• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
ابرار بھائی آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن برادرم ابو الحسن علوی اس مقام پر فائز ہیں جہاں انہیں آپ کی درویشانہ صدا سنائی نہیں دے گی ۔ آپ کو احساس نہیں کہ آپ نے وقت کے امام شافعی کو مخاطب کیا ہے ممکن ہے کہ آپ کو اب تک جہالت کی سند بھی مل گئی ہو ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
راقم کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
در حقیقت ابو الحسن علوی بھائی کا یہ مطالبہ ہی غلط ہے!! کیونکہ؛
((النساء شقائق الرجال)) هل هذا الحديث صحيح، وما معنى شقائق الرجال؟
نعم هذا حديث صحيح، والمعنى والله أعلم أنهن مثيلات الرجال إلا ما استثناه الشارع؛ كالإرث والشهادة وغيرهما مما جاءت به الأدلة.
مجموع فتاوى ابن باز

البينة على المدعي کے تحت عورت کا فقیہ و مجتہد ہونے کے امر سے مستثنی قرار دینے والے کو ہی دلیل پیش کرنا ہوگی!! اور وحی میں کے امر میں استثنا بھی وحی سے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے!!!!
لہذا اگر ابو الحسن علوی بھائی کے پاس عورت کے مجتہدہ یا فقیہ نہ ہونے کی کوئی دلیل ہو تو اسے نقل کر دیں!!!
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
راقم کی اپنی بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ اگر فریٖق مخالف کی ذہنی سطح ایسی ہو کہ راقم کی بات سمجھنے ہی سے قاصر ہو یا سمجھ تو لے لیکن جذباتی مزاج ہونے کے سبب سے لاشعوری طور یا کسی تعصب کے سبب سے شعوری طور پر بات کو الجھانے کی کوشش کرے تو مکالمہ کی طرف دل آمادہ نہیں ہوتا ہے۔
ابوالحسن علوی بھائی کا یہ شکوہ بجا نہیں!! اب ابوالحسن علوی بھائی! مراد کچھ اور لیں ، لکھیں کچھ اور پھر بھی شکوہ فریق مخالف سے کہ فریق مخالف ان کی بات سمجھنے سے ہی قاصر ہے!!!! رفیق طاہر بھائی کے لئے بلا وجہ تنقیدی انداز میں یہ دعا کی گئی :
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
بھائی! آپ کے حق میں یہ دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو حافظے کے ساتھ ساتھ ایسی تجزیاتی صلاحیت بھی عطا فرمائے کہ آپ فریق مخالف کا موقف سمجھ سکیں۔
جب کہ معاملہ اس کے بر خلاف ہے، اس تھریڈ میں ابو الحسن علوی بھائی اپنا مدعا ہی واضح نہيں کر پا رہے ہیں۔ اب یہ دیکھیں:
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
مجتہد اور فقیہ کا ایک عرفی معنی ہے، جو میں مراد لے رہا ہوں نہ کہ لغوی معنی اور اس کو ایک منصب کے طور پر لے رہا ہوں۔
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
ابن داود بھائی کے لیے گزارش ہے کہ مجتہدہ اور فقیہ کے عرفی معنی سے مراد اس کا اصولی اور اصطلاحی معنی ہی ہے۔ ہمارے اس مکالمے میں بعض لوگوں نے اسے لغوی معنی میں لیتےہوئے دلائل نقل کر دیے تھے تو میں نے وضاحت مناسب سمجھی۔
اب ابو الحسن علوی بھائی عرفی کہہ کر اصولی اور اصطلاحی معنی مراد لے رہے ہیں!! اس کے بعد بھی گلہ قارئین سے!!!
سرفراز فیضی بھائی کا یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ:
سرفراز فیضی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
اس بحث میں میرے لیےیہ بڑا مسئلہ رہا کہ میں اب تک علوی بھائی کا موقف نہیں سمجھ سکا ہوں ۔ ابتدا میں ایسا لگا کہ وہ سرے سے عورت کے اجتہاد اور فقاہت کے مخالف ہیں ۔ حتی کہ حضرت عائشہ کو بھی مجتہدہ نہیں مانتے ۔پھر ان کی تحریروں سے محسوس ہوا کہ وہ حضرت عائشہ کو مجتہد تو مانتے پر ان کے مجتہد ہونے کو محض ایک استثنائی واقعہ سمجھتے ہیں اور اس سے کسی شرعی مسئلہ کے استنباط کے خلاف ہیں ۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ خواتین کے جزوی اجتہاد اورفقاہت کے بھی قائل ہیں ۔
بہر حال کسی موقف کا تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ٹھہراو ہو تاکہ اس کی بنیادوں میں کجی کہاں آئی ہے پتہ لگایا جاسکے ۔
مجھے اندیشہ ہے کہ اب یہ بحث فقیہ و مجتہد کے اصطلاحی معنی کے تعین پر ہوگی!!! اس میں یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ سلف صالحین نے اور ائمہ و محدثین نے عورتوں کو جو فقیہ کہا ہے وہ اصطلاہی معنی میں کہا ہے،یا لغوی معنی میں؟ کیونکہ عرفی معنی سے تو ابولحسن بھائی کی جان خلاصی نہیں ہو پائے گی!! وہ تو عرفی معنی سے اصولی و اصطلاحی معنی مراد لیتے ہیں!!!
اب اصطلاحی معنی ابوالحسن بھائی کے بیان کردہ ''منصب '' کا محتاج تسلیم کر لیا جائے ، جو عورت کے لئے جائز نہیں، اس صورت میں سلف الصالحین کا ان عورتوں کو فقیہ کہنا، جن میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں، یا تو غلط قرار پائے گا ، یا ابوالحسن وعلوی بھائی اس کی کوئی تاویل پیش کریں گے!!! خیر دیکھتے ہیں وہ اس کی کیا تاویل پیش کرتے ہیں۔
بات یہ سیدھی ڈگر پر اس صورت جا سکتی ہے کہ ابو الحسن علوی بھائی ، سب سے قبل فقیہ اور مجتہد کی وہ اصطلاحی تعریف نقل کر دیں،جو ''منصب'' کی محتاج ہے!!
'' منصب'' یعنی کہ ابو الحسن علوی بھائی کے مطابق یہ منصب عورت کے لئے جائز نہیں!! اور اس ''منصب'' کا عورت کے لئے ناجائز ہونا بھی دلائل شریعہ سے ثابت کر دیں!!

ابو الحسن علوی بھائی سے میری گذارش ہو گی کہ وہ سقراط اور ارسطو کے اسلوب بحث کو ترک کرتے ہوئے ، اما م النووی اور امام ابن القیم کا اسلوب اختیار کریں ، تا کہ خواہ مخواہ علم الکلام و فلسفہ کی جھنجٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے!!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ!
مندرجہ ذیل بات میں اس تھریڈ میں نہیں پڑھ پایا ! کیونکہ وہ تھریڈ مجھے پسند ہی نہیں آیا تھا!! نہ اس کا عنوان اور نہ ہی بحث!! اب جب کہ محمد ابرار شاہ بھائی نے یہ بتلایا ہےکہ:
جبکہ اابو الحسن علوی نے مضمون ’’ ڈاکٹر فرحت حقائق کے کٹہرے میں‘‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو لیا گیا لیکن درایت کو نہیں لیا گیا ۔ اور عورت فقیہ اور مجتھدہ نہیں بن سکتی ، اور وہ ناقص عقل و دین ہے ۔
تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ابو الحسن بھائی کا یہ شکوہ بھی بجا نہیں!!
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس :
لیکن کچھ مہربانوں نے شعوری یا لاشعوری طور بحث کا رخ کسی اور طرف پھیر دیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت کے بارے ان کی غیرت جوش مارنے لگی حالانکہ جس بات پر ان کی غیرت جوش ما رہی تھی، وہ محل اختلاف نہ تھا۔
محل اختلاف کی بحث سے قطع نظر، میں صرف یہ کہوں گا کہ جس کی غیرت نے جوش نہیں مارا ،اسے اپنی غیرت کا علاج کرانا چاہئے!!!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جن بھائیوں نے بھی میرے بارے اپنی نیک خواہشات اور محبتوں کا اظہار کیا، اللہ انہیں اس کی جزا عطا فرمائے۔ رہی بات حضرت عائشہ رضی عنہا کے مقام کو مرتبہ کی تو میں یہ بات یہاں کرنا نہیں چاہتا لیکن اب شاید اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ میں تقریبا چھ ماہ قبل سے مناقب عائشہ رضی اللہ عنہا پر " السیدة الطاہرة المطھرة المفتری علیھا " پر عربی میں ایک کتاب مرتب کر رہا ہوں۔ کسی کو کسی سے کتنا تعلق ہے، اور اس کے دل میں اس کے لیے کتنی عظمت یا محبت ہے، اس معاملے کو میرے خیال میں آخرت پر رکھ چھوڑنا چاہیے۔

جہاں تک شرعی مسئلہ کی بات ہے تو مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ موضوع پر کسی نے بھی ابھی تک کوئی ایک شرعی دلیل بھی پیش نہیں کی ہے۔ ایک صاحب نے یہ ضرور کہا ہے کہ اشاعہ السنۃ میں ایک مضمون چھپے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی خبر دے دی کہ اس میں بھی تاریخ اسلام سے فقیہات کے تراجم بیان کے جائیں گے۔ فیا للعجب!جن لوگوں کی زندگیاں تقلید کے رد میں گزر گئی ہیں، آج وہ شرعی دلیل، کتاب وسنت کی دلیل کا مطلب ومفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سلفیت کے نام پر سلف صالحین کا عمل اسی طرح کی شرعی حجت قرار پا چکا ہے جیسا کہ اہل تقلید کے ہاں ائمہ اربعہ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ آواز بلند ہونا شروع ہو گئی ہے کہ کیا سلفی یا اہل حدیث بدترین تقلید میں مبتلا نہیں ہیں؟؟؟ سلف صالحین رہنما ہیں، منزل نہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک موضوع سمجھ نہیں آیا ہے تو موضوع بحث اور محل اختلاف کو اب عربی میں نقل کر دیتا ہوں۔
یجوز للمراة ان تکون معلمة او واعظة او مدرسة او تتبع او تقلد نفسھا اذا تمکنت من استنباط الاحکام الشرعیة و لکن لا یجوز ان تکون المرجعیة الدینیة فی الاحکام الشرعیة ای ان نتبعھا فيها دون الرجال
یہی وہ موضوع ہے کہ جس پر اس تھریڈ میں میری طرف سے شروع سے بحث چلی آ رہی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
جہاں تک شرعی مسئلہ کی بات ہے تو مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ موضوع پر کسی نے بھی ابھی تک کوئی ایک شرعی دلیل بھی پیش نہیں کی ہے۔



علوی بھائی آپ نے شرعی دلیل کا مطالبہ ان الفاظ میں کیا تھا :
صحابہ کے اجتہادات کو آپ کی تائید و تصویب حاصل ہوئی یا آپ نے تصحیح فرمائی جیسا کہ دم کے بدلے بکریوں کی صورت میں اجرت وصول کرنا یا غسل کی حاجت کی صورت میں تیمم نہ کرنا یا عصر کی نماز کو غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر وقت کے بعد ادا کرنا وغیرہ ۔ پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اجتہاد یا فتوی جیسے اہم دینی شعبوں میں عورتوں کو یہ مقام دینے کی دلیل کیا ہے؟

اورمیں نے آپ کے مطالبہ پر صریح حدیث پیش کی تھی :

جی ہاں ایسی اجازت عورت کے لئے بھی سنت سے ثابت ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے اجتہاد کی بھی تائید کی ہے بلکہ ایک ہی مسئلہ میں مرد اور عورت دونوں کے مختلف اجتہادات میں سے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا جبکہ اسی مسئلہ سے متعلق عورت کے اجتہاد کی تائید کی اوراسے صحیح قرار دیا ، دلیل ملاحظہ ہو:

امام ابویعلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي طَلِيقٍ ، أَنَّ امْرَأَتَهَ ، قَالَتْ لَهُ : وَلَهُ جَمَلٌ وَنَاقَةٌ أَعْطِنِي جَمَلَكَ أَحُجُّ عَلَيْهِ فَقَالَ : هُوَ حَبْسٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تعالى ، قَالَتْ : إِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ أَحُجَّ عَلَيْهِ ، فَأَبَى ، قَالَتْ : فَأَعْطِنِي النَّاقَةَ ، وَحُجَّ عَلَى جَمَلِكَ ، قَالَ : لا أُوثِرُ عَلَى نَفْسِي أَحَدًا ، قَالَتْ : فَأَعْطِنِي مِنْ نَفَقَتِكَ قَالَ : مَا عِنْدِي فَضْلٌ عَمَّا أَخْرُجُ بِهِ ، وَلَوْ كَانَ مَعِي لأَعْطَيْتُكِ قَالَتْ : فَإِذَا فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ ، فَأَقْرِئْ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنِّي السَّلامَ إِذَا أَتَيْتَهُ ، وَقُلْ لَهُ الَّذِي قُلْتُ لَكَ فَلَمَّا لَقِيَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَقْرَأَهُ مِنْهَا السَّلامَ ، وَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَتْ لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : صَدَقَتْ أُمُّ طَلِيقٍ ، لَوْ أَعْطَيْتَهَا جَمَلَكَ كَانَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَلَوْ أَعْطَيْتَهَا نَاقَتَكَ كَانَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَإِنْ أَعْطَيْتَهَا مِنْ نَفَقَتِكَ أَخْلَفَهَا اللَّهُ لَكَ ، فَقُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، وَمَا يَعْدِلُ الْحَجَّ ؟ قَالَ : عَمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ
[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 1/ 406 قال الالبانی: أخرجه الدولابي في " الكنى والأسماء " ( ١ / ٤١ ) بسند صحيح وقال الحافظ في " الإصابة " بعد أن ساقه من هذا الوجه : " وأخرجه ابن أبي شيبة وابن السكن وابن منده وسنده جيد " . وذكره بنحوه في " المجمع " ( ٣ / ٢٨٠ ) وقال : " رواه الطبراني في الكبير والبزار باختصار : ورجال البزار رجال الصحيح " . وقال المنذري في " الترغيب " ( ٢ / ١١٥ ) : " إسناد الطبراني جيد "(إرواء الغليل ٣/ ٣٧٦)]۔

مذکورہ حدیث میں بڑی واضح دلیل ہے کہ عورت نے اجتہاد کیا اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتہاد کی تائید کی ۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ :
اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس عورت نے ایک مرد کے اجتہاد کے برخلاف الگ اجتہاد کیا ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا اور عورت کے اجتہاد کی تائید کی ۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت نہ صرف مجتہد ہوسکتی ہے بلکہ اجتہاد و فقاہت میں مرد سے بڑھ بھی سکتی ہے ۔

اسی لئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو الصحیحہ میں نقل کیا تو یہ حدیث درج کرنے سے پہلے یہ باب قائم کیا:
امرأة أفقه من رجل

یعنی ایک عورت جو مرد سے بڑی فقیہ تھی


اس کے باوجود بھی آپ کہہ رہے ہیں کی شرعی دلیل کسی نے پیش ہی نہیں کی ۔
بھائی آپ اپنا مطالبہ پڑھیں اور میری پیش کردہ دلیل پڑھیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
یجوز للمراة ان تکون معلمة او واعظة او مدرسة او تتبع او تقلد نفسھا اذا تمکنت من استنباط الاحکام الشرعیة و لکن لا یجوز ان تکون المرجعیة الدینیة فی الاحکام الشرعیة ای ان نتبعھا فيها دون الرجال
یہی وہ موضوع ہے کہ جس پر اس تھریڈ میں میری طرف سے شروع سے بحث چلی آ رہی ہے۔
اول:
اپنی کم علمی کی وجہ سے تتبع کے ساتھ تقلد نفسھا کی تعبیر مجھے عجیب لگ رہی ہے آپ ذرا اس کی وضاحت کردیں۔

دوم:
او تتبع او تقلد نفسھا اذا تمکنت من استنباط الاحکام الشرعیة
اگراس عبارت سے آپ کی مراد یہ ہے کہ عورت صرف اپنی ذات کے لئے اجتہاد کرسکتی ہے تو آپ کا یہ موقف اس صریح حدیث کے خلاف ہے جسے میں نے گذشتہ مراسلہ میں پیش کیا ہے کیونکہ میری پیش کردہ حدیث میں عورت نے مرد سے متعلق اجتہاد پیش کیا تھا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تائید کی ، کما مضی ۔

سوم:
لکن لا یجوز ان تکون المرجعیة الدینیة فی الاحکام الشرعیة ای ان نتبعھا فيها دون الرجال
اگراس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ خواتین کےاندر اجتہادی استعداد ہونے کے باوجود ان سے مسائل شرعیہ نہیں پوچھ سکتے تو آپ کی یہ بات قران کی درج ذیل آیت کےخلاف ہے:
{ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ } [الأنبياء: 7]

مذکورہ آیت میں اہل الذکر سے عورت مستثنی ہے اس کی دلیل پیش کریں ۔


یاد رہے کہ آپ کی حالیہ وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عورت بھی کسی مجتہد عورت سے کوئی مسئلہ نہیں پوچھ سکتی ، اس بات کی مزید وضاحت مطلوب ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
جن بھائیوں نے بھی میرے بارے اپنی نیک خواہشات اور محبتوں کا اظہار کیا، اللہ انہیں اس کی جزا عطا فرمائے۔
آمین!
رہی بات حضرت عائشہ رضی عنہا کے مقام کو مرتبہ کی تو میں یہ بات یہاں کرنا نہیں چاہتا لیکن اب شاید اس کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ میں تقریبا چھ ماہ قبل سے مناقب عائشہ رضی اللہ عنہا پر " السیدة الطاہرة المطھرة المفتری علیھا " پر عربی میں ایک کتاب مرتب کر رہا ہوں۔ کسی کو کسی سے کتنا تعلق ہے، اور اس کے دل میں اس کے لیے کتنی عظمت یا محبت ہے، اس معاملے کو میرے خیال میں آخرت پر رکھ چھوڑنا چاہیے۔
ہمارا آپ سے اختلاف اس بات پر نہیں ہے کہ آپ کے دل میں کس کے لئے کتنی عظمت یا محبت ہے، ہم آپ سے جو اختلاف کر رہے ہیں وہ آپ کے موقف پر ہے!!!
جہاں تک شرعی مسئلہ کی بات ہے تو مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ موضوع پر کسی نے بھی ابھی تک کوئی ایک شرعی دلیل بھی پیش نہیں کی ہے۔
شاید آپ کو تمام مراسلہ نظر نہیں آرہے، ورنہ آپ کے موقف پر آپ کے بیان کردہ دلائل کا بطلان بھی دلائل شریعہ سے کیا جا چکا ہے !! اور فریق مخالف نے اپنے موقف پر دلائل بھی بیان کئے ہیں، جن کا آپ کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا!! آپ مکمل تھریڈ کا بغور مطالعہ فرمایں!!!
ایک صاحب نے یہ ضرور کہا ہے کہ اشاعہ السنۃ میں ایک مضمون چھپے گا
ویسے ابو الحسن علوی بھائی! یہ مضمون لکھنے کا عندیہ آپ نے ان صاحب سے قبل خود بھی کیا تھا!! اور اس تھریڈ میں تو آپ نے بزعم خویش جو دلائل دئیے تھے ان کا دفاع نہ کیا، ہاں یہ عندیہ دیا تھا کہ آپ '' مساوات مرد وزن '' کے عنوان سے ایک مقالہ لکھیں گے!!
لیکن ساتھ ہی یہ بھی خبر دے دی کہ اس میں بھی تاریخ اسلام سے فقیہات کے تراجم بیان کے جائیں گے۔
آپ غالبا پوری عبارت نہیں پڑھ رہے!! ان صاحب نے سب سے قبل یہ بات کہی ہے کہ :
عورت فقیہ بن سکتی ہے یا نہیں؟ اسے مفتی بننے کی اجازت ہے یا نہیں؟ اجتھاد کر سکتی ہے یا نہیں؟
پھر اس کے بعد اپنے ان دلائل کو اسلاف کی فہم کے مطابق اور اسلاف کا بھی یہی موقف ہونے پر ثبوت فراہم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل بات کی ہے!!!
امت اسلامیہ میں کون سی عزت مآب خواتین فقیہ تھیں اور انکے شاگرد کون سے محترم مرد حضرات تھے؟ اور پھر ان سے کن عزت مآب خواتین نے فقاہت سیکھی اور آگے مردوں کو سکھائی؟
فیا للعجب!جن لوگوں کی زندگیاں تقلید کے رد میں گزر گئی ہیں، آج وہ شرعی دلیل، کتاب وسنت کی دلیل کا مطلب ومفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں۔
کیا آپ کا تعلق تقلید کے رد میں زندگی گذارنے والوں میں نہیں؟ ابو الحسن علوی بھائی! بڑی معذرت کے ساتھ جن کا آپ تذکرہ کر رہے ہیں، انہوں نے تو شرعی دلیل ، اور کتاب و سنت کی دلیل کا مطلب و مفہوم سمجھتے ہوئے اپنے موقف پر دلائل بیان کئے ہیں۔ مگر آپ لوگوں کو سقراط کا طریقہ بحث سکھلانے میں مصروف ہیں، اور ان دلائل پر نظر ہیں نہیں فرما رہے!! آپ تو ان دلائل پر کوئی بات ہی نہیں کر رہے!!! ہم تو یہ بھی نہیں جان سکتے کہ آیا آپ کو وہ دلائل سمجھ آئے بھی ہیں یا آپ ان دلائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں!!!
سلفیت کے نام پر سلف صالحین کا عمل اسی طرح کی شرعی حجت قرار پا چکا ہے جیسا کہ اہل تقلید کے ہاں ائمہ اربعہ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ آواز بلند ہونا شروع ہو گئی ہے کہ کیا سلفی یا اہل حدیث بدترین تقلید میں مبتلا نہیں ہیں؟؟؟ سلف صالحین رہنما ہیں، منزل نہیں۔
ابوالحسن علوی بھائی! اگر یہ بات ہمارے جمشید میاں عرف طحاوی دوراں نے لکھی ہوتی تو اس کا وہ جواب دیا جاتا کہ کئی دن تلملا کر رہ جاتے!! آپ سے اتنی گذارش ہے کہ اس طرح کی گفتگو نہ ہی کریں تو بہتر ہے!!
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک موضوع سمجھ نہیں آیا ہے تو موضوع بحث اور محل اختلاف کو اب عربی میں نقل کر دیتا ہوں۔
یجوز للمراة ان تکون معلمة او واعظة او مدرسة او تتبع او تقلد نفسھا اذا تمکنت من استنباط الاحکام الشرعیة و لکن لا یجوز ان تکون المرجعیة الدینیة فی الاحکام الشرعیة ای ان نتبعھا فيها دون الرجال
یہی وہ موضوع ہے کہ جس پر اس تھریڈ میں میری طرف سے شروع سے بحث چلی آ رہی ہے۔
ابو الحسن علوی بھائی! آپ کو بات ہی سمجھ نہیں آرہی!! موضوع تو سب پر عیاں ہے، اور تمام اس موضوع کو بخوبی سمجھتے ہیں! ہاں لوگوں کو جو معمہ لاحق ہے وہ یہ ہے کہ:
''ابو الحسن علوی صاحب اس موضوع پر اپنا موقف واضح نہیں کر پا رہے''
اس بار بھی آپ نے اپنے موقف میں اچھی خاصی تبدیلی کر دی ہے۔ ''المرجعیة الدینیة فی الاحکام الشرعیة'' کے الفاظ استعمال کئے ہیں!! ان الفاظ کی تبدیلی ایک نئے باب کو کھولتی ہے !!!معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فلسفہ اور علم الکلام تو بہت پڑھا ہے ، مگر کلام کا علم کم حاصل کیا ہے!!!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
امام ابویعلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي طَلِيقٍ ، أَنَّ امْرَأَتَهَ ، قَالَتْ لَهُ : وَلَهُ جَمَلٌ وَنَاقَةٌ أَعْطِنِي جَمَلَكَ أَحُجُّ عَلَيْهِ فَقَالَ : هُوَ حَبْسٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تعالى ، قَالَتْ : إِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ أَحُجَّ عَلَيْهِ ، فَأَبَى ، قَالَتْ : فَأَعْطِنِي النَّاقَةَ ، وَحُجَّ عَلَى جَمَلِكَ ، قَالَ : لا أُوثِرُ عَلَى نَفْسِي أَحَدًا ، قَالَتْ : فَأَعْطِنِي مِنْ نَفَقَتِكَ قَالَ : مَا عِنْدِي فَضْلٌ عَمَّا أَخْرُجُ بِهِ ، وَلَوْ كَانَ مَعِي لأَعْطَيْتُكِ قَالَتْ : فَإِذَا فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ ، فَأَقْرِئْ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنِّي السَّلامَ إِذَا أَتَيْتَهُ ، وَقُلْ لَهُ الَّذِي قُلْتُ لَكَ فَلَمَّا لَقِيَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَقْرَأَهُ مِنْهَا السَّلامَ ، وَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَتْ لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : صَدَقَتْ أُمُّ طَلِيقٍ ، لَوْ أَعْطَيْتَهَا جَمَلَكَ كَانَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَلَوْ أَعْطَيْتَهَا نَاقَتَكَ كَانَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَإِنْ أَعْطَيْتَهَا مِنْ نَفَقَتِكَ أَخْلَفَهَا اللَّهُ لَكَ ، فَقُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، وَمَا يَعْدِلُ الْحَجَّ ؟ قَالَ : عَمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ
[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 1/ 406 قال الالبانی: أخرجه الدولابي في " الكنى والأسماء " ( ١ / ٤١ ) بسند صحيح وقال الحافظ في " الإصابة " بعد أن ساقه من هذا الوجه : " وأخرجه ابن أبي شيبة وابن السكن وابن منده وسنده جيد " . وذكره بنحوه في " المجمع " ( ٣ / ٢٨٠ ) وقال : " رواه الطبراني في الكبير والبزار باختصار : ورجال البزار رجال الصحيح " . وقال المنذري في " الترغيب " ( ٢ / ١١٥ ) : " إسناد الطبراني جيد "(إرواء الغليل ٣/ ٣٧٦)]۔

مذکورہ حدیث میں بڑی واضح دلیل ہے کہ عورت نے اجتہاد کیا اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتہاد کی تائید کی ۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ :
اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس عورت نے ایک مرد کے اجتہاد کے برخلاف الگ اجتہاد کیا ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا اور عورت کے اجتہاد کی تائید کی ۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت نہ صرف مجتہد ہوسکتی ہے بلکہ اجتہاد و فقاہت میں مرد سے بڑھ بھی سکتی ہے ۔
اگر آپ کے نزدیک اصطلاحی اور اصولی اجتہاد کا یہی مفہوم اور معیار ہے جو اس روایت سے واضح ہو رہا ہے تو میرا اور آپ کا کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔ یہ اجتہاد تو ہم میں سے ہر ایک کر رہا ہے اور اس معنی میں تو اس فورم پر موجود تمام اراکین، مجتہدین ہیں، ما شاء اللہ۔

بھائی مرجع دینی کے لفظ پر ٍغور کریں۔ اور ان مثالوں پر بھی جو گزر چکی ہیں:
یہاں اپنی بات کی وضاحت کے لیے دو مثالیں عرض کروں گا کہ کیا عورت کسی مستقل مکتب فکر کی بانی ہو سکتی ہے؟ یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام ابن تیمیہ، امام ابن جریر طبری، امام ابن حزم کی طرح کا مجتہد یا فقیہ بننا دین اسلام میں عورت سے مطلوب ہے کہ جس میں لاکھوں مرد اس کے فتاوی یا شرعی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوں؟

کیا کسی عورت سے دین اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ وہ حافظ محمد گوندلوی، عبد اللہ محدث روپڑی، مولانا ثناء اللہ امرتسری یا علامہ احسان الہی ظہیر بنے ؟ اگر جائز ہے تو ذرا یہ تجربہ کر لینے میں کیا حرج ہے کہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کی طرح کی دس بارہ عالمہ فاضلہ عورتیں تو موجود ہی ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ایسے حالات اور مواقع مل گئے کہ وہ معروف زیادہ ہو گئیں، جماعت اہل حدیث کی شرعی رہنمائی کا فریضہ ان عورتوں کو سونپ دینا چاہیے؟
جزاکم اللہ خیرا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
اگر آپ کے نزدیک اصطلاحی اور اصولی اجتہاد کا یہی مفہوم اور معیار ہے جو اس روایت سے واضح ہو رہا ہے تو میرا اور آپ کا کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔ یہ اجتہاد تو ہم میں سے ہر ایک کر رہا ہے اور اس معنی میں تو اس فورم پر موجود تمام اراکین، مجتہدین ہیں، ما شاء اللہ۔

بھائی مرجع دینی کے لفظ پر ٍغور کریں۔ اور ان مثالوں پر بھی جو گزر چکی ہیں:

جزاکم اللہ خیرا۔
ہم جس سے ڈر رہے تھے وہ ہی بات ہو گئی!!!
مرجع دینی میں تو روایات کا مرجع ہونا بھی شامل ہے!!! پھر کیا خیال ہےکہ تمام صحابیہ رضی اللہ عنہم کی روایت کردہ احادیث سے بھی جان خلاصی کر لی جائے!!! فتدبر!!!
ابوالحسن علوی بھائی اس ویک انڈ پر کچھ غور وفکر فرما لیں! اور پھر پیر کے روزاطمنان کے ساتھ اپنا جواب لکھئے گا!!
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
اگر آپ کے نزدیک اصطلاحی اور اصولی اجتہاد کا یہی مفہوم اور معیار ہے جو اس روایت سے واضح ہو رہا ہے تو میرا اور آپ کا کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔ یہ اجتہاد تو ہم میں سے ہر ایک کر رہا ہے اور اس معنی میں تو اس فورم پر موجود تمام اراکین، مجتہدین ہیں، ما شاء اللہ۔
لاحول ولاقوۃ الا باللہ آپ نے ایک صحابیہ کے اجتہاد کو فورم کے اراکین کے مراسلات کے مساوی قراردے دیا ، اناللہ۔
حالانکہ صحابیہ کے اس اجتہاد کو تائید نبوی بھی حاصل ہے ۔
اس کا مطلب یہی ہوا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے اجتہادات تو بدرجہ اولی اسی قبیل سے تھے نعوذباللہ۔

محترم آپ اپنا زوردار مطالبہ مت بھولیئے ! لیجئے پھر سے پڑھئے :
صحابہ کے اجتہادات کو آپ کی تائید و تصویب حاصل ہوئی یا آپ نے تصحیح فرمائی جیسا کہ دم کے بدلے بکریوں کی صورت میں اجرت وصول کرنا یا غسل کی حاجت کی صورت میں تیمم نہ کرنا یا عصر کی نماز کو غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر وقت کے بعد ادا کرنا وغیرہ ۔ پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اجتہاد یا فتوی جیسے اہم دینی شعبوں میں عورتوں کو یہ مقام دینے کی دلیل کیا ہے؟
میں نے سرخ رنگ سے جن الفاظ کو نمایاں کیا ہے ان پر آپ کی توجہ بلکہ مکرر توجہ درکا رہے ۔
آپ نے مرد کے مجتہد ہونے کے جو دلائل دئے ہیں ان میں ایک ایک واقعہ ہی کا ذکر ہے ، اور پھر آپ نے اسی نوعیت کی دلیل عورت کے حق میں طلب کی تھی اور کہا:
پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟
اور ہم نے بالکل اسی نوعیت کی دلیل عورت سے متعلق بھی پیش کردی ، لیکن یہ دلیل سامنے آنے پر آپ نکتہ سنج ہیں:
اگر آپ کے نزدیک اصطلاحی اور اصولی اجتہاد کا یہی مفہوم اور معیار ہے جو اس روایت سے واضح ہو رہا ہے تو میرا اور آپ کا کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔ یہ اجتہاد تو ہم میں سے ہر ایک کر رہا ہے اور اس معنی میں تو اس فورم پر موجود تمام اراکین، مجتہدین ہیں، ما شاء اللہ۔
محترم آپ نے مردوں کے حق میں جس نوعیت کے دلائل پیش کئے ہیں اگر الزاما ہم یہی بات آپ کے ان دلائل سے متعلق کہیں تو آپ کا کیا خیال ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
پھر تو عہد صحابہ میں کوئی مجتہد و فقیہ تھا ہی نہیں نہ عورت نہ مرد !!!!

آپ ہمیں بتلائیں کہ آپ نے مردوں کے مجتہدہونے سے متعلق جو یہ دلائل دئے ہیں:
صحابہ کے اجتہادات کو آپ کی تائید و تصویب حاصل ہوئی یا آپ نے تصحیح فرمائی جیسا کہ دم کے بدلے بکریوں کی صورت میں اجرت وصول کرنا یا غسل کی حاجت کی صورت میں تیمم نہ کرنا یا عصر کی نماز کو غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر وقت کے بعد ادا کرنا وغیرہ ۔ پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اجتہاد یا فتوی جیسے اہم دینی شعبوں میں عورتوں کو یہ مقام دینے کی دلیل کیا ہے؟

اور میں نے عورت کے مجتہد ہونے سے متعلق جو دلیل پیش کی ہے :
دونوں میں کیا فرق ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top