@رد کفر
یہ مقلد ٨ اور ٢٠ تراویح کی حقیقت کو کیا جانیں -
فاتحہ خلف الامام کے مسلے کو لے لیجئے :
علامہ شعرانی نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمد نہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورجائز بتایا ہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں:
لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔
خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ پہلا قول یہ ہے کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوریہ ان دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔
پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔
یعنی اب بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا
لیکن "تقلید کی ضلالت" نے ان حنفیوں کو اپنے ہی امام کے قول و عمل سے برگشتہ کردیا -ان حنفیوں کی طرف سے فاتحہ خلف الامام کو غلط ثابت کرنے کے لئے ہزاروں کتابیں لکھی گئیں- جب کہ ان کے اپنے امام پرانے موقف سے رجوع کرکے سنّت نبوی کے مطابق فاتحہ خلف الامام کے قائل ہو گئے-
حقیقت یہ ہے کہ دن رات حنفیت کی دہائی دینے والے اپنے ہی امام کے مخالف رستے پر چل رہے ہیں صرف غیر مقلدین کی دشمنی میں -تو باقی معملات وہ کس طرح راہ راست حاصل کرسکتے ہیں؟؟
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ سوره البقرہ ١٩
بےشک دین التو له کے ہاں اسلام ہی ہے اور جنہیں کتاب دی گئی تھی
انہوں نے صحیح علم ہونے کے بعد آپس کی ضد کے باعث اختلاف کیا اور جو شخص الله کے حکموں کا انکار کرے تو الله جلد ہی حساب لینے والا ہے-