• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے اچھا پلیٹ فارم

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی
گزارش ہے کہ اتحاد تو شاید ممکن نہیں ہے البتہ مفاہمت کا امکان ہے اس کیلیے فروع میں تشدد سے بچنے اور اس وسعت قلبی کو اپنانے کی ضرورت ہے جو سلف صالحین کا خاصا تھی۔ قریب کے دور کے اکابرین مثلا حضرت میاں صاحب نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا اسمعیل سلفی، حضرت مفتی محمدشفیع رحمہم اللہ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی جانی چاہئیے جو اختلاف کے باوجود کبھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے برخلاف 'جدید محققین' کے۔ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکنے والے فتاوی کی بھی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئیے۔ علمی اختلاف علماء تک محدود رہنا چاہئیے اور اس کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے۔

فروع میں وسعت کی مثال کے طور پر الاسلام سوال و جواب سے ایک فتوے کے بعض اقتباسات نقل کررہا ہوں۔ لنک بھی ساتھ ہی موجود ہے:
https://islamqa.info/ur/224032



نماز عید کی زائد تکبیرات میں اختلاف

یہ ایسا اجتہادی مسئلہ ہے جس میں صحابہ کرام، تابعین عظام، اور ائمہ کرام کا دس سے زائد اقوال پر اختلاف ہے۔
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (13/ 209) میں ہے کہ:
"مالکی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: نماز عیدین کی پہلی رکعت میں چھ تکبیرات ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات ہیں، نیز یہی موقف مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ ، عمر بن عبد العزیز ، زہری اور مزنی رحمہم اللہ جمیعاً کا ہے۔

ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ فقہائے کرام پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کو ساتویں تکبیر شمار کرتے ہیں، اور دوسری رکعت میں اٹھتے ہوئے کہی جانے والی تکبیر کو پانچ زائد تکبیروں سے الگ شمار کرتے ہیں۔۔۔
جبکہ احناف اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق نماز عیدین میں چھ تکبیرات زائد ہیں، تین پہلی رکعت میں اور تین ہی دوسری رکعت میں، یہ موقف ابن مسعود، ابو موسی اشعری، حذیفہ بن یمان، عقبہ بن عامر، ابن زبیر، ابو مسعود بدری، حسن بصری، محمد بن سیرین، ثوری، علمائے کوفہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم جمیعاً کا ہے۔
شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ : پہلی رکعت میں سات تکبیرات زائد ہیں اور دوسری میں پانچ تکبیرات زائد ہیں۔


اس قسم کے مسائل میں اختلاف کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ مخالف کے عمل کو مسترد کہنا مشکل ہوتا ہے؛ مسترد ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے؟! جبکہ صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ وہی ائمہ اجتہاد، اور اصحاب حدیث اور قابل اتباع ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ عیدین کی نماز میں زائد تکبیرات سے متعلق ہر اس عمل کو جائز قرار دیتے ہیں جو صحابہ کرام سے منقول ہے، چنانچہ امام احمد کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا عیدین کی زائد تکبیرات کے متعلق اختلاف ہے، اور سب پر عمل کرنا جائز ہے۔" انتہی
" الفروع " (3/201)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
"اگر کوئی شخص پہلی رکعت اور دوسری رکعت میں پانچ یا پہلی اور دوسری رکعت سات تکبیرات کہے جیسے کہ بعض صحابہ کرام سے ایسا عمل منقول ہے تو اس کے بارے میں احمد کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کا عیدین کی زائد تکبیرات کے متعلق اختلاف ہے، اور سب پر عمل کرنا جائز ہے۔" یعنی امام احمد اس بارے میں وسعت کے قائل ہیں ؛ لہذا اگر کوئی شخص صحابہ کرام سے منقول عمل کے مطابق کسی اور تعداد میں تکبیرات کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

یہ امام احمد رحمہ اللہ کے فقہی مذہب کا منہج ہے کہ ان کے ہاں اگر سلف میں کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہو اور اس کے متعلق کوئی قطعی نص موجود نہ ہو تو پھر سلف کے تمام طریقے اس بارے میں جائز ہوں گے؛ کیونکہ امام احمد صحابہ کرام کے موقف کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے، اس لیے امام احمد کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی فیصلہ کن نص صحابہ کے موقف پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہے تو پھر اس کا معاملہ وسعت والا ہو گا۔
یقینی بات ہے کہ جو منہج امام احمد رحمہ اللہ نے اپنایا ہے یہ اتحاد و اتفاق امت کیلیے افضل ترین طریقہ ہے؛ کیونکہ کچھ لوگ ایسے مسائل جہاں پر اختلاف کی گنجائش ہے ان میں اختلاف کو تفرقہ اور پھوٹ کا سبب بنا لیتے ہیں، بلکہ دوسرے کو گمراہ تک کہہ دیتے ہیں حالانکہ وہ خود گمراہی پر ہوتے ہیں ۔
اس وقت یہ وبا بہت زیادہ پھیل چکی ہے؛ حالانکہ اس زمانے میں نوجوانوں کی طرف سے بیداری کی وجہ سے امید کی کرن پھوٹتی ہے؛ لیکن بسا اوقات اس تفرقے بازی اور پھوٹ کی وجہ سے یہ بیداری ختم ہو کر ایک لمبی غفلت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ اگر کسی شخص کا جزوی اور فروعی اجتہادی مسئلے میں اختلاف ہو جس کے بارے میں کوئی قطعی نص موجود نہیں ہے تو اس شخص سے لوگوں کو متنفر کرنا شروع کر دیا جاتا ہے، اور اس کے بارے میں زبان درازی کی جاتی ہے، یہ بہت بڑی آزمائش ہے، اور اس سے ان لوگوں کو خوشی ہوتی ہے جو نوجوانوں میں بیداری کی لہر نہیں دیکھنا چاہتے۔۔۔
لہذا اگر کوئی مسئلہ اجتہادی ہو ہمیں اپنے بھائی کے بارے میں عذر تلاش کرنا چاہیے۔۔۔
البتہ مفید ، با ہدف اور پر سکون بات چیت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔

میں یہ کہتا ہوں کہ: امام احمد کو اللہ تعالی ان کے اس بہترین طریقے پر جزائے خیر سے نوازے کہ: اگر سلف کا کسی مسئلے کے بارے میں اختلاف ہو اور اس بارے میں کوئی قطعی نص بھی نہ ہو تو پھر کسی بھی طریقے پر عمل کیا جائے جائز ہے۔" انتہی
" الشرح الممتع "(5/135-138)

ہماری جد و جہد اس بات پر مرکوز ہونی چاہیے کہ جس سے اتحاد و اتفاق پھیلے؛ کیونکہ یہ دین کا بنیادی ترین عنصر ہے، لہذا اس بنیادی ترین عنصر کو کسی ایسی مستحب سنت کی وجہ سے مسترد نہیں کیا جائے گا جسے کوئی چھوڑ بھی دے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ با ہدف اور پر سکون علمی انداز میں بات چیت اور گفتگو کی جائے تا کہ ہم سنت کے قریب ترین موقف تک پہنچ سکیں، لیکن اگر اتفاق رائے قائم نہ ہو اور ہر ایک فریق یہی سمجھے کہ ان کا موقف سنت کے مطابق ہے اور ہر ایک کے پاس سلف صالحین ، تابعین کرام اور ائمہ کا عمل بھی ہو تو ایسی صورت میں مسلمانوں کو ایک ہی جگہ جمع ہو کر ایک ہی امام کے پیچھے باجماعت نماز عید ادا کرنی چاہیے، تفرقہ بازی میں مت پڑیں؛ کیونکہ اگر مسلمانوں میں پھوٹ پڑتی ہے تو یہ شیطان کی جانب سے ہے اور اس سے دشمنوں کو پھبتی کسنے کا موقع ملتا ہے۔


گر امام نماز میں ایسا کوئی عمل کرتا ہے جو مقتدی کے ہاں جائز نہیں ہے تو جب تک مسئلہ اجتہادی ہے اس وقت تک مقتدی کیلیے امام کی اقتدا کرنا واجب ہے۔
ویسے تصور کریں کہ اگر ان لوگوں کو جلیل القدر صحابہ کرام عبد اللہ بن مسعود، یا ابو موسی اشعری، یا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع ملے تو یہ کیا کریں گے؟! کیونکہ یہ تمام صحابہ کرام پہلی اور دوسری رکعت میں 3، 3 تکبیرات کہتے تھے۔
کیا ان عظیم الشان صحابہ کرام کے پیچھے نماز ادا نہیں کرینگے؟ حالانکہ صحابہ کرام ہی اس امت کے امام، گہرے علم اور انتہائی پارسا دلوں کے مالک ہیں!

خلاصہ یہ ہوا کہ:
نماز عیدین میں تکبیرات کی تعداد کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو عیدین کی نماز الگ پڑھنے کی اجازت دی جا سکے؛ کیونکہ عید نماز کو دو بار ادا کرنا کہ ہر جماعت الگ الگ اپنی جماعت کروائے یہ بھیانک قسم کی بدعت ہے، اس سے مسلمانوں میں تفریق پیدا ہوتی ہے، جو کسی عقلمند سے مخفی نہیں، شریعت یا سنت مطہرہ کبھی بھی ایسے عمل کی حوصلہ افزائی یا رہنمائی نہیں کرے گی۔
اس لیے ایسا کہنا بالکل مناسب نہیں ہے کہ ایک بار ہم سلفی طریقے پر عید کی نماز ادا کریں اور دوسری بار حنفی طریقے پر نماز عید ادا کریں، بلکہ تمام لوگوں کو اسی طریقے پر عید کی نماز ادا کرنے کا حکم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا طریقہ تھا۔
اور یہ وہی طریقہ ہے جسے ائمہ اسلام ابو حنفیہ، مالک، شافعی، اور احمد وغیرہ نے اپنایا ، تاہم جن مسائل میں صحابہ کرام سمیت علمائے کرام کا اختلاف موجود ہے تو اس کیلیے ہمارے سینوں میں وسعت ہونی چاہیے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی سب مسلمانوں کو حق بات پر جمع فرمائے اور ان کے دلوں میں الف ڈال دے۔ آمین
واللہ اعلم."
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
آپ نے عمدگی سے نماز عیدین میں درپیش مسائل پر دلائل پیش کئے ، جزاک اللہ خیرا ۔ جناب مرشد صاحب کے مراسلات ترتیب سے پڑھیں وہ تو کچھ اور ہی کہتے ہیں ، ظاہری اختلافات کا خاتمہ چاہتے ہیں خصوصا صفوں کی ترتیب و تزئین ، ھاتھوں کو باندھنے کے مقامات ، رفع یدین اور آمین - وسعت قلبی کا تقاضہ تو انکا بھی ھے لیکن اھل حدیث (وہابی، غیرمقلد وغیرہ) سے ، وجہ انھوں نے پیش کی ھے کہ یہ گروہ اقلیت میں ہیں - آپ ہی بتائیں کہ کفار کا خوف دلوا دلوا کر ہلکان ھوئے جا رہے ہیں وہ - کچھ انکے قلب کو قدرے فراغ کرنے کی کوشش کریں - ویسے اشماریہ بھائی کی تو بالکل نا مانی انھوں نے - میں تو ان اختلافات کو اتحاد کیلئے خطرہ کبھی تسلیم کر ہی نہیں سکتا ، مجھے تو اسی میں شر نظر آ رھا ھے کہ ایسے اختلافات کو ظاھری طور پر دور کیا جائے تاکہ کفار کو ھم متحد نظر آئیں محض دکھاوے کے لیئے ۔ ھوگا ایسا کہ کفار ڈریں نا ڈریں لیکن مرشد جی کا ڈر نکل جائیگا ضرور جو محض انکے قریہ کے 2 اشخاص کی استقامت گھبرا اٹھے ہیں اور فورم فورم ، اتحاد اتحاد کی دہائیاں دیئے جا رھے ہیں -
تو اس تمھید غیر ضروری کے بعد کہنا یہ ہیکہ مرشد جی کے پیش کردہ "اختلافات" کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف انکے پوائنٹس پر مدلل گفتگو زیادہ مفید ھوگی - معاملہ بھی بر صغیر سے سمٹ کر محض مرشد جی کے مخصوص علاقہ تک جا پہنچا ھے ، اس پر بھی توجہ ضروری ھے کہ یہ کوئی پورے برصغیر کا مسئلہ ہی نہیں اور نا ہی خصوصی توجہ چاھتا ھے -
اتفاق و اتحاد پر بیشمار مثالیں ، عملی مشاھدے ہیں ، صحیح کتب ہیں ۔ اللہ ھم سب کو بہتر توفیق دے ۔

تفریق پیدا ہوتی ہے، جو کسی عقلمند سے مخفی نہیں، شریعت یا سنت مطہرہ کبھی بھی ایسے عمل کی حوصلہ افزائی یا رہنمائی نہیں کرے گی۔
اس لیے ایسا کہنا بالکل مناسب نہیں ہے کہ ایک بار ہم سلفی طریقے پر عید کی نماز ادا کریں اور دوسری بار حنفی طریقے پر نماز عید ادا کریں، بلکہ تمام لوگوں کو اسی طریقے پر عید کی نماز ادا کرنے کا حکم ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا طریقہ تھا۔
آپکا خلاصہ: آپکو ثابت کرنا پڑیگا کہ اھل حدیث ، وھابی ، سلفی یا غیر مقلد کا طریقہ عیدین کی نمازوں کی ادائیگی میں "سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کے خلاف ھے !! اگر سنت نبوی کے مطابق ھے ، مخالف نہیں تو کسے پرواہ ھے کیا مناسب آپکو لگے اور کیا ناگوار آپکو گذرے۔

والسلام
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ہماری جد و جہد اس بات پر مرکوز ہونی چاہیے کہ جس سے اتحاد و اتفاق پھیلے؛ کیونکہ یہ دین کا بنیادی ترین عنصر ہے، لہذا اس بنیادی ترین عنصر کو کسی ایسی مستحب سنت کی وجہ سے مسترد نہیں کیا جائے گا جسے کوئی چھوڑ بھی دے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
اسی بات کی فکر لے کر اٹھا ہوں۔ میں نے یہاں اہل حدیث حضرات سے اسی لئے بات کی ہے کہ لوگ اپنے علماء کی پیروی کرتے ہیں مخالفین کی بات کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
اول تو مستحبات کے اختلافات کو ہی ختم ہونا چاہیئے۔ کم از کم ان کو جن کا تعلق مشاہدہ میں آنے والے امور سے ہے۔
مگر میں نے اس سے کہیں کمتر درجہ میں اتحاد کی فکر کی ہے وہ یہ کہ جہاں کوئی اپ؛ حدیث اھناف کی مسجد میں حنفی امام کی اقتدا میں نماز پڑھے تو ان مشاہداتی امور میں احناف سے مطابقت کرلے۔ کیوں کہ احناف کا مؤقف بھی ان امور میں احادیث سے ہی ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
جناب مرشد صاحب کے مراسلات ترتیب سے پڑھیں وہ تو کچھ اور ہی کہتے ہیں ، ظاہری اختلافات کا خاتمہ چاہتے ہیں
اندرونی اختلافات کسی کو نظر نہیں آیا کرتے جب تک کہ اس کا اظہار نہ کرے۔

وسعت قلبی کا تقاضہ تو انکا بھی ھے لیکن اھل حدیث (وہابی، غیرمقلد وغیرہ) سے
محدث فورم پر کن سے وسعت قلبی کا مطالبہ کروں؟

تو اس تمھید غیر ضروری کے بعد کہنا یہ ہیکہ مرشد جی کے پیش کردہ "اختلافات" کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف انکے پوائنٹس پر مدلل گفتگو زیادہ مفید ھوگی - معاملہ بھی بر صغیر سے سمٹ کر محض مرشد جی کے مخصوص علاقہ تک جا پہنچا ھے ، اس پر بھی توجہ ضروری ھے کہ یہ کوئی پورے برصغیر کا مسئلہ ہی نہیں اور نا ہی خصوصی توجہ چاھتا ھے -
اتفاق و اتحاد پر بیشمار مثالیں ، عملی مشاھدے ہیں ، صحیح کتب ہیں ۔ اللہ ھم سب کو بہتر توفیق دے ۔
اپکے تمام مراسلے ’’غیر ضروری‘‘ ہی سے اٹے پڑے ہیں جو تمہاری مجبوری لگ رہے ہیں مناع للخیر کی۔
معذرت کے ساتھ آپ اپنی عادت سے مجبور ہیں اور مناع للخیر کا کردار بڑے ’’تدبر‘‘ اور ’’ایمانداری‘‘ کے ساتھ سرانجام دے رہے ہو۔
معذرت کے ساتھ جناب قرآن کی مؤمنین کو ہدایات کی جس طرح دھجیاں اڑارہے ہو وہ تمہارا حاصہ ہے۔
جن موضوعات کو شروع کیا ان میں فقہی گفتگو کی بجائے شخصیت سے بدظنی ہی آپ کے مراسلات کا محور رہا۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

اسی بات کی فکر لے کر اٹھا ہوں۔ میں نے یہاں اہل حدیث حضرات سے اسی لئے بات کی ہے کہ لوگ اپنے علماء کی پیروی کرتے ہیں مخالفین کی بات کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
اول تو مستحبات کے اختلافات کو ہی ختم ہونا چاہیئے۔ کم از کم ان کو جن کا تعلق مشاہدہ میں آنے والے امور سے ہے۔
مگر میں نے اس سے کہیں کمتر درجہ میں اتحاد کی فکر کی ہے وہ یہ کہ جہاں کوئی اپ؛ حدیث اھناف کی مسجد میں حنفی امام کی اقتدا میں نماز پڑھے تو ان مشاہداتی امور میں احناف سے مطابقت کرلے۔ کیوں کہ احناف کا مؤقف بھی ان امور میں احادیث سے ہی ہے۔
فکر بھی ایسی کہ دشمن کے سر پر چڑھے آنے کے خوف سے لرزا دینے والی !
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
عقل مندوں کا قول ہے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔
اس فورم پر ایک بے وقوف جاہل کے مراسلوں کو بغور دیکھتا رہا ہوں۔
یہ نہ تو ایڈمن ہے اور نہ ہی انتظامیہ میں شامل مگر اس کے باوجود فیک آئی ڈی کی بات کرتا ہے۔ جاہل انسان سب جانتے ہیں کہ یہ صرف ایڈمن یا جس کو اس پر اسیس دی گئی ہو صرف وہی جان سکتا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ نہ تو تم ایڈمن ہو اور نہ ہی منتظم لہذا آپ کی اس دہائی سے دو باتیں بالکل عیاں ہیں کہ تم بے وقوف جاہل ہو اور محدث فورم کے ایڈمن یا انتظامیہ کی بدنامی کا باعث بھی۔ وجہ یہ کہ اگر انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی جس کا اظہار تم سے کیا مگر تم نے امانت دار ثابت نہ ہوئے یا پھر انہوں نے یہ تمہیں کس لئے بتایا؟
@محمد طارق عبداللہ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
یہ تو واضح ہے کہ نہ تو تم ایڈمن ہو اور نہ ہی منتظم لہذا آپ کی اس دہائی سے دو باتیں بالکل عیاں ہیں کہ تم بے وقوف جاہل ہو اور محدث فورم کے ایڈمن یا انتظامیہ کی بدنامی کا باعث بھی۔ وجہ یہ کہ اگر انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی جس کا اظہار تم سے کیا مگر تم نے امانت دار ثابت نہ ہوئے یا پھر انہوں نے یہ تمہیں کس لئے بتایا؟
اگر میں اس فورم کے لئے باعث بدنامی ھوتا تو مجھے ابتک وارننگ دینے کے بعد "بین" کر دیا گیا ھوتا - یقیں نا ہو تو جن جن کو بین کیا گیا ھے اب تک (کئی بار، لگا تار) ان سے ہی پوچھ لیں ویسے مرشد جی آپکا بین فضول ھے - ابتسامہ
میں نے کب اور کس بات کی دہائی دی ۔۔۔۔۔! ھاں یہ ضرور ھے کہ آپکی مکرر دہائیوں کو اتحاد کے لئے خطرہ ماننے سے انکار کرتا ہی رھا - اب بھی کر رہا ہوں - ابتسامہ
میں نے کب کہا کہ میں عالم ھوں ، جاہل ہی ھوں اسے لئے تو علم سیکھ رھا ھوں اور اہل علم کا احترام کرتا ھوں ۔پیشگی معذرت کہ آپ کی بات الگ ھے میں آپ کو اہل علم میں شمار نہیں کرتا ! کوئی اعتراض ؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
تیل بھی دیکھا اور تیل کی دھار بھی ۔۔۔۔ بہت اچھی طرح

"ان تلوں میں تیل نہیں" یہ بھی کسی عقل والے نے ہی کہا ھوگا "کسی" کے لیئے !! ابتسامہ
 
Top