یہ صرف کراچی نہیں بلکہ ہر جگہ ہے کہ اہل حدیث احناف کی اقتدا میں احناف کے ساتھ ایک ہی صف میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
فروعی مسائل میں اختلاف ایسی چیز ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ میں بھی موجود تھا۔ اس کے باوجود نہ ان کے مصلے الگ تھے اور نہ ان کے نام۔ نہ ہی وہ ایک دوسرے کو برا کہتے تھے۔
وہ نماز اور جہاد کی ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر اپنے اپنے طریقے پر عمل فرماتے تھے۔ ہمیں بھی یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور اسی طرح اتحاد ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال آج بھی حرمین میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اگر اتنا دور نہ جانا چاہیں تو کراچی آ جائیے کہ یہاں کی اکثر مساجد میں بھی یہی ہوتا ہے۔ گول مارکیٹ کی جامع مسجد میں اور گلشن معمار کی مساجد میں میں کئی مرتبہ اہل حدیث بھائیوں کے برابر میں نماز پڑھ چکا ہوں۔ نہ ہم انہیں برا سمجھتے ہیں اور نہ وہ ہمیں۔ وہ پاؤں ملانا چاہیں تو ہم ملا لیتے ہیں اور ہمیں الجھن ہو تو وہ اصرار نہیں کرتے۔
مجھے تمام مساجد کا علم نہیں لیکن ان دو مقامات میں یہ معاملہ ہے۔
رہ گئی بات اس طریقے کی جو آپ نے ذکر کیا ہے تو اس کی کوئی بنیاد یا وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی۔ اگر ایک شخص رفع یدین کرنے کو راجح اور حدیث کے مطابق سمجھ رہا ہے اور اپنی اس سمجھ میں وہ مخلص بھی ہے تو ان شاء اللہ اس کا اجر یقینی ہے۔ وہ بھلا اسے کیوں چھوڑے؟ اسی طرح اس کے الٹ بھی ہے۔
ہمارے یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حرمین جا کر وہاں کے اماموں کے پیچھے نماز نہیں ڑھتے اور یہ کہتے ہیں کہ وہ گستاخ رسول ہیں (ابتسامہ)۔متفق ، لیکن ایک سوال ہے کہ بعض اہل حدیث کے نزدیک دیوبند کے عقائد درست نہیں ہیں۔اور وہ دیوبند کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے۔ان کو اتحاد کے طرف کیسے مائل کیا جائے؟اسی طرح بعض دیوبند کہتے ہیں کہ اہل حدیث کے عقائد ٹھیک نہیں ہیں ان کے وہ ان کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے۔
میرے بھائی آپ کسی اور طرف نکل گئے۔ کسی ایک فقہ پر اکٹھے ہونے کی بات نہیں کی بلکہ جس ملک میں اہل سنت کا جو مسلک ہے وہاں سب کو اسی پر کاربند ہوجانا چاہیئے۔ میں نے کسی عالم کی کتاب میں پڑھا تھا انہوں نے لکھا تھا کہ کوئی حنفی اگر کسی ایسے ملک میں جاکر آباد ہو جاتا ہے جہاں مالکی رہتے ہین۔ تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ حنفیوں کی طرح نماز پڑھے بلکہ وہ وہاں مالکیوں کی طرح نماز پڑھے۔ایک طریقہ اور بھی ہے۔
ایک فقہ مشترک تیار کیا جائے جس کے اپنے اصول ترجیح ہوں۔ اس کے ذریعے تمام فقہاء کے اقوال میں ترجیح کا عمل کیا جائے اور اس کی بنیاد پر مسائل کی تخریج ہو۔ پھر اس کے دو حصے کر دیے جائیں: ایک رخصت اور دوسرا عزیمت۔ پھر ان میں بھی جن جگہوں پر دلائل دونوں جانب کے مضبوط ہوں ان میں اختیار دے دیا جائے۔ یہ وہ فقہ ہوگا جسے ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے میٹرو پولیٹن فقہ کا نام دیا تھا۔
بہرحال یہ اہل علم حضرات کا کام ہے جو چاروں فقہ اور قرآن اور احادیث پر بھرپور گرفت رکھتے ہوں۔ میرے ذہن میں اصولوں کا اور فقہ کا ایک خاکہ ہے لیکن تاحال مجھے عبادات میں اس کی کوئی ضرورت سمجھ نہیں آ سکی۔
جب سب اپنے اپنے مسلک اور راجح قول پر عمل کر سکتے ہیں تو اس کی کیا ضرورت ہے؟
اجتماعیت کے لیے اس قسم کی قربانی کی مثال غالباً 1400 سالوں میں نہیں ملتی۔ اگر دل سے انسان دوسرے کی عزت اور احترام کرتا ہو تو دوسرے مسلک والوں سے بھی محبت ہی محسوس ہوتی ہے۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ
یہ صرف کراچی نہیں بلکہ ہر جگہ ہے کہ اہل حدیث احناف کی اقتدا میں احناف کے ساتھ ایک ہی صف میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر ظاہراً کسی عمل میں فرق ہو تو وہ نمایاں نظر آتا ہے اور پہچانا جاتا ہے کہ فلاں شخص فلاں مکتبہ فکر کا ہے۔ اس سے دلوں میں قدرے دوری آتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کسی کو پتہ نہ چلے کہ کون کیا عقیدہ رکھتا ہے یا کس کا کیا مسلک ہے۔ ہری پگڑی باندھنے والا ہزاروں کے مجمع میں پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں طبقہ کا ہے اور ان کے یہ عقائد ہیں تو انقباض لازم ہے۔ یہی صورت حال اہلحدیث کے ساتھ بھی ہے۔
باقی رہی فقہی اختلاف کی بات تو یقیناً اس میں ہر کو ماجور ہے۔ بات اس کی نہیں بلکہ ایک علاقہ ایک شہر میں یہ ظاہری اختلاف ختم کر کے ایک جسد واحد کی طرح ہو جائیں تب بھی ثواب سے تو محروم نہ ہوں گے بلکہ میرے کیال میں زیادہ ثوابکے مستحق ہونگے اجتماعیت کے لئے قربانی کے سبب۔
فی الحال یہ چند ایک گزارشات ہیں۔
یہ فتوی آج کل درست نہیں ہے۔ تقلید شخصی کا فتوی انتظامی ہے۔ جہاں اس سے خروج ممکن ہوگا وہاں خروج کیا بھی جا سکے گا۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میرے بھائی آپ کسی اور طرف نکل گئے۔ کسی ایک فقہ پر اکٹھے ہونے کی بات نہیں کی بلکہ جس ملک میں اہل سنت کا جو مسلک ہے وہاں سب کو اسی پر کاربند ہوجانا چاہیئے۔ میں نے کسی عالم کی کتاب میں پڑھا تھا انہوں نے لکھا تھا کہ کوئی حنفی اگر کسی ایسے ملک میں جاکر آباد ہو جاتا ہے جہاں مالکی رہتے ہین۔ تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ حنفیوں کی طرح نماز پڑھے بلکہ وہ وہاں مالکیوں کی طرح نماز پڑھے۔
رہی حرمین شریفین کی بات تو انہیں استثنا ہے کہ ہر ملک سے یہاں لوگوں نے آنا ہے نہ کہ مستقل رہائش پذیر ہونا۔
یہ situation بھی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ظاہری عمل سے پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں فلاں مسلک ک کا ہے۔ اگر ظاہری فرق ختم کر دیا جائے تو یہ مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔متفق ، لیکن ایک سوال ہے کہ بعض اہل حدیث کے نزدیک دیوبند کے عقائد درست نہیں ہیں۔اور وہ دیوبند کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے۔ان کو اتحاد کے طرف کیسے مائل کیا جائے؟اسی طرح بعض دیوبند کہتے ہیں کہ اہل حدیث کے عقائد ٹھیک نہیں ہیں ان کے وہ ان کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے۔
مجھے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے زمانہ کا واقعہ ذہن میں آرہا ہے کہ ایک دفعہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ابوحنفہ رحمہ اللہ سے ملاقات کے لئے آئے۔ انہون نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی کہ وہں نماز میں رفع الیدین نہ کرنا۔ ادھر ان کے آنے سے پہلے ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں کو ہداسیت کی کہ چونکہ شافعی رفع الیدین کے قائل ہیں لہٰذا ان کے احترام میں رفع الیدین کرنا۔ جب دونوں اکٹھے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے تو عجیب تماشا ہؤا کہ شافعی رفع الیدین نہیں کر رہے اور حنفی کر رہے تھے۔ واللہ اعلماجتماعیت کے لیے اس قسم کی قربانی کی مثال غالباً 1400 سالوں میں نہیں ملتی۔ اگر دل سے انسان دوسرے کی عزت اور احترام کرتا ہو تو دوسرے مسلک والوں سے بھی محبت ہی محسوس ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ تو جو فتنہ کا باعث بنے اسے چھوڑ دینا ہی افضل بلکہ میرے خیال میں لازم ہے۔یہ فتوی آج کل درست نہیں ہے۔ تقلید شخصی کا فتوی انتظامی ہے۔ جہاں اس سے خروج ممکن ہوگا وہاں خروج کیا بھی جا سکے گا۔
اگر ایک حنفی خود عالم ہے اور ایسے ملک میں جا کر آباد ہو جاتا ہے جہاں سب مالکی رہتے ہیں تو بھلا اس کے لیے حنفی طریقے پر نماز پڑھنا کیوں اور کس دلیل سے جائز نہیں ہوگا؟
اس واقعے کی "صداقت" اسی بات سے سمجھ لیں کہ جس سال امام ابو حنیفہؒ کی وفات ہوئی ہے اسی سال امام شافعیؒ کی پیدائش ہوئی ہے۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ
مجھے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے زمانہ کا واقعہ ذہن میں آرہا ہے کہ ایک دفعہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ابوحنفہ رحمہ اللہ سے ملاقات کے لئے آئے۔ انہون نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی کہ وہں نماز میں رفع الیدین نہ کرنا۔ ادھر ان کے آنے سے پہلے ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں کو ہداسیت کی کہ چونکہ شافعی رفع الیدین کے قائل ہیں لہٰذا ان کے احترام میں رفع الیدین کرنا۔ جب دونوں اکٹھے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے تو عجیب تماشا ہؤا کہ شافعی رفع الیدین نہیں کر رہے اور حنفی کر رہے تھے۔ واللہ اعلم
ایک چیز بالکل واضح ہے کہ علمائے احناف بعض حالات میں دوسرے مسلک کے مطابق عمل کا کہتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں جنہیں علماء احناف اچھی طرح جانتے ہیں۔
بھائی جان اس کے کچھ اصول ہیں، کچھ قواعد ہیں۔ ایک مکمل طریقہ کار ہے۔ دوسرے مسلک پر فتوی ایسے ہی بغیر سوچے سمجھے نہیں دے دیا جاتا۔ الحیلۃ الناجزۃ کا اگر مطالعہ فرما لیں تو عین نوازش ہوگی۔ایک چیز بالکل واضح ہے کہ علمائے احناف بعض حالات میں دوسرے مسلک کے مطابق عمل کا کہتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں جنہیں علماء احناف اچھی طرح جانتے ہیں۔
اس آیت میں کون سا فتنہ مراد ہے؟ "الفتنہ" پر "ال" عہد کا ہے جو کسی خاص فتنے کو بیان کرتا ہے۔ کیا صرف "بعض" کم فہم لوگوں کے دلوں کا انقباض بھی اس آیت کے مطابق فتنہ کہلا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے اور آپ کی یہ تجویز ہی کچھ لوگوں کے "دلوں میں انقباض" کا سبب بن رہی ہو تو کیا اسی آیت کے مطابق اس کو چھوڑنا آپ پر لازم ہوگا؟اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ تو جو فتنہ کا باعث بنے اسے چھوڑ دینا ہی افضل بلکہ میرے خیال میں لازم ہے۔