- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
۳۔متصل سند میں اضافہ:
ھُوَ أَنَّہ یَزیْدُ رَاوٍفِی الإسنادِ رَجُلًا لَمْ یَذْکُرْہُ غَیرُہُ۔ ایسی حدیث جس کی سند کے راویوں میں راوی ایک آدمی(خواہ نام لے یا اسے مبہم رکھے) کا اضافہ کردے جس کا تذکرہ دیگر راویوں میں سے کسی نے اس سند میں نہ کیاہو۔
اسے المَزِیْدُ فیِ مُتَّصِلِ الاَسَانِیدِ بھی کہتے ہیں۔مراد یہ ہے کہ ایک ثقہ آدمی حدیث کو سند متصل کے ساتھ یوںروایت کرتا ہے: حَدَّثَنِی۱حَدَّثَنِی ۲حَدَّثَنِیْ ۳ حَدَّثَنِیْ۴ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ۔ یہ حدیث متصل ہے اس میں چار راوی ہیں۔اسی طرح ایک اورروایت ہے جس کی متصل سند میں ایک راوی کا مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔جس نے اضافہ نہیں کیا وہ اس راوی سے زیادہ متقن ہے جس نے اضافہ کیا ہے۔اس بنا پرمحدثین اسے راوی کا وہم قرار دیتے ہیں۔۔اضافہ کا حکم دو شرطوں سے مشروط ہے:
۱۔کم سند والا ، اضافہ کرنے والے سے ارجح ہو۔
۲۔ کم سند میں راوی سماعت کی صراحت کرے۔ اس لئے مزیدفی متصل الاسانید کو ہمیں متصل ہی سمجھنا چاہئے جو پیش کردہ روایت کے طریقے یا سماع پر غور کرکے ہی سمجھ آتی ہے۔ صریح روایت کے ساتھ اس کا عنعنہ بھی فائدہ وتقویت دے سکتا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ قرائن ودلائل دیکھ کر اس کا فیصلہ کیا جائے تاکہ صحیح روایت ترجیح پا سکے۔
مثال: امام احمد نے مسند(۲/۳۸۶،۴۱۶، اور۴۶۷) میں، صحیح مسلم : ۴۷۵۱ میں اور ابوعوانہ نے (۲/۱۰۹) میں بہ سند:
أبُوعَوَانَةَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطاءٍ، عَنْ أَبِی عَلْقَمَةَ، عَن أبی ہریرَة ۔۔ رَضی اللہُ عنہُ۔۔ ۔۔مَرفُوعًا: مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاع اللہَ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللہَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِیْرِیْ فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ عَصَی أَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِی۔
یہی حدیث امام نسائی نے بھی سنن (۸/۲۷۶) میں بہ سند :
أَخْبَرَنَا أَبودَاوٗدَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبو الْوَلِیدِ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبوعَوَانةَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبیہِ عَنْ أَبِی عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبی ہُریرةَ بِہِ۔
اس سند میں عَنْ أَبِیہ کا اضافہ انہوں نے کیا ہے۔ یہ ہے مزید فی متصل الاسانید جو عنعنہ کے ساتھ ہے جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں یعلی بن عطاء کی اپنے شیخ ابوعلقمہ سے سماع کی صراحت ہے۔
ھُوَ أَنَّہ یَزیْدُ رَاوٍفِی الإسنادِ رَجُلًا لَمْ یَذْکُرْہُ غَیرُہُ۔ ایسی حدیث جس کی سند کے راویوں میں راوی ایک آدمی(خواہ نام لے یا اسے مبہم رکھے) کا اضافہ کردے جس کا تذکرہ دیگر راویوں میں سے کسی نے اس سند میں نہ کیاہو۔
اسے المَزِیْدُ فیِ مُتَّصِلِ الاَسَانِیدِ بھی کہتے ہیں۔مراد یہ ہے کہ ایک ثقہ آدمی حدیث کو سند متصل کے ساتھ یوںروایت کرتا ہے: حَدَّثَنِی۱حَدَّثَنِی ۲حَدَّثَنِیْ ۳ حَدَّثَنِیْ۴ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ۔ یہ حدیث متصل ہے اس میں چار راوی ہیں۔اسی طرح ایک اورروایت ہے جس کی متصل سند میں ایک راوی کا مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔جس نے اضافہ نہیں کیا وہ اس راوی سے زیادہ متقن ہے جس نے اضافہ کیا ہے۔اس بنا پرمحدثین اسے راوی کا وہم قرار دیتے ہیں۔۔اضافہ کا حکم دو شرطوں سے مشروط ہے:
۱۔کم سند والا ، اضافہ کرنے والے سے ارجح ہو۔
۲۔ کم سند میں راوی سماعت کی صراحت کرے۔ اس لئے مزیدفی متصل الاسانید کو ہمیں متصل ہی سمجھنا چاہئے جو پیش کردہ روایت کے طریقے یا سماع پر غور کرکے ہی سمجھ آتی ہے۔ صریح روایت کے ساتھ اس کا عنعنہ بھی فائدہ وتقویت دے سکتا ہے۔
بہتر یہی ہے کہ قرائن ودلائل دیکھ کر اس کا فیصلہ کیا جائے تاکہ صحیح روایت ترجیح پا سکے۔
مثال: امام احمد نے مسند(۲/۳۸۶،۴۱۶، اور۴۶۷) میں، صحیح مسلم : ۴۷۵۱ میں اور ابوعوانہ نے (۲/۱۰۹) میں بہ سند:
أبُوعَوَانَةَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطاءٍ، عَنْ أَبِی عَلْقَمَةَ، عَن أبی ہریرَة ۔۔ رَضی اللہُ عنہُ۔۔ ۔۔مَرفُوعًا: مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاع اللہَ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللہَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِیْرِیْ فَقَدْ أَطَاعَنِی، وَمَنْ عَصَی أَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِی۔
یہی حدیث امام نسائی نے بھی سنن (۸/۲۷۶) میں بہ سند :
أَخْبَرَنَا أَبودَاوٗدَ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبو الْوَلِیدِ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبوعَوَانةَ، عَنْ یَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ أَبیہِ عَنْ أَبِی عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبی ہُریرةَ بِہِ۔
اس سند میں عَنْ أَبِیہ کا اضافہ انہوں نے کیا ہے۔ یہ ہے مزید فی متصل الاسانید جو عنعنہ کے ساتھ ہے جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں یعلی بن عطاء کی اپنے شیخ ابوعلقمہ سے سماع کی صراحت ہے۔