طاہر اسلام
سینئر رکن
- شمولیت
- مئی 07، 2011
- پیغامات
- 843
- ری ایکشن اسکور
- 732
- پوائنٹ
- 256
راجا صاحب کی یہ دلیل بالکل درست ہے کہ جب ہمیں دوسروں کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے روکا گیا ہے تو ان کے پیشواؤں کو بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہیے؛اس پر محترم آصف بھائی نے جو اعتراض کیا ہے وہ درست نہیں اور ان کی ظاہریت کا شاخسانہ ہے کیوں کہ یہاں دیکھنا یہ ہے کہ اس کی علت کیا ہے؟جو یہ ہے کہ جب آپ کسی کو گالی دیں گے تو وہ بھی جواباً گالی دے گا اب آپ اس کے معبود کو گالی دیں گے تو وہ آپ کے معبود کو گالی دے گا اور آپ اس کے پیشوا کو گالی دیں گے تو وہ بھی آپ کے پیشوا کو گالی دیں گے؛یہ سادہ سا استدلال ہے لیکن اگر آپ لفظوں کو پکڑ کر بیٹھ جائیں گے تو پھر یہ بحث ہو گی کہ کیا وہ معبود ہے یا نہیں؟جو بالکل غیر متعلق ہے۔جانتا تھا کہ آپ نے یہی دلیل مجھے ارشاد فرمانی ہے۔ اسی لئے میں نے آپ سے دلیل جاننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے باپ پر لعنت کرنے سے منع فرمایا اور اسے اکبرالکبائر قرار دیا تو صحابۂ کرامؓ نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے باپ پر لعنت کرے؛آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا تو جواباً اس کے باپ کو گالی دی جائے گی۔
حدثنا أحمد بن يونس حدثنا إبراهيم بن سعد عن أبيه عن حميد بن عبد الرحمن عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن من أكبر الكبائر أن يلعن الرجل والديه قيل يا رسول الله وكيف يلعن الرجل والديه قال يسب الرجل أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه(
صحيح البخاري كتاب الأدبباب لا يسب الرجل والديه،حدیث 5628
Last edited by a moderator: