- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرسل نے حدیث ہی مرسل سنی ہو اور واصل نے متصل۔اس لئے مثبت ، نافی پر مقدم ہوتا ہے۔
پہلا قول: :
یہ محدثین اصولاً حدیث متصل اور مرسل میں تعارض کی صورت کو تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مرسل اور متصل کے مابین مقابلہ کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک متصل ہے اور دوسری مرسل۔ اس میں تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لئے وہ متصل حدیث کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اس کے مقابلے میں مرسل ایک ہو یا پوری جماعت یامرسل راوی خواہ حفظ میں واصل راوی کے برابر کا درجہ رکھتا ہو یا اس سے بھی زیادہ احفظ ہو۔ وہ مرسل میں صحیح کی شروط مفقود پاکراسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔یہ جمہور محدثین اور اصولیین کا قول ہے۔خطیب بغدادی اسی کے قائل ہیں ۔
دوسرا قول:
ان محدثین کے نزدیک ۔۔ تعارض کی ایک اور صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کچھ رواۃ نے اسے متصل روایت کیا ہو اور کچھ نے مرسل۔اور ترجیح کا کوئی حتمی فیصلہ بھی نہ ہوپائے تو روایات کے مراتب اور درجات دیکھے جائیں اور ان میں جو اعلی درجہ ومرتبہ کی روایت ہے اسے ترجیح دی جائے۔
امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
متقدمین ائمہ حدیث ۔۔جیسے عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ القطان، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی ، امام بخاری ، ابوزرعۃ، ابو حاتم، امام نسائی، دار قطنی وغیرہم اس ترجیحی فیصلہ کو معتبرمانتے ہیں جس کا تعلق اضافہ سے ہو نہ کہ صرف قبول اضافہ سے۔یہ اضافہ متن میں بھی ہوسکتا ہے اور سند میں بھی۔ ان کے راجح ومرجوح کے ترجیحی فیصلے یوں ہوتے ہیں:
ترجیح باعتبار حفظ:
جب احفظ راوی اپنی حدیث متصل بیان کرے تو اس کی روایت ترجیح پا جائے گی۔ اور اگر احفظ راوی حدیث کو مرسل بیان کرے تو اس کی روایت راجح ہو گی۔
ترجیح تعداد کے اعتبار سے: روایت کے راوی اگر بکثرت ہوں تو محدثین کے ہاں کثرت تعداد بھی ترجیح دینے کا ایک قرینہ ہے۔اس لئے جب کسی حدیث کو مرسل بیان کرنے والے بکثرت ہوں اور متصل بیان کرنے والے تھوڑے ہوں تو ترجیح مرسل روایت ہی کو ہوگی۔اور اگر بالعکس معاملہ ہو تو راجح متصل ہوگی۔
ترجیح بکثرت ساتھ رہنے کی وجہ سے: مراد یہ کہ راوی، مروی عنہ (شیخ) کے ساتھ بکثرت رہا ہو اور اس سے روایت وعلم حاصل کرنے میں معروف ومشہور ہو۔جیسے عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ ام المؤ منین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے اور ان سے علم حاصل کرنے میں جانے پہچانے ہیں۔ جب ایسا راوی حدیث متصل بیان کرے اور ان کی مخالفت دوسرا ایسا راوی کرے جو ام المؤمنین سے حدیث لینے اور روایت کرنے میں معروف ہی نہیں تو ظاہر ہے عروہ کی متصل حدیث ہی ترجیح پا جائے گی اور مرسل کی نہیں۔
مختلف اوقات میں سنی ہوئی حدیث کی ترجیح:
جب دو روایات میں ایک روایت کے راوی احفظ ہوں اور ان کا سماع حدیث، شیخ کی صرف ایک ہی مجلس میں جب کہ دوسرے رواۃ حدیث کا سماع ، شیخ کی متعدد مجالس سے ثابت ہوتو ان کی روایت اس امتیاز کی بناء پرراجح ہو گی اس لئے کہ احفظ کی روایت صرف ایک ہی مجلس میں ہوئی۔
متابعت کی بناء پر ترجیح:
مثلاً ایک روایت کی سند نافع عن ابن عمر ہے۔ نافع سے پانچ عادل راوی یہی حدیث متصل بیان کرتے ہیں۔اور دو اور عادل ان کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مرسل بیان کرتے ہیں تو یہاں اعتبار نافع کے اوپر والے کا ہوگا کہ کیا نافع کے علاوہ کسی اورثقہ نے یہی روایت ابن عمر سے کی؟ اگر ایسی متصل روایت مل جائے جسے متابعت کہتے ہیں تو یہی ترجیح پاکر قبول کرلی جائے گی۔علماء حدیث ایسی ترجیح میں قرائن ہی کواہمیت دیتے ہیں۔مثلاً: امام بخاری وامام ترمذی رحمہما اللہ حدیث لَا نِکَاحَ إِلاَّ بِوَلِیٍّ وَشَاھِدَی عَدْلٍ کی مرسل اور متصل اسانید کے تتبع کے بعد متصل کو مرسل پر ترجیح دیتے ہیں ۔ مگر ایک اور حدیث جو مرسل ہے اسے کسی ترجیحی قرینہ کی وجہ سے متصل کے مقابلے میں راجح قرار دیتے ہیں مثلاً: حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا: آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: إنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ۔ (صحیح مسلم : ۱۴۶۰) یہ حدیث سفیان ثوری، محمد بن ابی بکر بن حزم سے اور وہ عبد الملک بن ابی بکر سے ، وہ اپنے والد سے اور وہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے متصلاً روایت کرتے ہیں۔ مگر امام مالکؒ اسی حدیث کو عبد اللہ بن ابی بکر بن الحارث سے مرسل روایت کرتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ ؓ سے فرمایا۔ باوجود مرسل ہونے کے امام بخاریؒ فرماتے ہیں: الصَّوَابُ قَولُ مَالِكٍ۔ صحیح قول امام مالکؒ کا ہے۔اس حدیث میں ایک قرینہ کے ظاہر ہونے پرانہوں نے مرسل کی تصویب کی اور پہلی حدیث میں اتصال کا قرینہ مل جانے سے متصل کو ترجیح دی۔اس لئے ائمہ محدثین کا کوئی لگا بندھا قاعدہ نہیں جس پر وہ عمل کرتے ہوں بلکہ قرائن کو دیکھ کر وہ تصویب وخطا کا فیصلہ کرتے ہیں۔
یہی حال امام ترمذی ؒ کا اور دیگر ائمہ حدیث امام ابن خزیمہ، دار قطنی اور ابن عبد البر رحمہم اللہ کا ہے کہ وہ ارسال ووصل میں کسی قاعدہ کے پابند نہیں بلکہ حسب حال وحسب ضرورت جو ترجیح اس موقع پر انہیں سوجھتی وہ کردیتے ۔اس لئے تعارض کی صورت میں اصولی وفقہاء حضرات کی طرح محقق محدثین اتصال کی ترجیح کے قائل نہیں رہے بلکہ حسب حال وقرائن ترجیح دیتے۔
پہلا قول: :
یہ محدثین اصولاً حدیث متصل اور مرسل میں تعارض کی صورت کو تسلیم ہی نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مرسل اور متصل کے مابین مقابلہ کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک متصل ہے اور دوسری مرسل۔ اس میں تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لئے وہ متصل حدیث کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اس کے مقابلے میں مرسل ایک ہو یا پوری جماعت یامرسل راوی خواہ حفظ میں واصل راوی کے برابر کا درجہ رکھتا ہو یا اس سے بھی زیادہ احفظ ہو۔ وہ مرسل میں صحیح کی شروط مفقود پاکراسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔یہ جمہور محدثین اور اصولیین کا قول ہے۔خطیب بغدادی اسی کے قائل ہیں ۔
دوسرا قول:
ان محدثین کے نزدیک ۔۔ تعارض کی ایک اور صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کچھ رواۃ نے اسے متصل روایت کیا ہو اور کچھ نے مرسل۔اور ترجیح کا کوئی حتمی فیصلہ بھی نہ ہوپائے تو روایات کے مراتب اور درجات دیکھے جائیں اور ان میں جو اعلی درجہ ومرتبہ کی روایت ہے اسے ترجیح دی جائے۔
امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
متقدمین ائمہ حدیث ۔۔جیسے عبد الرحمن بن مہدی، یحییٰ القطان، احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن المدینی ، امام بخاری ، ابوزرعۃ، ابو حاتم، امام نسائی، دار قطنی وغیرہم اس ترجیحی فیصلہ کو معتبرمانتے ہیں جس کا تعلق اضافہ سے ہو نہ کہ صرف قبول اضافہ سے۔یہ اضافہ متن میں بھی ہوسکتا ہے اور سند میں بھی۔ ان کے راجح ومرجوح کے ترجیحی فیصلے یوں ہوتے ہیں:
ترجیح باعتبار حفظ:
جب احفظ راوی اپنی حدیث متصل بیان کرے تو اس کی روایت ترجیح پا جائے گی۔ اور اگر احفظ راوی حدیث کو مرسل بیان کرے تو اس کی روایت راجح ہو گی۔
ترجیح تعداد کے اعتبار سے: روایت کے راوی اگر بکثرت ہوں تو محدثین کے ہاں کثرت تعداد بھی ترجیح دینے کا ایک قرینہ ہے۔اس لئے جب کسی حدیث کو مرسل بیان کرنے والے بکثرت ہوں اور متصل بیان کرنے والے تھوڑے ہوں تو ترجیح مرسل روایت ہی کو ہوگی۔اور اگر بالعکس معاملہ ہو تو راجح متصل ہوگی۔
ترجیح بکثرت ساتھ رہنے کی وجہ سے: مراد یہ کہ راوی، مروی عنہ (شیخ) کے ساتھ بکثرت رہا ہو اور اس سے روایت وعلم حاصل کرنے میں معروف ومشہور ہو۔جیسے عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ ام المؤ منین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے اور ان سے علم حاصل کرنے میں جانے پہچانے ہیں۔ جب ایسا راوی حدیث متصل بیان کرے اور ان کی مخالفت دوسرا ایسا راوی کرے جو ام المؤمنین سے حدیث لینے اور روایت کرنے میں معروف ہی نہیں تو ظاہر ہے عروہ کی متصل حدیث ہی ترجیح پا جائے گی اور مرسل کی نہیں۔
مختلف اوقات میں سنی ہوئی حدیث کی ترجیح:
جب دو روایات میں ایک روایت کے راوی احفظ ہوں اور ان کا سماع حدیث، شیخ کی صرف ایک ہی مجلس میں جب کہ دوسرے رواۃ حدیث کا سماع ، شیخ کی متعدد مجالس سے ثابت ہوتو ان کی روایت اس امتیاز کی بناء پرراجح ہو گی اس لئے کہ احفظ کی روایت صرف ایک ہی مجلس میں ہوئی۔
متابعت کی بناء پر ترجیح:
مثلاً ایک روایت کی سند نافع عن ابن عمر ہے۔ نافع سے پانچ عادل راوی یہی حدیث متصل بیان کرتے ہیں۔اور دو اور عادل ان کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مرسل بیان کرتے ہیں تو یہاں اعتبار نافع کے اوپر والے کا ہوگا کہ کیا نافع کے علاوہ کسی اورثقہ نے یہی روایت ابن عمر سے کی؟ اگر ایسی متصل روایت مل جائے جسے متابعت کہتے ہیں تو یہی ترجیح پاکر قبول کرلی جائے گی۔علماء حدیث ایسی ترجیح میں قرائن ہی کواہمیت دیتے ہیں۔مثلاً: امام بخاری وامام ترمذی رحمہما اللہ حدیث لَا نِکَاحَ إِلاَّ بِوَلِیٍّ وَشَاھِدَی عَدْلٍ کی مرسل اور متصل اسانید کے تتبع کے بعد متصل کو مرسل پر ترجیح دیتے ہیں ۔ مگر ایک اور حدیث جو مرسل ہے اسے کسی ترجیحی قرینہ کی وجہ سے متصل کے مقابلے میں راجح قرار دیتے ہیں مثلاً: حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا: آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: إنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَكِ۔ (صحیح مسلم : ۱۴۶۰) یہ حدیث سفیان ثوری، محمد بن ابی بکر بن حزم سے اور وہ عبد الملک بن ابی بکر سے ، وہ اپنے والد سے اور وہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے متصلاً روایت کرتے ہیں۔ مگر امام مالکؒ اسی حدیث کو عبد اللہ بن ابی بکر بن الحارث سے مرسل روایت کرتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺ نے ام سلمہ ؓ سے فرمایا۔ باوجود مرسل ہونے کے امام بخاریؒ فرماتے ہیں: الصَّوَابُ قَولُ مَالِكٍ۔ صحیح قول امام مالکؒ کا ہے۔اس حدیث میں ایک قرینہ کے ظاہر ہونے پرانہوں نے مرسل کی تصویب کی اور پہلی حدیث میں اتصال کا قرینہ مل جانے سے متصل کو ترجیح دی۔اس لئے ائمہ محدثین کا کوئی لگا بندھا قاعدہ نہیں جس پر وہ عمل کرتے ہوں بلکہ قرائن کو دیکھ کر وہ تصویب وخطا کا فیصلہ کرتے ہیں۔
یہی حال امام ترمذی ؒ کا اور دیگر ائمہ حدیث امام ابن خزیمہ، دار قطنی اور ابن عبد البر رحمہم اللہ کا ہے کہ وہ ارسال ووصل میں کسی قاعدہ کے پابند نہیں بلکہ حسب حال وحسب ضرورت جو ترجیح اس موقع پر انہیں سوجھتی وہ کردیتے ۔اس لئے تعارض کی صورت میں اصولی وفقہاء حضرات کی طرح محقق محدثین اتصال کی ترجیح کے قائل نہیں رہے بلکہ حسب حال وقرائن ترجیح دیتے۔