• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرسل نے حدیث ہی مرسل سنی ہو اور واصل نے متصل۔اس لئے مثبت ، نافی پر مقدم ہوتا ہے۔
پہلا قول: :
یہ محدثین اصولاً حدیث متصل اور مرسل میں تعارض کی صورت کو تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مرسل اور متصل کے مابین مقابلہ کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک متصل ہے اور دوسری مرسل۔ اس میں تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لئے وہ متصل حدیث کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اس کے مقابلے میں مرسل ایک ہو یا پوری جماعت یامرسل راوی خواہ حفظ میں واصل راوی کے برابر کا درجہ رکھتا ہو یا اس سے بھی زیادہ احفظ ہو۔ وہ مرسل میں صحیح کی شروط مفقود پاکراسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔یہ جمہور محدثین اور اصولیین کا قول ہے۔خطیب بغدادی اسی کے قائل ہیں ۔

دوسرا قول:
ان محدثین کے نزدیک ۔۔ تعارض کی ایک اور صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کچھ رواۃ نے اسے متصل روایت کیا ہو اور کچھ نے مرسل۔اور ترجیح کا کوئی حتمی فیصلہ بھی نہ ہوپائے تو روایات کے مراتب اور درجات دیکھے جائیں اور ان میں جو اعلی درجہ ومرتبہ کی روایت ہے اسے ترجیح دی جائے۔

امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
متقدمین ائمہ حدیث ۔۔جیسے عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ القطان، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی ، امام بخاری ، ابوزرعۃ، ابو حاتم، امام نسائی، دار قطنی وغیرہم اس ترجیحی فیصلہ کو معتبرمانتے ہیں جس کا تعلق اضافہ سے ہو نہ کہ صرف قبول اضافہ سے۔یہ اضافہ متن میں بھی ہوسکتا ہے اور سند میں بھی۔ ان کے راجح ومرجوح کے ترجیحی فیصلے یوں ہوتے ہیں:

ترجیح باعتبار حفظ:
جب احفظ راوی اپنی حدیث متصل بیان کرے تو اس کی روایت ترجیح پا جائے گی۔ اور اگر احفظ راوی حدیث کو مرسل بیان کرے تو اس کی روایت راجح ہو گی۔

ترجیح تعداد کے اعتبار سے: روایت کے راوی اگر بکثرت ہوں تو محدثین کے ہاں کثرت تعداد بھی ترجیح دینے کا ایک قرینہ ہے۔اس لئے جب کسی حدیث کو مرسل بیان کرنے والے بکثرت ہوں اور متصل بیان کرنے والے تھوڑے ہوں تو ترجیح مرسل روایت ہی کو ہوگی۔اور اگر بالعکس معاملہ ہو تو راجح متصل ہوگی۔

ترجیح بکثرت ساتھ رہنے کی وجہ سے: مراد یہ کہ راوی، مروی عنہ (شیخ) کے ساتھ بکثرت رہا ہو اور اس سے روایت وعلم حاصل کرنے میں معروف ومشہور ہو۔جیسے عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ ام المؤ منین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے اور ان سے علم حاصل کرنے میں جانے پہچانے ہیں۔ جب ایسا راوی حدیث متصل بیان کرے اور ان کی مخالفت دوسرا ایسا راوی کرے جو ام المؤمنین سے حدیث لینے اور روایت کرنے میں معروف ہی نہیں تو ظاہر ہے عروہ کی متصل حدیث ہی ترجیح پا جائے گی اور مرسل کی نہیں۔

مختلف اوقات میں سنی ہوئی حدیث کی ترجیح:
جب دو روایات میں ایک روایت کے راوی احفظ ہوں اور ان کا سماع حدیث، شیخ کی صرف ایک ہی مجلس میں جب کہ دوسرے رواۃ حدیث کا سماع ، شیخ کی متعدد مجالس سے ثابت ہوتو ان کی روایت اس امتیاز کی بناء پرراجح ہو گی اس لئے کہ احفظ کی روایت صرف ایک ہی مجلس میں ہوئی۔

متابعت کی بناء پر ترجیح:
مثلاً ایک روایت کی سند نافع عن ابن عمر ہے۔ نافع سے پانچ عادل راوی یہی حدیث متصل بیان کرتے ہیں۔اور دو اور عادل ان کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مرسل بیان کرتے ہیں تو یہاں اعتبار نافع کے اوپر والے کا ہوگا کہ کیا نافع کے علاوہ کسی اورثقہ نے یہی روایت ابن عمر سے کی؟ اگر ایسی متصل روایت مل جائے جسے متابعت کہتے ہیں تو یہی ترجیح پاکر قبول کرلی جائے گی۔علماء حدیث ایسی ترجیح میں قرائن ہی کواہمیت دیتے ہیں۔مثلاً: امام بخاری وامام ترمذی رحمہما اللہ حدیث لَا نِکَاحَ إِلاَّ بِوَلِیٍّ وَشَاھِدَی عَدْلٍ کی مرسل اور متصل اسانید کے تتبع کے بعد متصل کو مرسل پر ترجیح دیتے ہیں ۔ مگر ایک اور حدیث جو مرسل ہے اسے کسی ترجیحی قرینہ کی وجہ سے متصل کے مقابلے میں راجح قرار دیتے ہیں مثلاً: حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا: آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: إنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ۔ (صحیح مسلم : ۱۴۶۰) یہ حدیث سفیان ثوری، محمد بن ابی بکر بن حزم سے اور وہ عبد الملک بن ابی بکر سے ، وہ اپنے والد سے اور وہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے متصلاً روایت کرتے ہیں۔ مگر امام مالکؒ اسی حدیث کو عبد اللہ بن ابی بکر بن الحارث سے مرسل روایت کرتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ ؓ سے فرمایا۔ باوجود مرسل ہونے کے امام بخاریؒ فرماتے ہیں: الصَّوَابُ قَولُ مَالِكٍ۔ صحیح قول امام مالکؒ کا ہے۔اس حدیث میں ایک قرینہ کے ظاہر ہونے پرانہوں نے مرسل کی تصویب کی اور پہلی حدیث میں اتصال کا قرینہ مل جانے سے متصل کو ترجیح دی۔اس لئے ائمہ محدثین کا کوئی لگا بندھا قاعدہ نہیں جس پر وہ عمل کرتے ہوں بلکہ قرائن کو دیکھ کر وہ تصویب وخطا کا فیصلہ کرتے ہیں۔

یہی حال امام ترمذی ؒ کا اور دیگر ائمہ حدیث امام ابن خزیمہ، دار قطنی اور ابن عبد البر رحمہم اللہ کا ہے کہ وہ ارسال ووصل میں کسی قاعدہ کے پابند نہیں بلکہ حسب حال وحسب ضرورت جو ترجیح اس موقع پر انہیں سوجھتی وہ کردیتے ۔اس لئے تعارض کی صورت میں اصولی وفقہاء حضرات کی طرح محقق محدثین اتصال کی ترجیح کے قائل نہیں رہے بلکہ حسب حال وقرائن ترجیح دیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
یَتَبَیَّنُ عَظیمُ مَوقِعِ کلامِ الائِمةِ الْمُتَقدِّمینَ، وَشِدَّةِ فَحْصِہِمْ، وَقُوَّةِ بَحْثِھِمْ وَصِحَّةِ نَظَرِھِمْ، وَتَقَدُّمِھِمْ بِمَا یُوجِبُ الْمَصِیرَ إِلٰی تَقْلِیدِھمْ فِی ذَلِكَ وَالتَّسْلیمِ لَھُم فِیہِ۔ ائمہ متقدمین کا بر موقع کلام اس عظمت کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہوں نے بشدت سے حدیث کی چھان پھٹک کی اور اس کی بحث میں خود کو جان جوکھوں میں ڈالا اور صحیح علمی نظر دوڑائی، اس معاملہ میں وہ جتنا بھی آگے جاسکتے تھے گئے۔یہی تحقیق دوسرو ں کو مجبور کرتی ہے کہ ان کے منہج کو ہی اپنائیں اور اس کے آگے اپنے اصولوں کوزیرکردیں۔(النکت ۲؍۶۰۵)

اسی اصولی فر ق کی بنا پر فقہی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ حدیث لا نکاح إلا بولی ائمہ ثلاثۃ کے بقول عقد نکاح کے وقت چونکہ ولی نکاح کے معاملہ کا ذمہ دار نہیں بنا تو ایسا نکاح باطل ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایسا نکاح صحیح ہے کیونکہ عورت اگر بالغ ہو اور اس کا صحیح کفو اسے مل جائے تو بغیر ولی کے نکاح درست ہے۔رہی یہ متصل حدیث تو وہ فقیہ طحاوی رحمہ اللہ کے نزدیک (شرح معانی الآثار ۳ ؍۸) منقطع و ضعیف ہے۔چونکہ وہ مرسل کو قابل احتجاج سمجھتے ہیں اس لئے وہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ورنہ بقول ابن الہمام یہ تضعیف محض الزامی ہے۔(شرح فتح القدیر ۳؍۲۵۹)

نوٹ: امام ابن حجر رحمہ اللہ نے سات ایسے تابعی گنوائے ہیں جو ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں۔

مرسل صحابی:
ایسے صحابی رسول، حدیث بیان کریں جو متاخر الاسلام ہوں۔ یا واقعہ کے وقت وہ موجود نہ تھے۔ یا دوسرے صحابی کی نسبت یہ صغیرالسن تھے مگر انہوں نے حدیث کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کردی۔ جیسے حدیث ابوہریرہؓ: مَنْ أَصْبَحَ جُنُبًا فَلَا صَومَ لَہُ۔ جب اس کی تردید کی گئی تو فرمانے لگے: مجھے اس کے بارے میں الفضل بن عباسؓ نے حدیث سنائی تھی۔ (صحیح بخاری:۱۹۲۶)۔ امام نسائی نے ابوہریرہؓ کی بجائے اسامہؓ کا نام لکھا ہے۔جب کہ موطا میں مخبر کا نام ہی مذکور نہیں۔ کیا یہ حدیث مرسَل نہیں؟

جمہور اہل علم کے نزدیک یہ حدیث مرسل صحابی کہلائے گی۔جس کا مطلب ہے کہ یا تو انہوں نے کسی دوسرے صحابی سے یہ حدیث سنی ہے یا پھر خود رسول اکرم ﷺ سے بعد میں سنا ہے۔ایسی تمام احادیث دوسری صحیح، متصل مرفوع روایات کی مانندحجت ہیں۔مثلاً: سیدنا ابن عباسؓ اور ابن الزبیرؓ کی احادیث۔ ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ ابن عباسؓ نے فتح مکہ کے بعد صحبت رسول کو اختیار کیا اور ابن الزبیرؓ ہجرت کے اگلے سال مدینہ میں پیدا ہوئے ۔حیات نبوی کے صرف ۸ سال۴ مہینے انہوں نے پائے۔ مگر ان کی احادیث کا شمار متصل مسند میں ہوتا ہے۔

جمہور اہل علم ایسے صحابی کی روایت کو قابل احتجاج سمجھتے ہیں اس لئے کہ صحابی کی جہالت، حدیث کی صحت کے لئے مضر نہیں۔ کیونکہ صحابہ عادل ہیں۔ایک اور ضعیف احتمال یہ بھی ہے کہ صحابی کسی تابعی سے روایت کردیں تو؟ مگر ایسا شاذ ونادر ہی ہوتا ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ صحابی جب کسی تابعی سے روایت کرتے ہیں تو اس کا نام لیتے ہیں۔

یہ سوال کہ مراسیل صحابہ کو قبول کرنا چاہئے یا نہیں؟ابن الترکمانی ؒنے کتاب الْجَوْھَرُ النَّقِیُّ میں متعدد مقامات پر اس سوال کے جواب دئے ہیں جن سے باور یہ ہوتا ہے کہ یہ سوال سب سے پہلے امام بیہقی ؒنے اٹھایا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امام بیہقیؒ عدالت صحابہ کے نظریہ میں دوسرے محدثین سے مختلف نہیں۔انہوں نے بے شمار مقامات پر لکھا ہے : جہالت صحابی حدیث کے لئے مضر نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ امام بیہقی ؒنے سند میں راوی کا نام مذکور نہ ہونے کی بناء پر اسے مرسل کہا جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کسی بھی قسم کی حدیث یا ایسا قصہ آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں جو انہوں نے آپ ﷺ سے سنا ہی نہیں یا وہ قصہ ان کی ولادت سے قبل کا تھاکیونکہ جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو عمر مبارک ۴۰ برس کی تھی اور جب آپ ﷺ اڑتالیس سال کے ہوئے تب سیدنا ابن عباسؓ پیدا ہوئے۔ایسی حدیث یا واقعہ جو سیدنا ابن عباسؓ کی ولادت سے پہلے کا ہو اور پھر اسے وہ خود بیان کریں اس بارے میں یقینی بات تو یہی کہی جاسکتی ہے یہ حدیث مرسل ہے اور انہوں نے آپﷺ سے سنا ہی نہیں۔اسی طرح دیگر صغار صحابہ کی احادیث بھی مرسل ہوں گی کیونکہ انہوں نے آپ ﷺ سے سنا ہی نہیں۔یا آپ ﷺ سے سنا مگر اسے ایسے واقعے یا بات کے ساتھ جوڑا جب وہ خود اہل السماع میں سے نہیں تھے۔

اصل حدیث تو وہی ہے جسے صحابی نے خود آپ ﷺ سے سنا ہو۔ لیکن اگر صحابی یہ کہے: حَدثَنِی فُلانٌ عَنِ النبیِّ ﷺ تو مرسل نہیں ہوگی کیونکہ اس نے راوی کا ذکر کردیا ۔ اسی طرح سیدنا ابوہریرہ یا ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہمانے ایسی حدیث روایت کی جب وہ مدینہ میں نہیں تھے یا ام المؤمنین پیدا نہیں ہوئی تھیں مگر جب وہ کسی اور صحابی کا نام لیں یا وہ معلوم ہوجائے تو یہ حدیث بھی مرسل نہیں ہوگی۔ السُّنَنُ الْکُبْرٰی ہو یا الْمَعْرِفَةُ دونوں میں بہت سی مراسیل صحابہ ہیں۔ جنہیں باوجود مرسل کہنے کے دونوں کو قابل حجت سمجھا گیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۴۔معلق:
ابن حجرؓ اس کی تعریف یوں لکھتے ہیں:

ھُوَ مَا حُذِفَ مِنْ مُبْتَدَأَ إِسْنَادِہِ رَاوٍ أَکْثَرَ وَلَو إِلٰی آخِرِ الإسْنَادِ۔

(ہدی الساری:۱۴) وہ حدیث جس کی ابتداء سندہی میں ایک یا چند راوی محذوف ہوں خواہ یہ حذف آخر سند تک ہی کیوں نہ چلا جائے۔
اور راوی یہ کہہ دے کہ قَالَ ابْنُ عُمَرَؓ یا قَالَ رسولُ اللہِ ﷺ۔مثلاً: صحیح بخاری کی کتابُ الاِیمانِ بَابُ حُسْنِ إسلام ِالْمَرْءِ میں (۱/۱۷) امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں :
قَاَل مَالِكٌ، أَخْبَرَنِی زَیْدُ بْنُ أسْلَمَ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ یِسَارٍ أَخْبَرَہُ، أَنَّ أَبَاسَعیدِ الْخُدریِ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسولَ اللہِ ﷺ یَقولُ: إِذَا أَسْلَمَ الْعَبْدُ فَحَسُنَ إِسْلَامُہُ یُکَفِّرُ اللہُ عَنہُ کُلَّ سَیِّئَةٍ کَانَ زَلَفَھَا، وَکَان بعدَ ذلكَ القِصاصُ، الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أمثالِھَا إِلَی سَبعِ ِمِائَۃِ ضَعْفٍ وَالسَّیئةُ بِمِثْلِھَا، إِلَّا أَن یَتَجَاوَزَ اللہُ عَنْھَا۔
اس حدیث کی روایت میں امام بخاریؒ نے اپنے شیخ محترم کا نام ساقط کردیا ہے۔ جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ امام بخاریؒ ، امام مالکؒ سے بالواسطہ نہیں بلکہ ایک واسطہ سے روایت کرتے ہیں۔
ایک اور مثال:
کِتَابُ الطَّھارةِ/ بابُ: مَا جَاءَ فِی غَسْلِ الْبَولِ (۱/۵۱) میں ہے کہ آپﷺ نے صاحب قبر کے بارے میں فرمایا: وکَانَ لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِہِ۔ اس حدیث کی ساری سند کو حذف کرکے صرف آپ ﷺ کا نام لیا۔

اصول:
…معلق کی اصطلاح سب سے پہلے امام دار قطنی رحمہ اللہ نے استعمال کی اور امام حمیدی ؒ نے بھی الجَمْعُ بَینَ الصَّحِیحَینِ میں اس کا استعمال کیا ہے۔(مقدمہ علوم الحدیث:۶۱)۔
… محذوف راوی کی لاعلمی کے سبب حدیث معلق ناقابل قبول ہوتی ہے۔ایسی حدیث محدثین کے ہاں ضعیف ہے جس کی وجہ سند میں ایک یا ایک سے زیادہ راوی کا سقوط ہے۔ معلقات کا حکم بھی روایت کی صحت، حسن اور ضعف کے مطابق ہوگا۔
… صحیحین کے علاوہ دیگر کتب میں بھی معلقات موجود ہیں جنہیں تعلیقات کہہ دیا جاتا ہے۔
… بعض مصنفین بغیر سند کے حدیث بیان کرکے اسے اصل کتاب کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اسے تعلیق کہہ دیتے ہیں جودرست نہیں ۔
…تعلیق کی اس تعریف سے اصول یہ بنتا ہے کہ جب حدیث محض راویوں کے سقوط سے ضعیف ہوسکتی ہے تو بزرگوں کے اقوال یا فتوے جو سقوط یا بغیر سند کے ان کی طرف منسوب ہوں تو وہ بدرجہ اولی ضعیف ہوں گے۔
٭… حافظ ابن حجرؒ (النکت:۹۳) میں لکھتے ہیں: امام بخاریؒ نے اپنے شیوخ سے جو تعلیق کی ہے شرف الدین دمیاطی اسے حوالہ نام دیتے ہیں۔
٭…امام احمدؒ فرماتے ہیں: محمدؒ بن اسحق کو حدیث کی بڑی خواہش تھی۔ علماء حدیث کی کتب لے کر ان سے احادیث اپنی کتب میں لکھ لیتے۔امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: یہ عمل محدثین میں عام ہے۔ صحیح بخاری میں بیشتر تعلیقات ایسی ہی ہیں۔مثلاً: خارجہ بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں یہود کی خط وکتابت سیکھ لوں۔ آدھا مہینہ گذر نہ پایا تھا کہ میں نے یہ سب کچھ سیکھ لیا۔ آپﷺ نے فرمایا: وَاللہِ لَا آمَنُ الْیَھُودَ عَلَی کِتَابِی۔ میں اپنے خط کے لکھنے یا پڑھنے میں یہودیوں پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔زیدؓ کہتے ہیں: جب میں نے یہ سب کچھ سیکھ لیا تو آپ ﷺ کے لئے یہود کے ساتھ خط وکتابت کیا کرتا اور جب وہ آپ ﷺ کی طرف کچھ لکھتے تو میں اسی خط کو پڑھتا تھا۔امام بخاری ؒ نے اسے تعلیقاً یوں بیان کیا: وَقَالَ خَارِجَةُ بْنُ زَیْدٍ عَنْ أَبِیْہِ۔ خارجہ نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا۔کیونکہ اس روایت میں ایک راوی عبد الرحمن بن ابی الزناد امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر پورا نہیں اترتے مگر اس کے باوجود انہوں نے اس روایت کو تعلیقات میں صیغہ جزم کے ساتھ پیش کیا ہے۔وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں عبد الرحمن متفرد ہیں اور صادق بھی ہیں اور اپنے والد کے علم کی معرفت بھی رکھتے ہیں۔(سیر۷؍۴۶)
٭… امام دارقطنیؒ نے الإلزاماتُ وَالتَّتَبُّعُ میں بخاری ومسلم کی تعلیقات پر تنقید کی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تعلیقات، شیخین کی شروط کے مطابق نہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
صحیحین کی معلقات:
صحیحین میں وارد ایسی معلقا ت کیا ضعیف ہوں گی؟ یا ان کا کوئی خاص حکم ہے؟ صحیح بخاری میں معلقات کی کثرت کی کئی وجوہات علماء نے لکھی ہیں۔ مثلاً: فقہی واصولی ضرورت تھی۔ استشہاد مقصود تھا۔ صلب کتاب میں نہیں بلکہ بطور متابعت کے یہ تعلیقات لائے ہیں۔ اختصار چاہا۔ تکرار سے گریز کیا۔دوسرے عالم کے نزدیک یہ حدیث صحیح تھی مگر ان کی نزدیک ضعیف۔ وغیرہ۔
ابوعلی الجیانی نے تقیید المھمل میں صحیح مسلم میں چودہ یا پندرہ معلقات کا ذکر کرکے ان کی تفصیلات دی ہیں۔جن میں کچھ کو امام مسلم نے خود ہی موصول بتایا ہے، کچھ ان کے شاگردوں نے موصول ثابت کی ہیں اور کچھ کو امام مسلم صلب کتاب میں نہیں بلکہ بطور متابعت یا استشہاد کے لائے ہیں۔اس طرح صحیح بخاری کی نسبت صحیح مسلم میں تعلیقات بہت کم ہیں۔
اصول:
صحیح بخاری میں حدیث کا مواد دو قسم کا ہے ایک وہ جوام الکتاب ہے جسے صلب کتاب کہہ سکتے ہیں یہی صحیح اور قابل اعتماد مواد ہے جبکہ دوسرا مواد بطور استشہاد کے ہے جس کی حیثیت ثانوی ہے۔ اس میں تعلیقات بھی شامل ہیں۔ علماء حدیث نے ان تعلیقات کوپڑھنے کے بعد چند اصولی باتیں بیان کی ہیں تاکہ ہر قسم کی غلط فہمی سے بچا جاسکے۔
… اصل کتاب جہاں صحیح مسند متصل روایت ہوتی ہے وہاں امام بخاریؒ تعلیق بیان نہیں کرتے۔ اسی لئے وہ اپنے استنباط کو دو طریقوں سے ثابت کرتے ہیں۔
… میں جو کہہ رہا ہوں اس کی صحیح دلیل یہ متصل، مسند، مرفوع حدیث ہے۔
… چونکہ پہلے اس حدیث کا ذکرسند سمیت کتاب میں آچکا ہے اس لئے یہ تعلیق پیش کررہا ہوں ۔ عاقل را اشارہ کافی است۔ اختصار مقصودہے اورتکرار سے اجتناب ہے ضخامت کتاب اس کے حسن کو گہنا دے گی جو بے فائدہ ہے۔
… صیغہ جزم کے ساتھ معلق روایت کو، ثابت شدہ متصل اسناد کی حیثیت دیتے ہیں۔حذف رواۃکسی خاص غرض کی وجہ سے کرتے ہیں۔ مثلاً: قال فلان، یا ذَکَر فلان، یا حَکَی فُلانٌ یا رَوَی فُلانٌ یہ سب الفاظ بخاریؒ محترم کے اعتماد کو ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ حدیث ثابت شدہ ہے۔مثلاً اوپر کی حدیث جو امام مالکؒ سے تعلیق شدہ ہے اس حدیث کو امام بخاریؒ نے صیغہ جزم کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور یہ حدیث امام مالکؒ کی روایت سے صحیح ہے۔ اسی طرح دوسری حدیث وَکاَنَ لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَولِہِ کی تعلیق میں بھی امام بخاریؒ صیغہ جزم استعمال کرتے ہیں اور تکرار سے بھی بچنا چاہتے ہیں اس لئے اپنی صحیح میں اسے مختلف مقامات پر متصل روایت کیا ہے۔
… صیغہ تمریض کے ساتھ جو تعلیقات بیان ہوئی ہیں جیسے رُوِی عَنْ فُلانٍ، یَذْکُرُ عَن فُلانٍ یا قِیلَ: ان کے بارے میں دوسرا اصول یہ ہے کہ امام بخاری کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے۔
مثلاً صحیح بخاری میں ہے :
وَ یُذْکَرُ عَن سلمةَ بْنِ الاکْوَعِ أَن النبیَّ ﷺ قال: یَزِرُہُ وَلَو بِشَوکَةٍ۔ فی إسنادہ نَظَرٌ۔(۱/۷۴۔۷۵) کتابُ الصَّلاۃِ/بابُ : وُجُوبِ الصَّلاۃِ فِی الثِّیابِ)۔
اس تعلیق پر امام بخاریؒ کا تبصرہ آپ نے دیکھا جو ہمارے نقطہ نظر کی تائید ہے۔
اہم نوٹ:
امام بخاری ؒ کبھی اپنے شیخ محترم سے حدیث بیان کرتے وقت صیغہ جزم کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ان کی تعلیق تو ہے مگر اس سے یہ مت سمجھا جائے کہ امام محترم نے اپنے اور شیخ کے درمیان کوئی راوی ساقط کردیا ہے۔ بلکہ اہل علم یہی سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک انداز اتصال ہے جو بخاری محترم نے اپنایا ہے۔ مگر ابن حزمؒ اسے انقطاع کہتے ہیں۔
مثلاً:
امام بخاری کا یہ قول جو صحیح میں الاَشْرِبَةُ/بَابُ مَا جَاءَ فِیْمَنْ یَسْتَحِلُّ الْخَمْرَ وَ یُسَمِّیْہِ بِغَیرِ اسْمِہِ (۳/۳۲۲) میں ہے:
وَقَالَ ھِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ عَبدِ الرَّحمٰنِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنَا عَطِیَّةُ بْنُ قَیسٍ الکلابِیُّ، حَدَّثَنَا عَبدُ الرحمنِ بنُ غَنْمٍ الاَشْعَریُّ، قَالَ: حَدثنی أبو عامرٍ۔أو أبو مالكٍ۔ الاشعریُّ، وَاللہِ مَا کَذَبَنِی، سَمِعَ النبیَّ ﷺ یَقولُ: لَیَکُونَنَّ مِن أُمَّتی أقوامٌ یَستَحِلُّونَ الْحِرَ وَالحَریرَ، وَالخَمرَ والمَعَازِف، ولَیَنْزِلَنَّ أقوامٌ إلٰی جَنْبِ عَلَمٍ، یَرُوحُ عَلَیھِمْ بِسَارِحَةٍ لَھُم، یَأتِیْھِم۔یَعنی الْفَقِیرَ۔لِحاجَةٍ، فَیقولوا: اِرْجعْ إِلَینا غَدًا، فَیُبَیِّتُھُمُ اللہُ، وَیَضَعُ العَلَمَ، وَیَمْسَخُ آخَرِیْنَ قِرَدَةً وَخَنَازِیْرَ إِلٰی یومِ القِیَامَةِ۔(ح: ۵۵۹۰) ہشام بن عبد الملک کہتے ہیں ہمیں صدقہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر نے حدیث بیان کی، ہمیں عطیہ بن قیس الکلابی نے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں ہمیں عبد الرحمن بن غنم نے حدیث بیان کی وہ کہتے ہیں ہمیں ابوعامر یا ابومالک اشعری نے حدیث بیان کی۔ واللہ ! انہوں نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا، انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں جو قتل و ریشم کو حلال سمجھیں گے۔اور شراب وموسیقی کو بھی۔اور کچھ لوگ ایک پہاڑ کے دامن میں اتریں گے۔ان کے پاس یعنی ایک فقیراپنی ضرورت کے لئے آئے گا وہ اس ے کہیں گے: تم کل ہمارے پاس آنا۔ اللہ تعالی انہیں راتوں رات ہلاک کردے گا۔ پہاڑ بیٹھ جائے گا اور دوسرے قیامت تک کے لئے بندروں اور خنزیر کی صورت میں مسخ کردئے جائیں گے۔
اس روایت میں ہشام بن عمار، امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں۔جن سے وہ خود ملے اور احادیث سنیں۔اس لئے یہ تعلیق متصل ہے نہ کہ منقطع۔واللہ اعلم۔
ایک مشترک مثال:
جس حدیث کی سند متصل نہ ہو اس کی چار اقسام : منقطع، مرسل، معضل اور معلق کی ایک مشترک مثال:
حَدَّثنَا الْحُمَیدیُّ عَبدُ اللہِ بْنُ الُزبیرِ، قَالَ حَدَّثَنا سُفیانُ، قَالَ: حَدَّثنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدِ الاَنصاریُّ قَالَ أَخْبَرَنِی مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاھِیْمَ التَّیْمٍیُّ أَنَّہُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ أبی وَقَّاصٍ اللَّیثِیَّ یَقولُ سَمعتُ عُمَرَ بنَ الخَطابِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَلَی الْمِنْبَرِ قَال: سَمعتُ رسولَ اللہِ ﷺ یقُول: إِنَّما الاَعْمَالُ باِلنِّیَّاتِ ۔۔الخ۔
…اس حدیث کی سند سے اگر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حذف کردیا جائے تو ایسی سند کو مرسل کہیں گے۔
…اور اگر حمیدی رحمہ اللہ کا نام سند میں نہ ہو تو اسے معلق ۔
…اسی طرح جب اسی سند میں سفیان اور یحییٰ بن سعید الانصاری رحمہما اللہ کا نام محو ہو تو وہ معضل کہلائے گی۔
… اور اگر صرف سفیان رحمہ اللہ کا نام حذف ہو یا ان کے ساتھ تیمی رحمہ اللہ کا بھی تو یہ منقطع ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
۲۔ سقط خفی اور اس کی دو قسمیں
۱۔ مدلّس:
اس مصدر کا مادہ دل س ہے ۔دَلَس لغت میں: ایسی ظلمت کو کہتے ہیں جو روشنی کے ساتھ ملی جلی ہویعنی وہ تاریک ہو اور نہ ہی روشن۔ یاکسی چیز کو خوبصورت بنا کر پیش کرنا لیکن وہ نکلے اس کے برعکس۔یا چیز کا عیب چھپا کر اسے پیش کرنا ۔کو کہتے ہیں۔تدلیس نام اس لئے ہے کہ خفا (چھپانے) کے مفہوم میں یہ دونوں(انقطاع خفی اور تدلیس) مشترک ہیں۔ مزید یہ کہ محتمل لفظ سے اپنے سماع حدیث کو بھی وہ موہوم بنالیتا ہے۔
اصطلاحاً:علماء حدیث نے تدلیس کی تعریف یہ کی ہے:
سِیَاقُ الْحَدیثِ بِسَنَدٍ یُوھِمُ أَنَّہُ أَعْلٰی مِمَّا کَانَ عَلَیہِ فِی الْوَاقِعِ۔ حدیث کو ایک ایسی سند کے ساتھ پیش کرنا کہ یہی سند وہم ڈال دے کہ بڑی شان کی حدیث ہے جیسے واقع میں یہ نظر آرہی ہے۔
یعنی راوی، حدیث کی سند میں کسی عیب کو چھپا دیتا ہے ظاہر نہیں کرتا۔ ایک ماہر حدیث ہی اس عیب کو نکال باہر کرتا ہے۔جس کی وجہ اس کا محتمل لفظ ہوتا ہے جس کی بنا پر ابہام ہوتا ہے۔مثلاً: قَالَ فُلانٌ: فلاں نے یہ کہا۔ سننے والے کے لئے اب قَالَ کے لفظ میں احتما ل ہے کہ یہ اس نے فلاں سے سنا بھی ہے یا نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔یہ معلوم شدہ بات ہے کہ ہم انہیں نہیں ملے۔اور جسے ہم آج ملے اس کے بارے میں ہم کہتے ہیں : فلاں نے یہ کہا۔اس محتمل لفظ میں یہ چیز نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تدلیس کیوں کی جاتی ہے؟ ایسا محتمل لفظ وہ صرف اس لئے کہتا ہے تاکہ سامع باور کرلے کہ راوی نے یہ روایت شاید اپنے شیخ سے سنی ہے اور اسے مل چکا ہے۔ مگر وہ اسے ملا نہیں ہوتا۔ اس لئے سند کو سن کر یا دیکھ کرماہر حدیث کو یہ شک ہوتا ہے کہ سند متصل ہے مگر وہ قَال یا عَنْ کیوں کہہ رہا ہے وہ صریح لفظ کیوں نہیں کہتا۔ ماہر حدیث تحقیق کے بعد اس نتیجہ تک پہنچتا ہے کہ راوی نے یہ حرکت اس لئے کی تاکہ صریح الفاظ سے کہیں اسے جھوٹا نہ قرار دیا جائے۔ اس وجہ سے مدلس کبھی حدَّثَنِی نہیں کہتا بلکہ محتمل لفظ استعمال کرتا ہے۔ ورنہ وہ کاذب کہلائے گا اور کذب راوی میں ایک بہت بری خصلت وعلت ہے۔
ایسی حرکت کے پیچھے یہ بھی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں میں شیخ کا نام لے کر اپنے آپ کو بدعتی شیخ کا شاگرد نہ باور کرادوں۔ یا پھر سلطان وقت اور دیگر علماء حق کا اسے خوف لاحق ہوتا ہے۔ اور سزا سے بچنے کے لئے یہ حرکت کرتا ہے۔ وغیرہ۔ غرض تدلیس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں اس لئے محدثین اس کے مخفی پہلو کو جانچنے کے لئے جب ٹوہ لگاتے ہیں تو پھر راوی کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ مدلس راوی کس قسم کا ہے؟ اور آیا اس کی حدیث قبول کی جائے یا رد کردی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تدلیس کے الفاظ اور انداز:
جس روایت میں یہ محتمل لفظ: قَال، عَن ، أَنَّ، وغیرہ استعمال ہوں۔امام اعمشؒ کہتے ہیں میں نے اپنے شیخ ابراہیمؒ سے کہا: جب آپ مجھے عن عبدِ اللہ ِکہہ کرحدیث بیان کریں تو مجھے پوری سند بیان کیا کیجئے۔ انہوں نے کہا: جب میں قال عبدُ اللہِ کہوں تو اس کا مطلب ہے میں نے دیگر صحابہ سے بھی یہ حدیث سنی ہے اور جب میں حَدَّثَنِی فلان کہوں تو اس کا مطلب وہی ہے کہ مجھے فلان نے حدیث بیان کی ہے۔ (سیر اعلام ۴؍۵۲۲)
امام احمدؒ فرماتے ہیں: جب ابن جریج یوں کہیں: قال فَلانٌ وَقَال فُلانٌ یا أُخْبِرْتُ تو پھر مناکیر ہی روایت کرتے ہیں اور جب وہ أَخْبَرَنِی یا سَمِعْتُ کہیں تو پھر تجھے کافی ہے۔ایک اور روایت میں ہے جب وہ قال کہیں تو ان سے بچو اور جب سَمِعْتُ یا سَأَلْتُ کہیں تو پھر وہ ایسی روایت لے آتے ہیں جس سے دل میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ وہ خود علم کا ایک بہت بڑا ظرف تھے۔
امام احمدؒ فرماتے ہیں:
ہشیم بن بشیر نے یزید بن ابی زیاد سے کچھ نہیں سنا۔ اور نہ ہی عاصم بن کلیب سے۔ نہ الحسن بن عبد اللہ سے اور ابن ابی خلدۃ، سیار، اور علی بن زید سے اور اسی طرح انہوں نے چند نام اور بھی لئے۔ انہوں نے کہا: مگر ان سب سے ہشیم نے حدیث روایت کی ہے۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: وہ عَنْ سے روایت حدیث کرنا جائز سمجھتے۔جبکہ ابو الحسن القطان فرماتے ہیں: ہشیم تدلیس میں بڑی محتاط سی روش اختیار کرتے ہیں۔
عبد اللہ بن میسرۃ ایک راوی ہیں۔ ان کی چار کنیتیں ہیں۔ ہشیم ان سے واقف تھے۔ اس لئے وہ ان سے روایت کرتے وقت کبھی ابولیلی، یا ابواسحق، ، ابوجریر یا ابو عبد الجلیل سے تدلیس کرتے۔
امام عبد اللہ بن المبارک فرماتے ہیں:
حجاج بن ارطاۃ تدلیس کیا کرتے۔ ہمیں جب عمرو بن شعیب کی حدیث بیان کرتے تو محمد بن عبید اللہ عرزمی سے کرتے اور عرزمی متروک راوی ہیں۔ابن خیثمہ کہتے ہیں: میں نے امام ابن معین سے سنا: حجاج بن ارطاۃ صدوق ہیں مگر قوی نہیں۔ وہ محمد العرزمی سے تدلیس عن عمرو بن شعیب کہہ کر کیاکرتے ۔ یعنی محمد کا نام سند سے گرا دیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
صحابہ میں تدلیس:
صحابہ کرام بھی قال یا عن سے روایت کرتے ہیں مگر یہ تدلیس نہیں اور نہ ہی معیوب بات ہے کیونکہ ان کی روایت اپنے اس ساتھی سے ہوتی ہے جو ان سے بڑا ہے۔ اور صحابہ سب کے سب عادل ہیں۔
تدلیس ومدلس کی صفات:
خلف البزار کہتے ہیں: المُدَلِّسُ مُتَشَبِّعٌ بِمَا لَمْ یُعْطَ۔ مدلس جس چیز سے محروم ہوتا ہے اس کا بھوکا ہوتا ہے۔امام ذہبیؒ فرماتے ہیں: مدلس اس آیت کا مصداق ہوتا ہے: {ویحبون أن یحمدوا بما لم یفعلوا} اس میں دھوکہ( غش) جیسی بیماری ہوتی ہے۔ وہ امت کی خیر خواہی نہیں چاہتا۔بطور خاص جب وہ ایک واہی خبر میں تدلیس کرے یہ بہت ہی بڑا دھوکہ ہے اس لئے کہ وہ یہ باور کراتا ہے کہ میں صحیح بات کررہا ہوں۔تدلیس کی باقی اقسام چھوڑ کر یہ صورت توبہرحال حرام ہے۔عبد الوارث ؒبن سعید نے کیا خوب کہا ہے: التَّدْلِیسُ ذُلٌّ: تدلیس ذلت ہے۔( معرفۃ از امام حاکم: ۱۶۴)

…امام ابنؒ المبارک کی مجلس میں تدلیس کا ذکر چھڑا تو بڑا سخت جملہ انہوں نے کہا پھر یہ شعر پڑھا:
دَلَّسَ لِلنَّاسِ أَحَادِیْثَہُ وَاللہُ لَا یَقْبَلُ تَدْلِیْسًا
اس نے لوگوں کو احادیث رسول تدلیس کرکے بیان کیں یہ تو ایسا عمل ہے جو اللہ بھی قبول نہیں کرتا
…یزیدؒ بن زریع نے تدلیس کے سوال پر یہ جواب دیا: التَّدْلِیْسُ کِذْبٌ۔ تدلیس سراسر جھوٹ ہے۔
…جریرؒ بن حازم نے تدلیس کی یوں مذمت کی اور اسے معیوب قرار دیتے ہوئے کہا: یُرِی أَنَّہ سَمِعَ مَا لَمْ یَسْمَعْ۔ جو حدیث اس نے نہیں سنی وہ اس کے سننے کا دکھاوا کرتا ہے۔(التذکرۃ ۱؍۲۰۰)
علماء حدیث کی تدلیس سے نفرت:
امام شعبہ فرمایا کرتے:
لاَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّماءِ أَوْ مِنْ فَوقِ ھٰذَا الْقَصْرِ أَحَبُّ إِلَیْ مِنْ أَنْ أَقولَ: قَالَ الْحَکَمُ، لِشَیءٍ لَمْ أَسْمَعْہُ مِنہُ میں آسمان سے گر جاؤں یا اس محل کی چھت پر سے نیچے آپڑوں، یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں کہوں: حکم نے کہا۔ اور یہ وعوی ا یسی شئ کے لئے ہو جو میں نے اس سے سنا ہی نہیں۔
یہ صحیح معنوں میں تورع وخدا خوفی ہے۔امام اللیثؒ کہتے ہیں: میں مکہ مکرمہ آیااور ابو الزبیر کے پاس گیا۔ انہوں نے مجھے دو کتابیں دیں جو میں لے کر چلا گیا۔ پھر میں نے جی میں کہا: کیوں نہ میں دوبارہ ان کے پاس جاؤں اور ان سے پوچھوں کہ کیا یہ سب احادیث آپ نے جابرؓ بن عبد اللہ ؓسے سنی ہیں؟ چنانچہ میں ان کے پاس آیا۔ مجھے کہنے لگے: اس میں سے کچھ تو ایسی احادیث ہیں جو میں نے خود ان سے سنی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو مجھے بیان کی گئی ہیں۔میں نے عرض کی: مجھے وہ احادیث بتائیے جو آپ نے خود سنیں۔اس طرح انہوں نے مجھے وہ احادیث باور کرائیں جو اس وقت میرے پاس ہیں۔وہ تدلیس کو قطعاً جائز نہ سمجھتے۔ (التاریخ الإسلامی از امام ذہبیؒ۱۱؍۳۱۲)
امام ابنؒ عیینہ فرمایا کرتے:
لَا تَسْمَعُوا مِنْ بَقِیْةَ مَا کَانَ مِنْ سُنّةٍ، وَاسْمَعُوا مِنہُ مَا کَانَ مِنْ ثَوابٍ وَغَیرِہِ۔ بقیہ سے کوئی ایسی حدیث مت سنو جس کا تعلق سنت یا احکام نبوی سے ہو ہاں اس سے وہ روایات سن لو جن کا تعلق ثواب وغیرہ سے ہو۔
امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:
اسی لئے امت احادیث احکام کو لینے میں بڑی متشدد واقع ہوئی ہے۔ بہت ہی کم احادیث میں نرمی نظر آتی ہے۔علماء نے پھر بھی یہ اجازت نہیں دی کہ فضائل ورقائق میں جو چاہیں لوگ بیان کرتے رہیں۔ان فضائل میں محدثین صرف ان احادیث کو لیتے ہیں جن کی اسناد میں ضعف ہو، نہ کہ وہ جن کی اسانید میں متہم راوی ہوں کیونکہ موضوع اور انتہائی ضعیف احادیث کو محدثین خاطر میں نہیں لاتے بلکہ دوسروں کو ان سے بچانا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی صحت وثقاہت کو خوب چھانتے ہیں۔اور جو بھی تدلیس کا مرتکب ہو یا اس نے اس کی وضاحت پر پردہ ڈالا ہو تووہ سنت رسول پر بڑی زیادتی ڈھاتا ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول کا خائن بنتا ہے خواہ وہ اس سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو ۔ جہالت کی بنا پرگو وہ معذورہوسکتا ہے مگر یہ آیت کب قابل عمل ہوگی: {فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} اگر تم علم نہیں رکھتے تو اہل علم سے پوچھ لیا کرو۔(سیر اعلام النبلاء ۸؍۵۲۰)
امام ابنؒ الجوزی فرماتے ہیں:
مَنْ دَلَّسَ کَذَّابًا، فَالإثْمُ لَہُ لَازِمٌ، لانَّہُ آثَرَ أَنْ یُؤْخَذَ فِی الشَّرِیْعَةِ بِقَولٍ بَاطِلٍ۔ جو کسی کذاب کو مدلس قرار دیتا ہے وہ لازماً گناہ گار ہوجاتا ہے کیونکہ اس نے شریعت کو لینے میں اس بات کو ترجیح دی جو باطل تھی۔ (المیزان ۳؍۵۶۳)
نوٹ: ثقہ غیر مدلس جب حدیث بیان کرے تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہر روایت میں حَدَّثَنَا کا لفظ ہی وہ بولے۔بلکہ حَدَّثَنَا، عَنْ، قَالَ وغیرہ کہہ سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بعض ثقہ راویوں پر تدلیس کا الزام اور اصول:
کتب اصول میں ثقہ راوی کو مدلس کہنے کے لئے جو مثالیں دی گئی ہیں وہ ناقابل تشفی ہیں اور نہ ہی وہ صحیح معنوں میں تدلیس کے مفہوم کو اجاگر کرتی ہیں۔بظاہر تدلیس نام بہت برا ہے مگر بعض ثقہ محدثین کے اس عمل کو تدلیس کا نام دینا اور ہی برا ہے۔جب کہ وہ ایک تکنیکی عمل تھا جو انہیں طلبہ شناسی میں کام آیا۔وجوہات یہ تھیں:
۱۔ استاذ اپنے طلبہ کی ذہنی استعداد معلوم کرنے کے لئے بطور امتحان ایسا کرتے۔جیسے امام بخاری ؒ کے حفظ کا امتحان لیتے وقت دس طلبہ نے احادیث کی سند کو آگے پیچھے کردیا تھا۔ اسی طرح ایک ثقہ محدث بھی اپنے شاگردوں کوپرکھنے کے لئے کہ وہ رواۃ حدیث یا تحمل حدیث کے باوقار انداز سے واقف ہیں یالاپروا؟ وہ ایسا کرلیتے۔ جسے کسی بھی صورت میں تدلیس نہیں کہا جاسکتا۔نیز یہ اصول بھی بڑا نامناسب ہے کہ ثقہ راوی اگر تدلیس کرے تو وہ قبول اور اگر غیر ثقہ کرے تو مردود۔ تدلیس تو بہر حال تدلیس ہے۔
۲۔ ثقہ محدث بعض اوقات سند کا تکرار نہیں چاہتے تھے بلکہ مختصر سند بیان کردیتے۔ ایک شاگرد جس کا مقام بہرحال استاذ سے کم ہے وہ پس منظر بھی بیان کردے تو بعد والوں کے لئے یہ مستنبط کرنا کہ یہ تدلیس ہے!! عجیب بات ہوگی۔ اس مثال کو دیکھئے جسے امام حاکم نے معرفۃ علوم الحدیث(۱۳۱) میں لکھا ہے:
أَنَّ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ ھُشَیمٍؒ۔۔ وَ ھُوَ مِنَ الْمَوصُوفینَ بِالتَّدْلِیسِ۔۔ اجْتَمَعُوا یَومًا علَی أَنْ لَا یَأخُذُوا مِنہُ التَّدْلِیسَ، فَفَطِنَ لِذَلِكَ، فَکَانَ یَقُولُ فِی کُلِّ حَدیثٍ یَذْکُرُہُ: حَدَّثَنا حُصَینٌ وَمُغِیرَةُ، عَنْ إِبراھیمَ۔ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَھُمْ: ھَلْ دَلَّسْتُ لَکُمُ الْیَومَ؟ فَقَالُوا: لَا، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ مِنْ مُغِیرَةَ حَرْفًا مِمَّا ذَکَرْتُہُ، إِنَّمَا قُلْتُ: حَدَّثَنِی حُصَینٌ، وَمُغِیْرَةُ غَیْرُ مَسمُوعٍ لِیْ!!! ہشیم تدلیس سے موصوف ہیں۔۔ان کے چند ساتھی ایک روز اتفاق کربیٹھے کہ آئندہ ہشیم سے تدلیس والی حدیث بالکل نہیں لیں گے۔ ہشیم اس انداز کو بھانپ گئے۔ چنانچہ وہ جو حدیث بیان کرتے کہتے: حدثنا حصین ومغیرۃ عن إبراہیم۔ جب روایت حدیث سے فارغ ہوئے توطلبہ سے دریافت کیا: کیا آج میں نے کوئی تدلیس کی؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ فرمانے لگے : جو کچھ میں نے تمہیں ذکر کیا ہے اس میں سے ایک حرف بھی میں نے مغیرہ سے نہیں سنا۔ میں نے تو کہا تھا: حَدَّثَنِیْ حُصَیْنٌ۔ ، وَمُغِیْرَةُ غَیْرُ مَسْمُوعٍ لِیْ۔ مجھے حصین نے حدیث بیان کی اور مغیرہ سے میں نے نہیں سنا۔
پہلے تو یہ بات قابل غور ہے کہ راوی کہہ رہا ہے: ہر حدیث کو ذکر کرتے وقت وہ کہتے: حَدَّثَنَا۔ مگر جب سوال کیا تو اس میں جمع کو واحد میں بدل دیا۔پھر حصین کے بعد مغیرہ کا نام ذکر کیا اور پھریہ کہہ دیا میں نے مغیرہ سے اس حدیث کا ایک حرف بھی نہیں سنا۔(ہوسکتا ہے اس موقع پر انہوں نے اپنا سر نفی میں ہلایا ہو )۔بلکہ میں نے کہا تھا: حَدَّثَنِی حُصَینٌ۔ باقی مغیرہ سے میں نے یہ حدیث نہیں سنی۔ یوں تدلیس کی ۔جسے تدلیس عطف کہتے ہیں۔یعنی میں نے نام تو ان کا ڈالا ہے مگر ان سے سنا نہیں ہاں ان سے یہ روایت کسی اور ذریعے سے بیان کی جاتی ہے۔
بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایت میں ہشیم نے یہ جملہ کہا ہی نہیں۔ تسلیم بھی کرلیں کہ یہ جملہ انہوں نے کہا تو شاگرد کیسے تھے جو بول ہی نہ سکے کہ آپ نے یہ جملہ کہا ہی نہیں تو پھر تدلیس کیسی؟ یا پھر اس کی ایک توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ میں نے تو تمہیں شروع سے ہی بتایا ہوا ہے کہ مغیرہ سے میں نے حدیث سنی ہی نہیں۔ اس طرح یہ طلبہ کا امتحان ہوا۔ یا تو ہشیم گئے گذرے ہیں یا پھر یہ راوی۔ تدلیس کے لئے ایسی مثالیں بالکل غیر واضح ہیں اور غیر مناسب بھی۔
۳۔یہی حال سفیان ثوری رحمہ اللہ کا تھا۔جو طلبہ کا اکثر وبیشتر امتحان لیا کرتے۔
۴۔ تدلیس کی مثال میں ایک ہی حدیث کی سند کو بنیاد بنایاجاتا ہے۔ جب کہ اصول یہ ہے کہ اس راوی کی ایسی تمام احادیث کو جمع کیا جائے اور پھر ڈانڈے ملا کر فیصلہ کیا جائے کہ غلطی کہاں ہے۔ تدلیس کا الزام دینے کے معاملے میں یہ خیال نہیں رکھاگیا۔وہ اس طرح کہ دوسری سند میں یہی راوی ضعیف راوی سے سماعت کی صراحت کرتا ہے۔ یا سوال کرنے پر وہ خود واضح کردیتا ہے۔تو کیا تدلیس اور سماع کی صراحت دونوں برابر ہیں؟ پھر راوی کو مدلس جیسا لقب دینے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
۴۔ بعض اوقات محدثین ایک ہی راوی کے مختلف ناموں کو استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ یہ جان سکیں کہ ایک ہی راوی کے ان مختلف ناموں سے ہمارے طلبہ آگاہ بھی ہیں؟ اسے بھی تدلیس الاسناد یا تدلیس الشیوخ میں شامل کردیا گیا ہے۔ جب کہ یہ سب کچھ بطور امتحان کے ہوتا تھا۔ جیسے خطیب بغدادیؒ اپنی تاریخ بغداد میں ایک ہی شخص کے بیس سے زائد نام مختلف مقامات پر ذکر کرتے ہیں۔اسے تدلیس کہنا معلوم نہیں کہاں تک درست ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تدلیس کی اقسام:
تدلیس کی کتنی اقسام ہیں؟ امام حاکم رحمہ اللہ نے المَعْرِفَة (: ۱۰۳) میں چھ قسمیں لکھتے ہیں۔ شیخ سراج البلقینی مَحَاسِنُ الِاصْطِلاحِ (۱۶۸ )میں ان اقسام کو پہلی دو قسموں کے تحت ہی رکھتے ہیں۔ مگر امام ابنؒ الصلاح، النوویؒ، ابن کثیرؒ، الطیبیؒ، السخاویؒ وغیرہ نے تدلیس کی دو اقسام تَدلِیسُ الإسَنادِ اور تدلیسُ الشُّیُوخِ لکھی ہیں۔ امام عراقیؒ نے اپنی الفیہ (۱؍۱۷۹) میں ایک اور نوع تدلیسُ التَّسْوِیَة کا اضافہ کرتے ہوئے کہا ہے:حافظ ابو الحسن بن القطان الفاسیؒ نے یہ اصطلاح متعارف کرائی ہے۔ تدلیس کی ان اقسام میں ہر ایک کی مختصر تعریف دیکھئے:
۱۔ تدلیس الاسناد:
ھُوَ: أَنْ یَرْوِیَ الرَّاوِیْ عَمَّنْ لَقِیَہُ مَالَمْ یَسْمَعْہُ مِنْ قَولِہِ أَوْ یَرُدُّہُ مِنْ فِعْلِہِ بِلَفْظٍ یُوھِمُ أَنَّہُ سَمِعَہُ أَو رَآہُ مِثْلَ: قَالَ فُلَانٌ أَوْ عَنْ فُلَانٍ أَو فَعَلَ فُلَانٌ وَنَحْوِ ذَلِكَ۔ راوی اپنے اس شیخ سے ملا ہو اور اس سے وہ روایت کرے جسے اس نے خود نہ سنا ہو۔ ایسے لفظ کا استعمال کرے جس سے یہ وہم ہو کہ اس نے خود اپنے شیخ سے سنا ہے یا اسے خود دیکھا ہے۔جیسے قال فلان وعن فلان یا فَعَلَ فُلان۔ وغیرہ۔
مثال:
امام ترمذی ؒ نے اپنی سنن (۱۵۴) میں بہ سند :
مُحمدُ بْنُ إسحقَ بْنِ یَسارٍ، عَن عاصمِ بنِ عُمرَ بْنِ قَتَادةَ، عَن مَحمودِ بْنِ لَبِیدٍ، عَن رَافِعٍ بْنِ خَدِیجٍ قَال: سَمِعتُ رسولَ اللہِ ﷺ یَقولُ: أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّہُ أَعْظَمُ لِلْأجْرِ۔
اس حدیث کی سند میں محمد بن إسحق بن یسار کو محدثین نے صدوق کہا ہے۔مگر اس اسناد میں انہوں نے تدلیس یوں کی ہے کہ ان کے اصل شیخ محمد بن عجلان جن سے حدیث سنی تھی ان کا نام ہی ذکر نہیں کیا۔ مگر جن معاصرین سے ملاقات ہی نہیں ہوئی یا جن سے یہ حدیث ہی نہیں سنی ان کا نام انہوں نے لے لیا ہے۔ اس تدلیس کا علم محدثین کو یوں ہوا کہ امام احمد نے مسند (۳/۴۶۵) میں ایک اور سند کے ساتھ یہی حدیث یوں روایت کی ہے:
حَدَّثَنا یَزیدُ، قَال: أَخْبَرَنا محمدُ بنُ إسحقَ، قالَ: أَنْبَأَنا ابْنُ عَجْلانَ۔۔۔
پھر انہوں نے یہی متن ذکر کیا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ ابن اسحق نے یہ حدیث ابن عجلان سے سنی تھی۔اب یہ دوسری سند سماع کی صراحت کے ساتھ موجود ہے تو پھر تدلیس کیسی؟
نوٹ: عموماً کتب میں تدلیس اسناد کی مثال یہ دی گئی ہے: امام حاکمؒ اپنی سند سے علی بن خشرم سے روایت کرتے ہیں کہ:
قَاَل لَنَا ابْنُ عُیَینَةَ عَنِ الزُّھْرِیِّ۔ فَقِیلَ لَہُ : سَمِعْتَہُ مِنَ الزُّہْرِیِّ؟ قَال: لَا، وَلَا مِمَّنْ سَمِعَہُ مِنَ الزُّھْرِیِّ، حَدَّثَنِی عَبدُ الرَّزَّاقِ عَن مَعْمَرٍ عَنِ الزُّھْرِیِّ۔ ہمیں ابن عیینہ نے کہا: زہری سے روایت ہے۔ ان سے کہا گیا : کیا آپ نے زہری سے حدیث سنی ہے؟ فرمانے لگے: نہیں اور نہ ہی اس سے جس نے اسے زہری سے سنا ہے۔مجھے تو یہ حدیث بیان کی عبد الرزاق نے انہوں نے معمر سے اور انہوں نے زہری سے۔
اس مثال میں ابن عیینۃ ؒنے اپنے اور امام زہریؒ کے درمیان دو راویوں کو ساقط کردیا تھا جو ثقہ تھے، اس لئے یہ تدلیس ہے۔ جب کہ کچھ علماء کے نزدیک یہ تدلیس نہیں بلکہ تَشحیذُ الاَذْھانِ ہے یعنی طلبہ کی ذہنی بیداری کا امتحان ہے۔ یا اس حدیث کا اختصار ہے جو پہلے انہوں نے پوری سند کے ساتھ بیان کردی اور دوبارہ اس سند کو لوٹانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سوال پر وہ معاملہ بھی واضح کررہے ہیں تو آخر کس لئے؟ پھر تدلیس کاہے کی؟
 
Top