- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
۲۔ تدلیس الشیوخ:
وَھُوَ أَنْ یُسَمِّیَ الرَّاوِیْ شَیْخَہُ أَو یُکَنِّیْہِ أَو یُنْسِبُہُ أَو یَصِفُہُ بِمَا لَا یُعْرَفُ فَیُوھِمُ أَنَّہُ غَیرُہُ، إِمَّا لِکَونِہِ أَصْغَرُ مِنہُ فَلَا یُحِبُّ أَنْ یُظْھِرَ رِوَایَتَہُ عَمَّنْ دُوْنَہُ وَإِمَّا لِیَظُنَّ النَّاسُ کَثْرَةَ شُیُوخِہِ وإِمَّا لِغَیرِھِمَا مِنَ الْمَقَاصِدِ۔ اسے کہتے ہیں جس میں راوی حدیث روایت کرتے وقت اپنے شیخ کا ایسا نام ، کنیت، نسبت یا صفت لے جس میں وہ مشہور نہ ہو۔جو سامع کو وہم میں ڈال دے کہ یہ کوئی اور راوی یا شیخ ہے۔ وہ یہ اس لئے کرتا ہے کہ یا تو اس کا شیخ اس سے عمر میں چھوٹا ہے اور اسے یہ پسند نہیں کہ اپنی روایت اس سے بیان کرے جو عمر میں اس سے کم ہو۔ یاوہ اس لئے کرتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس کے شیوخ بکثرت ہیں یا ان کے علاوہ اور مقاصد بھی اس کے پیش نظر ہوسکتے ہیں۔
مثال: امام ابوداؤد نے سنن(۲۱۹۶) میں بہ سند:
ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی بَعْضُ بَنِی أَبِی رَافِعٍ مَولَی النَّبِیِّ ﷺ، عَنْ عِکْرِمَةَ مَولَی ابْنِ عَباسٍ، عَنِ ابْنِ عَباسٍ، قَالَ: طَلَّقَ عَبدُ یَزِیْدَ ۔۔۔أبُورُ کَانَة وَإِخْوَتُہُ۔۔۔۔۔۔أُمَّ رُکَانَةَ وَنَکَحَ امْرَأَءَ مِنْ مُزَیْنَةَ۔۔۔ وَ ذَکرَ حَدیثًا فِی طَلاقِ الثَّلاثِ جُمْلَةً وَاحِدَةً۔
اس حدیث کے راوی ابن جریج کا نام عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج ہے جو ایک ثقہ راوی ہیں مگر تدلیس کے ساتھ بھی موصوف ہیں۔اگرچہ وہ اپنے شیخ کا نام بھی صراحتاً لیتے ہیں مگر ایک آدھ بار انہوں نے اپنے شیخ کے نام پر پردہ ڈالنے کے لئے ایسا کیااور یوں کہا: أَخْبَرَنِی بَعْضُ بَنِی أَبِی رَاِفعٍ۔ علماء کے ہاں اس راوی کی تعیین میں اختلاف ہے۔
اس شیخ کو امام حاکمؒ مستدرک(۲/۴۹۱) کی ایک روایت میں یوں ذکر کرتے ہیں: عَنْ مُحمدِ بْنِ عُبَیدِ اللہِ بنِ أَبِی رَاِفعٍ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔۔۔ جب یہ سند موجود ہے اور وہ بھی صراحت کے ساتھ۔تو پھر تدلیس کیسی؟
یہ محمد بن عبید اللہ متروک راوی ہیں۔ امام بخاریؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: مُنْکَرُ الْحَدِیثِ۔ ابن معینؒ کہتے ہیں: لَیْسَ بِشَئٍ۔ اور ابوحاتم ؒکہتے ہیں: مُنْکَرُ الْحَدیثِ جِدًّا ذَاھِبٌ۔
نوٹ: رکانہؓ کی یہ حدیث امام احمد بن حنبل(۱/۲۶۵) بھی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں جسے امام ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں صحیح قرار دیا ہے۔کہ رکانہؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک قرار دے کر رجوع کا اختیار دے دیا تھا چنانچہ رکانہؓ نے رجوع کرلیا تھا۔
٭…رواۃ کے نام یاکنی والقاب متشابہ ہوں تو راوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شیخ یا راوی کا مکمل نام ضرور واضح کرے ورنہ یہ تدلیس ہوگی۔فقیہ مدینہ عبد اللہ بن نافع الصائغ کی بڑی عمدہ تقریظ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے ترتیب المدارک کے شروع میں لکھی اورکہا: سحنون نے محمد بن رزین کو کچھ لکھ بھیجا۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ سحنون ، عبد اللہ بن نافع سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:کیا تم نے عبد اللہ بن نافع سے سنا ہے؟ سحنون نے کہا: اللہ تعالی آپ کی اصلاح کرے میں نے جس نافع سے سنا ہے وہ الزبیر ی ہیں نہ کہ الصائغ۔ پھر وہ کہنے لگے: تم نے پھر تدلیس کیوں کی؟ سحنون نے کہا: مَاذَا یَخْرُجُ بَعْدِیْ مِنَ الْعَقَارِبِ؟ میرے بعد بچھوؤں سے پھر کیا نکلے گا؟ مراد یہ کہ میں نے تو تدلیس نہیں کی اگر کوئی الزام دیتا ہے تو میں اس الزام کا کیا جواب دے سکتا ہوں؟ اگرچہ دونوں ثقہ محدثین ہیں مگر سحنون نے ان دونوں کو واضح کرنا ضروری سمجھا۔ تاکہ ان دونوں کی روایت آپس میں خلط ملط نہ ہو۔ کیونکہ الصائغ قدیم بزرگ تھے اورامام مالکؒ کے اقدم واثبت شاگردوں میں سے تھے اور انہیں امام مالکؒ کی طویل صحبت حاصل تھی۔ یہ وہی ہیں جنہیں ابن کنانہ کے بعد امام مالکؒ نے اپنی مجلس کی جگہ دی۔اوریہ وہی ہیں جن کا ذکر یحییٰ بن یحییٰ اور سحنون کرتے ہیں اور ان سے روایت بھی۔ مگر سحنون نے ان سے سماع نہیں کیا بلکہ اشہب سے انہوں نے سنا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء: ۱۰؍۳۷۱)
وَھُوَ أَنْ یُسَمِّیَ الرَّاوِیْ شَیْخَہُ أَو یُکَنِّیْہِ أَو یُنْسِبُہُ أَو یَصِفُہُ بِمَا لَا یُعْرَفُ فَیُوھِمُ أَنَّہُ غَیرُہُ، إِمَّا لِکَونِہِ أَصْغَرُ مِنہُ فَلَا یُحِبُّ أَنْ یُظْھِرَ رِوَایَتَہُ عَمَّنْ دُوْنَہُ وَإِمَّا لِیَظُنَّ النَّاسُ کَثْرَةَ شُیُوخِہِ وإِمَّا لِغَیرِھِمَا مِنَ الْمَقَاصِدِ۔ اسے کہتے ہیں جس میں راوی حدیث روایت کرتے وقت اپنے شیخ کا ایسا نام ، کنیت، نسبت یا صفت لے جس میں وہ مشہور نہ ہو۔جو سامع کو وہم میں ڈال دے کہ یہ کوئی اور راوی یا شیخ ہے۔ وہ یہ اس لئے کرتا ہے کہ یا تو اس کا شیخ اس سے عمر میں چھوٹا ہے اور اسے یہ پسند نہیں کہ اپنی روایت اس سے بیان کرے جو عمر میں اس سے کم ہو۔ یاوہ اس لئے کرتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس کے شیوخ بکثرت ہیں یا ان کے علاوہ اور مقاصد بھی اس کے پیش نظر ہوسکتے ہیں۔
مثال: امام ابوداؤد نے سنن(۲۱۹۶) میں بہ سند:
ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی بَعْضُ بَنِی أَبِی رَافِعٍ مَولَی النَّبِیِّ ﷺ، عَنْ عِکْرِمَةَ مَولَی ابْنِ عَباسٍ، عَنِ ابْنِ عَباسٍ، قَالَ: طَلَّقَ عَبدُ یَزِیْدَ ۔۔۔أبُورُ کَانَة وَإِخْوَتُہُ۔۔۔۔۔۔أُمَّ رُکَانَةَ وَنَکَحَ امْرَأَءَ مِنْ مُزَیْنَةَ۔۔۔ وَ ذَکرَ حَدیثًا فِی طَلاقِ الثَّلاثِ جُمْلَةً وَاحِدَةً۔
اس حدیث کے راوی ابن جریج کا نام عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج ہے جو ایک ثقہ راوی ہیں مگر تدلیس کے ساتھ بھی موصوف ہیں۔اگرچہ وہ اپنے شیخ کا نام بھی صراحتاً لیتے ہیں مگر ایک آدھ بار انہوں نے اپنے شیخ کے نام پر پردہ ڈالنے کے لئے ایسا کیااور یوں کہا: أَخْبَرَنِی بَعْضُ بَنِی أَبِی رَاِفعٍ۔ علماء کے ہاں اس راوی کی تعیین میں اختلاف ہے۔
اس شیخ کو امام حاکمؒ مستدرک(۲/۴۹۱) کی ایک روایت میں یوں ذکر کرتے ہیں: عَنْ مُحمدِ بْنِ عُبَیدِ اللہِ بنِ أَبِی رَاِفعٍ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔۔۔ جب یہ سند موجود ہے اور وہ بھی صراحت کے ساتھ۔تو پھر تدلیس کیسی؟
یہ محمد بن عبید اللہ متروک راوی ہیں۔ امام بخاریؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: مُنْکَرُ الْحَدِیثِ۔ ابن معینؒ کہتے ہیں: لَیْسَ بِشَئٍ۔ اور ابوحاتم ؒکہتے ہیں: مُنْکَرُ الْحَدیثِ جِدًّا ذَاھِبٌ۔
نوٹ: رکانہؓ کی یہ حدیث امام احمد بن حنبل(۱/۲۶۵) بھی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں جسے امام ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں صحیح قرار دیا ہے۔کہ رکانہؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک قرار دے کر رجوع کا اختیار دے دیا تھا چنانچہ رکانہؓ نے رجوع کرلیا تھا۔
٭…رواۃ کے نام یاکنی والقاب متشابہ ہوں تو راوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شیخ یا راوی کا مکمل نام ضرور واضح کرے ورنہ یہ تدلیس ہوگی۔فقیہ مدینہ عبد اللہ بن نافع الصائغ کی بڑی عمدہ تقریظ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے ترتیب المدارک کے شروع میں لکھی اورکہا: سحنون نے محمد بن رزین کو کچھ لکھ بھیجا۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ سحنون ، عبد اللہ بن نافع سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:کیا تم نے عبد اللہ بن نافع سے سنا ہے؟ سحنون نے کہا: اللہ تعالی آپ کی اصلاح کرے میں نے جس نافع سے سنا ہے وہ الزبیر ی ہیں نہ کہ الصائغ۔ پھر وہ کہنے لگے: تم نے پھر تدلیس کیوں کی؟ سحنون نے کہا: مَاذَا یَخْرُجُ بَعْدِیْ مِنَ الْعَقَارِبِ؟ میرے بعد بچھوؤں سے پھر کیا نکلے گا؟ مراد یہ کہ میں نے تو تدلیس نہیں کی اگر کوئی الزام دیتا ہے تو میں اس الزام کا کیا جواب دے سکتا ہوں؟ اگرچہ دونوں ثقہ محدثین ہیں مگر سحنون نے ان دونوں کو واضح کرنا ضروری سمجھا۔ تاکہ ان دونوں کی روایت آپس میں خلط ملط نہ ہو۔ کیونکہ الصائغ قدیم بزرگ تھے اورامام مالکؒ کے اقدم واثبت شاگردوں میں سے تھے اور انہیں امام مالکؒ کی طویل صحبت حاصل تھی۔ یہ وہی ہیں جنہیں ابن کنانہ کے بعد امام مالکؒ نے اپنی مجلس کی جگہ دی۔اوریہ وہی ہیں جن کا ذکر یحییٰ بن یحییٰ اور سحنون کرتے ہیں اور ان سے روایت بھی۔ مگر سحنون نے ان سے سماع نہیں کیا بلکہ اشہب سے انہوں نے سنا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء: ۱۰؍۳۷۱)