• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ان شروط کے فوائد:

ان پانچوں شروط کا فائدہ یہ ہے کہ صحیح حدیث پھر:
۔درایت وروایت ۔خواہ کسی کی ہو۔ دونوں کو اپنی شروط کے تابع کردیتی ہے۔
۔ اصول فقہ ہوں یا فقہ اسلامی دونوں کے صحیح وغیر صحیح ہونے کا تعین یہ خود کرتی ہے۔
۔ مرسل ، معضل اور شاذ احادیث یا ایسی حدیث جس میں علت قادحہ ہو یا اس کے رواۃ میں جرح ہوان سب سے صحیح حدیث کی یہ شروط پرے ہیں۔
۔ امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں : تمام اہل علم نے اتفاق سے ایسی حدیث کے بارے میں صحیح ہونے کا فیصلہ دیا ہے۔
اصول:
امام خطیبؒ بغدادی الکفایۃ:۲۰ میں لکھتے ہیں:امام ذہلی ؒ فرماتے ہیں:
ولَا یَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ إِلَّا بِالْحَدیثِ الْمُوصِلِ غَیرِ الْمُنْقَطِعِ الْذِیْ لَیسَ فِیہِ رَجُلٌ مَجْھُولٌ، وَلَا رَجُلٌ مَجْرُوحٌ۔ صرف وہی حدیث قابل احتجاج ہوگی جو متصل ہو، منقطع نہ ہو، اس میں کوئی راوی مجہول ہو اور نہ ہی مجروح۔

قتادۃ ؒکہتے ہیں:
یہ کوئی حدیث نہیں جو صالح کسی طالح سے اور طالح کسی صالح سے روایت کررہا ہو بلکہ صالح کو صالح سے آخر تک روایت کرنا ہوگا۔

احمدؒ بن زید بن ہارون کہتے ہیں:
إنَّمَا ھُوَ صَاِلحٌ عَن صَالِحٍ، وَصَالِحٌ عَنْ تَابِعٍ، وَ تَابِعٌ عَنْ صَاحِبٍ وَصَاحِبٌ عَن رسولِ اللہِ ﷺ عَنْ جِبْرِیْلَ، وَ جِبْرِیْلُ عَنِ اللہِ عَزَّوجَلَّ۔ بلکہ صحیح حدیث کی سندصالح صالح سے اور صالح تابعی سے اور تابعی صحابی سے اور صحابی رسول اللہ ﷺ سے اور رسول اللہﷺ جبریل سے اور جبریل اللہ عزوجل سے ہوگی۔

اصول:
روایت حدیث ندا واذان کی مانند ہے جس میں اجتہاد نہیں چلتا۔ محدثین نے سند کو دیکھا اور پرکھا بلکہ بسا اوقات خودجاکر ملے بھی ۔ اس لئے جو چیز موجود ہے وہ اجتہاد نہیں اور جس کی بنیاد ہی نہیں اور کوئی یوں کہہ دے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ یافلاں بزرگ نے فرمایا۔ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ وہاں تو سند چلے گی۔

اصول:
اگر روایت محتمل صیغوں سے مروی ہو یعنی یہ محسوس ہو کہ اس نے حدیث سنی بھی ہے یا نہیں؟جیسے: عَنْ، أَنَّ، حَدَّثَ، أَخْبَرَ یا قَالَ ۔وغیرہ کے الفاظ۔تو ایسی صورت میں راوی میں تین شروط کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ اس کے مستعمل محتمل صیغہ کو اتصال کا درجہ دیا جاسکے۔

حکم:
محدثین ، فقہاء اور علماء اصول کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے کہ ایسی صحیح حدیث پر عمل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور ایسی حدیث شرعی دلائل میں سے ایک دلیل اور حجت ہوتی ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
مقبول احادیث اور ان کی اقسام


یہ کل چار قسمیں ہیں:
صحیح ۔ حسن۔ محفوظ۔معروف

۱۔ حدیث صحیح اور اس کی اقسام:
بعض علماء حدیث نے صحیح کی دو قسمیں بیان کی ہیں:
صحیح لذاتہ اور صحیح لغیرہ

حدیث صحیح لذاتہ:
ھُوَ خَبْرُ الْوَاحِدِ، الْمُسنَدِ الْمُتَّصِلِ إِسْنَادُہُ، بِنَقْلِ الْعَدْلِ الضَّابِطِ، عَنِ الْعَدْلِ الضَّابِطِ، حَتّٰی یَنْتَھِیَ إِلَی رَسولِ اللہِ ﷺ وَلَا یَکُونُ شَاذًّا وَلَا مُعَلَّلًا (مقدمۃ ابن الصلاح:۱۱) ایسی خبر واحد جس کی سند متصل ہو، جسے شروع سے لے کر آخیر تک عادل اور ضابط راوی نقل (روایت)کرتے ہوں، جس میں کوئی شذوذ ہو اور نہ ہی کوئی علت۔
اسے لذاتہ اس لئے کہا گیا کیونکہ اس حدیث نے اپنی صحت کو اپنی سند اور متن سے اخذ کیا ہے نہ کہ خارج سے۔

متقدمین میں صحیح کی مثال دیکھنا ہو تو امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قاعدہ قابل غور ہے:
إذَا رَوَی الثِّقَةُ عَنِ الثِّقَةِ حَتّٰی یَنْتَھِیَ إلٰی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَھُوَ ثَابِتٌ۔

مثال:
صحیح بخاری ؒ (۴؍۱۸)میں( کتابُ الجِھَادِ وَالسَّیْرِ؍ بَابُ مَا یُعَوِّذ مِنَ الْجُبُنِ) یہ روایت ہے:
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمَرٌ، قَال: سَمِعْتُ أَبِی، قَالَ: سَمِعْتُ أنسَ بْنَ مَالِكٍ ۔رضِیَ اللہُ عَنہُ۔ قَالَ: کَانَ النَّبیُّ ﷺ یَقولُ: اللّٰھُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ، وَالْجُبُنِ وَالْھَرَمِ، وَأعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ، وَأَعُوذُبِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبَرِ۔
یہ مثال، صحیح حدیث کی تمام شرائط کو پورا کرتی ہے۔وہ اس طرح:
۱۔ اس کی سند نبی ﷺ تک مسلسل ہے۔
۲۔ سند اپنی ابتداء سے لے کر آخر تک متصل ہے: انسؓ بن مالک صحابی رسول ہیں انہوں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی۔ سلیمان بن طرخان ۔معتمر۔کے والد ہیں انہوں نے بصراحت یہ کہا ہے کہ میں نے سیدنا انسؓ سے یہ حدیث سنی ہے۔ اسی طرح معتمر بھی اپنے والد سے حدیث سنتے ہیں اسی طرح امام بخاری ؒکے شیخ مسدد بھی بوضاحت کہہ رہے ہیں میں نے معتمر سے حدیث سنی۔ اور خود امام بخاری اپنے شیخ سے حدیث سننے کی صراحت فرما رہے ہیں۔سب اپنے اپنے شیخ سے ملے بھی ہیں اور ان کا زمانہ بھی پایا ہے۔
۳۔ عدالت وضبط ، صحابی رسو ل سید نا انسؓ سے لے کر حدیث کے ذکر کرنے والے امام بخاری تک۔تمام راویوں میں یہ دونوں وصف موجود ومیسر ہے ۔
…انس بن مالک۔رضی اللہ عنہ۔صحابی رسول ہیں اور الصَّحابَةُ کُلُّھُمْ عَدُولٌ تمام صحابہ عادل ہوتے ہیں۔یعنی وہ آپس میں لڑ سکتے ہیں مگر حدیث رسول نہیں گھڑ سکتے۔
… سلیمان بن طرخان۔ معتمر کے والد۔ ایک ثقہ وعابد فرد ہیں۔
…ان کا بیٹا ۔معتمر۔ خود ایک عالم وثقہ راوی ہیں۔
…مسدد بن مسرہد، حافظ حدیث اور انتہائی ثقہ راوی ہیں۔
امام بخاری، وما أدراك ماالبخاری؟ بس جس حدیث کو قبول کرلیں وہ صحیح اور جسے رد کردیں وہ گئی گذری۔ خود احب کتاب الجامع الصحیح ہیں۔ امیر المومنین فی الحدیث اور حفظ حدیث کا مضبوط و بلند وبالا پہاڑ ہیں۔
۴۔ اسی طرح یہ حدیث شاذ بھی نہیں۔
۵۔ اور نہ ہی اس کے متن میں کوئی علت ہے کیونکہ اس کاہر راوی تو عادل ہے۔
یہ حدیث چونکہ صحت حدیث کی پانچوں شرائط کو پورا کرتی تھی اس لئے امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں اسے لکھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
صحیح لغیرہ:
ھُوُ الْحَدِیثُ الْذِی اتَّصَلَ سَنَدُہُ مِنْ أَوَّلِہِ إِلٰی آخِرِہِ بِنَقْلِ الْعَدْلِ الَّذِیْ قَلَّ ضَبْطُہُ عَنِ الدَّرَجَةِ الْعُلْیَا، وَلٰکِنَّہُ تُوبِعَ بِطَریقٍ آخَرَ مُسَاوٍ أَو رَاجِحٍ، وَلَا یَکُونُ شَاذًا ولَا مُعَلَّلا۔ وہ حدیث جس کی سند شروع تا آخر متصل ہو۔ جسے ایسا عادل روایت کرے جس کا درجہ ضبط، درجہ عالیہ سے ذرا کم ہوجائے۔مگراس کی متابعت ایک اور مساوی درجہ کی سند سے ہو یا اس سے راجح سند سے ہو۔نیز وہ شاذ ہو نہ ہی اس میں کوئی علت ہو۔

جس حدیث میں قبولیت کی صفات ہوں مگر اعلی درجہ کی نہ ہوں وہ حسن لذاتہ ہوگی اور اگراس کی متعدد اسانید (متابعت یا شاہدکی صورت میں ) ہوں تووہ (قوی ہوکر) صحیح لغیرہ بن جائے گی۔حدیث کی یہ قسم حسن لذاتہ سے اعلی اور صحیح لذاتہ سے کم درجہ کی ہوتی ہے۔اس میں سند سے نہیں بلکہ کسی اورزیادہ قوی سند کے آنے سے صحت آتی ہے۔جیسے:
مُحمدُ بْنُ عَمرٍو عَن أبِی سَلَمَةَ عَن أبی ہُریرةَ أَنَّ رسولَ اللہِ ﷺ قال: لَولَا اَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی لأَمَرْتُھُم بِالسِّواكِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوةٍ۔ (السنن للترمذی: کتاب الطھارة)

امام ابنؒ الصلاح اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
محمد بن عمرو بن علقمہ اپنی دیانت اور سچائی میں مشہور ہیں مگر وہ اہل اتقان میں سے نہیں۔بعض علماء حدیث نے حافظہ کی کمزوری کی بناء پر انہیں ضعیف کہا ہے۔ جب کہ بعض نے انہیں صدق اورعلمی جلالت کی وجہ سے ثقہ بھی لکھا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی حدیث حسن ٹھہری۔ پھر جب اس حدیث کو دوسری ہم مثل یا اقوی سند یا ذرا کم درجے کی متعدد اسانید مل گئیں اور ان کی تائید حاصل ہوئی تو راوی کے برے حافظہ کا خدشہ جاتا رہا۔اور معمولی نقص کی کمی بھی اس میں ختم ہوگئی۔اس طرح یہ اسناد صحیح ہوکر درجہ صحیح تک پہنچ گئی۔جسے صحیح لغیرہ کہا گیا۔

بہرحال محمد بن عمرو مراتب تعدیل میں چوتھے مرتبہ کے راوی ہیں۔ ان کی حدیث حسن لذاتہ ہوگی اگر کوئی ان کا متابع نہیں تو۔ لیکن اگر کوئی متابع ہے جیسا کہ یہاں ہے تو پھر صحیح لغیرہ کا درجہ پائے گی۔جس کی تخریج کا خلاصہ یہ ہے:

یہ حدیث صحیح بخاری میں مَالِكٌ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الاَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَةَ سے کتاب الجمعہ میں مروی ہے۔وہاں أَوْ عَلَی النَّاسِ کے الفاظ ہیں۔

اسی طرح صحیح بخاری کی کِتَابُ التَّمَنِّی میں بَابُ مَا یَجُوزُ مِنَ اللَّھْوِ میں بہ سند اللَّیثُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِیْعَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَاھُرَیْرَةَ ۔ جس میں عِنْدَ کُلِّ صَلَاة کے لفظ نہیں۔

صحیح مسلم میں یہ حدیث بابُ السِّوَاكِ میں بطریق سُفْیَانُ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الاَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَةَ ہے۔

سنن ترمذی میں مذکورہ حدیث بہ سند : أبُو کُرَیْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِی سَلَمَةَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَةَ۔ مروی ہے۔ ایک اور حدیث سنن ترمذی میں بہ سند مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحٰقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاھِیْمَ عَنْ أَبِیْ سَلَمَةَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدِ الْجُھَنِیِّ۔ سے بھی ہے۔

امام ترمذی فرماتے ہیں: وَحَدِیْثُ أَبِیْ سَلَمََۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَةَ، وَزَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُھَنِیِّ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ کِلَاھُمَا عِنْدِیْ صَحِیْحٌ۔ابوسلمہ کی روایت سیدنا ابوہریرہ اور زیدبن خالد سے اور ان کی رسول اللہ ﷺسے، دونوں میرے نزدیک صحیح ہیں۔ کیونکہ بہت سے طرق سے سیدنا ابوہریرہ کی حدیث روایت ہوئی ہے جو صحیح ہے۔ رہے امام بخاریؒ تو انہوں نے ابوسلمۃ کی حدیث جو زید بن خالد سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح کہا ہے۔امام ترمذی زید کی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ھَذا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

بہرحال اس تخریج میں یہ امر قابل غور ہے کہ محمد بن عمرو کی روایت میں جو متابعت آئی ہے وہ زیادہ قوی ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
صحیح احادیث صحیحین کے علاوہ

صحیحین کے علاوہ کچھ دیگر کتب حدیث بھی ہیں جن میں صحیح احادیث موجود ہیں۔جیسے صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، یا امام الحاکم کی مستدرک۔ مگر انہوں نے صحیح، حسن اور ضعیف میں امتیاز نہیں کیا۔اس لئے ان کی کتب میں یہ سبھی احادیث ہیں۔ بطور خاص ابن حبان کو ہی لے لیں تو وہ حدیث کی تصحیح اوررواۃ کی توثیق میں متساہل لگتے ہیں۔یہی حال امام حاکم کا ہے۔ طے شدہ بات یہی ہے کہ اگر کوئی معتمد امام کسی ایسی حدیث کے بارے میں جو صحیحین کے سوا دیگر کتب میں ہو یہ کہہ دے کہ یہ صحیح ہے تو ہم اسے صحیح کہیں گے۔محض کسی کتاب میں حدیث کاہونااس کی صحت کے لئے کافی نہیں۔جیسے سنن ابوداؤد وغیرہ۔ کیونکہ ان تمام مؤلفین نے صحیح، حسن اور ضعیف روایات بیان کی ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان کتب میں صحیح حدیث کی معرفت کے لئے کہ خود صاحب کتاب حدیث کو صحیح کہے۔ یا کوئی دوسرا معتمد امام اسے صحیح قرار دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
صحیحین پر استدراک اور استخراج:
۱۔ مستدرک:
ایسی کتاب جس میں کوئی مصنف ان احادیث کو پہلی کتاب کے موضوع اور شرائط کے مطابق جمع کردے۔اسے مستدرک کہتے ہیں۔مثلاً امام حاکم کی کتاب المُسْتَدْرَكُ عَلَی الصَّحِیحَینِ، جنہوں نے امام بخاری وامام مسلم پر استدراک لکھا ہے یعنی ان احادیث کو اپنی دانست میں یک جا کردیا ہے جو ان دونوں کی شرائط کے مطابق تھیں مگر دونوں سے رہ گئیں۔اس لئے وہ لکھتے ہیں:

یہ احادیث صحیح ہیں مگر شیخین نے انہیں اپنی اپنی کتب میں درج نہیں کیا۔

پہلی بات یہ ہے کہ شیخین نے تمام صحیح احادیث کو اپنی کتب میں درج کرنے کا دعوی نہیں کیا۔دوسری طرف کبھی امام حاکم کویہ غلطی بھی لگ جاتی ہے کہ حدیث دونوں یا کسی ایک کتاب میں درج ہوتی ہے مگر امام حاکم یہ لکھ دیتے ہیں: لَمْ یُخَرِّجَاہُ۔ باوجود ضخامت کے اس کتاب میں ضعیف وموضوع احادیث کی کثرت نہیں۔

پھر وہ متروکہ احادیث کہاں ہیں جو بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق ہوں؟ اس کے لئے علماء نے سنن اور صحاح کی کتب لکھیں اور صحیحین پر استدراک لکھنے کا اہتمام کیا۔جن میں مستدرک ، اس کی تلخیص از امام ذہبیؒ اور حافظ ابوذر الہروی (م: ۴۳۴ھ) کی مستدرک عَلَی الصَّحِیحَینِ قابل ذکر ہیں۔

۲۔مستخرج:
مثلاًصحیح بخاری کی احادیث کو کوئی مصنف اپنی سند سے روایت کرے اور اس کی سند امام بخاری کے شیخ یا اس سے اوپر کسی بھی راوی سے جا کر مل جائے خواہ وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو۔اسے مستخرج کہتے ہیں۔ ایسا کرنے سے دونوں کی ترتیب یا متون یا اسانید میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ روایت اس کے لئے مزید تقویت اور ثبوت کا باعث بنتی ہے۔کبھی کبھی مستخرج، صاحب کتاب کی سند کے ساتھ بھی ان احادیث کو لکھ دیتا ہے۔امام یعقوب بن اسحق الإسفرایینی(م: ۳۱۶ھ) نے صحیح مسلم پر مستخرج لکھی جو صحیح ابوعوانہ کے نام سے مطبوع ہے ۔اسی طرح صحیح بخاری پر حافظ ابوبکراسماعیلی(م: ۳۷۱ھ) نے بھی اپنی اسانید سے احادیث جمع کی ہیں۔صحیحین پر بھی محمد بن یعقوب الشیبانی(م:۳۴۴ھ) نے مستخرج تصنیف کی۔ اسی طرح سنن پر مستخرجات لکھی گئی ہیں۔ ایسی کتاب لکھنے کے کئی فوائد ہیں مثلاً:

اصل کتاب پر زوائد مل جاتی ہیں۔عالی سند کی یافت ہوتی ہے۔تعدد طرق تقویت حدیث کا باعث بنتا ہے۔ تدلیس کا وہم جاتا رہتا ہے۔سند میں انقطاع اور ارسال کو وصل مل جاتا ہے۔مبہم راوی کی صراحت ہوجاتی ہے۔مہمل ممتاز ہوجاتا ہے۔واقعہ کی وضاحت بھی مل جاتی ہے۔حدیث میں نقص ہو تو اس کا تتمہ ہوجاتا ہے۔علت دور ہوجاتی ہے۔ راوی پر اختلاط کا الزام بھی رفع ہوجاتا ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
حسن حدیث اور اس کی اقسام

حدیث حسن:
لغت میں حسن برے اور قبیح کی ضد ہے۔ محسوسات اور معنویات کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔

اصطلاحاً:
امام خطابی رحمہ اللہ نے اس کی تعریف یہ کی ہے:

مَا عُرِفَ مَخْرَجُہُ وَاشْتَھَرَ رِجَالُہُ
وہ حدیث جس کا مخرج معلوم ہو اور اس کے راوی مشہور ہوں۔
ان کا کہنا ہے:
وَعَلَیْہِ مَدَارُ أَکْثَرُ الْحَدِیْثِ وَیَقْبَلُہُ أَکْثَرُ الْفُقَھَاءِ وَاسْتَعْمَلَہُ عَامَّةُ الْفُقَھَاءِ۔
اکثر احادیث یہی ہیں اور اکثر علماء اسے قبول کرتے ہیں اور عام فقہاء کے ہاں اسی کا استعمال ہے۔

امام ابن العربیؒ نے مخرج حدیث کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ یہ ایک ایسے راوی کی روایت ہوجو اپنے شہر والوں میں روایت حدیث میں مشہور ہو۔ جیسے قتادہ اہل بصرہ میں اور ابواسحق السبیعی اہل کوفہ میں ۔ بصریوں کی حدیث اگرقتادہ سے مروی ہو تو اس کا مخرج معلوم ہوگا اور اگر قتادۃ کے علاوہ کوئی اور روایت کرے تو اس کا مخرج معلوم نہیں ہوگا اوروہ شاذ ہوگی۔

امام عراقیؒ نے لکھا ہے وہ حدیث بہت سی روایات سے مروی ہو۔ان کا کہنا ہے: امام خطابی کی مراد۔۔ مخرج حدیث نہیں بلکہ اس سے ان کی مراد مرسل اور مدلس کی ایسی اخبار ہیں جو اس کے ارسال اور تدلیس سے پہلے کی ہے، ان سے احتراز ہے ۔ یہ بہت اچھی توجیہ ہے کیونکہ مرسل وہی ہے جس کی سند کا کچھ حصہ گر جائے۔ اسی طرح مدلس بھی کچھ حصہ ساقط کردیتا ہے۔جس سے حدیث کے مخرج کا علم نہیں ہوتا۔کیونکہ سند میں ساقط راوی بھی نامعلوم ہے مگر جو حدیث سند کے ہر راوی کو بیان کردے اس کا مخرج معلوم ہوتا ہے۔بہرحال یہ بحث صحیح اور ضعیف کے بارے میں بھی ہوسکتی ہے ۔اس لئے رواۃ سند کو دیکھ کر ہی حسن کافیصلہ ہوگا۔

٭…علماء حدیث نے اس کی بھی دو قسمیں لکھی ہیں۔حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
حسن لذاتہ:

ھُوَ مَا اتَّصَلَ سَنَدُہُ، بِنَقْلِ الْعَدْلِ الَّذِی خَفَّ ضَبْطُہُ عَنْ دَرَجَةِ الصَّحیحِ، مِنْ غَیْرِ شُذوذٍ وَلَا عِلَّةٍ۔
وہ حدیث جس کی سند متصل، راوی عادل مگر ضبط صحیح لذاتہ کے راوی سے ذرا ہلکا، بغیر شذوذ وعلت کے روایت ہو۔

جب کوئی اور روایت اس کی تائید نہ کرے تو پھر یہ حدیث صحیح لغیرہ کے مرتبہ سے ذرا کم درجہ کی ہوجاتی ہے۔جب کہ ضبط کی کمی دونوں میں موجود ہے۔ صحیح سے کم اور حسن سے اوپر بھی ایک رتبہ علماء نے حدیث جید کا لکھا ہے۔ حسن لذاتہ کی پانچ شرائط ہیں:

۱۔ سند متصل ہو۔ ۲۔ راوی عادل ہوں۔ ۳۔ راوی خفیف الضبط ہو۔ ۴۔ شذوذ نہ ہو۔ ۵۔ علت نہ ہو۔

مثال: اوپر گذر چکی ہے۔

صحیح وحسن میں فرق :
کبھی کبھی کسی حدیث کے بارے میں محدثین یہ لکھ دیتے ہیں: صَحِیحٌ حَسَنٌ۔ ایسی صورت میں ان دو مختلف اوصاف کے بارے میں محدثین نے دو باتیں واضح فرمائی ہیں تاکہ یہ جملہ سمجھا جاسکے:

۱۔ اگر حدیث کی دو سندیں ہیں تو پھر مندرجہ بالا جملے کا مطلب ہے کہ اس کی دوسندوں میں ایک صحیح ہے اور دوسری حسن۔ اس طرح اس حدیث کے یہ دونوں اوصاف یک جا کردئے گئے۔

۲۔ اگر اس حدیث کی سند ایک ہے تو پھر محدثین کو صَحیحٌ حَسَنٌ کہہ کرتردد ہواہے کہ آیا یہ حدیث مرتبہ صحیح پر ہے یا حسن پر۔(الباعث الحثیث: ۶۲)

یہ جملہ تین طریقوں سے سمجھا جائے گا:

۱۔ صَحیحٌ أًوْ حَسَنٌ۔ کیونکہ شک ہے۔۲۔ احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث بعض علماء کی تعریف صحیح کے مطابق صحیح ہے یا پھر دوسرے علماء کے مطابق حسن ہے۔۳۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حدیث کی دو اسانید ہوں ایک صحیح ہو اور دوسری حسن۔

یاد رہے کہ ضبط کی خفت، صحیح حدیث کے راوی کے مقابلے میں ہوگی۔ یہیں سے مراتب راوی معلوم ہوجاتے ہیں۔

نوٹ: امام یحییٰ ؒبن معین ، امام بخاری ؒ کے استاذ ہیں وہ جب کسی راوی کے بارے میں لَیْسَ بِہِ بَأسٌ کہہ دیں تو اس سے ان کی مراد ثقہ راوی ہے جو صحیح حدیث کا راوی ہوتا ہے۔حسن حدیث کے راوی پر نقاد حدیث عموماًدرج ذیل الفاظ کا اطلاق واستعمال کرتے ہیں۔
صَدُوقٌ، لَا بَأسَ بِہِ، لَیْسَ بِہِ بَأْسٌ، ثِقَةٌ یُخْطِئُ، صَدُوقٌ لَہُ أَوْہَامٌ۔


اصول وقواعد:

۱۔ ابتدائً محدثین کے ہاں حدیث کی صرف دو اقسام ہوا کرتیں:
صحیح یا ضعیف۔
حتی کہ وہ حدیث جو خفیف الضبط تھی اسے بھی ضعیف کا نام دیا گیا تھا۔ مگر ضعف میں کیا یہ سب احادیث برابر تھیں؟ نہیں بلکہ ان میں فرق واضح تھا۔ مثلاً: وہ حدیث جس میں صحیح کی تمام شروط موجود ہوںسوائے راوی کے ضبط کے۔وہ حدیث اور جس کی سند میں انقطاع یا اعضال، یا ارسال، یا کذاب راوی یا غیر ثقہ ہو۔ ظاہرہے دونوں برابر نہیں ۔ اس لئے محدثین نے ضعیف حدیث کی وہ قسم جو حسن کے درجے کی تھی اسے ضعیف کی تعریف سے نکال کر ایک نئی اصطلاح دے دی ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ ہی پہلے محدث ہیں جنہوں نے اس مصطلح کا استعمال اپنی کتاب میں کثرت سے کیا اور متعارف کرایا۔ گو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ کے کلام میں کہیں کہیں لغوی استعمال ملتا ہے۔مگر بطور ایک مصطلح کے اولیت امام ترمذیؒ کوہی حاصل ہے۔اس کی تفریق کئے بغیر کئی نادان انتہائی ضعیف حدیث کو بھی دلیل بناسکتے ہیں(مقدمہ ابن الصلاح:۱۷)

۲…امام احمدؒ بن حنبل نے ضعیف کے بارے میں کہا تھا: کُنَّا نُشَدِّدُ فِی الاَحْکَامِ وَنَتَسَاھَلُ فِی الْفَضَائِلِ۔ ہم احکام کی احادیث کو لیتے وقت سخت شروط اپناتے اور فضائل اعمال میں حدیث لیتے وقت تساہل برتتے تھے۔ اس سے ان کی مراد یہی حسن ہی تھی جو ضعیف حدیث سے ذرا قوی تھی۔ ورنہ ضعیف حدیث کی تعریف میں موضوع بھی آجاتی ہے۔

۳… ایسی حدیث کو حَسَنٌ لِذَاتِہِ یا صَحِیحٌ لِغَیرِہِ بھی کہہ دیتے ہیں۔ صَحِیحٌ لِغَیْرِہِ اس لئے کہ اسی حسن حدیث کی تائید میں ایک اور حدیث، ایسی سند کے ساتھ مل جاتی ہے جو یا تو ویسی ہوتی ہے یا اس سے زیادہ قوی۔ کیونکہ صحت اس سند سے نہیں حاصل ہوتی بلکہ کسی اور سند کی تائید ساتھ مل جانے سے اس میں صحت آجاتی ہے۔

۴… ان کا یہ کہنا: حَسَنٌ صَحیحٌ یا حَسَنٌ غَریْبٌ یا حَسَنٌ صَحیحٌ غَریْبٌ یا حَسَنٌ لَیْسَ إسْنَادُہُ بِذَاكَ الْقَائِمِ وغیرہ۔محدثین نے سند کی ان اوصاف کا کیامعنی ومرادلیا ہے؟علماء حدیث نے کتاب ترمذی کو بغور پڑھنے کے بعد اس کے جوابات دئے ہیں۔ مثلاً جب وہ کسی حدیث کے بارے میں صرف غَریبٌ کہیں تو اس سے مراد ضعیف حدیث ہے۔ اور اگر حسنٌ غریبٌ کہیں یا صحیحٌ غریبٌ کہیں تو پھر ان کی مراد حدیث کا تفر دہے نہ کہ ضعف۔اسی طرح ان کا یہ کہنا حَسَنٌ صَحِیْحٌ تو علماء میں کچھ کا کہنا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ کچھ اسے صحیح گردانتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک سند کے اعتبار سے اس کی اسناد حسن ہے اور دوسری سند کے اعتبار سے اس کی اسناد صحیح ہے۔ مزیدکسی بڑی کتاب مثلاً امام ذہبیؒ کی کتاب المُوقِظَۃ میں تفصیلاً پڑھا جاسکتا ہے۔

۵… محدثین کہتے ہیں کہ حسن حدیث کو قبول و قابل عمل سمجھنے میں اصول یہ ہے کہ جب صحیح حدیث نہ ہوتو غلبہ ظن کی بنا پرحسن حدیث پر عمل ہو سکتا ہے اور اسے ہی قابل احتجاج سمجھنا چاہئے۔ لیکن اگر صحیح حدیث موجود ہے اور حسن اس کے خلاف ہے تو پھر صحیح حدیث ہی قابل عمل ٹھہرے۔ یہ اصول غلط ہے کہ صحیح حدیث ترک کرکے حسن حدیث پر عمل کیا جائے بلکہ مخالفت کی صورت میں وہ شاذ ہے۔

یہی وہ اصول حدیث ہیں جنہیں مصطلحات حدیث میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ مصطلح کا علم ایک حسابی علم بن جاتا ہے۔ جس کا فائدہ اتناہوتاہے کہ طالب علم مصطلحات کو جان لیتا ہے مگراس کی تطبیق(implementation) سے وہ کورا رہتا ہے۔

کتب: حسن احادیث پر مستقل کوئی کتاب نہیں ہاں حسن حدیث کے حکم کو سمجھ لیا جائے تو مستقل کتاب نہ لکھنے کی وجوہات سمجھ آسکتی ہیں۔ ائمہ حدیث نے اپنی کتب میں حسن احادیث کو روایت کردیا ہے۔ مثلاً:
سنن الترمذی میں امام ترمذیؒ کا یہ کہنا: ھَذَا حَدیثٌ حَسَنٌ صَحیحٌ، یا ھَذَاحَدیثٌ حَسَنٌ صَحیحٌ غَریبٌ۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ حدیث یا تو دو مختلف سندوں سے مردی ہے یا پھر محدثین کا اس کے صحیح یا حسن ہونے میں اختلاف ہے۔باقی سنداً غریب ہے۔ اسی طرح مسند احمد ، سنن ابی داؤد، اور سنن دارقطنی وغیرہ میں حسن احادیث مل جاتی ہیں۔

نوٹ: امام بغوی ابو محمد الحسین بن مسعود الفراء(م:۵۱۶ھ) نے حدیث پر ایک کتاب مَصَابِیْحُ السُّنَّةِ لکھی۔ جس میں انہوں نے احادیث کو دو حصوں میں تقسیم کرکے یہ لکھا ہے پہلے حصے میں صحیح احادیث ہیں جو صحیحین سے لی گئی ہیں۔ یا کسی ایک صحیح میں سے۔ اور دوسرے حصے کی احادیث حسن ہیں جو سنن کی کتب سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہ ان کی ذاتی تقسیم واصطلاح ہے محدثین کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے کہ دوسرے حصے کی احادیث میں کچھ صحیح بھی ہیں جو کتب سنن سے لی گئی ہیں مگر بغیر صحیح وحسن میں تمیز کئے وہ سکوت اختیار کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کا سکوت اس وجہ سے ہو کہ دونوں احادیث احتجاج میں مشترک ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
حسن لغیرہ:

الضَّعِیْفُ إِذَا تَعَدَّدَتْ طُرُقُہُ عَلَی وَجْہٍ یَجْبُرُ بَعْضُھَابَعْضًابِحَیثُ لَایَکُونُ فِیْھَا کَذَّابٌ وَلَامُتَّھَمٌ بِالْکَذِبِ۔
وہ ضعیف حدیث جس کے ایسے متعدد طرق ہوں جو ایک دوسرے کو سنبھالتے جائیں بشرطیکہ ان طرق میں کوئی راوی کذاب ہو اور نہ کذب کا اس پر اتہام ہو۔

یعنی اس حدیث کی گومتعدد اسانید ہوں مگر ہر سند میں کوئی نہ کوئی ضعف ہو جو کسی متابع یا شاہد حدیث کی وجہ سے دور ہو جائے۔یہ حدیث حسن لذاتہ کے مقابلہ میں ذرا کم درجہ کی ہوگی مگر ضعیف کے مقابلہ میں اونچی۔یہ بھی اصطلاح امام ترمذی کی ہے مزید معلومات کے لئے( نکت الحافظ علی ابن الصلاح: ۱۱۹) کو دیکھئے۔مثال: سنن ترمذی میں : (۳۳۸۶) میں ہے:

حَمَّادُ بْنُ عِیسٰی الْجُھَنِیّ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِی سُفْیانَ عَن سَالِمٍ بْنِ عَبدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَن أبیہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَال: کَانَ النَّبِیُّ ﷺ إِذَا مَدَّ یَدَیْہِ فِی الدُّعَاءِ لَمْ یَرُدَّھُمَا حَتّٰی یَمْسَحَ بِھِمَا وَجْھَہُ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب دعا کے لئے دونوں ہاتھ پھیلاتے تو انہیں اپنے چہرہ مبارک پر ملے بغیر واپس نہ لوٹاتے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حَدیثٌ غَریبٌ ، لَا نَعْرِفُہُ إلَّا مِنْ حَدیثِ حَمادِ بنِ عیسٰی، وَقَدْ تَفَرَّدَ بِہِ، وَھُوَ قَلیلُ الْحَدیثِ۔۔ یہ غریب حدیث ہے صرف حماد بن عیسیٰ ہی کی معرفت ہم اسے جانتے ہیں۔ ان کی بہت کم روایات ہیں۔ سنن ترمذی کے محقق ابراہیم عطوۃ نے لکھا ہے: قَالَ التِّرْمِذیُّ حَدیثٌ صَحیحٌ غَریبٌ۔ جب کہ امام ترمذی کا پہلا قول راجح ہے۔ سنن ابو داؤد(:۱۴۹۲) کی حدیث ابن لہیعۃ کے ضعف اور حفص بن ہاشم کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے اور الادب المفرد( ۶۲۴) کی حدیث محمد بن فلیح اور اس کے والد کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے امام ابن معین فرماتے ہیں: محمدُ بْنُ فُلَیْحٍ لَیْسَ بِثِقَةٍ وَلَا أَبُوہُ۔ محمد بن فلیح ثقہ ہیں نہ ان کے والد۔

ہاں بلوغ المرام میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ۱۳۴۵ لکھتے ہیں:

وَلَہُ شَوَاھِدُ مِنْھا حَدیثُ ابْنِ عَبَّاسٍ عِندَ أَبِی دَاوٗدَ وَغَیرِہِ وَمَجْمُوعُھَا یَقْتَضِی بِأَنَّہ حَدیثٌ حَسَنٌ۔ اس حدیث کے کچھ اور شواہد بھی ہیں جیسے سنن ابوداؤد میں سیدنا ابن عباسؓ کی حدیث ہے۔ اسے حدیث حسن قرار دے سکتے ہیں۔

اسے حسن لغیرہ اس لئے کہا گیا کہ اگر ہر حدیث کی سند کو انفرادی طور پر دیکھا جائے تو وہ رتبہ حسن تک نہیں پہنچتی مگر مجموعی طور پر اسانید کو دیکھنے کے بعد اس کی سند کچھ قوی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اسے حسن لغیرہ کہتے ہیں۔

اصول:
ضعیف حدیث کے راوی میں اگر کمزوری اس کی عدالت کی وجہ سے ہے تو اس کی حدیث کسی بھی صورت میں قوی نہیں ہوسکتی خواہ اس کی بے شمار اسانید ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اگر اس کے راوی میں کمزوری حفظ وضبط کی وجہ سے ہے تو پھر یہ حدیث کثرت طرق کی وجہ سے تقویت پالے گی اور اس پر عمل بھی جائز ہوگا۔( الرسالۃ: ۵۶۱، فتح المغیث۱/۴۲، ۱۲۰)

اصول:
ایسی حدیث جس میں ضعف کا احتمال ہو اور ضعف شدید کم ہو۔مگر ایک اور حدیث آکر اس کے ضعف کو دور کردے تو یہ ضعیف حدیث اپنی مثیل کی وجہ سے یا اپنی سے قوی تر حدیث کی وجہ سے، اپنے ضعف سے نکل کر حسن لغیرہ کے درجے تک پہنچ جائے گی۔ لیکن اگرراوی، روایت حدیث میں اکیلا ہو توپھر اس کا شمار ان ضعفاء میں سے ہوگا جن کی حدیث ناقابل احتجاج ہوا کرتی ہے۔

حدیث مقبول غیر صحیح یا حسن کے لئے علماء حدیث کے مستعمل الفاظ:
کچھ احادیث ایسی ہیں جنہیں غیر صحیح یا حسن کہا جاتا ہے۔ ان احادیث کا فیصلہ دیتے وقت محدثین چند مخصوص الفاظ بولتے ہیں مثلاً: جَیِّدٌ، قَوِیٌّ، صَالِحٌ، مَعْرُوْفٌ، مَحْفُوظٌ، مُجَوَّدٌ، ثَابِتٌ اور مُشْبِہٌ۔ وغیرہ۔ جب ھَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ بولا جائے گا تو اس سے مراد حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ لِذَاتِہِ ہوگی اور جب ھَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ کہا جائے تو اس سے مراد حَسَنٌ لِذَاتِہِ۔

محفوظ:
یہ وہ حدیث ہے جسے اوثق راوی ایک ثقہ راوی کے مقابلے میں یا زیادہ ثقہ راویوں کی روایت کے مقابلے میں ایک ثقہ راوی روایت کریں ۔

معروف:
ایسی حدیث جسے ثقہ راوی نے ضعیف راوی کی حدیث کے مقابلے میں مختلف بیان کیا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
ثقہ کی طرف سے کچھ اضافہ

جب صحیح یا حسن حدیث کا راوی منفردحدیث میں کچھ اضافہ کردے جبکہ دیگر رواۃ نے اسے نہ کیا ہو تو اسے زیادۃ الثقة کہتے ہیں۔ کیا یہ اضافہ قابل قبول ہوگا؟ محدثین نے اس کے قبول ورد کے درج ذیل چند اصول بتائے ہیں:

۱… اگر یہ اضافہ (کثرت تعداد اور قوت حفظ وامانت میں ) کبیر راوی کے منافی ہے تو قبول نہیں کیونکہ کبیر بہرحال کبیر ہے۔دوسرا یہ کہ ایسے اضافہ کو قبول کرنے میں شک پیدا ہوتا ہے۔

۲… اگر اس کے منافی نہیں تو اس اضافہ کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔کیونکہ وہ راوی خود بھی تو ثقہ ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ اس اضافہ میں عبادت کے(اذکار) الفاظ نہ ہوں کیونکہ وہ تو متعین اور محدود ہی ہیں۔ ورنہ ایسے اضافہ کے بارے میں دل میں کچھ ملال ساآجاتا ہے۔ متعبَّد احادیث کو بہر صورت محفوظ ہونا چاہئے۔ ہاں اگر تعبدی الفاظ نہ ہوں جیسے نکاح یا تجارت وغیرہ کے بارے میں کوئی اضافہ ہو اور کبیرراوی کے الفاظ کے منافی بھی نہ ہو تو ایسا اضافہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔مثلاً ایک راوی کہتا ہے: آپ ﷺنے شراب پینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ اور دوسرا راوی آپ ﷺ کے ارشاد میں مزید ایک چیز کا اضافہ کرتا ہے کہ آپﷺ نے شرابی پر اور سودخوار پر لعنت فرمائی ہے۔یہ اضافہ پہلے کے منافی نہیں ہے۔اسی طرح ایک راوی کہتا ہے: آپ ﷺ نے گھوڑے کاگوشت کھانے کی اجازت دی ہے اور دوسرا کہتا ہے: آپ نے گھوڑے کا گوشت حلال قرار دیا اور گدھے کا حرام۔ تو یہ اضافہ بھی قابل قبول ہے۔مگر یہ ناقابل قبول ہوگا کہ ایک ثقہ روایت میں یہ کہے: آپ ﷺ نے یہ کرنے کا حکم دیا اور دوسرا ضعیف راوی یہ روایت کرے کہ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔یہ تو کھلی منفی اور مخالف بات ہے ۔

۳… مطلق منفی اضافہ کی اجازت خواہ کسی نے ہی دی ہو وہ بھی درست نہیں۔اگر ایسا ہو تو صحیح وحسن حدیث کی شرائط میں شاذ کی شرط رکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔جو علماء اسے جائز کہتے ہیںہوسکتا ہے ان سے یہ شرط نظرانداز ہوگئی ہو۔ وہ بشر تھے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بعض شروط کو بھول گئے ہوں۔

۴…ائمہ متقدمین سبھی روایت میں ثقہ کے مشروط اضافے کے قائل ہیں۔

۵…اسی مقام پر محفوظ اور شاذ روایت کو بھی پہچانا جاسکتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
طبقات کتب حدیث


امام علی بن محمد بن حزم رحمہ اللہ نے صحیحین کو پہلے درجے کی کتب قرار دے کر دوسرے درجے میں صحیح ابن السکن، منتقی از ابن الجارود اور منتقی ازالقاسم بن اصبغ کو رکھا ہے اور تیسرے درجے میں سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کو۔ جبکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے صاحب زادے شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہما اللہ نے کتب حدیث کی درجہ بندی ان کی صحت، شہرت اور قبولیت میں اعلی درجہ کو پیش نظر رکھ کر یہ کی ہے۔

پہلا در جہ:
کتب متفق علیہ اور موطا کا ہے-جس کی وجہ مجتہدانہ فقاہت ہے جو ان کے تراجم میں جھلکتی ہے اور صحیح مسلم میں ترتیب احادیث کی عمدگی اور حسن ہے۔موطا میں اسانید عالیہ ہیں۔ اس لئے علماء امت کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں کتب، قرآن مجید کے بعد مسلمانوں کیلئے صحیح ترین کتب ہیں۔ موطأ امام مالک بھی اسی درجہ کی کتاب ہے۔ اس میں مسند مرفوع احادیث کے علاوہ اقوال و فتاوٰی صحابہ و تابعین بھی ہیں۔ مگر ہمارے لئے صرف متصل مسند مرفوع احادیث ہی اولین حیثیت رکھتی ہیں۔

دوسر ا درجہ :
اس طبقہ میں وہ کتب شامل ہیں جن میں درجہ بالا تینوں صفات تو موجود ہوں مگر پہلے درجہ کی کتب سے ذرا کم درجہ کی ہوں۔ سنن ابی داؤد، سنن ترمذی ، سنن نسائی اور ابن ماجہ کی کتب اسی طبقہ کی ہیں جنہیں سنن أربعہ کہا جاتاہے۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں مرتب فقہی مسائل ہیں۔ جہاں ان مؤلفین نے حدیث کے ضعیف ہونے کی نشاندہی کی ہے اسے ہم ظاہر ہے ترک کر دیں گے۔ اور جو مسئلہ پہلے درجہ کی کتب میں باوضاحت نہیں تو ان کتب سے ہم مدد لیں گے۔ مسند أحمد کو بھی اس درجہ میں رکھا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ عبد اللہ اور ان کے شاگرد ابو بکر قطیعی کی اضافہ شدہ احادیث قابل اعتناء نہ سمجھی جائیں۔

تیسرا درجہ:
تیسرے طبقہ میں ایسی کتب ہیں جو صحت، شہرت اور قبولیت میں ادنی درجہ رکھتی ہوں۔ یعنی علماء کے ہاں بھی زیادہ متداول نہ رہی ہوں اور ان کی روایات میں صحیح وسقیم دونوں کو چھانٹا نہ گیا ہو۔اس طبقہ میں صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، مستدرک حاکم، مصنفات ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق، کتب از امام بیہقی اور کتب از امام طحاویؒ بھی شامل ہیں۔ان کی باری پہلے دو درجوں کی کتب میں حدیث کے نہ ہونے پر آئے گی۔

چوتھا درجہ:
آخری طبقہ کی یہ کتب پہلی کتب کے مقابلے میں انتہائی کم درجہ کی ہوں گی بلکہ ان میں وہ صفات ہی نہیں جو اول درجہ کی کتب میں ہیں۔ ان میں کتاب الضعفاء از امام ابن حبان، کتب خطیب بغدادی، یا الکامل از ابن عدی وغیرہ ہیں۔
 
Top