- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
باب۳
جب ہمیں خبر یا حدیث پہنچتی ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں: اس کے رایوں کی تعداد معین ہوگی یا غیر معین ۔جمہور محدثین نے خبر کی نسبت آپﷺ اور صحابہ وتابعین کی طرف کی ہے اور حدیث کی صرف آپﷺ کی طرف۔اس طرح :
قسم اول: متواتر
قسم ثانی:آحاد یا خبر واحد
أ۔خبر متواتر:
لغت میں لفظ تواتر: پے در پے کے معنی میں ہے۔ کہاجاتا ہے: تَوَاتَرَ الْمَطَرُ: پے درپے بارش ہوتی رہی۔ ایک کے بعد دوسرا قطرہ۔ اسی سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا} پھر ہم پے در پے اپنے رسولوں کو بھیجتے رہے۔ دورسولوں کے درمیان وقفہ ہوتا تھا۔ اگروقفہ کے بغیر ہوتو اسے مواصلۃ کہتے ہیں۔ وَتِیرةٍ : عربی زبان میں طریقہ کو بھی کہتے ہیں۔جیسے : مَا زَالَ عَلَی وَتِیرةٍ وَاحِدَۃٍ: وہ ابھی تک ایک ہی عادت پر قائم ہے۔ متواتر اسم فاعل ہے۔ جس کا مطلب ہے ایک شے کے بعد دوسری شے کا آنا۔
اصطلاح محدثین میں:
علماء حدیث نے متواتر کی تعریف یہ کی ہے۔
مَارَوَاہُ جَمَاعَةٌ، فِی یسْتَحِیْلُ فِی الْعَادَۃِ أَنْ یَتَوَاطَؤُا عَلَی الْکِذْبِ عَنْ مِثْلِھمْ مِنْ أَوَّلِ السَّنَدِ إِلٰی مُنْتَھَاہُ وَ أَسْنَدُوہُ إِلٰی شَیٗءٍ مَحْسُوسٍ وَأَفَادَ خَبَرُھُمُ الْعِلْمَ لِسَامِعِہِ۔ ایسی حدیث جسے اول سند سے تا انتہاء ایسی جماعت روایت کرے کہ جس کا جھوٹ پر اتفاق عادۃً محال ہو۔ نیز وہ کسی محسوس شے کی طرف منسوب ہو۔نیزان کی خبر اپنے سامع کو علم کا فائدہ بھی دے۔
مثال:
امام بخاری رحمہ اللہ جزء القراء ۃ کے ص ۴پر لکھتے ہیں:
وَتَوَاتَرَ الْخَبَرُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ: لَا صَلَاةَ إِلاَّ بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔ آپ ﷺ سے تواتر کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے کہ: ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
چار شرائط:
اولاً:
تواتر کے لئے معین تعداد کی ضرورت نہیں۔قول مختار یہ ہے کہ راویوں کی تعداد کم از کم چار ہو جو حفظ حدیث، دین اور ثقاہت میں قابل اعتبار ہوں۔
ثانیاً:
یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے۔کہیں کم نہ ہوپائے۔جہاں کمی ہوئی وہ متواتر نہیں ہوگی۔
ثالثاً:
عقل باور کرے کہ ان کا کسی جھوٹ پر عادۃً بھی متفق ہونا ناممکنات میں سے ہے۔
رابعاً:
وہ مروی خبر بھی حسی ہو۔اعتقادی نہ ہو یعنی ہرطبقے کے تمام راوی سَمِعْنَا یا رَأَیْنَا جیسے الفاظ کہیں تاکہ سامع کو یقین ہو۔
ایسی روایت مفید علم ہوگی۔
متواتر کی انواع:
اس خبرکی دو قسمیں ہیں:
۱۔ متواتر لفظی ۲۔ متواتر معنوی
متواتر لفظی:
وہ خبر جس کے لفظ یا عمل متواتر ہوں نہ کہ معنی۔ مثلاً :
آپ ﷺ کی یہ قولی حدیث جو سیدنا ابوہریرہ ؓ کے علاوہ دیگر صحابہ سے بھی انہی الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ
جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ بولا وہ اپنا مقام دوزخ بنالے۔(متفق علیہ)
اسباب تواتر:
محدث بزارؒ (م: ۲۹۲ھ) نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو چالیس صحابہ نے انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ابو بکر الصیرفی ؒ، امام شافعیؒ کے الرسالہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
یہ حدیث ساٹھ سے زائد صحابہ سے مرفوعاً مروی ہے۔
ابن مندہؒ نے ستاسی صحابہ گنوائے ہیں۔
امام نوویؒ نے بعض محدثین سے نقل کیا ہے کہ ا س حدیث کو باسٹھ صحابہ کرام نے روایت کیا جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
اس حدیث کو بقول امام سیوطی(ازہار المتناثرہ ح: ۱) ستر سے زائد صحابہ نے روایت کیا ہے اور ہر صحابی کی سند روایت کو لکھا بھی ہے آخیر میں کہا ہے: فھٰؤُلاءِ اثْنَانِ وَسَبْعُونَ صَحَابِیًّا۔ تو یہ ہے بہتر صحابہ کی روایت۔
متواتر معنوی:
مَا تَوَاتَرَ مَعْنَاہُ دُونَ لَفْظِہِ۔ وہ خبر جس کا معنی تواترسے مروی ہو نہ کہ اس کے لفظ۔
جیسے: شفاعت کی احادیث، گو ان میں مختلف حالات کا تذکرہ ہے مگر سبھی شفاعت رسول پر متفق ہیں۔ دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھانے کی متعدد احادیث ہیں مگر معنی پر سبھی متفق ہیں گو دعاؤں کے الفاظ اور حالات مختلف ہیں۔اسی طرح دیگر احادیث مثلاً: حوض کوثر ، دجال کی آمد، نزول سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، اور قبرکو سجدہ گاہ نہ بنانے کی احادیث۔
متواتر معنوی کی تقریبی مثال:
جیسے کوئی حاتم کے بارے میں کہے کہ اس نے ایک اونٹ دیا اور دوسرا کہے : اس نے گھوڑا دیا۔کوئی کہے: اس نے دینار دیا۔ اس تمام گفتگو میں ایک قدر مشترک تواتر کے ساتھ مل رہی ہے: اور وہ ہے : دینا۔ کیونکہ ہر حال میں وہ موجود ہے۔
تصنیفات متواتر احادیث :
متأخر علماء نے کوشش کی ہے کہ متواتر احادیث کو جمع کیا جائے۔ ان میں:
محمد بن طولون دمشقی (م: ۹۵۳ھ) کی کتاب: اللَّآلِی الْمُتَنَاثِرَۃُ فِی الاَحادیثِ المُتَواِتَرۃ۔
امام سیوطی (م: ۹۱۱ھ)کی دو تصانیف: الأَزْھَارُ المَتَنَاثِرَۃُ فِی الأخبارِ المُتواتِرۃِ اور قَطْفُ الأزْھارِ ہیں۔
اور محمد بن جعفر الکتانی کی کتاب: نَظْمُ المُتَنَاثِرِ مِنَ الحدیثِ المُتَوَاتِرِ ہے۔ اس میں تین سو دس احادیث ہیں۔
نوٹ:
جب کسی حدیث کے لئے صرف متواتر کا لفظ ہو تو وہ محدثین کے ہاں متواتر لفظی مراد ہوا کرتا ہے۔
اس کا وجود:
بہت سے علماء کا نکتہ نظریہ بھی ہے کہ متواتر احادیث شاذ ہی ملتی ہیں۔بلکہ وہ لفظ متواتر کو علم حدیث میں دخیل سمجھتے ہیں۔
امام ابن الصلاحؒ نے بصراحت لکھا ہے کہ اس کا وجود نادر ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ومِنْہُ الْمُتَوَاتِرُ الْمَعْرُوْفُ فِی الْفِقْہِ وَأُصُوْلِہِ وَلَا یَذْکُرُہُ الْمُحَدِّثُونَ، وَ ھُوَ قَلِیْلٌ لَا یَکَادُ یُوْجَدُ فِیْ رِوَایَاتِھِم
اسی مشہورکی ایک قسم متواتر حدیث ہے جو فقہ اور اصول فقہ میں خاصی معروف ہے۔ محدثین اس کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ قلیل تعداد میں ہے بلکہ ان کی روایات میں اس کا وجود بھی نادر ہے۔(التقریب:تیسویں نوع)
مگر ابن حجر رحمہ اللہ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں ان کی یہ رائے متواتر احادیث کی بکثرت منتشراسانید کے بارے میں قلت اطلاع پر مبنی ہے۔ بہرحال اگرصرف مرحلہ قبل از تدوین ہی کو لیں تو متواتر احادیث کا وجود ملتا ہے اور بعد از تدوین کو لے کر اگر فیصلہ کریں تو پھر جس نے متواتر کی نفی کی ہے وہ درست ہے۔
اس کا حکم:
علماء فقہ وحدیث متفق ہیں کہ متواترحدیث خواہ لفظی ہو یا معنوی اس سے علم یقین وضروری حاصل ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
متواتر حدیث کے لئے رواۃ کی تعداد متعین کرنا ٹھیک نہیں بلکہ لفظ تواتر سے کئی معانی مراد لئے جاتے ہیں۔کیونکہ متواتر سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جس سے علم حاصل ہو۔ کبھی مخبرین کی کثرت سے یہ علم حاصل ہوتا ہے اور کبھی رواۃ کی مخصوص صفات ، ضبط اور ان کے دین کی وجہ سے بھی خبر متواتر کہلاتی ہے۔اور کبھی چند قرائن خبرسے ایسے چمٹے ہوتے ہیں جن سے مجموعی طور پر علم (یقین) حاصل ہوتا ہے ۔کبھی حدیث کو امت قبول کرکے متواتر کا درجہ عطا کردیتی ہے۔اس لئے کہ امت کبھی بھی ضلالت پر جمع نہیں ہوسکتی۔اسی طرح تواتر حدیث وہ بھی ہوتی ہے جس کی صحت پرمحدثین جمع ہوجائیں۔نیر علم یقین کا حصول کبھی راویوں کی کثرت سے ہوتا ہے اور کبھی دینداری وضبط یا دیگر صفات سے۔(مجموع الفتاوی ۱۸؍۱۶،۱۴۸)
ب۔ خبر واحد یا اخبار آحاد:
اسے حدیث آحاد بھی کہتے ہیں۔
لغت میں لفظ آحاد ، احد کی جمع ہے جس کا معنی ہے : ایک۔
جمہور محدثین کی اصطلاح میں:
ھُوَ مَا لَمْ یَجْمَعْ شُرُوطُ التَّوَاتُرِ۔ جس میں تواتر کی شرائط اکٹھی نہ ہوسکیں۔
اقسام:
جمہور محدثین نے خبر واحد کو تین اقسام میں منقسم کردیا ہے:
۱۔ غریب ۲۔ عزیز ۳۔مشہور
۱۔ خبر غریب:
عربی میں فرد واحد کو غریب کہتے ہیں یا اسے جو اپنے رشتہ داروں سے دور ہو۔اسے مفرد یا فرد بھی کہتے ہیں۔
اصطلاح میں:
ھُوَ الَّذِیْ یَنْفَرِدُ بِرِوَایَتِہِ شَخْصٌ وَاحِدٌ فِیْ جَمِیْعِ طِبَاقِ السَّنَدِ أَوْ بَعْضِھَا۔ وہ خبر ہوتی ہے جسے سند کے تمام طبقات میں یا بعض میں ایک شخص روایت کرے۔
مثال: آپ ﷺ نے فرمایا:
إنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ إِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی۔۔۔الحدیث۔ بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔(متفق علیہ عن عمرؓ بن الخطاب)
حکم:
یہ حدیث، صحیح، حسن اور ضعیف بھی ہوسکتی ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے: صَحِیْحٌ غَرِیبٌ۔ یا حَسَنٌ غَرِیبٌ۔ یا صرف غَرِیْبٌ۔ آخری اصطلاح امام ترمذی بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ امام زیلعی بھی نصب الرایۃ میں اس کا ذکر تو کرتے ہیں مگر اس کا ضعف نہیں بتاتے۔ مگرامام ترمذی رحمہ اللہ اکثر وبیشتر اس سے مراد ضعیف ہی لیتے ہیں۔
٭… غرابت کبھی سند میں ہوتی ہے اور کبھی متن میں۔ یا کبھی دونوں میں۔ اس لئے تخریج حدیث دونوں۔۔ متن اور سند۔۔ کے ذریعے ہونی چاہئے۔
تعداد اسانید کے اعتبار سے خبر کی اقسام
جب ہمیں خبر یا حدیث پہنچتی ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں: اس کے رایوں کی تعداد معین ہوگی یا غیر معین ۔جمہور محدثین نے خبر کی نسبت آپﷺ اور صحابہ وتابعین کی طرف کی ہے اور حدیث کی صرف آپﷺ کی طرف۔اس طرح :
قسم اول: متواتر
قسم ثانی:آحاد یا خبر واحد
أ۔خبر متواتر:
لغت میں لفظ تواتر: پے در پے کے معنی میں ہے۔ کہاجاتا ہے: تَوَاتَرَ الْمَطَرُ: پے درپے بارش ہوتی رہی۔ ایک کے بعد دوسرا قطرہ۔ اسی سے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا} پھر ہم پے در پے اپنے رسولوں کو بھیجتے رہے۔ دورسولوں کے درمیان وقفہ ہوتا تھا۔ اگروقفہ کے بغیر ہوتو اسے مواصلۃ کہتے ہیں۔ وَتِیرةٍ : عربی زبان میں طریقہ کو بھی کہتے ہیں۔جیسے : مَا زَالَ عَلَی وَتِیرةٍ وَاحِدَۃٍ: وہ ابھی تک ایک ہی عادت پر قائم ہے۔ متواتر اسم فاعل ہے۔ جس کا مطلب ہے ایک شے کے بعد دوسری شے کا آنا۔
اصطلاح محدثین میں:
علماء حدیث نے متواتر کی تعریف یہ کی ہے۔
مَارَوَاہُ جَمَاعَةٌ، فِی یسْتَحِیْلُ فِی الْعَادَۃِ أَنْ یَتَوَاطَؤُا عَلَی الْکِذْبِ عَنْ مِثْلِھمْ مِنْ أَوَّلِ السَّنَدِ إِلٰی مُنْتَھَاہُ وَ أَسْنَدُوہُ إِلٰی شَیٗءٍ مَحْسُوسٍ وَأَفَادَ خَبَرُھُمُ الْعِلْمَ لِسَامِعِہِ۔ ایسی حدیث جسے اول سند سے تا انتہاء ایسی جماعت روایت کرے کہ جس کا جھوٹ پر اتفاق عادۃً محال ہو۔ نیز وہ کسی محسوس شے کی طرف منسوب ہو۔نیزان کی خبر اپنے سامع کو علم کا فائدہ بھی دے۔
مثال:
امام بخاری رحمہ اللہ جزء القراء ۃ کے ص ۴پر لکھتے ہیں:
وَتَوَاتَرَ الْخَبَرُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ: لَا صَلَاةَ إِلاَّ بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔ آپ ﷺ سے تواتر کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے کہ: ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
چار شرائط:
اولاً:
تواتر کے لئے معین تعداد کی ضرورت نہیں۔قول مختار یہ ہے کہ راویوں کی تعداد کم از کم چار ہو جو حفظ حدیث، دین اور ثقاہت میں قابل اعتبار ہوں۔
ثانیاً:
یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے۔کہیں کم نہ ہوپائے۔جہاں کمی ہوئی وہ متواتر نہیں ہوگی۔
ثالثاً:
عقل باور کرے کہ ان کا کسی جھوٹ پر عادۃً بھی متفق ہونا ناممکنات میں سے ہے۔
رابعاً:
وہ مروی خبر بھی حسی ہو۔اعتقادی نہ ہو یعنی ہرطبقے کے تمام راوی سَمِعْنَا یا رَأَیْنَا جیسے الفاظ کہیں تاکہ سامع کو یقین ہو۔
ایسی روایت مفید علم ہوگی۔
متواتر کی انواع:
اس خبرکی دو قسمیں ہیں:
۱۔ متواتر لفظی ۲۔ متواتر معنوی
متواتر لفظی:
وہ خبر جس کے لفظ یا عمل متواتر ہوں نہ کہ معنی۔ مثلاً :
آپ ﷺ کی یہ قولی حدیث جو سیدنا ابوہریرہ ؓ کے علاوہ دیگر صحابہ سے بھی انہی الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ
جس نے مجھ پر عمداً جھوٹ بولا وہ اپنا مقام دوزخ بنالے۔(متفق علیہ)
اسباب تواتر:
محدث بزارؒ (م: ۲۹۲ھ) نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو چالیس صحابہ نے انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ابو بکر الصیرفی ؒ، امام شافعیؒ کے الرسالہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
یہ حدیث ساٹھ سے زائد صحابہ سے مرفوعاً مروی ہے۔
ابن مندہؒ نے ستاسی صحابہ گنوائے ہیں۔
امام نوویؒ نے بعض محدثین سے نقل کیا ہے کہ ا س حدیث کو باسٹھ صحابہ کرام نے روایت کیا جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
اس حدیث کو بقول امام سیوطی(ازہار المتناثرہ ح: ۱) ستر سے زائد صحابہ نے روایت کیا ہے اور ہر صحابی کی سند روایت کو لکھا بھی ہے آخیر میں کہا ہے: فھٰؤُلاءِ اثْنَانِ وَسَبْعُونَ صَحَابِیًّا۔ تو یہ ہے بہتر صحابہ کی روایت۔
متواتر معنوی:
مَا تَوَاتَرَ مَعْنَاہُ دُونَ لَفْظِہِ۔ وہ خبر جس کا معنی تواترسے مروی ہو نہ کہ اس کے لفظ۔
جیسے: شفاعت کی احادیث، گو ان میں مختلف حالات کا تذکرہ ہے مگر سبھی شفاعت رسول پر متفق ہیں۔ دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھانے کی متعدد احادیث ہیں مگر معنی پر سبھی متفق ہیں گو دعاؤں کے الفاظ اور حالات مختلف ہیں۔اسی طرح دیگر احادیث مثلاً: حوض کوثر ، دجال کی آمد، نزول سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، اور قبرکو سجدہ گاہ نہ بنانے کی احادیث۔
متواتر معنوی کی تقریبی مثال:
جیسے کوئی حاتم کے بارے میں کہے کہ اس نے ایک اونٹ دیا اور دوسرا کہے : اس نے گھوڑا دیا۔کوئی کہے: اس نے دینار دیا۔ اس تمام گفتگو میں ایک قدر مشترک تواتر کے ساتھ مل رہی ہے: اور وہ ہے : دینا۔ کیونکہ ہر حال میں وہ موجود ہے۔
تصنیفات متواتر احادیث :
متأخر علماء نے کوشش کی ہے کہ متواتر احادیث کو جمع کیا جائے۔ ان میں:
محمد بن طولون دمشقی (م: ۹۵۳ھ) کی کتاب: اللَّآلِی الْمُتَنَاثِرَۃُ فِی الاَحادیثِ المُتَواِتَرۃ۔
امام سیوطی (م: ۹۱۱ھ)کی دو تصانیف: الأَزْھَارُ المَتَنَاثِرَۃُ فِی الأخبارِ المُتواتِرۃِ اور قَطْفُ الأزْھارِ ہیں۔
اور محمد بن جعفر الکتانی کی کتاب: نَظْمُ المُتَنَاثِرِ مِنَ الحدیثِ المُتَوَاتِرِ ہے۔ اس میں تین سو دس احادیث ہیں۔
نوٹ:
جب کسی حدیث کے لئے صرف متواتر کا لفظ ہو تو وہ محدثین کے ہاں متواتر لفظی مراد ہوا کرتا ہے۔
اس کا وجود:
بہت سے علماء کا نکتہ نظریہ بھی ہے کہ متواتر احادیث شاذ ہی ملتی ہیں۔بلکہ وہ لفظ متواتر کو علم حدیث میں دخیل سمجھتے ہیں۔
امام ابن الصلاحؒ نے بصراحت لکھا ہے کہ اس کا وجود نادر ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ومِنْہُ الْمُتَوَاتِرُ الْمَعْرُوْفُ فِی الْفِقْہِ وَأُصُوْلِہِ وَلَا یَذْکُرُہُ الْمُحَدِّثُونَ، وَ ھُوَ قَلِیْلٌ لَا یَکَادُ یُوْجَدُ فِیْ رِوَایَاتِھِم
اسی مشہورکی ایک قسم متواتر حدیث ہے جو فقہ اور اصول فقہ میں خاصی معروف ہے۔ محدثین اس کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ قلیل تعداد میں ہے بلکہ ان کی روایات میں اس کا وجود بھی نادر ہے۔(التقریب:تیسویں نوع)
مگر ابن حجر رحمہ اللہ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں ان کی یہ رائے متواتر احادیث کی بکثرت منتشراسانید کے بارے میں قلت اطلاع پر مبنی ہے۔ بہرحال اگرصرف مرحلہ قبل از تدوین ہی کو لیں تو متواتر احادیث کا وجود ملتا ہے اور بعد از تدوین کو لے کر اگر فیصلہ کریں تو پھر جس نے متواتر کی نفی کی ہے وہ درست ہے۔
اس کا حکم:
علماء فقہ وحدیث متفق ہیں کہ متواترحدیث خواہ لفظی ہو یا معنوی اس سے علم یقین وضروری حاصل ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
متواتر حدیث کے لئے رواۃ کی تعداد متعین کرنا ٹھیک نہیں بلکہ لفظ تواتر سے کئی معانی مراد لئے جاتے ہیں۔کیونکہ متواتر سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جس سے علم حاصل ہو۔ کبھی مخبرین کی کثرت سے یہ علم حاصل ہوتا ہے اور کبھی رواۃ کی مخصوص صفات ، ضبط اور ان کے دین کی وجہ سے بھی خبر متواتر کہلاتی ہے۔اور کبھی چند قرائن خبرسے ایسے چمٹے ہوتے ہیں جن سے مجموعی طور پر علم (یقین) حاصل ہوتا ہے ۔کبھی حدیث کو امت قبول کرکے متواتر کا درجہ عطا کردیتی ہے۔اس لئے کہ امت کبھی بھی ضلالت پر جمع نہیں ہوسکتی۔اسی طرح تواتر حدیث وہ بھی ہوتی ہے جس کی صحت پرمحدثین جمع ہوجائیں۔نیر علم یقین کا حصول کبھی راویوں کی کثرت سے ہوتا ہے اور کبھی دینداری وضبط یا دیگر صفات سے۔(مجموع الفتاوی ۱۸؍۱۶،۱۴۸)
ب۔ خبر واحد یا اخبار آحاد:
اسے حدیث آحاد بھی کہتے ہیں۔
لغت میں لفظ آحاد ، احد کی جمع ہے جس کا معنی ہے : ایک۔
جمہور محدثین کی اصطلاح میں:
ھُوَ مَا لَمْ یَجْمَعْ شُرُوطُ التَّوَاتُرِ۔ جس میں تواتر کی شرائط اکٹھی نہ ہوسکیں۔
اقسام:
جمہور محدثین نے خبر واحد کو تین اقسام میں منقسم کردیا ہے:
۱۔ غریب ۲۔ عزیز ۳۔مشہور
۱۔ خبر غریب:
عربی میں فرد واحد کو غریب کہتے ہیں یا اسے جو اپنے رشتہ داروں سے دور ہو۔اسے مفرد یا فرد بھی کہتے ہیں۔
اصطلاح میں:
ھُوَ الَّذِیْ یَنْفَرِدُ بِرِوَایَتِہِ شَخْصٌ وَاحِدٌ فِیْ جَمِیْعِ طِبَاقِ السَّنَدِ أَوْ بَعْضِھَا۔ وہ خبر ہوتی ہے جسے سند کے تمام طبقات میں یا بعض میں ایک شخص روایت کرے۔
مثال: آپ ﷺ نے فرمایا:
إنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَ إِنَّمَا لِکُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَی۔۔۔الحدیث۔ بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔(متفق علیہ عن عمرؓ بن الخطاب)
حکم:
یہ حدیث، صحیح، حسن اور ضعیف بھی ہوسکتی ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے: صَحِیْحٌ غَرِیبٌ۔ یا حَسَنٌ غَرِیبٌ۔ یا صرف غَرِیْبٌ۔ آخری اصطلاح امام ترمذی بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ امام زیلعی بھی نصب الرایۃ میں اس کا ذکر تو کرتے ہیں مگر اس کا ضعف نہیں بتاتے۔ مگرامام ترمذی رحمہ اللہ اکثر وبیشتر اس سے مراد ضعیف ہی لیتے ہیں۔
٭… غرابت کبھی سند میں ہوتی ہے اور کبھی متن میں۔ یا کبھی دونوں میں۔ اس لئے تخریج حدیث دونوں۔۔ متن اور سند۔۔ کے ذریعے ہونی چاہئے۔