عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم جناب کنعان صاحب!
معذرت کے ساتھ. میں آپکا اشارہ نہیں سمجھ پا رھا ھوں. براہ کرم وضاحت فرمائیں.
جزاکم اللہ خیرا.
والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اتنی جلدی حرکت میں نہیں آتے، اس پر تحقیق کے دوران مجھے بھی نہیں معلوم کہ یہ پوسٹ کیسے ہو گیا۔ اس پوسٹ کو نکالنے پر درخواست کرنے والا تھا۔ ویسے جنک مراسلے میں نہیں کرتا جس میں کوئی کام کی بات نہ ہو۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم جناب کنعان صاحب!
نام تو اس کتاب پر بھی تھا. مقصود کتاب کا لنک ھے.
جزاک اللہ خیرا
والسلام
محترم! آپ نے ماشاء اللہ بڑی باریک بینی سے اس کو ملاحظہ فرمایا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ طریقۂ کار ہر ایک کے لئے اور ہر جگہ استعمال ہو اور ہر اہلحدیث کہلانے والا ہر جگہ ایسی فکر کرے۔جہاں تحریف کا الزام ہے وہاں اسم اللہ میں سپیس زیادہ ہے باقی پورے صفحہ میں اسم اللہ سے اس کا موازمہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک ہی صفحہ میں فونٹس کی تبدیلی نہیں ہوتی۔ باقی اسحاق بھائی نے جو بات لکھی وہ درست ہے جس پر ابھی تک جواب سامنے نہیں آیا۔
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی (معذرت کے ساتھ)۔میرے خیال میں یہ کسی مقلد کی ہی شرارت لگتی ہے تاکہ غیر مقلد (اہل حدیث) کو بدنام کیا جاسکے (واللہ اعلم)-
ویسے بھی مقلد (احناف و اہل دیوبند) کے سارے مذہب کا دارو مدار قرآن کی اس آیات میں لفظ أُولِي الْأَمْرِ پر مبنی ہے جن کی یہ لوگ اپنی من معنی تفسیرو تعبیر کرتے ہیں-
اکثرو بیشتر محدثین و مجتہدین و اہل سلف کی بات کو بلا دلیل مان کر اور پیش کرکے آپ کیا بنے؟؟؟جب کہ اکثرو بیشتر محدثین و مجتہدین و اہل سلف نے یہاں أُولِي الْأَمْرِ سے مراد خلیفہ وقت، حاکم وقت ، صاحب اقتدار اعلی وغیرہ ہی لیا ہے
محترم بھٹی صاحب!اکثرو بیشتر محدثین و مجتہدین و اہل سلف کی بات کو بلا دلیل مان کر اور پیش کرکے آپ کیا بنے؟؟؟
خیر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جس زمانہ کے محدثین و مجتہدین و اہل علم نے یہ کہا اس وقت صاحبِ اقتدار عموماً صاحبِ علم ہوتے تھے۔ اس آیت میں بھی حقیقی طور پر صاحبِ علم کی طرف ہی رجوع ہے نہ کہ صاحبِ اقتدار۔ کیونکہ ”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ “ سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ صاحبِ اقتدار نہیں بلکہ صاحبِ علم مراد ہیں۔ کیونکہ صاحب اقتدار تو اکیلا ہوتا ہے اس کا جھگڑا کس سے ہونا ہے؟
@اشماریہاکثرو بیشتر محدثین و مجتہدین و اہل سلف کی بات کو بلا دلیل مان کر اور پیش کرکے آپ کیا بنے؟؟؟
خیر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جس زمانہ کے محدثین و مجتہدین و اہل علم نے یہ کہا اس وقت صاحبِ اقتدار عموماً صاحبِ علم ہوتے تھے۔ اس آیت میں بھی حقیقی طور پر صاحبِ علم کی طرف ہی رجوع ہے نہ کہ صاحبِ اقتدار۔ کیونکہ ”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ “ سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ صاحبِ اقتدار نہیں بلکہ صاحبِ علم مراد ہیں۔ کیونکہ صاحب اقتدار تو اکیلا ہوتا ہے اس کا جھگڑا کس سے ہونا ہے؟
محترم بھائی کیا اس کا موجودہ تھریڈ کے عنوان سے کوئی تعلق ہے؟ آپ جان بوجھ کر اختلافی بحث کو ہی بیچ میں گھسیٹنا کیوں پسند فرماتے ہیں، میں نہیں جانتا۔میرے خیال میں یہ کسی مقلد کی ہی شرارت لگتی ہے تاکہ غیر مقلد (اہل حدیث) کو بدنام کیا جاسکے (واللہ اعلم)-
ویسے بھی مقلد (احناف و اہل دیوبند) کے سارے مذہب کا دارو مدار قرآن کی اس آیات میں لفظ أُولِي الْأَمْرِ پر مبنی ہے جن کی یہ لوگ اپنی من معنی تفسیرو تعبیر کرتے ہیں-
١-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ سوره النسا ء ٥٩
ترجم
ہ: مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب امر ہیں ان کی بھی-
احناف کے نزدیک اس آیت میں أُولِي الْأَمْرِ سے مراد ان کے اپنے امام (ابو حنیفہ) - یا زیادہ سے زیادہ آئمہ اربعہ ہیں اور یہ اس لیے کہ انگلی صرف احناف پر نہ اٹھے - حقیقی طور پر یہ صرف اپنے امام (ابو حنیفہ ) کو ہی أُولِي الْأَمْرِ سمجھتے ہیں - اور سادہ لوح عوام کو بھی یہی باور کرواتے ہیں تا کہ اس آیت سے تقلید شخصی کا وجوب ثابت کیا جا سکے - جب کہ اکثرو بیشتر محدثین و مجتہدین و اہل سلف نے یہاں أُولِي الْأَمْرِ سے مراد خلیفہ وقت، حاکم وقت ، صاحب اقتدار اعلی وغیرہ ہی لیا ہے نہ کہ آئمہ اربعہ - آئمہ کے نظریات فقہ کے معاملات میں راے کی حیثیت رکھتے تھے - اس لئے ان آئمہ، خصوصاً امام ابو حنیفہ کو اصحاب الراے کہا جاتا ہے-
بالفرض ان آئمہ اربعہ کو صاحب ا لْأَمْرِ مان بھی لیا جائے تو کسی بھی طور ان سے ان کی تقلید ثابت نہیں ہوتی- کیوں کہ سوره النسا ء اسی آیت میں آگے یہ بھی فرما دیا گیا کہ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ترجمہ : اور اگر کسی معاملے میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملے میں الله اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا نتیجہ بھی اچھا ہے-
یعنی کسی بھی قسم کے اختلاف میں صرف قرآن و احادیث نبوی ہی ہمیں صحیح رہنمائی فراہم کر سکتی ہے- کسی فرد واحد ا امام کی پیروی (تقلید) تو گمراہی کا سبب ہے-
اس بات کو تھریڈ کے موضوع سے خارج سمجھتے ہوئے صرف ایک جملہ تفسیر ابن کثیر سے نقل کر رہا ہوں: