- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
رسول اللہﷺ مدینے میں:
اسی روز - شنبہ ۷/شوال ۳ ھ کو سرِ شام رسول اللہﷺ مدینہ پہنچے۔ گھر پہنچ کر اپنی تلوار حضرت فاطمہ ؓ کو دی۔ اور فرمایا : بیٹی ! اس کا خون دھو دو۔ اللہ کی قسم !یہ آج میرے لیے بہت صحیح ثابت ہوئی۔ پھر حضرت علیؓ نے بھی تلوار لپکائی۔ اور فرمایا: اس کا بھی خون دھودو۔ واللہ! یہ بھی آج بہت صحیح ثابت ہوئی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اگر تم نے بے لاگ جنگ کی ہے تو تمہارے ساتھ سہل بن حُنیف اور ابو دجانہ نے بھی بے لاگ جنگ کی ہے۔1
بیشتر روایتیں متفق ہیں کہ مسلمان شہداء کی تعداد ستر تھی۔ جن میں بھاری اکثریت انصار کی تھی ، یعنی ان کے ۶۵ آدمی شہید ہوئے تھے۔ ۴۱ خزرج سے اور ۲۴ اوس سے۔ ایک آدمی یہود سے قتل ہوا تھا۔ اور مہاجرین شہداء کی تعداد صرف چار تھی۔
باقی رہے قریش کے مقتولین تو ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ان کی تعداد ۲۲ تھی ، لیکن اصحاب مغازی اور اہل ِ سِیَر نے اس معرکے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں اور جن میں ضمناً جنگ کے مختلف مرحلوں میں قتل ہونے والے مشرکین کا تذکرہ آیا ہے ان پر گہری نظر رکھتے ہوئے دقت پسندی کے ساتھ حساب لگایا جائے تو یہ تعداد ۲۲ نہیں بلکہ ۳۷ہوتی ہے۔ واللہ اعلم2
مدینے میں ہنگامی حالت:
مسلمانوں نے معرکۂ اُحد سے واپس آکر (۸ /شوال ۳ ھ شنبہ ویک شنبہ کی درمیانی ) رات ہنگامی حالت میں گزاری۔ جنگ نے انہیں چوُر چوُر کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کے راستوں اور گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے۔ اور اپنے سپہ سالارِ اعظم رسول اللہﷺ کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔
غزوۂ حمراء الاسد:
ادھر رسول اللہﷺ نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے گزاری۔ آپﷺ کو اندیشہ تھا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقینا ندامت ہوگی۔ اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ اس لیے آپ نے فیصلہ کیا کہ بہر حال مکی لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔
چنانچہ اہل ِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے معرکہ احد کے دوسرے دن، یعنی یک شنبہ ۸ /شوال ۳ھ کو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۰۰
2 دیکھئے: ابن ہشام ۲/۱۲۲تا ۱۲۹ فتح الباری ۷/۳۵۱ اور غزوہ ٔ احد تصنیف محمد احمد باشمیل ص ۲۷۸، ۲۷۹،۲۸۰
اسی روز - شنبہ ۷/شوال ۳ ھ کو سرِ شام رسول اللہﷺ مدینہ پہنچے۔ گھر پہنچ کر اپنی تلوار حضرت فاطمہ ؓ کو دی۔ اور فرمایا : بیٹی ! اس کا خون دھو دو۔ اللہ کی قسم !یہ آج میرے لیے بہت صحیح ثابت ہوئی۔ پھر حضرت علیؓ نے بھی تلوار لپکائی۔ اور فرمایا: اس کا بھی خون دھودو۔ واللہ! یہ بھی آج بہت صحیح ثابت ہوئی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اگر تم نے بے لاگ جنگ کی ہے تو تمہارے ساتھ سہل بن حُنیف اور ابو دجانہ نے بھی بے لاگ جنگ کی ہے۔1
بیشتر روایتیں متفق ہیں کہ مسلمان شہداء کی تعداد ستر تھی۔ جن میں بھاری اکثریت انصار کی تھی ، یعنی ان کے ۶۵ آدمی شہید ہوئے تھے۔ ۴۱ خزرج سے اور ۲۴ اوس سے۔ ایک آدمی یہود سے قتل ہوا تھا۔ اور مہاجرین شہداء کی تعداد صرف چار تھی۔
باقی رہے قریش کے مقتولین تو ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ان کی تعداد ۲۲ تھی ، لیکن اصحاب مغازی اور اہل ِ سِیَر نے اس معرکے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں اور جن میں ضمناً جنگ کے مختلف مرحلوں میں قتل ہونے والے مشرکین کا تذکرہ آیا ہے ان پر گہری نظر رکھتے ہوئے دقت پسندی کے ساتھ حساب لگایا جائے تو یہ تعداد ۲۲ نہیں بلکہ ۳۷ہوتی ہے۔ واللہ اعلم2
مدینے میں ہنگامی حالت:
مسلمانوں نے معرکۂ اُحد سے واپس آکر (۸ /شوال ۳ ھ شنبہ ویک شنبہ کی درمیانی ) رات ہنگامی حالت میں گزاری۔ جنگ نے انہیں چوُر چوُر کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ رات بھر مدینے کے راستوں اور گزرگاہوں پر پہرہ دیتے رہے۔ اور اپنے سپہ سالارِ اعظم رسول اللہﷺ کی خصوصی حفاظت پر تعینات رہے کیونکہ انہیں ہر طرف سے خدشات لاحق تھے۔
غزوۂ حمراء الاسد:
ادھر رسول اللہﷺ نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتے ہوئے گزاری۔ آپﷺ کو اندیشہ تھا کہ اگر مشرکین نے سوچا کہ میدانِ جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقینا ندامت ہوگی۔ اور وہ راستے سے پلٹ کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ اس لیے آپ نے فیصلہ کیا کہ بہر حال مکی لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔
چنانچہ اہل ِ سیر کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے معرکہ احد کے دوسرے دن، یعنی یک شنبہ ۸ /شوال ۳ھ کو
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۱۰۰
2 دیکھئے: ابن ہشام ۲/۱۲۲تا ۱۲۹ فتح الباری ۷/۳۵۱ اور غزوہ ٔ احد تصنیف محمد احمد باشمیل ص ۲۷۸، ۲۷۹،۲۸۰