- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
علم حدیث کی انواع
۱۔ علم حدیث روایةً: یہ حدیث کاوہ علم ہے جس کا تعلق صرف روایت حدیث سے ہے۔اس کی تعریف یہ ہے:
هُوَعِلْمٌ یُعْلَمُ بِهِ أَقْوالُ النَّبِیِّ ﷺ وَأَفْعَالُہُ وَتَقَارِیْرُہُ، وَ ضَبطُھَا وَرِوَایَتُھَا وَتَحْرِیْرُ أَلفَاظِھَا۔ رسول اللہ ﷺ کے ہر قول و فعل اورتقریر، نیز ان کا ضبط ، روایت اور حدیث کے الفاظ کی صحیح تحریرکا علم۔
علماء حدیث نے اس تعریف میں ’’روایت‘‘ سے مراد درج ذیل معنی لئے ہیں۔
۱) روایت: لغت میں بات کو دوسرے تک پہنچانے کا نام ہے۔ اصطلاح میں حدیث کو دوسرے تک پہنچانا اور جس نے بیان کی ہے یعنی قائل کی طرف مخصوص الفاظ سے اسے منسوب کرنا۔ جیسے: حَدَّثَنَا، یا أَخْبَرَنَا، یا سَمِعْتُ یا عَنْ۔ پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اسے حاصل کرنا اور پھر آگے پہنچانا۔ جو کچھ بھی نہ پہنچائے وہ راوی نہیں ہوتا۔ اگر کوئی حدیث بیان کرے مگر اسے قائل کی طرف منسوب نہ کرے تو اسے روایت نہیں کہتے۔
۲) روایت حدیث میں متن اور سند کے الفاظ کا صحیح ضبط ہو اور متعلقہ تمام احادیث کی اسانید کا احاطہ بھی۔
۲) راوی کے نام کی تحقیق و تصدیق ہو نیز جس شیخ سے روایت کی اس کے مبینہ الفاظ اور انداز اداء کا بخوبی ضبط۔
۳) رواۃ اور متن کے احوال کی بحث سے اجتناب کیا جائے۔
فائدہ: روایت حدیث کے ذریعے سنت رسول، ایام رسول اور امور رسول ضبط تحریر میں آکر محفوظ ہوگئے ۔ مختار قول کے مطابق صحابہ کرام کی طرف منسوب بات بھی اس میں شامل ہوسکتی ہے۔
روایت بالمعنی: یہ یاد رکھئے! کہ افعال ، تقریر اور صفات رسول سے متعلق تمام احادیث معناً ہی روایت ہوں گی۔یعنی یہ صحابی رسول کے اپنے الفاظ میں ڈھلی ہوں گی جو اس کی اپنی نظر ، سوچ اور فکر کے مطابق ہوں گے۔ یہ احادیث تمام حدیثی مواد میں ستر فی صد سے زائد ہیں ۔ان احادیث میں لفظی تغیر، کمی وبیشی یا تقدیم وتاخیرصحابی سے ممکن ہے۔مگر کیا متأخر راویوں کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ اس کا جواب آگے آرہا ہے۔
ہاں آپ ﷺ کے ارشادات جو سارے حدیثی مواد میں بیس فیصد سے بھی کم ہیں ۔ انہیں بلفظہ ادا کرنا ویسے ضروری ہے جیسے راوی نے اپنے شیخ سے سنا ہوتا ہے ۔ان اقوال میں کسی تبدیلی، تغیر یا کمی وبیشی یا تقدیم وتاخیرکی قطعاً اجازت نہیں۔
لیکن اگر راوی، حدیث کے مخصوص الفاظ بھول جائے اور اسے یہ یقین ہو کہ اس کا مفہوم یہ ہے تو کیا وہ وقت ضرورت ان الفاظ کو معناً بیان کرسکتا ہے؟ محدثین کا اصول یہ ہے کہ ایک عادل راوی بھی ایسا کرنے کا مجاز نہیں۔سبھی وہی الفاظِ حدیث بیان کریں جو آپ ﷺ کے ہیں۔مگر کچھ محدثین نے ان حدیثی الفاظ کو دو حصوں میں منقسم کیا ہے:
۱۔ جو الفاظ حدیث مشروع اذکار کے ہیں اور جن کے مخصوص الفاظ ہیں انہیں بدلنا جائز نہیں۔ اگرراوی انہیں بھول گیا ہے تو توقف کرلے۔
۲۔ دوسری قسم ان الفاظ کی ہے جن سے لفظی نہیں بلکہ ان کا مفہوم اجاگرہوتا ہے۔ اور جن کا تعلق آپ ﷺ کے افعال، تقریرات اور عام اجتماعی معاملات سے ہے۔ ان الفاظ میں چند شروط کے ساتھ تبدیلی کی جاسکتی ہے:
أ۔ یہ روایت ایسے متقن اور ضابط عالم سے ہو جو حدیث کو لغت کے اعتبار سے سمجھتا ہو اور مراد حدیث کو بھی۔جیسے امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ۔
ب۔ ضرورت اس کی داعی ہومثلاً راوی لفظ حدیث کو بھول رہا ہو اور اس کے معنی کا بخوبی حافظ ہواور اسے صحیح جامہ پہنا سکتا ہو۔وہاں الفاظ حدیث اسے یاد دلا دئے جائیں۔ اور اگرالفاظ حدیث کا حافظ ہو پھر تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاالا یہ کہ اسے مخاطب کو سمجھانے کی ضرورت پیش آجائے۔
ج۔ الفاظ حدیث ایسے نہ ہوں جو عبادت کے لئے ہی بیان ہوئے ہوں جیسے اذکار کے الفاظ۔ کیونکہ ایسے اذکار کے الفاظ توقیفی ہوا کرتے ہیں جنہیں بالمعنی روایت نہیں کیا جاسکتا۔
د۔اگر کسی حدیث کو بالمعنی روایت کرنا بھی ہو تو حدیث بیان کرنے کے بعد أو کَمَا قَالَ ﷺ جیسے الفاظ ضرور کہے جو سامع کو یہ باور کرادیں گے کہ لفظ حدیث تو نہیں بلکہ اس کا معنی پیش کیا گیاہے۔
یہی تقسیم اور مفہوم ہی درست ہے کیونکہ اگر ہم انہی الفاظ کی روایت پرہی زور دیں تو ہرحدیث مشکوک ہوجائے۔ مثلاً: حدیث کے یہ الفاظ: َزوَّجْتُکَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرآنِ۔اور دیگر روایات میں مَلَّکْتُکَهَا بھی آیا ہے۔یہی اس کا معنی ہے جوصحیح بخاری میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔اگر ہم اسے غیر جائز کہیں تو پھر شریعت کو دیگر زبانوں میں پیش کرنا بھی غیرجائز ہو گا۔اگر زبان کو شریعت کی تبلیغ کے لئے بدلا جاسکتا ہے تو پھر حدیث کے ایک لفظ کو دوسرے عربی لفظ میں ہی بدلا گیا ہے۔ عالم حدیث اگر اس لفظ کو بھول جائے اور وہ اس کے ملتے جلتے مفہوم میں اسے بیان کردے توایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔تسلی کی بات یہ ہے کہ ایسا صرف بہت ہی کم احادیث میں ہوا ہے۔مگر بعض لوگوں نے اسے اپنے فقہی اختلاف کا سبب وموضوع بنالیا ہے۔حالانکہ ہے سب کا اپنا اپنا استنباط۔ہمیں بھی حدیث نَضَّرَ اللہ امْرَأًسمِعَ۔۔۔ کی رو سے ثقات وعادل رواۃ حدیث سے حسن ظن رکھنا چاہئے۔ باقی جس صحابی نے بِنَبِیِّك الَّذِیْ أَرْسَلْتَ کو بِرَسُولِكَ پڑھا تھا تو آپﷺ نے دراصل تبدیلی معنی کی وجہ سے تصحیح فرمائی۔ کیونکہ رسول تو فرشتہ بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ آپ ﷺ نے اس دعا میں دونوں صفات نبی اور رسول کی جمع کردیا تھا۔
۲۔ علم حدیث درایةً: یہ حدیث کی حقیقت جاننے کا علم ہے ۔ جس کی تعریف یہ ہے۔
عِلْمٌ یُتَعَرَّفُ مِنْہُ حَقِیقَةِ الرِّوایَةِ وأحکامُهَا، وشُروطُهَا وشُروطُ الرُّواةِ وَأَصْنافُ الْمَروِیَّاتِ، وَمَا یَتَعَلَّقُ بِهَا۔یہ علم روایت کی حقیقت اور اس کے احکام وشروط کا علم دیتا ہے۔نیزرواۃ کی شروط اور مرویات کی اقسام اور ان سے متعلق دیگر امور کا شعور دیتا ہے۔
درایت سے مراد:
حدیث کی سند اور متن کا درست فہم وادراک درایت کہلاتا ہے۔ جس میں بحث وتنقید کے بعد سند ومتن کے صحیح یا ضعیف ہونے کاحکم بھی لگایا جاتا ہے۔استدلال کا یہی توازن ہی درایت کہلاتا ہے۔
حقیقت روایت سے مراد ہے: سنت وحدیث کوآگے نقل کرنا اورجس سے لی اسی کی طرف اسے منسوب کرنا۔ حقیقت روایت ہے۔
شروط سے مرادراوی حدیث کا تحمل ۔۔۔یعنی حدیث کو کس کس طریقے سے حاصل کیا۔ اسے تحمل حدیث کہتے ہیں جس کے آٹھ طریقے ہیں جن میں سماع، قرا ء ۃ، اجازہ و مناولہ وغیرہ شامل ہیں۔
اصناف روایات : یعنی حدیث متصل ہے یامنقطع ، مرسل ہے یا مدلس کی وغیرہ کی تفصیل۔ یامرویات کی اقسام کیا ہیں۔مثلاً مسانید ، معاجم واجزاء وغیرہ کا تفصیلی تعارف۔ احادیث ہیں یا آثار۔
خلاصہ:
علم الحدیث روایۃً: ایسا علم جس میں رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب اقوال، افعال، تقریر یا اوصاف کے ضبط اور اس کے الفاظ کی تحریر پر مشتمل مباحث ہوں۔کہ ان کی روایت کیسے ہوئی؟
علم الحدیث درایۃً: چند قوانین جن کے ذریعے سے سند و متن کے حالات کا علم ہو۔یا وہ قوانین جو راوی اور مروی کی حالت بتادیں کہ انہیں قبول کیا جائے یہ رد؟
اصول وقواعد:
… آپ ﷺ نے جو کچھ کہا اور کیا منجانب اللہ ہوتا ہے ۔ ورنہ نعوذ باللہ یہ شریعت سازی ہوتی جس کی آپ ﷺ کو اجازت نہیں تھی۔(الجاثیۃ: ۱۸، الشوری: ۲۱، ۱۳، المائدۃ: ۴۸)
…غیبی اور متشابہ امور بھی احادیث میں ہیں جن پر ایمان بلاریب ہونا ضروری ہے۔ ان میں عقلی تک بندی درایت نہیں بلکہ ایمانی کمزوری ہے۔اسی لئے صحت حدیث کے لئے سند ومتن دونوں پر زیادہ نظر ہونی چاہئے جو محدثین نے رکھی۔
…علم حدیث میں غور وخوض کی صلاحیت ہے۔جس کا بھرپور مظاہرہ روایت اور درایت میں کیا گیا ہیورنہ مصطلحات اور دیگر علوم الحدیث میں جو گہرائی ، دقت اور اختصار ہے وہ فکر وتدبرحدیث کے گہرے شواہد ہیں۔
… درایت حدیث میں مقصد شریعت،فہم حدیث، اصول وفروع میں نص حدیث کی حدود اور ان میں رہنے کا اسلوب آجاتاہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے درست فرمایا تھا:
الْحَدِیثُ الصَّحِیحُ لَا یُعْرَفُ بِرِوَایَتِہِ فَقَطْ، وَإِنَّمَا یُعْرَفُ بِالْفَهْمِ وَالْحِفْظِ وَکَثْرَةِ السَّمَاعِ۔ (معرفۃ: ۵۹) حدیث صحیح محض روایت سے نہیں جانی جاتی بلکہ اسے فہم، حفظ اور کثرت سماع سے جانا جاسکتا ہے۔
… محدثین نے ایسی حدیث کی بالکل تصحیح نہیں کی جو عقل یا قیاس جلی کے خلاف تھی۔ہاں اس حدیث کی ضرورتصحیح کی ہے جسے عقل یافت نہ کرسکے۔محدثین کبھی بھی نقد حدیث سے غافل نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاذ، منکر، مضطرب اور موضوع وغیرہ اصطلاحات کو ان کے علاوہ کوئی اور متعارف نہ کراسکا۔ ڈاکٹر صبحیؒ صالح لکھتے ہیں:
حدیث نبوی کے متن یاعبارت کا درس و مطالعہ اور کتب روایت کا حفظ و اہتمام اس وقت تک بے کار ہے جب تک اس کے پہلو بہ پہلو درایت حدیث نہ ہو یعنی اس کے تمام پہلوؤں پر غور و فکرنہ کرلیا جائے ۔درایت حدیث ہی وہ فن ہے جس میںنبی اکرمﷺ کے اقوال و افعال کا تاریخی و تفصیلی اور تجزیاتی مطالعہ کیا جاتا ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
درایت حدیث کا علم، حدیث نبوی کی عبارت سے وہی تعلق رکھتا ہے جو علم تفسیر کو قرآن کریم سے ہے یا احکام کو واقعات کے ساتھ ۔درایت حدیث سے متعلق بیشترمباحث ، حدیث کے ابتدائی دور میں جداگانہ حیثیت رکھتے تھے۔ موضوع، غرض وغایت اور طرز و انداز کے اعتبار سے یہ مباحث بالکل منفرد تھے جب تدوین حدیث اور تصنیف و تا لیف کا دور آیا تو ہر عالم نے ایک الگ شعبہ چن لیا۔ اور اس طرح درایت حدیث سے متعلق علوم ،کئی قسموں میں بٹ گئے ۔مگر علوم الحدیث کا نام سب اقسام پر حاوی ہے ۔
…علماء نے ان دونوں اقسام کے یہ چند نام بھی تجویز کئے ہیں۔
علوم الحدیث، مصطلح الحدیث، اصول الحدیث۔
اس علم کے بارے میں صاحب در مختار نے کیا ہی خوب نقل کیا ہے۔
العَلُومُ ثَلَاثَہٌ: علوم تین ہی ہیں:
عِلْمٌ: نَضَجَ وَمَا احْتَرَقَ وہ علم جو پکا مگر جلا نہیں۔ وعِلْمٌ : مَا نَضَجَ وَ احْتَرَقَ وہ جو پکا نہیں اور جل گیا ہے۔ وَعِلْمٌ : نَضَجَ وَ احْتَرَقَ۔۔ وَھُوَ عِلْمُ الحدیثِ۔ وہ علم جو پکا اور جل گیا یہ علم حدیث ہے۔