بھائی اس میں راوی عطیہ بن سعد العوفی پر جرح کی گئی ہے،جبکہ اس کی توثیق بھی علماء اہلسنت نے کی ہے۔
ابن سعد نے طبقات الکبرِیِ میں اسے ثقہ اور اس کی احادیث کو صالح قرار دیا ہے۔(طبقات جلد 4 ص 421)
اور علم جرح و تعدیل کے امام یحیٰی ابن معِین نے عطیہ کی تعدیل کی ہے جیسا کہ سوالات الدوری میں ہے کہ عطیہ کی حدیث کیسی ہے جواب دیا “صالح”
تاريخ ابن معين ، الدوري – يحيى بن معين – ج ١ – الصفحة ٣٦٣
اس کے علاوہ ابن شاھین نے عطیہ کو اپنی کتاب الثقات میں درج کیا ہے
تاريخ أسماء الثقات ممن نقل عنهم العلم – ابن شاهين 247
اس کے علاوہ ترمذی نے بھی عطیہ کی روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
کیا آپ عطیہ پر جرح مفسر دکھا سکتے ہیں ؟
جی حافظ مزی کی کتاب تہذیب الکمال (برقم 4616 ) ذرا ملاحظہ فرمائیں :
قال مسلم بن الحجاج : قال أحمد و ذكر عطية العوفى ، فقال : هو ضعيف الحديث . ثم قال : بلغنى أن عطية كان يأتى الكلبى و يسأله عن التفسير و كان يكنيه
بأبى سعيد فيقول : قال أبو سعيد ، و كان هشيم يضعف حديث عطية .
و قال أحمد : حدثنا أبو أحمد الزبيرى ، قال : سمعت الكلبى قال : كنانى عطية
أبا سعيد .
و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل عن أبيه نحو ذلك . و قال : كان الثورى و هشيم
يضعفان حديث عطية .
و قال عباس الدورى ، عن يحيى بن معين : صالح .
و قال أبو زرعة : لين .
و قال أبو حاتم : ضعيف ، يكتب حديثه ، و أبو نضرة أحب إلى منه .
و قال إبراهيم بن يعقوب الجوزجانى : مائل .
و قال النسائى : ضعيف .
و قال الحافظ في تهذيب التهذيب 7 / 225 :
و قال ابن حبان فى " الضعفاء " بعد أن حكى قصته مع الكلبى بلفظ مستغرب ، فقال :
سمع من أبى سعيد أحاديث ، فلما مات جعل يجالس الكلبى يحضر بصفته ، فإذا قال
الكلبى : قال رسول الله صلى الله عليه وآله و سلم كذا ، فيحفظه ، و كناه
أبا سعيد و يروى عنه ، فإذا قيل له : من حدثك بهذا ؟ فيقول : حدثنى أبو سعيد ،
فيتوهمون أنه يريد أبا سعيد الخدرى ، و إنما أراد الكلبى .
قال : لا يحل كتب حديثه إلا على التعجب .
ثم أسند إلى أبى خالد الأحمر : قال لى الكلبى : قال لى عطية : كنيتك بأبى سعيد
فأنا أقول : حدثنا أبو سعيد .
و قال ابن سعد : أخبرنا يزيد بن هارون ، أخبرنا فضيل ، عن عطية ، قال : لما
ولدت أتى أبى عليا ففرض لى فى مئة .
و قال ابن سعد : خرج عطية مع ابن الأشعث ، فكتب الحجاج إلى محمد بن القاسم أن
يعرضه على سب على ، فإن لم يفعل فاضربه أربعمئة سوط و احلق لحيته ، فاستدعاه
، فأبى أن يسب ، فأمضى حكم الحجاج فيه ، ثم خرج إلى خراسان فلم يزل بها حتى ولى
عمر بن هبيرة العراق فقدمها فلم يزل بها إلى أن توفى سنة إحدى عشر ، و كان ثقة
إن شاء الله ، و له أحاديث صالحة ، و من الناس من لا يحتج به .
و قال أبو داود : ليس بالذى يعتمد عليه .
قال أبو بكر البزار : كان يعده فى التشيع ، روى عنه جلة الناس .
و قال الساجى : ليس بحجة ، و كان يقدم عليا على الكل . اهـ .
(ماخوذ من الشاملۃ)
مذکورہ اقوال میں تقریبا دس کے قریب کبار محدثین ہیں جنہوں نے اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے۔
رضوی صاحب آپ نے عطیہ کی توثیق کے لیے چار محدثین کے نام پیش کیے ہیں :
ابن سعد
ابن معین
ترمذی
ابن شاہین
آخری دو اس کی توثیق ثابت کرنے کے لیے نا کافی ہیں ، کیونکہ ترمذی نے راوی کی توثیق نہیں بلکہ بقول آپ کے اس کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔ اور حدیث کو حسن کہنا اور شے ہے جبکہ اس کے راوی کی توثیق کرنا اور شے ہے ۔
جبکہ ابن شاہین نے بھی اس کی توثیق نہیں کی ، بلکہ اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے ، اور یہ بات معلوم ہے کہ ابن شاہین کی اس کتاب میں بعض ضعیف راوی بھی شامل ہیں ۔
رہ گیا ابن سعد اور ابن معین کا حوالہ تو گزارش ہے کہ جمہور علماء کی تضعیف (جیساکہ مزی و ابن حجر کے ذکر کردہ اقوال سے معلوم ہوتا ہے ) پر ان دو محدثین کی توثیق (اگر اس کو معروف معنوں میں توثیق مان بھی لیا جائے ) کو ترجیح نہیں دی جاسکتی ۔
اور یہی وجہ ہےکہ حافظ ذہبی نے اس کو بالاتفاق ضعیف لکھا ہے (دیوان الضعفاء برقم 2843) گویا انہوں نے ابن سعد اور ابن معین کی توثیق کو جمہور کے مقابلے میں معتبر نہیں جانا ۔
گویا اس راوی میں ایک سے زیادہ مسئلے ہیں :
1۔ ضعیف ہونا۔
2۔ مدلس بلکہ کثیر التدلیس ہونا ۔ ( دیکھیے طبقات المدلسین لابن حجر ص 50 ط القریوتی )
3۔ حالیہ روایت میں حتمی طور پر یہ کہنا بھی محل نظر ہے کہ اس کے شیخ ’’ ابو سعید ‘‘ الخدری صحابی ہی ہیں بلکہ یہ عطیہ اپنے شیخ ’’ کلبی ‘‘ کو بھی ابو سعید کہہ کر روایت بیان کردیا کرتے تھے ۔