• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے اچھا پلیٹ فارم

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
" ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﺎﻝ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧؒ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﺳﺎﻝ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽؒ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ-"

اشماریہ بهائی ، اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطاء فرمائے ۔
کہنے اور لکهنے سے پہلے هر قول کو پرکهنا چاہیئے ، انداز بیان تو یوں تها کہ صاحب تحریر نے آنکهوں دیکها کانوں سنا لکهدیا هو ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اس واقعے کی "صداقت" اسی بات سے سمجھ لیں کہ جس سال امام ابو حنیفہؒ کی وفات ہوئی ہے اسی سال امام شافعیؒ کی پیدائش ہوئی ہے۔
میرے بھائی یہ میں نے کافی عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا۔ ممکن ہے کہ ابوھنیفہ رحمہ اللہ کے کسے شاگرد کے دور میں یہ واقعہ ہؤا ہو۔ یا تو یہ کہیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہؤا ہی نہیں پھر آپ کی بات ٹھیک۔

بھائی جان اس کے کچھ اصول ہیں، کچھ قواعد ہیں۔ ایک مکمل طریقہ کار ہے۔ دوسرے مسلک پر فتوی ایسے ہی بغیر سوچے سمجھے نہیں دے دیا جاتا۔ الحیلۃ الناجزۃ کا اگر مطالعہ فرما لیں تو عین نوازش ہوگی۔
یہ الحیلۃ الناجزۃ کا اطلاق اس معاملہ میں کیوں نہیں؟

اس آیت میں کون سا فتنہ مراد ہے؟ "الفتنہ" پر "ال" عہد کا ہے جو کسی خاص فتنے کو بیان کرتا ہے۔ کیا صرف "بعض" کم فہم لوگوں کے دلوں کا انقباض بھی اس آیت کے مطابق فتنہ کہلا سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے اور آپ کی یہ تجویز ہی کچھ لوگوں کے "دلوں میں انقباض" کا سبب بن رہی ہو تو کیا اسی آیت کے مطابق اس کو چھوڑنا آپ پر لازم ہوگا؟
آپ کی یہ بات اس وقت صحیح تھی جب اس سے پہلے ’’و‘‘ نہ ہوتا۔ آپ اسی آیت کو عام کرنے کے لئے کس طرح فقرہ بنائیں گے؟

آپ سے گذارش ہے کہ علمی ابحاث کی بجائے ’’اتحاد‘‘ کے لئے مشورہ کات سے نوازیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
" ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﺎﻝ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧؒ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﯽ ﺳﺎﻝ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽؒ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ-"

اشماریہ بهائی ، اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطاء فرمائے ۔
کہنے اور لکهنے سے پہلے هر قول کو پرکهنا چاہیئے ، انداز بیان تو یوں تها کہ صاحب تحریر نے آنکهوں دیکها کانوں سنا لکهدیا هو ۔
بھائی یہ میں نے اپنی یاد داشت کے حوالہ سے لکھا تھا کوئی مباحثہ مقصود نہ تھا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میرے بھائی یہ میں نے کافی عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا۔ ممکن ہے کہ ابوھنیفہ رحمہ اللہ کے کسے شاگرد کے دور میں یہ واقعہ ہؤا ہو۔ یا تو یہ کہیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہؤا ہی نہیں پھر آپ کی بات ٹھیک۔
مرشد بھائی! جب امام شافعیؒ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ کے دور میں ان کے پاس تشریف لے کر گئے تھے تب وہ امام نہیں بلکہ طالب علم تھے اور ان کے ساتھ اس زمانے میں شاگرد وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ بہرحال آپ نے جہاں پڑھا تھا وہاں غلط لکھا ہوگا۔ اس لیے اس بات کو ترک کرتے ہیں۔

یہ الحیلۃ الناجزۃ کا اطلاق اس معاملہ میں کیوں نہیں؟
میں نے الحیلۃ الناجزہ کے مطالعے کا اس لیے عرض کیا تھا کہ آپ کو دیگر مسالک پر فتوی دینے کا طریقہ کار اور اس سلسلے میں کی جانے والی احتیاط کا علم ہو جائے۔
لیکن میں ایک بات مزید عرض کروں؟ آپ امید ہے تقلید مطلق کے تو قائل ہوں گے ہی۔ کیا کسی ایک بھی امام کا قول یہ ہے کہ جگہ کے یا مقام کے حساب سے سب کو ایک مسلک اختیار کرنا چاہیے؟ اگر کسی کا یہ قول نہیں تو کیا مکمل ترک تقلید آپ کے نزدیک درست ہے؟

آپ کی یہ بات اس وقت صحیح تھی جب اس سے پہلے ’’و‘‘ نہ ہوتا۔ آپ اسی آیت کو عام کرنے کے لئے کس طرح فقرہ بنائیں گے؟
ایسے معاملات میں میں مختصراً صرف یہ کہا کرتا ہوں کہ یا تو مفسرین کرام سے اپنی مطلوبہ تفسیر کا حوالہ دے دیجیے اور یا علمی دلائل سے ثابت فرما دیجیے۔
بغیر کسی دلیل کے تفسیر، تفسیر بالرائے کہلاتی ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
مرشد بھائی! جب امام شافعیؒ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ کے دور میں ان کے پاس تشریف لے کر گئے تھے تب وہ امام نہیں بلکہ طالب علم تھے اور ان کے ساتھ اس زمانے میں شاگرد وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔ بہرحال آپ نے جہاں پڑھا تھا وہاں غلط لکھا ہوگا۔ اس لیے اس بات کو ترک کرتے ہیں۔


میں نے الحیلۃ الناجزہ کے مطالعے کا اس لیے عرض کیا تھا کہ آپ کو دیگر مسالک پر فتوی دینے کا طریقہ کار اور اس سلسلے میں کی جانے والی احتیاط کا علم ہو جائے۔
لیکن میں ایک بات مزید عرض کروں؟ آپ امید ہے تقلید مطلق کے تو قائل ہوں گے ہی۔ کیا کسی ایک بھی امام کا قول یہ ہے کہ جگہ کے یا مقام کے حساب سے سب کو ایک مسلک اختیار کرنا چاہیے؟ اگر کسی کا یہ قول نہیں تو کیا مکمل ترک تقلید آپ کے نزدیک درست ہے؟


ایسے معاملات میں میں مختصراً صرف یہ کہا کرتا ہوں کہ یا تو مفسرین کرام سے اپنی مطلوبہ تفسیر کا حوالہ دے دیجیے اور یا علمی دلائل سے ثابت فرما دیجیے۔
بغیر کسی دلیل کے تفسیر، تفسیر بالرائے کہلاتی ہے۔
آپ فقہی بحث میں پڑ گئے۔
اس تھریڈ کا مقصود یہ ہے کہ جو باتیں چھوڑی جا سکتی ہیں اختلاف کتم یا کم کرنے کے لئے کیا ان کو چھوڑنے میں کوئی حرج کسی کے نزدیک ہے؟
مثلاً
آمین بالجہر۔
کیا اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی؟ اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں تو دلیل دیجئے اور اگر ’’نہ‘‘ میں تو اس پر عمل کرکے ’’اتحاد‘‘ پیدا کیجئے اور حرج سے بچئے۔
رفع الیدین۔
کیا رفع الیدین کے بغیر نماز نہیں ہوتی؟
اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں تو دلیل دیجئے اور اگر ’’نہ‘‘ میں تو اس پر عمل کرکے ’’اتحاد‘‘ پیدا کیجئے اور حرج سے بچئے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
اسی طرح اگر سبز پگڑی باندھنا لازم و ملزوم ہے تو دلیل دیجئے اور اگر نہیں تو ترک کیجئے تاکہ اتحاد پیدا کیا جاسکے اور حرج سے بچا جاسکے۔
میں یقین دلاتا ہوں کہ میرا کوئی ظاہری عمل ایسا نہیں جو مجھے دوسروں سے ممتاز کرتا ہو۔ آپ سوالات کرکے میرے ظاہری عوامل پر متنبہ ہو سکتے ہیں اور اگر کوئی ایسا ہے جو فرقہ واریت کو ظاہر کرے اور چھوڑنے میں قباحت نہ ہو وہ انشاء اللہ چھوڑ دوں گا۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
بغیر کسی دلیل کے تفسیر، تفسیر بالرائے کہلاتی ہے۔
مگر آپ نے خود اس پر عمل نہیں کیا۔ وجہ اس کی یہ کہ آپ نے اس کی وضاحت میں کسی صحابی یا مفسر کا قول پیش نہیں کیا۔
اگر ’’فتنہ‘‘ کے ساتھ ’’ال‘‘ ہے تو ’’قتل‘‘ کے ساتھ بھی ’’ال‘‘ ہے تو آپ کے مطابق کسی ’’خاص قتل‘‘ کو ’’خاص فتنہ‘‘ کہیں گے۔ آپ کے اس اصول پر بھی عام قتل کو عام فتنہ کہا جائے گا۔ واللہ اعلم
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
تمام احباب سے گزارش ہے کہ اختلاف کی بجائے مشورہ پر مبنی مراسلہ جات یہاں پوسٹ کریں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ


آپ فقہی بحث میں پڑ گئے۔
اس تھریڈ کا مقصود یہ ہے کہ جو باتیں چھوڑی جا سکتی ہیں اختلاف کتم یا کم کرنے کے لئے کیا ان کو چھوڑنے میں کوئی حرج کسی کے نزدیک ہے؟
مثلاً
آمین بالجہر۔
کیا اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوگی؟ اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں تو دلیل دیجئے اور اگر ’’نہ‘‘ میں تو اس پر عمل کرکے ’’اتحاد‘‘ پیدا کیجئے اور حرج سے بچئے۔
رفع الیدین۔
کیا رفع الیدین کے بغیر نماز نہیں ہوتی؟
اگر جواب ’’ہاں‘‘ میں تو دلیل دیجئے اور اگر ’’نہ‘‘ میں تو اس پر عمل کرکے ’’اتحاد‘‘ پیدا کیجئے اور حرج سے بچئے۔
اسی طرح اگر سبز پگڑی باندھنا لازم و ملزوم ہے تو دلیل دیجئے اور اگر نہیں تو ترک کیجئے تاکہ اتحاد پیدا کیا جاسکے اور حرج سے بچا جاسکے۔
میں یقین دلاتا ہوں کہ میرا کوئی ظاہری عمل ایسا نہیں جو مجھے دوسروں سے ممتاز کرتا ہو۔ آپ سوالات کرکے میرے ظاہری عوامل پر متنبہ ہو سکتے ہیں اور اگر کوئی ایسا ہے جو فرقہ واریت کو ظاہر کرے اور چھوڑنے میں قباحت نہ ہو وہ انشاء اللہ چھوڑ دوں گا۔
آپ کا اتحاد تمام آپ کے اپنے مسلک کی جانب داری میں نہیں ہے؟ اگر آپ رفع الیدین کرلیں تو آپ کا اتحاد آدھی دنیا سے ہو جائے گا۔ ساری دنیا میں ایک جیسے لوگ ہوں گے اور کہیں بھی اتحاد کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔
خواہ مخواہ میں جگہوں اور ملکوں کی پریشانی میں پڑنے سے بہتر یہ نہیں ہے کہ ساری دنیا سے اتحاد کر لیں؟


مگر آپ نے خود اس پر عمل نہیں کیا۔ وجہ اس کی یہ کہ آپ نے اس کی وضاحت میں کسی صحابی یا مفسر کا قول پیش نہیں کیا۔
اگر ’’فتنہ‘‘ کے ساتھ ’’ال‘‘ ہے تو ’’قتل‘‘ کے ساتھ بھی ’’ال‘‘ ہے تو آپ کے مطابق کسی ’’خاص قتل‘‘ کو ’’خاص فتنہ‘‘ کہیں گے۔ آپ کے اس اصول پر بھی عام قتل کو عام فتنہ کہا جائے گا۔ واللہ اعلم
القول في تأويل قوله تعالى: {والفتنة أشد من القتل}
قال أبو جعفر: يعني تعالى ذكره بقوله:"والفتنة أشد من القتل"، والشرك بالله أشد من القتل.
* * *
وقد بينت فيما مضى أن أصل"الفتنة" الابتلاء والاختبار (1)
* * *
فتأويل الكلام: وابتلاء المؤمن في دينه حتى يرجع عنه فيصير مشركا بالله من بعد إسلامه، أشد عليه وأضر من أن يقتل مقيما على دينه متمسكا عليه، محقا فيه. كما:
3096 - حدثني محمد بن عمرو قال، حدثنا أبو عاصم قال، حدثنا عيسى، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد في قول الله:"والفتنة أشد من القتل" قال: ارتداد المؤمن إلى الوثن أشد عليه من القتل.
3097- حدثني المثنى قال، حدثنا أبو حذيفة قال، حدثنا شبل، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد مثله.
3098 - حدثنا بشر بن معاذ، قال: حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد، عن قتادة قوله:"والفتنة أشد من القتل" يقول: الشرك أشد من القتل.
- حدثنا الحسن بن يحيى، قال، أخبرنا عبد الرزاق، قال، أخبرنا معمر، عن قتادة مثله.
3100- حدثت عن عمار بن الحسن، قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع:"والفتنة أشد من القتل" يقول: الشرك أشد من القتل.
3101 - حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا أبو زهير، عن جويبر، عن الضحاك:"والفتنة أشد من القتل" قال: الشرك.
3102- حدثنا القاسم قال، حدثنا الحسين، قال، حدثني حجاج، قال، قال ابن جريج، أخبرني عبد الله بن كثير، عن مجاهد في قوله:"والفتنة أشد من القتل" قال: الفتنة الشرك.
3103- حدثت عن الحسين بن الفرج، قال، سمعت الفضل بن خالد قال، حدثنا عبيد بن سليمان، عن الضحاك:"والفتنة أشد من القتل" قال: الشرك أشد من القتل.
3104- حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال، قال ابن زيد في قوله جل ذكره:"والفتنة أشد من القتل" قال: فتنة الكفر.
(تفسیر الطبری)

وقوله [والفتنة أشد من القتل] روي عن جماعة من السلف أن المراد بالفتنة هاهنا الكفر وقيل إنهم كانوا يفتنون المؤمنين بالتعذيب ويكرهونهم على الكفر ثم عيروا المؤمنين بأن قتل واقد بن عبد الله وهو من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عمرو بن الحضرمي وكان مشركا في الشهر الحرام وقالوا قد استحل محمد القتال في الشهر الحرام فأنزل الله [والفتنة أشد من القتل] يعني كفرهم وتعذيبهم المؤمنين في البلد الحرام وفي الشهر الحرام أشد وأعظم مأثما من القتل في الشهر الحرام
(احکام القرآن للجصاص)

{والفتنة أَشَدُّ مِنَ القتل} أي شركهم بالله أعظم من القتل الذي يحل بهم منكم وقيل الفتنة عذاب الآخرة وقيل المحنة والبلاء الذي ينزل بالإنسان فيعذب به أشد عليه من القتل وقيل لحكيم ما أشد من الموت قال الذي يتمنى فيه الموت فقد جعل الإخراج من الوطن من الفتن التي يتمنى عندها الموت
(تفسیر النسفی)

الثانية قوله تعالى:" والفتنة أشد من القتل" أي الفتنة التي حملوكم عليها وراموا رجوعكم بها إلى الكفر أشد من القتل. قال مجاهد: أي من أن يقتل المؤمن، فالقتل أخف عليه من الفتنة. وقال غيره: أي شركهم بالله وكفرهم به أعظم جرما وأشد من القتل الذي عيروكم به. وهذا دليل على أن الآية نزلت في شأن عمرو بن الحضرمي حين قتله واقد بن عبد الله التميمي في آخر يوم من رجب الشهر الحرام، حسب ما هو مذكور في سرية عبد الله بن جحش، على ما يأتي بيانه «2»، قاله الطبري وغيره.
(تفسیر القرطبی)

ان میں خود دیکھ لیں کس درجے کے فتنے کی بات ہو رہی ہے اور فتنے کا مطلب مفسرین کرام نے کیا لیا ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ کا اتحاد تمام آپ کے اپنے مسلک کی جانب داری میں نہیں ہے؟ اگر آپ رفع الیدین کرلیں تو آپ کا اتحاد آدھی دنیا سے ہو جائے گا۔ ساری دنیا میں ایک جیسے لوگ ہوں گے اور کہیں بھی اتحاد کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔
خواہ مخواہ میں جگہوں اور ملکوں کی پریشانی میں پڑنے سے بہتر یہ نہیں ہے کہ ساری دنیا سے اتحاد کر لیں؟



القول في تأويل قوله تعالى: {والفتنة أشد من القتل}
قال أبو جعفر: يعني تعالى ذكره بقوله:"والفتنة أشد من القتل"، والشرك بالله أشد من القتل.
* * *
وقد بينت فيما مضى أن أصل"الفتنة" الابتلاء والاختبار (1)
* * *
فتأويل الكلام: وابتلاء المؤمن في دينه حتى يرجع عنه فيصير مشركا بالله من بعد إسلامه، أشد عليه وأضر من أن يقتل مقيما على دينه متمسكا عليه، محقا فيه. كما:
3096 - حدثني محمد بن عمرو قال، حدثنا أبو عاصم قال، حدثنا عيسى، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد في قول الله:"والفتنة أشد من القتل" قال: ارتداد المؤمن إلى الوثن أشد عليه من القتل.
3097- حدثني المثنى قال، حدثنا أبو حذيفة قال، حدثنا شبل، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد مثله.
3098 - حدثنا بشر بن معاذ، قال: حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد، عن قتادة قوله:"والفتنة أشد من القتل" يقول: الشرك أشد من القتل.
- حدثنا الحسن بن يحيى، قال، أخبرنا عبد الرزاق، قال، أخبرنا معمر، عن قتادة مثله.
3100- حدثت عن عمار بن الحسن، قال، حدثنا ابن أبي جعفر، عن أبيه، عن الربيع:"والفتنة أشد من القتل" يقول: الشرك أشد من القتل.
3101 - حدثني المثنى قال، حدثنا إسحاق قال، حدثنا أبو زهير، عن جويبر، عن الضحاك:"والفتنة أشد من القتل" قال: الشرك.
3102- حدثنا القاسم قال، حدثنا الحسين، قال، حدثني حجاج، قال، قال ابن جريج، أخبرني عبد الله بن كثير، عن مجاهد في قوله:"والفتنة أشد من القتل" قال: الفتنة الشرك.
3103- حدثت عن الحسين بن الفرج، قال، سمعت الفضل بن خالد قال، حدثنا عبيد بن سليمان، عن الضحاك:"والفتنة أشد من القتل" قال: الشرك أشد من القتل.
3104- حدثني يونس، قال: أخبرنا ابن وهب، قال، قال ابن زيد في قوله جل ذكره:"والفتنة أشد من القتل" قال: فتنة الكفر.
(تفسیر الطبری)

وقوله [والفتنة أشد من القتل] روي عن جماعة من السلف أن المراد بالفتنة هاهنا الكفر وقيل إنهم كانوا يفتنون المؤمنين بالتعذيب ويكرهونهم على الكفر ثم عيروا المؤمنين بأن قتل واقد بن عبد الله وهو من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عمرو بن الحضرمي وكان مشركا في الشهر الحرام وقالوا قد استحل محمد القتال في الشهر الحرام فأنزل الله [والفتنة أشد من القتل] يعني كفرهم وتعذيبهم المؤمنين في البلد الحرام وفي الشهر الحرام أشد وأعظم مأثما من القتل في الشهر الحرام
(احکام القرآن للجصاص)

{والفتنة أَشَدُّ مِنَ القتل} أي شركهم بالله أعظم من القتل الذي يحل بهم منكم وقيل الفتنة عذاب الآخرة وقيل المحنة والبلاء الذي ينزل بالإنسان فيعذب به أشد عليه من القتل وقيل لحكيم ما أشد من الموت قال الذي يتمنى فيه الموت فقد جعل الإخراج من الوطن من الفتن التي يتمنى عندها الموت
(تفسیر النسفی)

الثانية قوله تعالى:" والفتنة أشد من القتل" أي الفتنة التي حملوكم عليها وراموا رجوعكم بها إلى الكفر أشد من القتل. قال مجاهد: أي من أن يقتل المؤمن، فالقتل أخف عليه من الفتنة. وقال غيره: أي شركهم بالله وكفرهم به أعظم جرما وأشد من القتل الذي عيروكم به. وهذا دليل على أن الآية نزلت في شأن عمرو بن الحضرمي حين قتله واقد بن عبد الله التميمي في آخر يوم من رجب الشهر الحرام، حسب ما هو مذكور في سرية عبد الله بن جحش، على ما يأتي بيانه «2»، قاله الطبري وغيره.
(تفسیر القرطبی)

ان میں خود دیکھ لیں کس درجے کے فتنے کی بات ہو رہی ہے اور فتنے کا مطلب مفسرین کرام نے کیا لیا ہے۔
چلیں یہ تسلیم کہ آیت کے اس فقرہ کو یہاں اس معنیٰ میں نہیں لیا جاسکتا۔
کیا انتشار اور افتراق کے اسباب کو ختم نہیں کیا جانا چاہیئے؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کے سدباب کے لئے مشورہ دیجئے اگر نہ میں ہے تو اس کی دلیل دیجئے۔
 
Top