محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
مگر سوال یہ ہے کہ ایسی متواتر حدیث کا وجود بھی ہے جس کی تعریف اہل اصول کرتے ہیں؟ علماء اصول وحدیث اس کی شاہد صرف دو احادیث پیش کرسکے ہیں۔ پہلی حدیث: إنما الأعمال بالنیات ہے اور دوسری من کذب علی متعمدا۔۔۔والی۔ پہلی حدیث میں متواتر کی بیان کردہ شروط موجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ محدثین بالاتفاق اس کی سند کو غریب کہتے ہیں۔جو آحاد کی ایک قسم ہے۔ اس میں عدد رواۃ کا تواتر سند کے درمیان میں واقع ہوا ہے سند کے آغاز میں نہیں۔ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:
نَعَمْ قَدْ تَوَاتَرَ عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعِیْدٍ : فَحَکٰی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ سَعِیْدِ النَّقّاشِ الْحَافِظِ أَنَّہُ رَوَاہُ عَنْ یَحْیَی مِائَتَانِ وَخَمْسُوْنَ نَفْسًا وَسَرَدَ أَسْمَائَہُمْ أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ مَنْدَۃَ فَجَاوَزَ الثَّلاثَ مِائَۃٍ۔ ہاں یہ حدیث یحییٰ بن سعید سے متواتر روایت کی گئی ہے محمد بن علی بن سعید النقاش حافظ نے لکھا ہے کہ اسے یحییٰ بن سعید سے دو سو پچاس افراد نے روایت کیا ہے اور ابو القاسم بن مندۃ نے اس کے تین سو سے زائد نام گنوائے ہیں۔فتح الباری ج ۱؍ص:۱۱
رہی دوسر ی حدیث کی دلیل کہ اسے صحابہ کی بڑی تعداد نے روایت کیا ہے اور صحیحین میں صحابہ کی ایک بڑی جماعت سے یہ مروی بھی ہے حافظ ابوبکر البزار نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ تقریباً چالیس صحابہ نے اسے آپ ﷺ سے روایت کیا ہے اور بعض دیگر حفاظ نے اس کی تعداد باسٹھ بتائی ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
دوسری رائے اس حدیث کے متواتر ہونے سے انکاری ہے امام زبیدی لکھتے ہیں: بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث متواتر نہیں ہے کیونکہ اگر فرض کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسی جماعت نے اسے نقل کیا ہے جن کی روایت سے علم ضروری حاصل ہوتا ہے تو دوسری جماعت کے سماع کے بارے میں علم ضروری کے حصول کا دعوی ممکن نہیں۔اسی طرح تیسری سے چوتھی اور چوتھی سے پانچویں کے سماع کے بارے میں علم ضروری کے حصول کا دعوی بھی نادرست ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ خبر بہت مشہور ہوچکی ہے جسے متواتر اور علم ضروری کا مصدر سمجھ لیا گیا ہے۔(لقط اللآلی : ۲۲)
زبیدی کہتے ہیں کہ بعض علماء یہ جواب دیتے ہیں کہ آخری طبقہ تک مسلسل سماع کی وضاحت اس میں ملتی ہے۔ اگر اسے متواتر تسلیم نہ کیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی حدیث بھی متواتر نہیں۔ اسی لئے بعض علماء نے احادیث متواترہ پر مستقل کتب تالیف کی ہیں۔
نَعَمْ قَدْ تَوَاتَرَ عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعِیْدٍ : فَحَکٰی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ سَعِیْدِ النَّقّاشِ الْحَافِظِ أَنَّہُ رَوَاہُ عَنْ یَحْیَی مِائَتَانِ وَخَمْسُوْنَ نَفْسًا وَسَرَدَ أَسْمَائَہُمْ أَبُو الْقَاسِمِ بْنُ مَنْدَۃَ فَجَاوَزَ الثَّلاثَ مِائَۃٍ۔ ہاں یہ حدیث یحییٰ بن سعید سے متواتر روایت کی گئی ہے محمد بن علی بن سعید النقاش حافظ نے لکھا ہے کہ اسے یحییٰ بن سعید سے دو سو پچاس افراد نے روایت کیا ہے اور ابو القاسم بن مندۃ نے اس کے تین سو سے زائد نام گنوائے ہیں۔فتح الباری ج ۱؍ص:۱۱
رہی دوسر ی حدیث کی دلیل کہ اسے صحابہ کی بڑی تعداد نے روایت کیا ہے اور صحیحین میں صحابہ کی ایک بڑی جماعت سے یہ مروی بھی ہے حافظ ابوبکر البزار نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ تقریباً چالیس صحابہ نے اسے آپ ﷺ سے روایت کیا ہے اور بعض دیگر حفاظ نے اس کی تعداد باسٹھ بتائی ہے جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں۔
دوسری رائے اس حدیث کے متواتر ہونے سے انکاری ہے امام زبیدی لکھتے ہیں: بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث متواتر نہیں ہے کیونکہ اگر فرض کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک ایسی جماعت نے اسے نقل کیا ہے جن کی روایت سے علم ضروری حاصل ہوتا ہے تو دوسری جماعت کے سماع کے بارے میں علم ضروری کے حصول کا دعوی ممکن نہیں۔اسی طرح تیسری سے چوتھی اور چوتھی سے پانچویں کے سماع کے بارے میں علم ضروری کے حصول کا دعوی بھی نادرست ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ خبر بہت مشہور ہوچکی ہے جسے متواتر اور علم ضروری کا مصدر سمجھ لیا گیا ہے۔(لقط اللآلی : ۲۲)
زبیدی کہتے ہیں کہ بعض علماء یہ جواب دیتے ہیں کہ آخری طبقہ تک مسلسل سماع کی وضاحت اس میں ملتی ہے۔ اگر اسے متواتر تسلیم نہ کیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی حدیث بھی متواتر نہیں۔ اسی لئے بعض علماء نے احادیث متواترہ پر مستقل کتب تالیف کی ہیں۔