخْصَةً فِی أولِ الإسلامِ ثُمَّ أُمِرَ بِالغُسْلِ۔ (سنن الترمذی کتاب الطہارۃ)پانی پانی سے ہے اس کی رخصت شروع اسلام میں تھی بعد میں غسل کرنے کا حکم دیا گیا۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ چونکہ متأخر اسلام تھے اس لئے ان کی بیشترمرویات ناسخ بھی ہیں۔سیدنا ابوہریرہ ؓ ائمہ اجتہاد میں سے تھے اور فتوی دینے کے اہل بھی ۔ اس لئے ان سے ثابت شدہ سنن کو محض دعووں سے منسوخ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔

مگر اصولی حضرات کا کہنا ہے کہ صحابی کا قول یہ ثبوت ضرور مہیا کرے کہ یہ خبر متأخر ہے مثلاً وہ یہ کہے: ھَذَا کَانَ قَبْلَ ھَذَا۔ یہ اس سے پہلے تھا۔ کیونکہ اب وہ ناقل ہے اور ثقہ بھی۔ اس لئے اس کی یہ روایت قبول ہو گی۔لیکن صرف: یہ منسوخ ہے۔ کہنے سے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔بلکہ وہ اس قول کو اجتہاد کی ایک قسم سمجھتے ہیں جس میں خطا ہوسکتی ہے اس لئے یہ حجت نہیں۔

امام عراقی رحمہ اللہ اور دیگر محدثین نے اس شرط کو رد کیا ہے بلکہ محدثین کا موقف زیادہ واضح اور مشہور ہونے کی تائید کی ہے۔کہ انہوں نے اصولیوں کی طرح یہ شرائط نہیں لگائیں بلکہ جب بھی صحابی خبر دے کہ یہ نص ناسخ ہے تو کافی ہے۔ورنہ:

…نسخ :
اجتہاد اور رائے سے نہیں ہوتا اور نہ ہی ثابت ہوتا ہے۔

…صحابہ کرام اس بات سے کہیں زیادہ محتاط تھے کہ کوئی ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ یہ حکم شرعی منسوخ ہوگیا ہے اور انہیں اس بات کا علم ہی نہ تھا کہ یہ ناسخ ، منسوخ کے بعد ہواہے۔

ناسخ ومنسوخ کی دلیل خبر رسول اللہ ﷺ سے ہی ہوگی ۔جس کے بارے میں وقت بتائے گا کہ ان میں پہلا حکم کون سا اور متأخر کون سا؟یا جس نے حدیث سنی ہو وہ کہے۔ یا عام لوگ کہیں۔وہ صحابی جو متأخر اسلام ہیں۔ تعارض کی صورت میں ان کی حدیث صحابی متقدم کی حدیث کی دو صورتوں میں ناسخ ہوگی۔

۱۔ متأخر اسلام صحابی بصراحت کہے کہ اس نے خود نبی ﷺ سے سنا ہے۔ اسی طرح بغیر صراحت کے اس کی حدیث ناسخ نہیں ہوگی کیونکہ ہوسکتا ہے اس نے یہ حدیث کسی اور قدیم صحابی سے یا ہم عمر سے سنی ہو پھر اسے مرسل بیان کیا ہو۔

۲۔ متاخر اسلام صحابی نے اپنے اسلام سے قبل کوئی حدیث نبی ﷺ کی نہ سنی ہو۔اگر ایسا ہے تو پھر بھی تصریح سماع کافی نہیں جب تک وہ یہ نہ کہے کہ میں نے یہ حدیث اسلام لانے کے بعد آپ ﷺ سے سنی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شرائط:
نسخ کی یہ شرط بھی ہے کہ وہ صرف آپ ﷺ ہی کی طرف سے ہو نہ کہ کسی اور کی طرف سے ورنہ یہ نسخ نہیں ہوگا۔ جیسے دنیاوی قوانین، شرعی احکام ونصوص کے ناسخ نہیں ہوسکتے۔دوسری شرط یہ ہے کہ شارع حکم سابق کو اٹھالے اور نئے مسئلے کو نئے حکم سے بدل دیا ہے تو یہ نسخ نہیں۔اور یہ بھی شرط ہے کہ ناسخ متأخر ہو اور منسوخ متقدم۔ اگر دونوں اکٹھے ہوں جیسے مجمل کی وضاحت وغیرہ تویہ نسخ نہیں۔آخری شرط یہ ہے کہ حکم سابق حکم لاحق سے منسوخ ہو۔ جب مکلف فوت ہوجائے یا اس کی تکلیف اس سے زائل ہوگئی ہے تو یہ نسخ نہیں ہوگا۔اسی طرح اگر حکم ، علت کے ختم ہونے پر ختم ہوجائے تو اسے بھی نسخ نہیں کہتے۔جیسے روزہ کو آپ ﷺ نے یہ کہہ کر کھلوادیا: إنَّکُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوٰی لَکُمْ۔ تم اپنے دشمن کے قریب آگئے ہو افطار تمہارے لئے زیادہ قوت کا باعث ہوگا۔ تو یہ رخصت تھی۔ ہم میں کسی نے افطار کیا اور کسی نے روزہ باقی رکھا۔ پھر اگلی منزل پر آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: إنَّکُمْ مُصَبِّحُوا عَدُوَّکُمْ، وَالْفِطْرُ أَقْوٰی لَکُمْ فَأَفْطِرُوْا۔ تم صبح دشمن کے پاس کروگے اس لئے افطار تمہارے لئے باعت تقویت ہوگا۔ یہ عزیمت تھی تو ہم نے افطار کیا۔ ابو سعید خدریؓکہتے ہیں: بعد میں سفر کرتے تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ روزہ رکھا کرتے۔مراد یہ کہ سابق روزہ ، متاخر روزہ کا ناسخ نہیں بنا۔ (صحیح مسلم)
محدثین کرام میں سے امام ابو بکر الحازمیؒ(م: ۵۸۴ھ)ہی پہلے فرد ہیں جنہوں نے اس موضوع پر کتاب الاعتبار لکھی جس میں تقریباً پچاس اصول ناسخ ومنسوخ ضبط کئے۔ امام زین الدین العراقی ؒ(م: ۸۰۶ھ)نے التقیید والإیضاح میں سو سے زائد وجوہ ترجیح بیان کی ہیں جو بہت وقیع اور دل چسپ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔علم علل حدیث:
اس حدیث میں ایک مخفی علت ہوتی ہے جو اس کی ثقاہت کوImpugn چیلنج کرتی ہے۔یہ حدیث علت سے خالی لگتی ہے اور بظاہر ثقہ راویوں کو دکھاتی ہے اور متن کو بھی۔ مگر ہوتی وہاں علت ہی ہے۔مثلاً:
اگر ایک راوی حدیث کو روایت کرے اور دوسرے اس سے اختلاف کررہے ہوں تو یہ اس مخفی علت کو باور کرانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔مزید ماہرین حدیث کچھ دیگر علل سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جیسے : ایک متصل حدیث میں ارسال خفی ہویا وہ موقوف ہو۔یا ایک متن کو دوسرے متن حدیث میں ضم کردیا گیا ہویا کوئی اور مخفی غلطی ہو۔ ایسی صورت میں ماہر حدیث اس روایت کے بارے میں شک کرتا ہے۔ یا تووہ اس حدیث کے خلاف اپنی نقد کرے گا یا پھر اپنی تنقید کو روک لے گا۔

علت کیسے معلوم ہوتی ہے؟
ان مخفی اور پوشیدہ علل کو واضح کرنے اور بیان کرنے کی ضرورت محدثین کرام کو اس لئے پیش آئی کہ بعض حدیث سے لا تعلق بزرگوں نے روایت حدیث کو اختیار کیا اور اپنی کتب میں احادیث کو بیان کرکے ان میں مخفی اور دقیق سقم پیدا کردیے۔جیسے: منقطع حدیث کو متصل بنادیا، یا موقوف کو مرفوع بنادیا، یا ایک حدیث کے متن کو دوسری حدیث کے متن میں داخل کردینا۔ ثقہ کی موصول روایت کو مرسل بیان کرنا۔یہ سب مخفی کام تھے جن کا جاننا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔اس لئے محدثین کرام ان خفیہ اسباب و علل کو جاننے کے لئے حدیث کے تمام طرق یعنی اسانید کو جمع کرتے ہیں اور پھر راویوں کے ضبط اور اتقان میں موازنہ کر کے ان کے اختلاف میں غور کرتے ہیں اس طرح انہیں وہ پوشیدہ عیب اس حدیث میں مل جاتا ہے جسے وہ علت کہتے ہیں۔ یہی سبب علت ہے جس کی بناء پر حدیث ضعیف قرار پاتی ہے اگرچہ بظاہر اس میں کوئی عیب نظر نہیں آتا۔بسر بن سعید اپنے شاگردوں کو اس بارے محتاط وبیدار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اتَّقُوا اللہَ وَتَحْفَظُوا مِنَ الحدیثِ، فَوَاللہِ لَقَد رَأَیْتُنَا نُجَالِسُ أَباھریرةَ، فَیُحَدِّثُ عَن رسولِ للہِ ﷺ، وَ یُحَدِّثُنا عَنْ کَعْبٍ، ثُمَّ یَقُومُ فَاَسْمَعُ بَعْضَ مَنْ کانَ مَعَنَا یَجْعَلُ حَدیثَ رسول اللہِ ﷺ عَنْ کَعْبٍ وَ یَجْعَلُ حدیثَ کَعْبٍ عَنْ رسولِ اللہ ﷺ۔ خدا کا خوف کرو۔ اور حدیث کو بخوبی یاد کیا کرو۔ بخدا ہم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مجلس حدیث میں بیٹھتے وہ ہمیں رسول اکرم ﷺ کی احادیث سناتے اور کچھ کعب کی بھی۔ پھر جب وہ چلے جاتے تو میں ان ہم نشینوں سے سنتا وہ حدیث رسول اللہﷺ کو کعب کی بنادیتا اور کعب کی گفتگو کو حدیث رسول اللہ ﷺبنا دیتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اہمیت:
حفاظ حدیث سے یہ علم مکمل تنقیدی ذوق اور بصیرت چاہتا ہے۔ ورنہ یہ قوی امکان ہے کہ کوئی حدیث کو ضعیف یا ضعیف کو قوی بنادے۔ ائمہ محدثین کا گوعلل میں اجتہادی اختلاف ہے مگرہے نادر۔ وجہ یہ ہے کہ ان علماء کا حدیثی علم اورذوق ملتا جلتا ہے۔بقول امام عبد الرحمنؒ بن مہدی: مَعْرِفَةُ الْحَدیثِ إِلْھَامٌ۔ علم حدیث کی معرفت الہام ہے۔ اس لئے وہ کہا کرتے:
لإنْ أَعْرِفَ عِلَّةَ حدیثٍ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَسْتَفِیْدَ عَشْرَةَ اَحَادیثَ۔ اگر میں ایک حدیث کی علت دریافت کرلوں یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت دس احادیث سے مستفید ہونے کے۔

حدیث میں علت کو جاننا گویا حدیث کی صحیح تشخیص کرنا اور حدیث کے بہت بڑے ذخیرے کا جاننا ہے۔ یہ علوم حدیث کی تمام انواع میں انتہائی الجھا ہوااوردقیق علم ہے ۔اس میں کامیاب وہ علماء ہوئے جو حافظ حدیث، ضابط اور فہم سلیم رکھنے والے تھے۔ جیسے امام سفیان الثوری، شعبہ بن الحجاج، امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہم اللہ معرفت علل کے شہسوار ہیں جن سے امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (م: ۲۳۴ھ)نے یہ علم سیکھا اور ان سے امام ابوعبد اللہ البخاری نے۔ابن ابی شیبہ(م: ۲۳۵ھ)، ابوحاتم(م:۲۷۷ھ)، ابوزرعہ(م: ۲۶۴ھ) وغیرہ علماء بھی اس علم کے ماہرین ہیں۔ ان کے بعدامام ابن ابی حاتمؒ کی کتاب العلل،ابو بکر الخلال کا مجموعہ علل از امام احمدؒ، اور امام دار قطنی ؒکی کتاب العلل وغیرہ بھی ندرت علمی کا شاہکار ہیں۔امام ذہبی اور ابن حجر عسقلانی بھی اپنے عہد کے جلیل القدر فاضل علماء علل میں سے ہیں۔ان علماء میں بعض کی کتب مطبوع نہیں ہوسکیں۔
 
Top