- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
باب ۸
امام ابن الصلاح ؒنے علوم حدیث کی کل 65انواع بتائی ہیں اور ان کے بقول یہ حتمی انواع نہیں بلکہ مزیدکی گنجائش بھی ہو سکتی ہیں۔ ابن الملقن نے دوسو سے زائد انواع بتائی ہیں۔امام ابن حبان نے صرف ضعیف حدیث کی انچاس اقسام بتائی ہیں۔ جنہیں مدغم کرکے کم بھی کیا جاسکتا ہے۔مگرہر نوع کی اپنی مستقل حیثیت ہے۔اور اس پر کتاب بھی۔
۱۔ علم مختلف الحدیث:
اسے اختلاف الحدیث، تلفیق الحدیث، تأویل مختلف الحدیث، تأدیل مشکل الحدیث وغیرہ بھی کہتے ہیں۔جس سے مراد: دو ایسی مقبول احادیث جو معنوی موافقت کے باوجود بظاہر متعارض ہوں جن کا جائزہ بغیر تکلف واشکال کے ہو اور ان کے مابین تطبیق یا جمع کرنا ممکن ہو۔ابن الصلاح لکھتے ہیں:
اس بظاہرباہمی مخالفت کی نفی کرکے تطبیق دینا اور انہی دونوں احادیث کے مطابق فتوی دینا ہی تعارض کو رفع کرنا ہے۔(مقدمہ ابن الصلاح: ۱۴۳)
ظاہر تعارض کا مطلب یہ ہے کہ سنت نبوی میں حقیقی تعارض محال ہے۔(الکفایۃ : ۴۳۳)
مثال:۔ صحیح بخاری میں حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :
لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا ھَامَةَ، وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الاَسَدِ۔ بیماری کی چھوت ، نہ بدفالی، اور نہ ہی الو اور نہ ہی کوئی صفر مہینے کی نحوست ہے ۔اور مجذوم سے اس طرح بھاگو جیسا کہ شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو۔
اور پھرصحیح مسلم کی یہ حدیث :
لَا یُوْرَدُ مُمَرِّضٌ عَلَی مُصِحٍّ۔ بیمار کو صحت مند کے پاس مت لایا جائے۔
آپﷺ نے بدو کے اس سوال پر کہ:
أَرَأَیْتَ الإبِلَ تَکُونُ فِی الرَّمَالِ أَمْثَالَ الظِّبَاءِ ، فَیَأتِیْھَا الْبَعِیْرُ الاَجْرَبُ فَتَجْرَبُ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: فَمَنْ أَعْدَی الاَوَّلَ؟ آپ یہ بتائیے کہ اونٹ جو صحرا میں ہرنیوں کے مانند پھیلے ہوتے ہیں تو ان کے پاس ایک خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے اور دوسروں کو خارش ہوجاتی ہے؟ تو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پہلے کو کس نے خارش زدہ کیا؟
جمع کی صورت:
ان بظاہر متعارض احادیث میں علماء نے جمع کی صورت یہ نکالی ہے کہ معجزہ پر ایمان رکھنے والی قوم کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ (فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ) اللہ تعالی ہی ہے۔ اسباب بھی اسی کے ہیں اور مسبب بھی وہی ہے۔ سبب ہو مسبب نہ ہو یہ بھی عام دیکھنے میں آتا ہے اسی طرح مسبب ہومگر سبب نہ ہو یہ بھی ممکن ہے۔ ان احادیث میں ان خیالات کو ختم کیا گیا ہے جو عرب یا مختلف اقوام رکھتی تھیں کہ بعض بیماریاں متعدی ہوتی ہیں۔ نہیں بلکہ بیماری حکم الٰہی سے ہوتی ہے نہ کہ کسی کی چھوت لگنے سے۔جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ گھر میں ایک فرد نزلہ وزکام کی وجہ سے بیمارہے تو باقی سبھی صحت مند ہیں۔باقی شیر سے بھاگنے اور صحتمند کا بیمار کے پاس نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ متعدی کا عقیدہ غلط ہے کہ نتائج کو اسباب کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ یہ عقلی بات تو ہے کہ جو اسباب اللہ تعالی نے رکھے ہیں انہیں اختیار کرنے سے شریعت منع نہیں کرتی۔مگر جو اللہ تعالی نے قدر میں لکھا ہے وہ بھی توہوکر رہے گا۔اسی لئے جمع کے بعد دونوں احادیث محکم ہوجاتی ہیں۔یعنی معارضت سے یہ محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اکثر احادیث محکم ہی ہیں کوئی معارض نص نہ تو قرآن کریم میں ملتی ہے اورنہ حدیث میں خواہ وہ ظاہری ہی کیوں نہ ہو۔اگر کہیں کسی کو تعارض یا اختلاف نظر آتا ہے تو یہ اس کے فہم کا ہے جو کم یاکوتاہ ہوسکتا ہے۔امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:
علم حدیث کی یہ انتہائی اہم نوع ہے۔ علماء فنون اسے جاننے اور سمجھنے پر مجبور ہیں۔اس کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جو حدیث وفقہ دونوں کا علم رکھتا ہو نیز اس کی باریکیوں کا واقف حال بھی۔(اصول الحدیث از صبحی صالح: ۲۸۴)
حدیثی علوم کی انواع
امام ابن الصلاح ؒنے علوم حدیث کی کل 65انواع بتائی ہیں اور ان کے بقول یہ حتمی انواع نہیں بلکہ مزیدکی گنجائش بھی ہو سکتی ہیں۔ ابن الملقن نے دوسو سے زائد انواع بتائی ہیں۔امام ابن حبان نے صرف ضعیف حدیث کی انچاس اقسام بتائی ہیں۔ جنہیں مدغم کرکے کم بھی کیا جاسکتا ہے۔مگرہر نوع کی اپنی مستقل حیثیت ہے۔اور اس پر کتاب بھی۔
۱۔ علم مختلف الحدیث:
اسے اختلاف الحدیث، تلفیق الحدیث، تأویل مختلف الحدیث، تأدیل مشکل الحدیث وغیرہ بھی کہتے ہیں۔جس سے مراد: دو ایسی مقبول احادیث جو معنوی موافقت کے باوجود بظاہر متعارض ہوں جن کا جائزہ بغیر تکلف واشکال کے ہو اور ان کے مابین تطبیق یا جمع کرنا ممکن ہو۔ابن الصلاح لکھتے ہیں:
اس بظاہرباہمی مخالفت کی نفی کرکے تطبیق دینا اور انہی دونوں احادیث کے مطابق فتوی دینا ہی تعارض کو رفع کرنا ہے۔(مقدمہ ابن الصلاح: ۱۴۳)
ظاہر تعارض کا مطلب یہ ہے کہ سنت نبوی میں حقیقی تعارض محال ہے۔(الکفایۃ : ۴۳۳)
مثال:۔ صحیح بخاری میں حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :
لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا ھَامَةَ، وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الاَسَدِ۔ بیماری کی چھوت ، نہ بدفالی، اور نہ ہی الو اور نہ ہی کوئی صفر مہینے کی نحوست ہے ۔اور مجذوم سے اس طرح بھاگو جیسا کہ شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو۔
اور پھرصحیح مسلم کی یہ حدیث :
لَا یُوْرَدُ مُمَرِّضٌ عَلَی مُصِحٍّ۔ بیمار کو صحت مند کے پاس مت لایا جائے۔
آپﷺ نے بدو کے اس سوال پر کہ:
أَرَأَیْتَ الإبِلَ تَکُونُ فِی الرَّمَالِ أَمْثَالَ الظِّبَاءِ ، فَیَأتِیْھَا الْبَعِیْرُ الاَجْرَبُ فَتَجْرَبُ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: فَمَنْ أَعْدَی الاَوَّلَ؟ آپ یہ بتائیے کہ اونٹ جو صحرا میں ہرنیوں کے مانند پھیلے ہوتے ہیں تو ان کے پاس ایک خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے اور دوسروں کو خارش ہوجاتی ہے؟ تو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پہلے کو کس نے خارش زدہ کیا؟
جمع کی صورت:
ان بظاہر متعارض احادیث میں علماء نے جمع کی صورت یہ نکالی ہے کہ معجزہ پر ایمان رکھنے والی قوم کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ (فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ) اللہ تعالی ہی ہے۔ اسباب بھی اسی کے ہیں اور مسبب بھی وہی ہے۔ سبب ہو مسبب نہ ہو یہ بھی عام دیکھنے میں آتا ہے اسی طرح مسبب ہومگر سبب نہ ہو یہ بھی ممکن ہے۔ ان احادیث میں ان خیالات کو ختم کیا گیا ہے جو عرب یا مختلف اقوام رکھتی تھیں کہ بعض بیماریاں متعدی ہوتی ہیں۔ نہیں بلکہ بیماری حکم الٰہی سے ہوتی ہے نہ کہ کسی کی چھوت لگنے سے۔جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ گھر میں ایک فرد نزلہ وزکام کی وجہ سے بیمارہے تو باقی سبھی صحت مند ہیں۔باقی شیر سے بھاگنے اور صحتمند کا بیمار کے پاس نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ متعدی کا عقیدہ غلط ہے کہ نتائج کو اسباب کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ یہ عقلی بات تو ہے کہ جو اسباب اللہ تعالی نے رکھے ہیں انہیں اختیار کرنے سے شریعت منع نہیں کرتی۔مگر جو اللہ تعالی نے قدر میں لکھا ہے وہ بھی توہوکر رہے گا۔اسی لئے جمع کے بعد دونوں احادیث محکم ہوجاتی ہیں۔یعنی معارضت سے یہ محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اکثر احادیث محکم ہی ہیں کوئی معارض نص نہ تو قرآن کریم میں ملتی ہے اورنہ حدیث میں خواہ وہ ظاہری ہی کیوں نہ ہو۔اگر کہیں کسی کو تعارض یا اختلاف نظر آتا ہے تو یہ اس کے فہم کا ہے جو کم یاکوتاہ ہوسکتا ہے۔امام بخاری ؒ فرماتے ہیں:
علم حدیث کی یہ انتہائی اہم نوع ہے۔ علماء فنون اسے جاننے اور سمجھنے پر مجبور ہیں۔اس کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جو حدیث وفقہ دونوں کا علم رکھتا ہو نیز اس کی باریکیوں کا واقف حال بھی۔(اصول الحدیث از صبحی صالح: ۲۸۴)
Last edited: