- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
ان شروط کے فوائد:
ان پانچوں شروط کا فائدہ یہ ہے کہ صحیح حدیث پھر:
۔درایت وروایت ۔خواہ کسی کی ہو۔ دونوں کو اپنی شروط کے تابع کردیتی ہے۔
۔ اصول فقہ ہوں یا فقہ اسلامی دونوں کے صحیح وغیر صحیح ہونے کا تعین یہ خود کرتی ہے۔
۔ مرسل ، معضل اور شاذ احادیث یا ایسی حدیث جس میں علت قادحہ ہو یا اس کے رواۃ میں جرح ہوان سب سے صحیح حدیث کی یہ شروط پرے ہیں۔
۔ امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں : تمام اہل علم نے اتفاق سے ایسی حدیث کے بارے میں صحیح ہونے کا فیصلہ دیا ہے۔
اصول:
امام خطیبؒ بغدادی الکفایۃ:۲۰ میں لکھتے ہیں:امام ذہلی ؒ فرماتے ہیں:
ولَا یَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ إِلَّا بِالْحَدیثِ الْمُوصِلِ غَیرِ الْمُنْقَطِعِ الْذِیْ لَیسَ فِیہِ رَجُلٌ مَجْھُولٌ، وَلَا رَجُلٌ مَجْرُوحٌ۔ صرف وہی حدیث قابل احتجاج ہوگی جو متصل ہو، منقطع نہ ہو، اس میں کوئی راوی مجہول ہو اور نہ ہی مجروح۔
قتادۃ ؒکہتے ہیں:
یہ کوئی حدیث نہیں جو صالح کسی طالح سے اور طالح کسی صالح سے روایت کررہا ہو بلکہ صالح کو صالح سے آخر تک روایت کرنا ہوگا۔
احمدؒ بن زید بن ہارون کہتے ہیں:
إنَّمَا ھُوَ صَاِلحٌ عَن صَالِحٍ، وَصَالِحٌ عَنْ تَابِعٍ، وَ تَابِعٌ عَنْ صَاحِبٍ وَصَاحِبٌ عَن رسولِ اللہِ ﷺ عَنْ جِبْرِیْلَ، وَ جِبْرِیْلُ عَنِ اللہِ عَزَّوجَلَّ۔ بلکہ صحیح حدیث کی سندصالح صالح سے اور صالح تابعی سے اور تابعی صحابی سے اور صحابی رسول اللہ ﷺ سے اور رسول اللہﷺ جبریل سے اور جبریل اللہ عزوجل سے ہوگی۔
اصول:
روایت حدیث ندا واذان کی مانند ہے جس میں اجتہاد نہیں چلتا۔ محدثین نے سند کو دیکھا اور پرکھا بلکہ بسا اوقات خودجاکر ملے بھی ۔ اس لئے جو چیز موجود ہے وہ اجتہاد نہیں اور جس کی بنیاد ہی نہیں اور کوئی یوں کہہ دے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ یافلاں بزرگ نے فرمایا۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ وہاں تو سند چلے گی۔
اصول:
اگر روایت محتمل صیغوں سے مروی ہو یعنی یہ محسوس ہو کہ اس نے حدیث سنی بھی ہے یا نہیں؟جیسے: عَنْ، أَنَّ، حَدَّثَ، أَخْبَرَ یا قَالَ ۔وغیرہ کے الفاظ۔تو ایسی صورت میں راوی میں تین شروط کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ اس کے مستعمل محتمل صیغہ کو اتصال کا درجہ دیا جاسکے۔
حکم:
محدثین ، فقہاء اور علماء اصول کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ ایسی صحیح حدیث پر عمل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور ایسی حدیث شرعی دلائل میں سے ایک دلیل اور حجت ہوتی ہے۔
ان پانچوں شروط کا فائدہ یہ ہے کہ صحیح حدیث پھر:
۔درایت وروایت ۔خواہ کسی کی ہو۔ دونوں کو اپنی شروط کے تابع کردیتی ہے۔
۔ اصول فقہ ہوں یا فقہ اسلامی دونوں کے صحیح وغیر صحیح ہونے کا تعین یہ خود کرتی ہے۔
۔ مرسل ، معضل اور شاذ احادیث یا ایسی حدیث جس میں علت قادحہ ہو یا اس کے رواۃ میں جرح ہوان سب سے صحیح حدیث کی یہ شروط پرے ہیں۔
۔ امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں : تمام اہل علم نے اتفاق سے ایسی حدیث کے بارے میں صحیح ہونے کا فیصلہ دیا ہے۔
اصول:
امام خطیبؒ بغدادی الکفایۃ:۲۰ میں لکھتے ہیں:امام ذہلی ؒ فرماتے ہیں:
ولَا یَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ إِلَّا بِالْحَدیثِ الْمُوصِلِ غَیرِ الْمُنْقَطِعِ الْذِیْ لَیسَ فِیہِ رَجُلٌ مَجْھُولٌ، وَلَا رَجُلٌ مَجْرُوحٌ۔ صرف وہی حدیث قابل احتجاج ہوگی جو متصل ہو، منقطع نہ ہو، اس میں کوئی راوی مجہول ہو اور نہ ہی مجروح۔
قتادۃ ؒکہتے ہیں:
یہ کوئی حدیث نہیں جو صالح کسی طالح سے اور طالح کسی صالح سے روایت کررہا ہو بلکہ صالح کو صالح سے آخر تک روایت کرنا ہوگا۔
احمدؒ بن زید بن ہارون کہتے ہیں:
إنَّمَا ھُوَ صَاِلحٌ عَن صَالِحٍ، وَصَالِحٌ عَنْ تَابِعٍ، وَ تَابِعٌ عَنْ صَاحِبٍ وَصَاحِبٌ عَن رسولِ اللہِ ﷺ عَنْ جِبْرِیْلَ، وَ جِبْرِیْلُ عَنِ اللہِ عَزَّوجَلَّ۔ بلکہ صحیح حدیث کی سندصالح صالح سے اور صالح تابعی سے اور تابعی صحابی سے اور صحابی رسول اللہ ﷺ سے اور رسول اللہﷺ جبریل سے اور جبریل اللہ عزوجل سے ہوگی۔
اصول:
روایت حدیث ندا واذان کی مانند ہے جس میں اجتہاد نہیں چلتا۔ محدثین نے سند کو دیکھا اور پرکھا بلکہ بسا اوقات خودجاکر ملے بھی ۔ اس لئے جو چیز موجود ہے وہ اجتہاد نہیں اور جس کی بنیاد ہی نہیں اور کوئی یوں کہہ دے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ یافلاں بزرگ نے فرمایا۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ وہاں تو سند چلے گی۔
اصول:
اگر روایت محتمل صیغوں سے مروی ہو یعنی یہ محسوس ہو کہ اس نے حدیث سنی بھی ہے یا نہیں؟جیسے: عَنْ، أَنَّ، حَدَّثَ، أَخْبَرَ یا قَالَ ۔وغیرہ کے الفاظ۔تو ایسی صورت میں راوی میں تین شروط کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ اس کے مستعمل محتمل صیغہ کو اتصال کا درجہ دیا جاسکے۔
حکم:
محدثین ، فقہاء اور علماء اصول کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ ایسی صحیح حدیث پر عمل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور ایسی حدیث شرعی دلائل میں سے ایک دلیل اور حجت ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭