• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مگر سوال یہ ہے کہ ایسی متواتر حدیث کا وجود بھی ہے جس کی تعریف اہل اصول کرتے ہیں؟ علماء اصول وحدیث اس کی شاہد صرف دو احادیث پیش کرسکے ہیں۔ پہلی حدیث: إنما الأعمال بالنیات ہے اور دوسری من کذب علی متعمدا۔۔۔والی۔ پہلی حدیث میں متواتر کی بیان کردہ شروط موجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ محدثین بالاتفاق اس کی سند کو غریب کہتے ہیں۔جو آحاد کی ایک قسم ہے۔ اس میں عدد رواۃ کا تواتر سند کے درمیان میں واقع ہوا ہے سند کے آغاز میں نہیں۔ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:

نَعَمْ قَدْ تَوَاتَرَ عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعِیْدٍ : فَحَکٰی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ سَعِیْدِ النَّقّاشِ الْحَافِظِ أَنَّہُ رَوَاہُ عَنْ یَحْیَی مِائَتَانِ وَخَمْسُوْنَ نَفْسًا وَسَرَدَ أَسْمَائَہُمْ أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ مَنْدَۃَ فَجَاوَزَ الثَّلاثَ مِائَۃٍ۔ ہاں یہ حدیث یحییٰ بن سعید سے متواتر روایت کی گئی ہے محمد بن علی بن سعید النقاش حافظ نے لکھا ہے کہ اسے یحییٰ بن سعید سے دو سو پچاس افراد نے روایت کیا ہے اور ابو القاسم بن مندۃ نے اس کے تین سو سے زائد نام گنوائے ہیں۔فتح الباری ج ۱؍ص:۱۱

رہی دوسر ی حدیث کی دلیل کہ اسے صحابہ کی بڑی تعداد نے روایت کیا ہے اور صحیحین میں صحابہ کی ایک بڑی جماعت سے یہ مروی بھی ہے حافظ ابوبکر البزار نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ تقریباً چالیس صحابہ نے اسے آپ ﷺ سے روایت کیا ہے اور بعض دیگر حفاظ نے اس کی تعداد باسٹھ بتائی ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔

دوسری رائے اس حدیث کے متواتر ہونے سے انکاری ہے امام زبیدی لکھتے ہیں: بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث متواتر نہیں ہے کیونکہ اگر فرض کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسی جماعت نے اسے نقل کیا ہے جن کی روایت سے علم ضروری حاصل ہوتا ہے تو دوسری جماعت کے سماع کے بارے میں علم ضروری کے حصول کا دعوی ممکن نہیں۔اسی طرح تیسری سے چوتھی اور چوتھی سے پانچویں کے سماع کے بارے میں علم ضروری کے حصول کا دعوی بھی نادرست ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ خبر بہت مشہور ہوچکی ہے جسے متواتر اور علم ضروری کا مصدر سمجھ لیا گیا ہے۔(لقط اللآلی : ۲۲)

زبیدی کہتے ہیں کہ بعض علماء یہ جواب دیتے ہیں کہ آخری طبقہ تک مسلسل سماع کی وضاحت اس میں ملتی ہے۔ اگر اسے متواتر تسلیم نہ کیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی حدیث بھی متواتر نہیں۔ اسی لئے بعض علماء نے احادیث متواترہ پر مستقل کتب تالیف کی ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ًٖ
صحیح میزان:

متواتر لفظی کے بارے میں تو شک نہیں کہ سوائے ایک دو کے شاید ہی کوئی حدیث ہو جو اس کی تعریف پر پورا اترتی ہو۔ ہاں متواتر معنوی کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ وہ بکثرت پائی جاتی ہیں۔جس پر بحث آگے آرہی ہے۔

٭…مزید یہ کہ متواتر کے سلسلے میں حدیث کے مشہور ومعروف اصولوں کو ہم پیش نظر رکھیں اور اسے تعصب، تمذہب اور ہوی سے خالی ہوکر اپنائیں۔ میزان یہ نہیں ہے کہ جو حدیث ہماری خواہش واغراض کے خلاف ہو اسے ہم معتبر ائمہ سمیت غلط قرار دے دیں اور تعصب کی بناء پر اپنے امام یا فقیہ کاقول یا ضعیف وموضوع روایت کو صحیح حدیث کے مقابلے میں عملاً حجت اور قابل عمل سمجھیں۔شیخین اور ائمہ سنن کی روایات سے اغماض برتیں۔ کیونکہ یہ احادیث بھی انہی محدثین نے روایت کی ہوتی ہیں جنہوں نے صیام وحج اور صلاۃ وزکوۃ کی روایت کی ہیں۔

٭…رہا متواترکا استعمال تو ایسی متواتر احادیث بے شمار ہیں جو ضعیف ہیں اور موضوع بھی مگربعض مذاہب میں ان کا استعمال بڑا ہمدردانہ اور ان پر مسائل کا دار ومدار بڑا فیاضانہ ہے۔ فضائل اعمال ہوں یا مناقب شخصیات، تفسیر قرآن ہو یا شرح حدیث، فقہی مسائل ہوں یا دعوتی ان سب کو تواتر کا نام دینے میں یہی مذاہب ہی کار فرما ہیں۔

٭…ائمہ مذاہب اور ان کے شاگردوں کے مابین اصولی وفقہی اختلاف تواتر کے ساتھ کتب فقہ میں مذکور ہے۔ کہیں امام محترم کی رائے کو تواتر کے ساتھ قبول کرلیا گیا ہے اور شاگردوں کو چھوڑ دیا گیا ہے اور کہیں اس کے برعکس۔ اسے بھی تواتر کا نام دیا گیا ہے۔تواتر اگر علماء وائمہ کے اجتہادات کو قبول کرنے کا نام ہے تو کس دور کے وہ علماء ہیںجنہوں نے تواتر کے ساتھ صرف اپنے سے پہلے دور کے علماء وائمہ کے عمل یا قول کو قبول کیا ہے یا قابل عمل سمجھا ہے؟

٭…تواتر اگر اس چیز کا نام ہے کہ تخریج کا قاعدہ قابل عمل سمجھ کر ہر دور میں پہلے سے مختلف مگر نیا فقہی مسئلہ استنباط کرلیا جائے اور درج کردیا جائے تاکہ مختلف عملی صورتیں…نفر ت وحقارت اور تعصب کی موجودگی میں… پھر بھی رحمت ثابت ہوں ۔تو ایسے تواتر کو کس نے متعارف کرایا ہے؟

٭…نیز ہر مذہب کی جدا جدا فقہیات اور تقریباً ہر مسئلہ میں تواتر کے ساتھ دوسرے سے مختلف نظریہ یا مختلف عمل جہاں نظر آتا ہو اسے متواتر نام دے دینا علم اصول سے مذاق نہیں تو سنجیدگی بھی نہیں۔

٭…محسوس یہی ہوتا ہے کہ تواتر کا فلسفہ حدیث کی اہمیت کو کم کرنے اور مذاہب ومسالک کے تقلیدی تسلسل کو تقویت دینے اور ان کی سیادت قائم کرنے کے لئے گھڑا گیا ہے ۔ تاریخی حقائق اس کا کھل کر انکار کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس کی کوئی بنیاد نہیں۔روایت حدیث ہو یا روایت عمل ان دونوں میں کہیں بھی تواتر نظر نہیں آتا۔

٭…خود امام ابوحنیفہؒ تواتر کے قائل نہیں تھے۔ مزید یہ کہ کوئی روایت، کوئی نام نہاد سنت متواترہ، نہ ہی کوئی عمل اور نہ ہی کوئی اجتہاد واستنباط اس تواتر کے ساتھ ثابت ہے جس کی تعریف علماء اصول نے کی اور متاخر محدثین نے اس سے متأثر ہوکر اپنی کتب میں اسے جگہ دے دی۔

٭…درجہ بالا حقائق کے پیش نظر یہی مسلک ہی معتدل اور دینی نظر آتا ہے کہ: إِذِا صَحَّ الْحَدِیثُ فَہُوَ مَذْہَبِی۔ جب حدیث صحیح ہو تو میرا مذہب بھی وہی ہے(امام ابو حنیفہؒ)۔ اس سے علم یقین تک بندہ پہنچ جاتاہے کیونکہ حدیث کی صحت کو جانچنا… دراصل ظن سے نکل کر یقین تک پہنچنے کا نام ہے اس لئے خبر واحد اور خبر متواتر کی معتزلانہ تقسیم ہی غلط ہے۔

٭… متواتر ہو یا خبر واحد کی تمام اقسام ، احکام شرعی میں وجوب، مندوب، حلال وحرام اورمکروہ مباح سبھی کو فراہم کرتی ہیں۔اور ان سے مسائل کا استخراج واستنباط ہوسکتا ہے۔نیز عقیدہ وایمان بھی ان سے ثابت ہوتا ہے۔ضعیف ، مرسل یا منقطع روایت سے فقہی مسائل کا استخراج فقہاء کرام کے نزدیک درست نہیں الا یہ کہ حدیث کے بارے میں بتادیا جائے کہ یہ ضعیف وموضوع یا مرسل ومنقطع ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اجماع​

جمہور علماء کے نزدیک فقہ اسلامی کا تیسرا مأخذ اجماع ہے۔ اس کے حجت ہونے کے دلائل قرآن وسنت سے ثابت ہیں۔ کیونکہ غلط چیز پر اہل علم کا متفق ہوجانا ناممکنات میں سے ہے ۔ امت کو صحیح اور حق دین دیا گیا ہے اس لئے وہ گمراہی پر مجتمع نہیں ہوسکتی۔ البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ مبالغہ آرائی سے ہٹ کراجماع کی تعریف کیا کی جائے؟استنباط احکام کا اس امت میں ایک تسلسل ہے اور وہی مفہوم ہی قابل حجت اور معتبر ہوگا جو قرآن وسنت کی منشأ اور مطالب کے عین مطابق ہو اور جسے ائمہ اسلام نے سراہا ہو۔

تعریف:​

لغت میں: عربی میں اس کا معنی کسی چیز کے بارے میں متفقہ طور پرپختہ عزم وارادہ کرنے کے ہیں۔ جیسے ـأَجْمََعَ الْقَومُ عَلَی ہٰذَا الأمْرِ۔ لوگ اس معاملے پر عزم مصمم کے ساتھ متفق ہوگئے ہیں۔قرآن مجید میں ہے:{ فلما ذہبوا بہ وأجمعوا أن یجعلوہ۔۔۔}جب وہ یوسف کو لے گئے اور سب نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اسے ڈال دیں۔اتفاق یا اکٹھے ہونے کے معنی میں بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے: أَجْمَعُوا عَلَی کَذَا۔ کہ وہ اس بات پر متفق ہوگئے۔ ایسے میں اس کا نقیض اختلاف ہوگا۔

اصطلاح میں: جمہور علمائے اصول کے نزدیک اجماع کی تعریف یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد امت اسلامیہ کے تمام مسلم مجتہدین کا زمانہ حال کے کسی عملی مسئلہ کے شرعی حل پر اتفاق کرلینا ۔ یہ اجماع ، اجماع مجتہدین کہلاتا ہے۔ اجماع کی یہ ایک ایسی خیالی تعریف و صورت ہے جس کا وجود نہیں۔اس لئے کہ ایک معاملہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ جس کے بارے میں صحت سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ اس میں اس تعریف کے مطابق اجماع کا مفہوم ملتا ہے۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اجماع نام کا ہی انکار کردیا جائے۔ نہیں نام صحیح ہے اور اجماع کتاب وسنت کی طرح ایک دلیل ہے۔جس سے ہدایت یا ضلالت متعین کی جاسکتی ہے۔مگر یہ قرآن وسنت کی طرح احکام کی مستقل دلیل نہیں بلکہ قرآن وسنت کے تابع ہے۔ایسی صورت میں اجماع کی پھر تعریف یہ ہوگی: کتاب وسنت سے ثابت شدہ احکام پر مسلمانوں کا متفق ہوجانا۔ اس کا تعلق مسلمان کے امورومعاملات سے ہوتا ہے۔ یہ اجماع دلیل قطعی کی حیثیت رکھتا ہے۔دین اسلام کے معلوم ضروری دینی مسائل جیسے: پانچ نمازیں، رمضان کے روزے،حج بیت اللہ، حرمت زناوشراب وغیرہ۔ان کے احکام کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت شدہ ہیں۔اس اجماع کا مخالف اسلام سے نکل جاتا ہے۔ مگر کتاب وسنت کی کسی نص میں اختلاف کی بناء پر اسے خارج از ملت قرار نہیں دیا جائے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اجماع کی دلیل: کتاب وسنت میں بے شمار دلائل ایسے ہیں جو اجماع کی حجیت پر دلالت کرتے ہیں۔اور سبھی یہ شہادت بھی دیتے ہیں کہ معتبر اجماع وہی ہے جو کتاب وسنت کے ثابت شدہ احکام پر اہل اسلام کو متفق کردے۔مثلاً:

{ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ونصلہ جہنم وسائت مصیرا}
جو بھی رسول کی نافرمانی کرے جبکہ اسے ہدایت واضح ہوچکی اور وہ اہل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر اور کوئی راستہ اپنائے تو ہم بھی اسے اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس طرف وہ پھر تا ہے اور اسے جہنم میں پہنچا ئیں گے اور وہ بہت ہی بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ (النساء: ۱۱۵)

علم آجانے پر سبیل المؤمنین کی مخالفت پر یہ سخت وعید بتاتی ہے کہ اہل ایمان کا راستہ الہدی ہے۔ اور لفظ مؤمنین ایک جامع لفظ ہے جو زندہ ہیں وہ اور جو فوت ہوگئے ہیں وہ بھی سب اس میں شامل ہیں۔ سب اسی بات پر ہی متفق ہوا کرتے جو ایک معلوم دینی ضرورت ہوتی۔ جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

اجماع کے منعقد ہونے کی شرط: جس مسئلہ پر اجماع ہو اس کی اولین شرط یہ ہے کہ وہ مسئلہ قرآن وسنت میں مذکورنہ ہو۔یا مبہم وغیر واضح ہویا وہ نص تاویل کے قابل ہو۔ پھراجماع کرنے والے مجتہد حضرات ہوں۔ نیز ان کے خیالات وافکار قرآن وسنت کے موافق ہوں۔ بدعتی یا روشن خیال اور بدعت کی طرف بلانے والے حضرات نہ ہوں۔ جنہوں نے اجماع کیا ہووہ سب کسی مستند دلیل کی بنیاد پر متفق ہوئے ہوں۔ ان صورتوں میں تو اجماع منعقد ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔اگر اتفاق کے بعد کوئی مجتہد کسی دلیل کے مل جانے سے رجوع کرلیتا ہے اور اس کی رائے بدل جاتی ہے تو ایسی صورت میں وہ اجماع نہیں ہوگا ۔

٭ …نصوص کے ہوتے ہوئے اجماع نہیں کیا جاسکتا۔

٭… اجماع ، مجتہدین کے اتفاق کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کچھ مجتہدین اختلاف کریں تو وہ اجماع نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں نہ وہ حجت ہوگا اور نہ ہی قابل اتباع۔اور نہ ہی اس کا دعوی کرنا مناسب ہے۔

٭ … غیر مجتہدین جو استنباط احکام پر قدرت نہ رکھتے ہوں ان کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا اجماع نہیں کہلاتا۔

٭ …اسی طرح یہ کہنا کہ اس مسئلے پرائمہ اربعہ کا اجماع ہے درست نہیں اور نہ ہی یہ اجماع امت ہے ۔ایک تو یہ معاصر نہیں تھے اور دوسرا یہ کہ انہیں باہم مل بیٹھنے کا موقع نہیں ملا۔ مزید یہ کہ ایک مسئلے میں ان کی دو یاتین آراء بھی ہوتی ہیں۔ اسی طرح خلفائے راشدین کے اتفاق کو اجماع نہیں سمجھا گیا۔یہ بھی کہ کسی مسئلہ میں ان چاروں ائمہ کا اتفاق نادرست بھی ہو سکتا ہے اورایسا کئی مسائل میں ہے۔ مثلا چاروں ائمہ طلاق ثلاثہ کو مؤثر قرار دیتے ہیں جو کہ کتاب وسنت کے خلاف ہے۔ کئی علماء نے اسے خلاف قرآن وخلاف سنت قرار دیا ہے۔ المبسوط میں ہے: إِنَّ مَوقِعَ الثلاثِ جُمْلَۃٌ مُخَالِفٌ لِلْعَمَلِ بِمَا فِی الکِتَابِ(حج ص۵) بیک وقت تین طلاقیں دینے والا قرآن میں دئیے گئے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔اسی طرح ایک دوسرے قول کے مطابق امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبل بھی بیک وقت تین طلاق دینا کتاب وسنت کی نافرمانی، شیطان کی اطاعت اور ظلم سمجھتے ہیں۔ اگر چاروں ائمہ کا اتفاق حجت اور اجماع مان لیا جائے تو اس کا کیا کیا جائے کہ یہ اجماع رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف ہے؟۔مزید ان ائمہ کے شاگردوں کی اختلافی رائے کو نیز ان کے ارشد تلامذہ اگر اس اجماع سے متفق نہ ہوں تو اسے کیا کہا جائے؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
٭ … رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں اجماع کی ضرورت نہ تھی ۔ مزید یہ کہ اگر آپﷺ کی رائے مجتہدین کی رائے سے مل جاتی تو یہ ا یک سنت قرار پاتی اور اگر خلاف ہوتی تو شریعت میں اس کی کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ اجماع کے شرعا ہونے کی دلیل امام شافعیؒ کو اللہ نے جو سجھائی اس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

اجماع کا موضوع:
اجماع کے لئے ضروری ہے کہ زیر بحث مسئلہ مسلمانوں کے شرعی امور ومعاملات سے تعلق رکھتا ہو۔ جس کی بنیاد عقیدہ پرہو یا اس سے ملتی جلتی ہویا اس سے متفرع ہوتی ہو۔

کیا اجماع ہوتا بھی ہے؟
اکثر فقہاء کرام کی رائے یہ ہے کہ اجماع ہونا ممکن ہے۔ذیلی مسائل میں نص موجود تھی مگر اس سے لاعلمی کی وجہ سے صحابہ کی اپنی اپنی رائے تھی ۔ چنانچہ جب نص مل گئی تو انہوں نے اپنی رائے ترک کردی اور ان مسائل پر اتفاق کرلیا۔ جسے متاخر علماء نے اجماع کا نام دے دیا۔مثلاً:

… نانی کو چھٹا حصہ دینے پر اجماع

… خنزیر کی چربی کی حرمت پر اجماع

… مانعین زکوۃ کے خلاف جنگ پر اجماع

… سگے بہن بھائی نہ ہوں تو باپ کی طرف سے ہونے والے بہن بھائی سگے بہن بھائیوں کی جگہ لے لیں گے۔

… مسلمان عورت کا نکاح کسی غیر مسلم سے نہیں ہوسکتا ۔

… مفتوحہ اراضی کو مجاہدین کے درمیان اس طرح نہیں بانٹ دیا جائے گا جس طرح دوسرے اموال غنیمت بانٹے جاتے ہیں وغیرہ ۔

امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
زمانہ صحابہ کے بعد اجماع کہیں نظر نہیں آتا۔بلکہ ایسا ناممکن ، مشکل اور غیر یقینی ہے۔ کیونکہ جن کا اجماع معتبر تھا وہ مختلف ممالک میں پھیل گئے اور بعد میں کبھی مل نہ سکے۔ یہی حال بعد کے علماء کا ہے۔ ان کی بات دل کو لگتی ہے اس لئے کہ چاروں مسلکوں کے اجماع کا دعوی تو مبالغہ ہے بلکہ ایک ہی مسلک میں اصول وفروع کے اختلاف نے اس کی حقیقت بتادی ہے۔ امام احمدؒ بن حنبل کی رائے یہ ہے: جو شخص اجماع کا دعوی کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ یہی رائے امام ابن حزمؒ، امام ابن تیمیہؒ اور امام شوکانیؒ رحمہم اللہ کی بھی ہے۔

شیخ الإسلام امام ابنؒ تیمیہ فرماتے ہیں:
اجماع کا معنی یہ ہے کہ علماء اسلام کسی حکم پر متفق ہو جائیں اور جب کسی حکم پر اجماع ثابت ہوجائے تو اس کی مخالفت جائز نہیں۔ اس لئے کہ پوری امت گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتی۔لیکن بہت سے مسائل ایسے ہیں جن میں اجماع کادعوی کیا جاتا ہے جو حقیقت کے برعکس ہوتا ہے۔اور دعوی اجماع کے خلاف جو قول ہوتا ہے وہ کتاب وسنت کی رو سے راجح ہوتا ہے۔لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی میں تمام صحابہ اس بات پر متفق ہیں کہ حالات ابھی نازک ہیں اس لئے اسے روانہ نہ کیا جائے۔مگر اکیلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا موقف یہ ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ جس لشکر کو رسول اللہ ﷺ نے روانگی کے لئے تیار کیا ہو ابوبکر اسے واپس نہیں بلاسکتا۔ ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کا عمل بطور ایک دلیل کے تھا۔جسے سبھی نے تسلیم کیا۔اور اکثریت کا اجتہاد یا اجماع، اقلیت اور نص صحیح کے مقابلے میں کوئی حیثیت اختیار نہ کرسکا۔ اہل اسلام متفق ہیں کہ ائمہ کرام کے اقوال حجت لازمہ ہیں اور نہ ہی اجماع ہیں۔ بلکہ انہوں نے اپنی تقلید سے منع کرتے ہوئے یہ حکم دیا تھا کہ ان کے اقوال کو کتاب وسنت کے مقابلے میں چھوڑ دیا جائے۔ ان کے اکابر طلبہ نے یہی کچھ کیا اور کتاب وسنت کی دلیل ملتے ہی ان کے اقوال کو چھوڑ دیا۔جس کی مثال مسافت قصر ہے تین دن یا سولہ فرسخ کی تحدید ایک ضعیف قول ہے۔ اس لئے کئی حنبلی اور دیگر علماء نے یہ کہا کہ سفر کی حد اس سے بھی کم ہو تو نماز قصر کرنا جائز ہے جیسا کہ اہل مکہ نے عرفہ اور منی میں نبیﷺ کے ساتھ نماز قصر ادا کی تھی۔(فتاوی ابن تیمیہ ج۲۰ ص۱۰)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اجماع کی اقسام :

فقہاء نے اس کی دو اقسام بیان کی ہیں۔ جن میں پہلی قسم کمزور شمار ہوتی ہے اور دوسری قوی۔یہ یاد رہے کہ اجتہاد کے لئے مجتہدین کی خاص تعداد مقرر نہیں۔ مسلمانوں کا کوئی مسئلہ دنیا کے کسی خطے میں اٹھے اس بارے میں اجتہاد ہو سکتا ہے۔

اجماع سکوتی : ایک دو مجتہد علماء کسی مسئلہ کے بارے میں شرعی حکم بیان کریں پھر اس مسئلہ کا سبب اورعلم دوسرے علماء کو بھی ہوجائے۔ اور انہی علماء کے زمانہ میں اسے خاصی شہرت بھی مل جائے لیکن دوسرا مجتہد اس پر کوئی اعتراض نہ کرے یا صراحت سے اس کا انکار نہ کرے اور نہ ہی تائید کرے بشرطیکہ اظہاررائے میں اس کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ ایسا اجماع، اجماع سکوتی کہلاتا ہے۔ کچھ ائمہ کرام اسے اجماع کی بجائے حجت کا نام دیتے ہیں۔ بہت سے شرعی مسائل میں اسی اجماع کے ہونے کا دعوی بھی کیا جاتا ہے۔وہ اس طرح کہ ایک فقیہ نے اس مسئلہ میں صحابہ وتابعین سے منقول کوئی اثر یا خبر کی خوب چھان بین کی۔اسے معلوم ہوا کہ ان تمام آثار میں سب کے سب ایک حکم پر متفق ہیں اور معاصرین میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس مسئلہ میں ان سے اختلاف کرتا ۔ یوں ان کی زبان پر اجماع کا لفظ جاری ہوگیا جو اجماع سکوتی ہی کی نوع قرار دیتے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ چند ے معدود فقہاء کرام کی ایک رائے ہوتی ہے ۔جسے اجماع کا نام دے دیا جاتا ہے۔ نیز یہ کیسے مناسب ہوسکتا ہے کہ دس یا بیس فقہاء کی رائے کا امت کو پابند کردیا جائے کہ اب ان کی مخالفت نہیں ہوسکتی اور اسے تاقیامت حجت بنادیاجائے۔ معاصرین کے بے شمار اختلافی اقوال ان اجماعی دعووں کو مزید دھچکا دیتے ہیں۔

اجماع صریح : اجماع کی اوپر بیان کردہ تعریف یہی اجماع ہے ۔اصولی علماء نے اس کا نام اجماع صریح رکھا ہے۔ ایسا اجماع حجت قطعی ہوگا۔

نوٹ: اجماع کی تعریف جس انداز سے کی گئی ہے اور جو اس پربحث کی گئی ہے پھر بھی ضرورت اس بات کی رہتی ہے کہ تعریف اجماع کو بغیر کسی اختلاف باقی رکھے حل کیا جائے۔دیکھنے میں تو یہ بھی آرہا ہے کہ ایک ہی مسلک ومذہب کی کتب میں معمولی سے مسائل پر جو ہر مذہب میں اختلافی ہیں انکے بارے میں بھی یہ دعوی موجود ملتا ہے کہ اس پر اجماع ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قیاس​

کتاب وسنت کی روشنی میں فقہ اسلامی کا تیسرا مأخذ : صحیح قیاس ہے۔جس کی دلیل سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل تقریباً ۱۰ ہجری میں انہیں یمن کا گورنر مقرر کرکے روانہ کیا۔ جس میں انہوں نے کہا تھا: أَجْتَہِدُ رَأیِیْ وَلَا آلُو۔ قرآن وسنت میں مسئلے کا حل نہ ملنے پر اپنی رائے سے کام لوں گا اور صحیح رائے قائم کرنے میں کسی قسم کی کوتا ہی نہیں کروں گا۔قیاس عموماً اجتہاد سے ہی برآمد ہوتا ہے۔ علماء فقہ کے نزدیک صحیح قیاس ، اجماع کی بہ نسبت وسیع تر اور آسان تر مأخذ شریعت ہے اور بآسانی اس پر عمل ہوسکتا ہے۔مجتہد کا اخلاص اور کوشش ہی اس میں زیادہ کار فرما ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ صحیح فیصلہ پر دوگنا اور غلطی پر ایک اجر کا مستحق بھی ٹھہرتا ہے۔صحابہ کرام بھی نئے مسائل پر اجتہاد سے کام لیتے اور بعض احکام کو بعض پر قیاس کرتے اور نظائر کو معتبر سمجھتے تھے۔

لغوی معنی: عربی زبان میں قیاس کا لفظ عام طور پر دو چیزوں کے برابر کرنے کے لئے بولتے ہیں مثلا قِسْتُ ہٰذِہِ الْوَرَقَۃَ بِہٰذِہِ الْوَرَقَۃِ میں نے اس ورق کو دوسرے کے ساتھ برابر کیا۔ یا عِلْمُ فُلاَنٍ لاَ یُقَاسُ بِعِلْمِ فُلاَنٍ فلاں کا علم فلاں شخص کے برابر کہاں؟ یا ایک چیز کو دوسری چیز سے ناپنے یا مقدار معلوم کرنے کو کہتے ہیں۔جیسے قِسْتُ الْقِمَاشَ بِالْمِیْتَرِ میں نے کپڑے کو میٹر سے ناپا۔ یا قَایَسْتُ بَیْنَ ہَاتَینِ الْوَرَقَتَینِ میں نے ایک ورق کا دوسرے سے مقابلہ کیا۔

اصطلاحی معنی : علماء اصول کی اصطلاح میں اس کی تعریف درج ذیل ہے:

ہُوَ حَمْلُ فَرْعٍ عَلَی أَصْلٍ فِی حُکْمِ بِجَامِعٍ بَیْنَہُمَا۔ فرع کو اصل پر ایسے حکم سے محمول کرنا جو ان دونوں کے مابین ایک ہی جیسا ہو۔ یعنی ایک ایسا واقعہ جس کے حکم کے بارے میں کوئی نص نہیں اسے حکم میں ایک ایسے واقعہ سے جا ملانا جس کا حکم نص میں آچکا ہے۔اس کی وجہ اس حکم میں واقع علت میں دونوں کا مشترک ہونا ہے۔

جیسے، ہیروئن، چرس وغیرہ کا شراب پر قیاس کرنا۔ کتاب اللہ میں شراب کی حرمت کا حکم موجود ہے اب شراب کی علت نشہ ہے جو ہیروئن، چرس، وغیرہ میں بھی پایا جاتا ہے اس علت میں اشتراک کی وجہ سے یہی حکم ہیروئن اور چرس کو بھی شامل ہوگا۔ مجتہد کاکام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ حکم کی علت کو پہچانتا ہے اور پھر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مقیس اور مقیس علیہ دونوں علت میں مشترک ہیں پھر دونوں کے بارے میں حکم واضح کردیتا ہے۔نص جو مفہوم دے رہی ہوتی ہے کسی مجتہد کا اس سے کسی اور حکم شرعی سے آگاہ کرنا ہی اصل میں قیاس ہے۔ اس سلسلے میں وہ نصوص کو غیر نصوص کے لئے بطور مثال پیش کرتا ہے۔قیاس بغیر اصول کے شرعی حکم بتانے کا نام نہیں بلکہ حکم موجود ہوتا ہے بظاہر نظر نہیں آتا جسے مجتہد بذریعہ قیاس منکشف کردیتا ہے۔اس لئے قیاس ایک اجتہادی کوشش کا نام ہے جو کتاب وسنت کی معین حدود میں رہتے ہوئے سرانجام پاتاہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مثلاً اللہ تعالی کا یہ ارشاد:

{یأیہا الذین آمنوا إذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا إلی ذکر اللہ وذروا البیع}اے ایمان والو!جب جمعہ کے روز اذان دی جائے تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف اور چھوڑ دو بیع کو۔

یہ آیت اذان سننے کے بعد خرید وفروخت کو روک رہی ہے۔ جس کی علت یہ ہے کہ اس میں پڑ کر جمعہ میں تاخیرکا ہونا یا اس کا فوت ہوجانا ہے۔ یہی معنی غیر بیع یعنی عقود (Contracts) وغیرہ میں بھی لیاجاسکتا ہے جیسے اجارہ، وکالہ یا اس سے ملتے جلتے اور معاہدے۔ گویہ صورتیں نص میں مذکور نہیں مگر ان میں بھی وہی مفہوم تاخیرو تفویت آسکتا ہے جس کی وجہ سے بیع ممنوع قرار دی گئی تھی۔اس لئے انہیں بھی حکم ممنوع میں شامل کیا جائے گا۔

قیاس کے ارکان:​
قیاس کی تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس کے چار ارکان ہیں۔ جو یہ ہیں۔ اصل، فرع، حکم اور علت۔

اصل: اسے مقیس علیہ یا مشبہ بہ یا منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی حکم جس نص سے ثابت ہو اس نص کو اصل کہتے ہیں۔ یعنی وہ جگہ جہاں حکم پایا جاتا ہے جیسے اوپر دی گئی شراب(خمر) یا بیع کی مثالیں

فرع: اسے مقیس یا مشبہ یا غیر منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ وہ مسئلہ جسے اصل پر قیاس کرکے اس کا حکم معلوم کرنا ہوتا ہے مگر نص سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا قیاس کے طریقہ کار پر عمل کرکے اصل میں جوحکم موجود ہو اس کا اطلاق اس پر کیا جاتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ اس کا موضوع اصل کے موضوع سے مختلف نہ ہو۔جیسے بیع کا قیاس نکاح پر کرنا کیونکہ موضوع میں اختلاف ہونے کے سبب یہ صحیح نہیں۔کیونکہ بیع بھاؤ تاؤ پر اپنی بنیاد رکھتی ہے اور نکاح باہمی احترام اور آسانی پر مبنی ہوتا ہے۔
حکم : اسے حکم شرعی بھی کہتے ہیں۔ جس سے مراد وہ شرعی حکم ہے جو اصل میں آیا ہے۔ اورجسے فرع میں ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے شراب کی حرمت اصل میں آئی ۔ فرع میں جو حکم ثابت ہوتا ہے وہ بذریعہ قیاس ہی ثابت ہوتا ہے جس کی مثال چرس کی حرمت ہے۔ عقائد، رویے اور تہذیب نفس ، ایمان، توکل، انابت، خوف، رجائ، حب اور بغض وغیرہ۔ کا تعلق دل سے ہے اس لئے ان احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہوا کرتا اس لئے کہ یہ عملی احکام نہیں۔نیزجس حکم کی علت کا ادراک ممکن ہو۔ جیسے: حرمت ربا، یا قاتل نے جسے قتل کیا ہے اس کی وراثت سے محروم ہونا۔ ان میں بھی قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ احکام عملی ہیں۔نیز عبادت سے بھی ان کا تعلق ہے۔ اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے: لاَ قِیَاسَ فِی الْعِبَادَاتِ۔ عبادات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
علت: قیاس کا اہم ترین رکن ہے ۔ جس سے مراد اصل اور فرع کے درمیان مشترک وصف کا پایا جانا ہے۔یہی تو وصف ہے جس کی وجہ سے فرع کو اصل کا حکم ملتا ہے۔ اگر یہی وصف یا اس سے مشابہ وصف نئے واقعہ میں موجود ہو تو اسے بھی اصل کے مشابہ سمجھا جائے گا۔ جیسے چرس میں نشہ کا وصف جو شراب اور چرس دونوں میں پایا جاتا ہے۔

قیاس کی شرائط : قیاس اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس میں یہ اہم شرطیں موجود نہ ہوں۔

۱۔ اصل حکم شرعی ہو نہ کہ لغوی۔ کیونکہ لغات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔

۲۔ اصل ثابت ہو منسوخ نہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ کسی موقع ومناسبت سے ایک حکم دیا گیا پھر اس مناسبت کے ختم ہونے کے بعد دوسرا حکم آگیا اب یہ اصل ثابت نہیں ہے اس لئے کہ اب موقع ومحل اور ہے اس لئے سابق حکم پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

۳۔ ا صل کا حکم کتاب وسنت کی نص سے ثابت ہو یا وہ مجمع علیہ ہو۔

۴۔ حکم اصل کی علت فرع میں پائی جائے اورکسی قسم کا کوئی فارق نہ ہو یا کوئی مانع نہ ہو جو اسے حکم اصلی سے الگ کردے یا اس کے حکم سے ملنے نہ دے۔ اگر علت صرف اصل میں ہی منحصر ہو یا اصل تک ہی محدود ہو اور کسی دوسری چیز میں اس کا وجود ممکن نہ ہو تو اس پر قیاس کرنا منع ہے۔ کیونکہ قیاس کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکم کی علت میں فرع اور اصل دونوں شریک ہوں۔

۵۔ قیاس کی ان حدود وشرائط کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے یعنی نص میں حکم کی علت تلاش کرنا ۔ جہاں حکم کی علت نہ ہو وہاں مجتہد کو یہ علت از خود تلاش کرنا پڑتی ہے۔ یہی وہ قیاس کی قسم ہے جس میں مجتہد اور فقیہ سے بکثرت خطا ہوتی ہے ۔ وہ اسے حکم کی علت سمجھتا ہے جب کہ وہ اس حکم کی علت ہوتی ہی نہیں ہے۔ مثلاً جنگ جمل میں فتح کے بعد سیدنا علی مرتضے رضی اللہ عنہ کے بعض حامیوں نے (جو بعد میں خوارج کہلائے) خون پر جان اور مال کو قیاس کیا اور کہا: جب مخالفین کا خون بہانا حلال ہے تو ان کا مال بطور غنیمت اور ان کی جانیں بطور غلام اور لونڈیاںبنانا بھی ہمارے لئے حلال ہیں۔یہ فاسد قیاس جب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے سنا تو فرمایا: ٹھیک ہے سب سے پہلے سیدہ عائشہؓ رضی اللہ عنہا پر قرعہ ڈالو وہ کس کے حصہ میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا معاذ اللہ! وہ تو ہماری ماں ہیں۔ امیر المومنین نے یہ بات اس لئے فرمائی کہ جب ماں کو لونڈی بنانا جائز نہیںتو مال غنیمت سمجھ کر ان کا مال لینا بھی جائز نہیں۔ اس طرح سیدنا علیؓ نے خوارج کے فاسد قیاس کے مقابلہ میں صحیح قیاس سے استدلال کیا اور ان کے قیاس کو رد کردیا۔ یہی وہ احتیاط ہے جو مجتہد کو قیاس کرتے وقت ملحوظ رکھنا ہوگی ورنہ فرضی اور فاسد قیاس و مسائل کے ڈھیر لگ جائیں گے جو اسلامی شریعت کو بدنام کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام ابن القیم ؒفرماتے ہیں: ایسی علتوں کا سہارا لینا جن سے خدا نخواستہ صحیح حدیث رد ہو جائے شدت پسندی ہے۔ اگر سنن رسول ﷺ کو ان علتوں کے سبب ترک کرنا شروع کردیا جائے تو صحیح احادیث وسنن کا تقدس پامال ہو جائے گا۔(شرح سنن ابی داؤد لابن القیم مع عون المعبود ج ۱۰؍ص ۳۴)

یہ اصول شاید اس لئے بنایا گیا ہے کہ اگر غیر فقیہ صحابی کی روایت ، قیاس کے خلاف ہو تو قیاس پر عمل درآمد اولی ہوگا۔ مگر حدیث مصراۃ جو سیدنا ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے وہی تو سیدنا ابن مسعودؓ نے روایت کی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کون ان میں غیر فقیہ ٹھہرا؟۔
اسی طرح فرضی مسائل کا بعض حیلوں سے یوں قیاس کرنا کہ اگر اسلامی احکام کی زد میں فلاں فلاں مسئلے آجائیں تو ان سے کیسے خلاصی حاصل کریں ۔ یہ اور ان سے ملتے جلتے قیاس فاسد ہوں گے اورشریعت کا استہزاء بھی۔

حجیت قیاس:​

جمہور علماء کے نزدیک قیاس اصول فقہ کا ایک اہم ستون ہے۔ اسے دلیل وحجت تسلیم کیا جانا چاہئے کیونکہ قرآن وسنت، اقوال صحابہ سے اس کے دلائل ملتے ہیں۔ مثلاً:

قرآنی دلائل:

{فاعتبروا یا أولی الأبصار }۔۔۔ الحشر: ۲ اے دیدہ بینا رکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔

{قل یحییہا الذی أنشأہا أول مرۃ وہو بکل خلق علیم۔۔}۔(یس: ۷۹) کہہ دیجئے کہ اسے وہی دوبارہ زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا اور ہر تخلیق کے بارے میں خوب جانتا ہے۔

{اللہ الذی أنزل الکتاب بالحق والمیزان۔}۔ (الشوری: ۱۷) میزان سے مراد وہ چیز جس سے معاملات کا وزن کیا جاتا ہے اور پھر ان کے درمیان اندازہ کیا جاتا ہے۔

{کما بدأنا أول خلق نعیدہ۔}۔(الأنبیاء:۱۰۴ ) اللہ تعالی نے اعادہ مخلوق کو اس کی ابتداء سے تشبیہ دی ہے۔

{واللہ الذی أرسل الریاح فتثیر سحابا فسقناہ إلی بلد میت فأحیینا بہ الأرض بعد موتہا کذلک النشور}۔۔(فاطر: ۹)

یہ سب آیات قیاس اور قیاس میں موجود ارکان اور شرائط کو پورا کررہی ہیں۔جو قیاس کے حجت ہونے اور اس کے جواز کا اشارہ دیتی ہیں۔
 
Top