محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
زمانہ صحابہ میں:
انہوں نے دین کے اصل جلال اور جمال کو دیکھا بھی اور پایا بھی۔ صحابہ کرام نے اللہ تعالی کی اس امانت کو نور نبوت سے حاصل کیا اور اپنا عہد ختم ہونے سے پہلے پہلے بلا کم وکاست پورے کا پورا اگلی نسل کو منتقل کردیا۔ سیرت طیبہ کا علم ہو یا حدیث رسول کا، اگر کسی صحابی کو نہیں تھا تو اس کا علم دوسرے صحابہ کو ہوتا تھا اور یہی حال بعد کی نسلوں کا تھا، ہے اور رہے گا۔ صحابہ قرآن وسنت ہی کے پابند تھے۔ یہی دونوں چیزیں ان کے عہد میں فقہ وشریعت کا کورس اورSourceتھیں۔ کسی بھی فقہی مسئلہ کا علم نہ ہوتا تو قرآن سے تلاش کرتے ورنہ حدیث رسول سے ۔ بصورت دیگروہ اجتہاد کرتے۔ یہی ان کے اصول تھے اور اس پر سختی سے عامل تھے۔ کوئی غلط فہمی کا شکار ہوتا تو اس کی اصلاح کے لئے فورًا حدیث رسول پیش کردیا کرتے۔ جدہ کی میراث کا مسئلہ ہو یا استئذان کا، طاعون زدہ علاقہ میں جانا ہو یا نکلنا، یہ سب فقہی مسائل تھے اور دیکھا دلیل کی طرف جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے حیات رسول ﷺ میں:
ہٰذَا قَضَائیْ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَاء رَسُولِ اللہِ۔جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے خوش نہیں تو پھر عمر کا فیصلہ یہی ہے۔
کہا اور اللہ نے اس کی تائید ساتویں آسمان سے کردی اور منافق کا خون ضائع قرار دیا اور یوں :
{وإذا قیل لہم تعالوا إلی ما أنزل اللہ وإلی الرسول رأیت المنافقین یصدون عنک صدودا}
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے اتاری ہے اور اس کے رسول کی طرف، تو تم دیکھتے ہو کہ منافق آپ سے پرے بھاگتے ہیں۔
سیدنا عمرؓ کے اجتہاد کو درست قرار دیا کہ رسول کے فیصلے یا اس کی نص(Text) کے ہوتے ہوئے کسی اور کی بات ، فیصلہ یا مسئلہ نہیں مانا جا سکتا۔ ابن عمرؓ نے :
ئَأَمْرُ أَبِیْ یُتَّبَعُ أَمْ قَولُ رَسُولِ اللہِ ﷺ۔کیا میرے باپ کی بات مانی جائے گی یا جناب رسالت مآبﷺ کی۔
کہہ کر باور کرادیا کہ فقہ میں اصل مقام قرآن کے بعد رسول اکرم ﷺ کا ہے نہ کہ رجال کا۔ اور جب لوگوں نے انہیں یہ کہا کہ وہ نہ صرف امیر المومنین ہیں بلکہ آپ کے والدبھی ہیں تو یہاں تک کہہ دیا: مَنْ أَبِیْ؟ میرے والد کون ہوتے ہیں؟ (مسند احمد)۔
حالات جیسے بھی بنتے گئے صحابہ کرام اسی اصول کے مطابق فقہ اسلامی کو آگے بڑھاتے گئے کہ مسائل کے حل کے لئے سب سے مقدم قرآن مجید، پھر احادیث رسول ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً:
…آپ ﷺ کی وفات پر یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ آپ کو کہاں دفنایا جائے؟
…آپ ﷺفوت بھی ہوئے ہیں یا نہیں؟
…آپﷺ کے بعد خلیفہ کون ہو؟
…لشکر اسامہ کو روانہ کیا جائے یا نہیں؟
…رسول اللہﷺ کی میراث اور اس کی تقسیم کا معاملہ۔
…منکرین زکوٰۃ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟
…جمع قرآن۔
اس ضمن میں صحابہء کرامؓ کی مختلف آراء نے فہم کے اختلاف کو ظاہر کیا۔ چنانچہ مسائل کے حل کیلئے انہوں نے ایسے اصولوں پر اتفاق کیا۔ جن کی مستقبل میں زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے باوجود اساسی و ابدی حیثیت برقرار ر ہے۔ مثلا یہ اصول:
… جو مسائل قرآن و سنت میں واضح ہیں انہیں من وعن لیا جائے اور اپنی رائے کا دخل نہ دیا جائے۔
… کسی بھی پیش آمدہ مسئلہ کے حل کیلئے اولاً قرآن مجید کو دیکھا جائے اگر اس میں مل جائے تو خیر ورنہ
… حدیث رسول میں اسے تلاش کیا جائے۔ اگر حدیث میں وضاحت ہوتو درست بصورت دیگر
… صحابہ کرامؓ کی متفقہ رائے و اجتہاد پر نظر کی جائے ورنہ
… اجتہاد کیا جائے۔