• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید انصاف + قربانی انصاف

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
جانتا تھا کہ آپ نے یہی دلیل مجھے ارشاد فرمانی ہے۔ اسی لئے میں نے آپ سے دلیل جاننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
راجا صاحب کی یہ دلیل بالکل درست ہے کہ جب ہمیں دوسروں کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے روکا گیا ہے تو ان کے پیشواؤں کو بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہیے؛اس پر محترم آصف بھائی نے جو اعتراض کیا ہے وہ درست نہیں اور ان کی ظاہریت کا شاخسانہ ہے کیوں کہ یہاں دیکھنا یہ ہے کہ اس کی علت کیا ہے؟جو یہ ہے کہ جب آپ کسی کو گالی دیں گے تو وہ بھی جواباً گالی دے گا اب آپ اس کے معبود کو گالی دیں گے تو وہ آپ کے معبود کو گالی دے گا اور آپ اس کے پیشوا کو گالی دیں گے تو وہ بھی آپ کے پیشوا کو گالی دیں گے؛یہ سادہ سا استدلال ہے لیکن اگر آپ لفظوں کو پکڑ کر بیٹھ جائیں گے تو پھر یہ بحث ہو گی کہ کیا وہ معبود ہے یا نہیں؟جو بالکل غیر متعلق ہے۔

اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے باپ پر لعنت کرنے سے منع فرمایا اور اسے اکبرالکبائر قرار دیا تو صحابۂ کرامؓ نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے باپ پر لعنت کرے؛آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا تو جواباً اس کے باپ کو گالی دی جائے گی۔
حدثنا أحمد بن يونس حدثنا إبراهيم بن سعد عن أبيه عن حميد بن عبد الرحمن عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن من أكبر الكبائر أن يلعن الرجل والديه قيل يا رسول الله وكيف يلعن الرجل والديه قال يسب الرجل أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه(
صحيح البخاري كتاب الأدبباب لا يسب الرجل والديه،حدیث 5628
 
Last edited by a moderator:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
رہی ابو لہب مذمت کی دلیل تو پہلے یہ بھی دیکھیں کہ ان کا طرز عمل کیا تھا اور پھر یہ خدا کی جانب سے معین کیا گیا ہے جس کا علم قطعی ہے ؛ہم اپنے طور پر تمام اہل بدعت یا کفار پر اسے چسپاں نہیں کر سکتے۔
اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کفار تو بہت تھے لیکن مذمت صرف ابو لہب کی کیوں کی گئی باقاعدہ نام لے کر؟
یہ مسئلہ دراصل معین شخص پر لعنت کے حکم کی فرع ہے اور علما نے کہا ہے کہ کسی معین زندہ کافر پر لعنت سے بھی گریز کرنا چاہیے الا یہ کہ نص شرعی موجود ہو جیسے ابو لہب ہے؛ البتہ اگر اس کی موت حالت کفر ہو تو پھر جواز ہے۔
معین کلمہ گو پر لعنت بھی راجح قول کے مطابق جائز نہیں؛لہٰذا اس سے پرہیز کریں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دوسرے سے ملاقات کے وقت اپنے ہاتھ کو چومنا مکروہ ہے۔ اس (عمل) میں رخصت نہیں اور اپنے دوست سے ملاقات کے وقت اُس کا ہاتھ چومنا بالاجماع مکروہ ہے اور اسی طرح (یہ بھی مکروہ ہے) جو علماء کے سامنے سے زمین کو بوسہ دیتے ہیں ، ایسا کرنے والا اور اس فعل پر راضی ہونے والا دونوں ہی گناہ گار ہیں ، کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔
اور اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے کرے تو کفر ہے اور اگر تحیة کے ارادہ سے کرے تو کفر نہ ہوگا البتہ گنہگار ہو گیا اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔
بحوالہ :
درمختار مع فتاوی شامی ، ص:383 ، ج:6 ، کتاب الحظر و الاباحة باب الاستبراء
یہ تو ان کی فقہ میں بھی جائز نہیں ہے پھر بھی قدم بوسی اور اس کے دیگر عقائد بھی دیکھیں جائیں گے جھوٹ ، توہین رسالت، شعائر کے ساتھ استھزاء ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ اور بین الاقوامی پشت پناہی یہ سب عوامل کو مدنظر رکھ کر خود ان کے ہم مسلک علماء نے اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ کچھ نے تو کفر کے فتوی بھی لگائے ہیں
میں نہ تو آصف صاحب کی حمایت کر رہا ہوں اور نہ ہی راجا صاحب کی میں ایک عمومی بات کر رہا ہوں
البتہ باقاعدہ حکم عینی لگانے کے لیے حجت قائم کرنا ضروری ہے اور وہ حجت ہم کم از کم اس فورم پر مباحثوں کے ذریعے نہیں لگا سکتے عمومی طور پر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس کے افعال و اقوال شرکیہ اور کفریہ ہیں جیسا کہ قرائن و شواہد اس امر پر شاہد ہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور ایک بات آصف صاحب عرض کروں گا کہ اختلاف رائے کو مخالفت تک نہ لے کر جائیں اور بحث اور مباحثہ میں اسوہ رسول کو ضرور مدنظر رکھا جائے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بحث ومباحثہ کا یہی اسلوب تھا ؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
راجا صاحب!
راقم نے حافظ طاہر عسکری صاحب کی بات پر لکھا:
حافظ صاحب!
آپ اپنے تئیں شرعی جواز اور قیل و قال ڈھونڈیں۔ یہ تمام چیزیں آپ کو مبارک
مجھے
درس قرآن و حدیث یہی ہے کہ
سجدہ کرنے والا مشرک ہے اور سجدہ کروانے والا طاغوت ہے۔
آپ نے بحث کرنی ہے تو دوسرا تھریڈ منتخب فرما کر مجھے بھی دعوت دے دیجیے وہاں جو دل میں آئے اپنی فہم و بصیرت کے پھول کھلا لیجیے ان کی خوشبو سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے میں بھی غیرت توحید کے ساتھ حاضر ہو جاؤں گا۔
آپ نے حافظ صاحب کے جواب انتظار کئے بغیر ہی راقم کو ‘‘اپنے عالم’’ کی عزت نفس کو بچانے کے لئے تیرکچھ اس طرح پھینکا:
بات کرنے کا یہ انداز اور وہ بھی علماء سے تو کچھ اچھا نہیں ہے۔۔۔! جب اپنوں کے ساتھ آپ ایسے بات کرتے ہیں تو غیروں کے لئے نام بگاڑنے میں بالاولیٰ کچھ حرج محسوس نہیں کرتے ہوں گے۔ آپ خود اپنے رویہ پر غور کیجئے ۔
راقم نے اس کے جواب میں لکھا:
جی راجا صاحب
آپ کا بہت شکریہ
سردست یہ بتا دیجیے کہ اگر کوئی ’’اپنا عالم‘‘ سنگسار کرنے والا کام کرے گا تو اُسے شرعی سزا دیتے وقت کیا واقعی اس خیال رکھا جائے گا کہ یہ تو ’’اپنا عالم‘‘ ہے؟؟؟
کوئی چوری کا مرتکب ہوا ہو اور عادل گواہوں نے گواہی بھی ہو تو اُسے شرعی سزا دیتے وقت کیا واقعی اس خیال رکھا جائے گا کہ یہ تو ’’اپنا عالم‘‘ ہے؟؟؟
وغیرہ وغیرہ۔
ذرا غور کیجیے کہ میں اسلام کے حق کی بات کر رہا ہوں۔ اس کی دلیل ڈھونڈھنی ہو تو صادق المصدوق ﷺ کی زبانِ اقدس سے نکلا ہوا یہ جملہ آپ کو سمجھانے کے لئے کافی ہے۔ ولا ينفع ذا الجد منك الجد

ان کنت تقیا۔
اس کے جواب میں جناب نے راقم الحروف پر بہت بڑا بہتان لگا دیا: آپ نے فرمایا:

گویا کوئی عالم آپ سے دلیل پوچھ لے تو اس کے لتے لیں گے اور اس کی عزت کا تیا پانچہ کر کے اس کے ہاتھ میں رکھ دیں گے۔ اور آپ کا یہ فعل اسوہ حسنہ سے قبول و منظور شدہ بھی ہوگا۔ خوب!
آپ سے ذرا سے اختلاف کی وجہ سے آپ نے میری عزت تو تار تار کر کے رکھ دی۔ حالانکہ میرا آپ کا توحید میں کوئی اختلاف نہیں، لیکن الزامی جوابات پر بھی آپ نے مجھے مشرکوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ یہ کیسی حکمت ہے، کون سی دانائی ہے اور اسلام کا کون سا وصف ہے؟
اب اس میں آپ نےمجھے کئی سوالات کے جوابات دینے ہیں:
سب سے بڑا بہتان آپ نے مجھ پر یہ باندھا ہے کہ راقم نے آپ کو مشرکوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
میری تحریر میں کونسا ایسا لفظ ہے جس نے آپ کو بقول آپ کے مشرکوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

جاری ہے:
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دوسری بات یہ کہ جناب کی خدمت میں خاتم النبیین پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی زبانِ اقدس سے نکلا ہوا جملہ بطور دلیل آپ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ اگر آپ اللہ سے ڈرتے ہیں تو اس بات کو سمجھ لیں۔ وہ جملہ تھا:
ولا ينفع ذا الجد منك الجد
حضور نے دیگر باتیں تو بہت ارشاد فرمائیں۔ لیکن اس ایک جملے پر ایک لفظ بھی نہ لکھ سکے کیوں؟؟؟

پہلے ان باتوں کا جواب دے دیں پھر آگے بھی چلتے ہیں
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بہت خوب حافظ صاحب!
میری آپ سے بات چل رہی تھی:
حافظ صاحب!
جب ایک انسان دوسرے انسان کے سجدہ کرنے کو پسند کرے، اور اُسے اٹھا کر اپنے گلے سے بھی لگائے۔ اس کی کمر تھپتھپائے۔ اس پر راضی ہو۔ اس کو منع نہ کرے
تو
آپ اپنے تئیں شرعی جواز اور قیل و قال ڈھونڈیں۔ یہ تمام چیزیں آپ کو مبارک
مجھے
درس قرآن و حدیث یہی ہے کہ
سجدہ کرنے والا مشرک ہے اور سجدہ کروانے والا طاغوت ہے۔

آپ نے بحث کرنی ہے تو دوسرا تھریڈ منتخب فرما کر مجھے بھی دعوت دے دیجیے وہاں جو دل میں آئے اپنی فہم و بصیرت کے پھول کھلا لیجیے ان کی خوشبو سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے میں بھی غیرت توحید کے ساتھ حاضر ہو جاؤں گا۔
آپ جناب نے میری گذارشات کا جواب تو مرحمت نہ فرمایا لیکن
راجا صاحب کی حمایت میں دلائل ذکر کرنا شروع فرما دیئے۔ آپ نے لکھا:
راجا صاحب کی یہ دلیل بالکل درست ہے کہ جب ہمیں دوسروں کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے روکا گیا ہے تو ان کے پیشواؤں کو بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہیے؛اس پر محترم آصف بھائی نے جو اعتراض کیا ہے وہ درست نہیں اور ان کی ظاہریت کا شاخسانہ ہے کیوں کہ یہاں دیکھنا یہ ہے کہ اس کی علت کیا ہے؟جو یہ ہے کہ جب آپ کسی کو گالی دیں گے تو وہ بھی جواباً گالی دے گا اب آپ اس کے معبود کو گالی دیں گے تو وہ آپ کے معبود کو گالی دے گا اور آپ اس کے پیشوا کو گالی دیں گے تو وہ بھی آپ کے پیشوا کو گالی دیں گے؛یہ سادہ سا استدلال ہے لیکن اگر آپ لفظوں کو پکڑ کر بیٹھ جائیں گے تو پھر یہ بحث ہو گی کہ کیا وہ معبود ہے یا نہیں؟جو بالکل غیر متعلق ہے۔
اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے باپ پر لعنت کرنے سے منع فرمایا اور اسے اکبرالکبائر قرار دیا تو صحابۂ کرامؓ نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے باپ پر لعنت کرے؛آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا تو جواباً اس کے باپ کو گالی دی جائے گی۔
حدثنا أحمد بن يونس حدثنا إبراهيم بن سعد عن أبيه عن حميد بن عبد الرحمن عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن من أكبر الكبائر أن يلعن الرجل والديه قيل يا رسول الله وكيف يلعن الرجل والديه قال يسب الرجل أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه(
[FONT=Geneva, Arial, Helvetica] [/FONT]صحيح البخاري [FONT=Geneva, Arial, Helvetica]» [/FONT]كتاب الأدب [FONT=Geneva, Arial, Helvetica]» [/FONT]باب لا يسب الرجل والديه،حدیث 5628
حافظ صاحب!
آپ کی اس تحریر کا ربط میری تحریر سے کیا ہے؟
بس یہ بتا دیجیے ۔
اس کے بعد آپ میری پوسٹ کو غیر متعلق کہیں تو سر آنکھوں پر۔

باقی اب میں یہ نہیں کہتا کہ
راجا والی آئی ڈی کے پیچھے کون ہے اور آپ کے اپنے نام والی آئی ڈی کے پیچھے کون ہے؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رہی ابو لہب مذمت کی دلیل تو پہلے یہ بھی دیکھیں کہ ان کا طرز عمل کیا تھا اور پھر یہ خدا کی جانب سے معین کیا گیا ہے جس کا علم قطعی ہے ؛ہم اپنے طور پر تمام اہل بدعت یا کفار پر اسے چسپاں نہیں کر سکتے۔
اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کفار تو بہت تھے لیکن مذمت صرف ابو لہب کی کیوں کی گئی باقاعدہ نام لے کر؟
یہ مسئلہ دراصل معین شخص پر لعنت کے حکم کی فرع ہے اور علما نے کہا ہے کہ کسی معین زندہ کافر پر لعنت سے بھی گریز کرنا چاہیے الا یہ کہ نص شرعی موجود ہو جیسے ابو لہب ہے؛ البتہ اگر اس کی موت حالت کفر ہو تو پھر جواز ہے۔
معین کلمہ گو پر لعنت بھی راجح قول کے مطابق جائز نہیں؛لہٰذا اس سے پرہیز کریں۔
واہ حافظ صاحب واہ:
ابولہب کی مذمت کی بات تو آپ کو نظر آ گئی لیکن اس سے جڑی ہوئی پہلی عبارت آپ کو نظر نہ آگئی
اس پر کچھ عالمانہ و فاضلانہ تحریر فرما دیں
تحریر میں دوبارہ لکھ دیتا ہوں:

رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو مکے کے اندر جتنی تکالیف دی گئیں، کیا کوئی تصور کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن اس کے باوجود ‘‘عمر بن ہشام‘‘ کا نام ‘‘ابوجہل ‘‘ مکہ میں رکھا گیا تھا یا کہ مدینہ میں؟؟؟؟
‘‘عبدالعزیٗ‘‘ ابولہب اور اس کی بیوی کی بربادی کا تذکرہ مدینہ میں ہوا تھا یا کہ مکہ میں؟؟؟؟
http://forum.mohaddis.com/threads/طاہر-القادری-کے-جھوٹے-خواب-کا-رد-سید-توصیف-الرحمٰن-الراشدی-حفظہ-اللہ.25302/#post-204379
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
پلیز یہ مکالمہ موحد بھائیوں اور اہل علم کے مابین ہے۔اس لیے "الفاظ کا بناؤ سنگھار " ضرور کریں۔تاکہ دل نرم رہیں۔ اور دلائل سے جائزہ لیتے رہیں ، ان شاء اللہ ، اللہ تعالی مثبت راستہ دکھائے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پلیز یہ مکالمہ موحد بھائیوں اور اہل علم کے مابین ہے۔اس لیے "الفاظ کا بناؤ سنگھار " ضرور کریں۔تاکہ دل نرم رہیں۔ اور دلائل سے جائزہ لیتے رہیں ، ان شاء اللہ ، اللہ تعالی مثبت راستہ دکھائے گا۔
دُعا سسٹر
یہی سب سے عمدہ بات ہے کہ دِل نرم رہیں۔
الحمد للہ۔ حافظ صاحب سے کئی دفعہ میری ملاقات ہو چکی ہے۔ کم از کم دو دفعہ جمعۃ المبارک حافظ عسکری صاحب کے پیچھے ادا کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ یہ سعادت کی بات ہے۔ حافظ صاحب سے یا راجا صاحب سے میری کوئی ذاتی دشمنی و عناد نہیں ہے۔
مزید یہ کہ میرے دل میں الحمد للہ کسی بھی مؤحد بہن بھائی کے لئے کوئی بھی کینہ و بغض و حسد نہیں ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ مجھے ایسی باتوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔
دل میں جو بات ہوتی ہے وہ باہر نکال کر رکھ دیتا ہوں۔
میں مانتا ہوں کہ
علم پر عمل کا مطالبہ
اکثر لوگوں میں اکثر اوقات میرے متعلق منفی رجحانات بڑھنے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
مثلاً:
ایک مؤحد عالم صاحب جب درس و تدریس یا خطابت کرتے ہیں تو پاؤں سے پاؤں ملانے، پاؤں سیدھے رکھنے، اونچی آمین کہنے، نماز میں ادھر اُدھر نہ دیکھنے، اذان کے بعد مسجد سے نہ نکلنے، سچ بولنے، وعدہ پورا کرنے اور معاملات کو درست رکھنے وغیر وغیرہ کی بہت اچھے انداز سے وعظ و نصیحت فرماتے ہیں۔ جس سے میرے جیسے لوگ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔
لیکن
جب کبھی اتفاقاً ایسے مدرس اور خطیب حضرات مقتدی کے طور پر نماز میں شامل ہوں تو الا ماشاء اللہ ان ساری باتوں کی اپنے عمل سے نفی فرما رہے ہوتے ہیں۔ اور منبر سے نیچے اتر کر اپنے عمل سے اپنی وعظ و نصیحت کی دھجیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔
یہ الفاظ میں نے نہ تو راجا صاحب کے لئے لکھے ہیں اور نہ ہی حافظ عسکری صاحب کے لئے۔
یہ تو عام باتیں آپ کو بتائی ہیں۔
لہٰذا
رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ سے جہاں ہمیں اور بہت کچھ ملتا ہے وہاں یہ بات بھی ملتی ہے کہ جس قدر آپ کے پاس علم ہے اس پر عمل کرو۔
اور خاص طور پر علماء کرام کو چاہیے کہ روزمرہ کی زندگی میں اپنے اوپر نظر دوڑائیں اور ایسی عادات ترک فرما دیں جن سے دیکھنے والے کو یہ سمجھ آرہی ہو کہ علم پر عمل نہیں ہو رہا۔
اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 
Top