• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
زمانہ صحابہ میں:​

انہوں نے دین کے اصل جلال اور جمال کو دیکھا بھی اور پایا بھی۔ صحابہ کرام نے اللہ تعالی کی اس امانت کو نور نبوت سے حاصل کیا اور اپنا عہد ختم ہونے سے پہلے پہلے بلا کم وکاست پورے کا پورا اگلی نسل کو منتقل کردیا۔ سیرت طیبہ کا علم ہو یا حدیث رسول کا، اگر کسی صحابی کو نہیں تھا تو اس کا علم دوسرے صحابہ کو ہوتا تھا اور یہی حال بعد کی نسلوں کا تھا، ہے اور رہے گا۔ صحابہ قرآن وسنت ہی کے پابند تھے۔ یہی دونوں چیزیں ان کے عہد میں فقہ وشریعت کا کورس اورSourceتھیں۔ کسی بھی فقہی مسئلہ کا علم نہ ہوتا تو قرآن سے تلاش کرتے ورنہ حدیث رسول سے ۔ بصورت دیگروہ اجتہاد کرتے۔ یہی ان کے اصول تھے اور اس پر سختی سے عامل تھے۔ کوئی غلط فہمی کا شکار ہوتا تو اس کی اصلاح کے لئے فورًا حدیث رسول پیش کردیا کرتے۔ جدہ کی میراث کا مسئلہ ہو یا استئذان کا، طاعون زدہ علاقہ میں جانا ہو یا نکلنا، یہ سب فقہی مسائل تھے اور دیکھا دلیل کی طرف جاتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے حیات رسول ﷺ میں:

ہٰذَا قَضَائیْ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَاء رَسُولِ اللہِ۔جو رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے خوش نہیں تو پھر عمر کا فیصلہ یہی ہے۔

کہا اور اللہ نے اس کی تائید ساتویں آسمان سے کردی اور منافق کا خون ضائع قرار دیا اور یوں :

{وإذا قیل لہم تعالوا إلی ما أنزل اللہ وإلی الرسول رأیت المنافقین یصدون عنک صدودا}

اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے اتاری ہے اور اس کے رسول کی طرف، تو تم دیکھتے ہو کہ منافق آپ سے پرے بھاگتے ہیں۔

سیدنا عمرؓ کے اجتہاد کو درست قرار دیا کہ رسول کے فیصلے یا اس کی نص(Text) کے ہوتے ہوئے کسی اور کی بات ، فیصلہ یا مسئلہ نہیں مانا جا سکتا۔ ابن عمرؓ نے :

ئَأَمْرُ أَبِیْ یُتَّبَعُ أَمْ قَولُ رَسُولِ اللہِ ﷺ۔کیا میرے باپ کی بات مانی جائے گی یا جناب رسالت مآبﷺ کی۔

کہہ کر باور کرادیا کہ فقہ میں اصل مقام قرآن کے بعد رسول اکرم ﷺ کا ہے نہ کہ رجال کا۔ اور جب لوگوں نے انہیں یہ کہا کہ وہ نہ صرف امیر المومنین ہیں بلکہ آپ کے والدبھی ہیں تو یہاں تک کہہ دیا: مَنْ أَبِیْ؟ میرے والد کون ہوتے ہیں؟ (مسند احمد)۔
حالات جیسے بھی بنتے گئے صحابہ کرام اسی اصول کے مطابق فقہ اسلامی کو آگے بڑھاتے گئے کہ مسائل کے حل کے لئے سب سے مقدم قرآن مجید، پھر احادیث رسول ہوا کرتی تھیں۔ مثلاً:

…آپ ﷺ کی وفات پر یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ آپ کو کہاں دفنایا جائے؟
…آپ ﷺفوت بھی ہوئے ہیں یا نہیں؟
…آپﷺ کے بعد خلیفہ کون ہو؟
…لشکر اسامہ کو روانہ کیا جائے یا نہیں؟
…رسول اللہﷺ کی میراث اور اس کی تقسیم کا معاملہ۔
…منکرین زکوٰۃ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟
…جمع قرآن۔

اس ضمن میں صحابہء کرامؓ کی مختلف آراء نے فہم کے اختلاف کو ظاہر کیا۔ چنانچہ مسائل کے حل کیلئے انہوں نے ایسے اصولوں پر اتفاق کیا۔ جن کی مستقبل میں زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے باوجود اساسی و ابدی حیثیت برقرار ر ہے۔ مثلا یہ اصول:

… جو مسائل قرآن و سنت میں واضح ہیں انہیں من وعن لیا جائے اور اپنی رائے کا دخل نہ دیا جائے۔

… کسی بھی پیش آمدہ مسئلہ کے حل کیلئے اولاً قرآن مجید کو دیکھا جائے اگر اس میں مل جائے تو خیر ورنہ

… حدیث رسول میں اسے تلاش کیا جائے۔ اگر حدیث میں وضاحت ہوتو درست بصورت دیگر

… صحابہ کرامؓ کی متفقہ رائے و اجتہاد پر نظر کی جائے ورنہ

… اجتہاد کیا جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یہ اصول بھی دیکھنے میں آیا کہ اگر صحابہ کرام میں سے کسی کا اجتہاد و رائے بعد میںمعلوم ہونے والی حدیث رسول کے خلاف ہوتا تو وہ بخوشی اپنے اجتہاد یا رائے واپس لے لیتا۔ جیسے حج تمتع کی ممانعت کا آرڈیننس یا بیک وقت دی گئی طلاق ثلاثہ کے بارے میںآرڈیننس۔ فقہ اسلامی کی یہی وہ اساس تھی جو صحابہ کرام کے دور میں فراہم کر دی گئی تھی۔بعد میں فقہاء وعلماء امت نے بھی اسی کی بنیاد پر فقہ کی عمارت کھڑی کی۔

فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ص ۶۳۰میں ہے:

أَجْمَعَ الصَّحَابَۃُ عَلَی أَنَّ مَنِ اسْتَفْتَی أَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ أَمِیْرَیِ الْمُؤمِنِینَ، فَلَہُ أَنْ یَسْتَفْتِیَ أَبَاہُرَیْرَۃَ وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَغَیرَہُمَا وَیَعْمَلُ بِقَوْلِہِمْ بِغَیرِ نَکِیْرٍ۔
یعنی صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص ابوبکرؓ اور عمر ؓ سے فتوی پوچھے وہ ابوہریرہؓ اور معاذ بن جبلؓ اور ان کے سوا دیگرحضرات سے بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فتوے پوچھ کر عمل کرسکتا ہے کسی کو اس سے انکار نہیں۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ الإنصافص ۵۹ میں فرماتے ہیں:

قَالَ ابْنُ الْہَمَامِ فِی آخِرِ التَّحْرِیْرِ: کَانُوا یَسْتَفْتُونَ مَرَّۃً وَاحِدًا، وَمَرَّۃً غَیرَہُ، غَیرَمُلْتَزِمِینَ مُفْتِیًّا وَاحِدًا۔
ابن الہمام نے التحریر کے آخیر میں لکھا ہے: کہ اسلاف کبھی کسی سے فتوے پوچھتے اور کبھی کسی سے۔ ایک مفتی کو انہوں نے لازمی نہیں پکڑا ہوا تھا۔

جن مسائل میں احادیث صحیحہ موجود تھیں اور ان میں بظاہرباہم کوئی تعارض نہیں تھا ان کے مطابق فتوی دینا صحابہ کے لئے آسان کام تھا۔ مشکل وہاں تھی جہاں سرے سے حدیث ہی موجود نہ تھی۔ ایسے مسائل کی تدوین کا پہلا طریقہ استنباط اور اجتہاد تھا۔ اس میدان میں صرف سیدنا عمر، سیدنا علی، سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم ہی خاص طور پر ممتاز تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:

وأَمَّا غَیْرُ ہٰؤلاَئِ الأرْبَعَۃِ فَکَانُوا یَرَوْنَ دِلاَلَۃً، وَلٰکِنْ مَا کَانُوا یُمَیِّزُونَ الرُّکْنَ وَالشَّرْطَ مِنَ الآدَابِ وَالسُّنَنِ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ قَولٌ عِنْدَ تَعَارُضِ الأخْبَارِ وَتَقَابُلِ الدَّلائِلِ إِلاَّ قَلِیلاً کَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَۃَ وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ۔
ان چار کے علاوہ دیگر صحابہ بھی حدیث کے مطلب کو ضرور سمجھتے تھے لیکن وہ ارکان، شروط، آداب اور سنن میں امتیاز نہیں کرسکتے تھے۔ جن روایا ت میں تعارض ہوتا یا متضاد دلائل پائے جاتے ان میں بہت کم گفتگو فرماتے تھے۔ جیسے ابن عمرؓ، عائشہؓ، زید بن ثابتؓ رضی اللہ عنہم۔

دوسرا طریقہ یہ تھا کہ جو مسائل پیش آتے ان کے متعلق غور وفکر کئی کئی دن کرتے رہتے تاآنکہ وہ حل ہو جاتے۔ بہت سے مسائل باہمی مشورہ سے حل کر لیتے اس طریقہ کی ابتداء سیدنا ابوبکرؓ نے کی اور جناب فاروق اعظم نے اسے پروان چڑھایا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دوسرا دور:
زمانہ تابعین ومابعد میں:

اسلامی سلطنت کا پھیلاؤ جب ہوا تو درس وتدریس کی صورت میں علمی حلقے ‘ جابجا قائم ہوگئے۔صغار صحابہ ہوں یا کبار تابعین انہیں میں علماء کی ایک بڑی کھیپ تیار ہوگئی جن کی حیثیت علم ومرتبے اور تقوی واجتہاد میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھی۔ امڈتے مسائل کے حل کے لئے علمی مکالمات ہوئے، تحریریں سامنے آئیں اور یوں ہر عالم کا اپنا اپنا علم واجتہاد ظاہر ہوا مگریہ سب کچھ وسعت دینی کے لئے ہوا۔ شاہ ولی اللہ محدثؒ دہلوی فرماتے ہیں:

وَکَذَلِکَ تَابِعُوہُمْ أَیْضًا یَرْجِعُونَ إِلَی الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، فَإِنْ لَمْ یَجِدُوا نَظَرُوا مَا أَجْمَعَ عَلَیہِ الصَّحَابَۃُ، فَإِنْ لَمْ یَجِدُوا اجْتَہَدُوا، وَاخْتَارَ بَعْضُہُمْ قَولَ صَحَابِیٍ فَرَآہُ الأَقْوَی فِی دِیْنِ اللہِ تَعَالٰی۔
یہی تابعین کی حالت تھی وہ بھی فقہی مسائل میں کتاب وسنت کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ اگر وہ کوئی مسئلہ کتاب وسنت میں نہ پاتے تو اس بات کو دیکھتے جس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ اگر اجماع بھی نہ پاتے تو اپنے طورپر اجتہاد کرتے۔ بعض تابعین تو صحابی کے اس قول کو لے لیتے جسے وہ اللہ کے دین کے لئے قوی تر سمجھتے۔

ان کے بعد تیسری صدی ہجری کے آغاز سے اس کی انتہاء تک کچھ عالی مقام فقہاء امت کو نصیب ہوئے جنہوں نے اپنی فقہی بصیرت اور فہم کی بنیاد پر اسلامی فقہ کو ایک مستقل فن کی شکل دی اور علم مدون کیا جس کے لئے درج ذیل کوششیں ہوئیں:

 اصول بنے۔

‚ قرآن و سنت کی نصوص کو اصطلاحات کی شکل دی۔

ƒ اقوالِ صحابہ اور ان کے فتاوٰی سے مدد لی۔

„ جدید اصطلاحات کو متعارف کرایا۔

„ فروعات پر کام ہوا۔تاکہ نئے مسائل پروقت اجتہاد کار آمد فروعات سے مدد لی جاسکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان فقہاء کی فقہی حیثیت مسلمہ تھی۔ مگر مسائل کی جدّت، تنوع اور حالات کی تبدیلی کے پیش نظر ان فقہاء کے تلامذہ نے بھی اپنے اپنے دور میں اپنے پیش رو فقہاء کی اجتہادی آراء کے مقابلے میں اپنے اختلافی نوٹ لکھے۔ اور بیان کئے۔ اس فقہی توسع نے مسائل کی سبیل نکالی۔ اور بے جا سختی و تنگ نظری کو خیر باد کہا۔ جن فقہاء کا مزاج حدیث و سنت کی طرف زیادہ مائل رہا ان کا دیگر فقہاء کے نکتہء نظر سے اختلاف باقی رہا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرون اولیٰ میں علماء و فقہاء کا رجحان زیادہ تر نصوص ہی کی طرف رہا۔عام مجتہدانہ کوششیں بھی براہ راست کتاب وسنت سے ماخوذ ہوتیں۔ اور عدالتی، معاشرتی، معاشی، خانگی معاملات کے فیصلہ جات انہی مذکورہ بالا اصولوں کے مطابق ہی ہوتے رہے۔ ان تمام مسائل پر شرعی دلائل کی روشنی میں غور ہوتااو رباہم اختلاف و غلطی کے امکان کے باوجودتمام اساتذہ، شاگرد، جج حضرات خوب غور وخوض کے بعد ایک دوسرے کی رائے کو قبول فرماتے اور یوں وقت کے مسائل کو حل کرلیا جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنی رائے پر قائم رہتے لیکن حسن ظن اور دینی محبت کے تعلقات بدستور قائم رہتے۔ اور یوں قرآن و سنت کی فقہی بصیرت اس دور کے فقہاء کی کثیر تعداد کو حاصل رہی۔ یہ مجتہدانہ فکر ان نیک، پاک باز ائمہ اجتہاد کے بعد مختصر عرصہ رہی جس کا اندازہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے چوتھی صدی ہجری کے آخر تک کا لگایا ہے۔

خیر القرون کے آخری دور میں غیر مسلموں کی فلسفیانہ کتب مسلم علماء کے ہاتھ لگیں۔ تو ان کے تراجم ظاہر ہونے کے بعد مسلم معاشرہ میں بہت سا فکری اختلاف در آیا۔ اجنبی نظریات اور غیروں سے اختلاط نے مسلم علماء کے رجحانات کو عقلی وفکری طور پر تقسیم کردیا۔ اس طرح علماء وفقہاء کے درمیان شریعت سے مستفید ہونے کے دو نظریات دیکھنے میں آئے۔

 پہلانظریہ یہ بنا کہ قرآن وسنت کے بیشتر مسائل عقل سے قریب تر ہیں۔ مزید استدلال کی گنجائش ان میں ہے۔ مگر اس گنجائش میں نصوص کو بدلا یا چھوڑا نہیں جاسکتا۔نصوص کو بہر حال عقل پر ترجیح ہوگی۔ دوسرے معنوں میں استدلال کو نصوص کے تابع رکھا جائے گا۔یہ لوگ اہل حدیث یا مدنی کہلائے جن کی کوشش یہ رہی کہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ صرف صحیح احادیث کوہی فقہی مسائل کے استنباط کے لئے چنا جائے اور عمل کے لئے بھی انہی کا انتخاب کیا جائے تاکہ لوگوں کا جناب رسالت مآب ﷺ سے تعلق… ایمان، محبت اور اطاعت میں صحیح انتخاب پر مبنی ہو۔اور یوں مستقبل میں بھی درآمد فتنوں سے محفوظ رہیں۔ اس سلسلے میں ان کے ہاں یہ لچک بھی دیکھنے میںآئی کہ صحیح احادیث کی عدم موجودگی میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا اور اس سے استدلال کرنا قیاس یا ذاتی رائے کی نسبت احسن ہے۔

‚ جب کہ دوسرے نظریے کے قائل یہ کہتے کہ عقلی استدلال کی بہت گنجائش تو ہے مگر ایک صاحب رائے کی فہم و بصیرت کو نصوص کے فہم پر چھوڑا جا سکتا ہے وہ جو سمجھے اس کی اقتداء کی جا سکتی ہے۔ اس لئے کہ اس کی رائے ایک وقیع رائے بھی ہو سکتی ہے۔اس ضمن میں کوئی فقیہ یا عالم، قرآن وسنت سے بھی استدلال لینا از بس ضروری سمجھتا تھا مگر قرآنی آیات سے استدلال کی صورت میں جو شواہد پیش کرتا یا تو وہ زیادہ تر عقلی ہوتے یا پھر ضعیف احادیث ہوا کرتی تھیں۔ یہ گروہ اہل الرائے یا کوفی کہلایا۔

یہ دور سوچ وفکر میں وسعت لئے ہوئے آیا تھا جس نے مجتہدین کے اجتہاد اور ان کے مستنبط مسائل واصول پر نقدو نظر بھی کی اور مزید تحقیق بھی۔جس نے معاشرہ کو سجھایا کہ فقہ اسلامی اب بھی اس کے ہمراہ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تیسرا دور:
دور جمود:

اس دوسرے نظریہ کو اتفاق کی بات ہے قبولیت عام ہوئی اور یوں جمود کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے امت اسلامیہ آج تک سنبھل نہ سکی۔اور پستی وپسماندگی اس کا مقدر بن گئی۔ تحقیق کو بتدریج معیوب سمجھا جانے لگا۔ احساس کمتری ایسا سمودیا گیا کہ اجتہاد کا ملکہ پانا آسان نہیں بلکہ اس کے لئے جو کڑی شرائط رکھی گئیں وہ کوئی غیر انسانی مخلوق کی صفات تو قرار دی جاسکتی ہیں انسانی نہیں۔ سبق دیا گیا کہ موجودہ حالات میں اجتہاد کرنا ایک دشوار گزار کام ہے اس لئے اس کے دروازے اب بند ہیں۔

یہ ایک المیہ ہے کہ تحقیق کے دروازے بند کرکے مسلمانوں نے اپنے بہترین دماغ دوسروں کو دے دئے۔وہ دینی علوم کی طرف رخ نہ کرسکے۔ حتی کہ علماء دین کی اپنی اولاد بھی اس علم میں اپنے لئے کوئی کشش نہ پا سکی۔ یوں ہماری اچھی نسل، خوبصورت دماغ دوسروں کے دست نگر ہوگئے۔ترقی وپستی صدیوں سے واضح نظرآنے کے باوجود ابھی تک ہما رامعیار یہ ہے کہ کیا نماز کے لئے لاؤڈ سپیکر کا استعمال جائز ہے؟ ٹی۔وی یا اس کے لئے تصاویر وفلم بنانا جائز ہے؟ کنویں میں اگر چوہا گرجائے تو کتنے ڈول نکالنا ہوں گے، تالاب میں اگر ناپاکی گرجائے تو اس کے پانی کونجس قرار دینے کے لئے تالاب کا سائز اور تالاب کے پانی کی مقداراتنی اتنی ہونی چاہئے وغیرہ۔ بس یہی ہماری علمی وفقہی آماجگاہیں ہیں۔ وہ فقہ جس پر ہمارے اسلاف نازاں تھے اسی کے بہی خواہوں نے چوتھی صدی ہجری میں دلائل تفصیلیہ سے استدلال لینابتدریج روک دیا ۔اپنی کم ہمتی، سستی ، لاعلمی، کند ذہنی،اور علمی بے ذوقی کا ثبوت پیش کردیا۔ روشن دماغ جب دوسروںکے دست نگر ہوں تو ان کی دینی علوم سے نفرت اور دنیاوی علوم سے رغبت لازمی ہے۔ اجتہاد کے دروازے بند ہونے کے درج ذیل عوامل تھے:

٭ … وہ کتب جنہیں متون (Texts)وشروح (Exegies)کا درجہ دیا گیا انہی پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے انہیں قبول کرلیا گیا۔

٭ … اصل دلائل(قرآن وسنت) کی طرف توجہ بہت کم دی گئی۔

٭ … جو اپنے اکابرین سے منقول تھا اسی پر اکتفاء کیاگیا۔

٭ … ا ستدلال واستنباط کی راہ ترک کردی گئی۔ اس کی بجائے اسلاف کی مستنبط فروع کو کافی سمجھا گیا۔

٭… کسی امام یا فقیہ نے کسی آیت یا حدیث کی جزوی تعبیر پیش کی تو اسے ہی شریعت سمجھ لیا گیا۔اور اسے ہی فقہ اسلامی کہا گیا۔ جب کہ یہ شخصی فقہ ہے۔

٭ … دلائل اصلیہ یعنی قرآن وسنت اور اجماع وقیاس سے مستفید ہوناصرف مجتہد کا وظیفہ قرار دیا گیا۔

٭ … چند فقہاء کی رائے کو اجماع کا نام دے دیا گیا۔

یہ دور فقہ التقلید کا نام پا گیا۔ اس لئے کہ فقاہت اب فروع کو سمجھنے، پڑھنے اور پڑھانے تک محدود ہوگئی۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ اسلامی کے مصاد ر

تکمیل دین کے بعد یہ غالب امکان تھا کہ مستقبل میں نئے مسائل پیش آئیں گے۔ اس لئے دین اسلام نے ایسے مسائل کا سامنا کرنے اور ان کا مناسب حل بتانے کے لئے کچھ بنیادیں فراہم کردیں تاکہ مسائل کے احکام کی طرف مکلف لوگوں کی راہ نمائی کی جاسکے اور ان کا حل ممکن ہو سکے۔ یہ بنیادیں تفصیلی دلائل کہلاتی ہیں۔ دلائل، دلیل کی جمع ہے جس سے مراد ایسی راہنمائی ہے جس سے عمل کا شرعی حکم معلوم ہو سکے۔ خواہ یہ راہنمائی قطعی طور پر معلوم ہو یا ظنی طور پر۔ جو قطعی ہے وہاں عقل کی گنجائش نہیں اور جو ظنی ہے وہ عقل سلیم کے لئے اس صورت میں قابل قبول ہے جب وہ اس کے تقاضے پورا کرتی ہو۔ یہ تفصیلی دلائل دو قسم کے ہیں اصلی اور ذیلی۔

۱۔ اصلی:(Original Sources) سے مراد قرآن وسنت کے مآخذہیں۔تمام ائمہ مجتہدین کا اس پراتفاق ہے کہ شرعی احکام کے اصل مآخذ یہی دو ہیں۔ جن کے احکام کی پیروی کرنا لازمی ہے۔ ایسے احکام کو تعبدی (قابل عبادت و ثواب)کہتے ہیں۔ ان دونوں کا مصدر چونکہ وحی ہے اس لئے انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ کسی صورت میں قابل تغیر ہیں۔

۲۔ ذیلی (Secondary Sources): یہ وہ مصادر ہیں جن کا درجہ وحی کا نہیں مگر اس کی تائید ضرور کرتے ہیں۔ اور اصلی مآخذ کے تابع ہیں۔ اس بناء پر ان کی حیثیت تسلیم کی گئی ہے۔یہ ذیلی مصادر اور ان کی اصطلاحات دراصل فقہاء کرام کا ابتکار ہیں جو انہوںنے اپنے اپنے ذوق اور فہم کے مطابق متعارف کروادیں ۔ ان میں بعض فقہاء بعض مصادر کو تسلیم ہی نہیں کرتے مگر ان کی غالب اکثریت(Majority) اجماع اور قیاس کی مصدری حیثیت کو مانتی ہے۔ان میں: اجماع (Consensus ) قیاس(Anology) استحسان (Juristic Preference) استصحاب ( Presumption of continuity) اقوال صحابہ اور ہم سے ماقبل کی شریعت وغیرہ ہیں۔یاد رکھئے ان ذیلی مآخذ کی(validity) اورحیثیت کا تعین اور ان سے احکام کا استخراج(Deduction) بھی قرآن وسنت سے یا ان کے مقاصد سے ٹکراؤ یاعدم ٹکراؤ کی بنیاد پر ہوگا۔ مثلاً: اگر کوئی یہ کہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے حدود کے احکام بھی بدلے جاسکتے ہیں مثلاً سیدنا عمرؓ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں چور کا ہاتھ نہیں کاٹا تھا۔لہٰذا ہمیں آج بھی حالات اور واقعات کا ادراک کرکے چور کے ہاتھ نہیں کاٹنے چاہئیں۔ یہ غلط قیاس ہوگا اور شریعت کے مقاصد سے ٹکراؤ بھی۔ جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ سیدنا عمرؓ کے دور میں یہ چوری زمانہ قحط میںہوئی تھی اور محض اپنی یا بچوں کی بھوک مارنے کے لئے کی گئی تھی۔ خلیفہ راشد نے حد کی سزا کو ، حدیث رسول کے مطا بق اِدْرَؤُا الْحُدُوْدَ بِالشُّبُہَاتِ شرعی حدود کو شبہات کی بنا پر نافذ نہ کرو۔ یہ ذمہ داری لیتے ہوئے ساقط کردی تھی کہ بے سہارا لوگوں کی معاشی حالت کو سنوارنا حکومت کا فرض ہے جو ہم نہیں کرسکے۔اس لئے شبہ کا فائدہ ملزم کو جانا چاہئے۔ کیونکہ گناہ گار کا سزا سے بچ جانا اتنا معیوب نہیں جتنا بے گناہ کا سزا پانا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ شبہ نہیں بلکہ یقین تھا۔ نیز یہ قصور حکومت کا تھا نہ کہ چور کا۔ جس نے لوگوں کو سوشل سیکیورٹی فراہم نہیں کی۔ ہاں سیکیورٹی کی فراہمی کے بعدپھر کوئی چوری کا ارتکاب کرے تو یہ حد کبھی اور کسی صورت میں معاف نہیں ہوسکتی۔ ذیل میں ہم ان مصادر کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں:
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پہلا مصدر:

قرآن وسنت​

یہی شریعت کے اصل مصادر ہیں۔اولین مأخذ اور شریعت کا اصل الاصول تو قرآن کریم ہے۔دونوں کو اکٹھا اس لئے لکھا ہے کہ یہ دونوںوحی ہیں ۔ دوش بدوش ہیں۔باہم جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں انہیں جدا نہیں کیا جاسکتا۔دونوں مل کر شریعت بنتے ہیں جن میں عقائد، عبادات اور حقوق کا اجمال بھی ہے اورتفصیل بھی ۔یوں یہ دونوں شریعت کا مصدر اصلی بنتے ہیں۔بلکہ علماء اہل سنت کے نزدیک لفظ سنت بھی قرآن وسنت کے لئے مستعمل ہوا ہے ۔اہل السنۃ والجماعۃ جیسی اصطلاح میں بھی یہی سوچ کارفرما ہے۔وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ سے قوی وامین فرشتہ جبریل علیہ السلام کے ذریعے رسول خاتم النبیین ﷺ کے قلب اطہر پر بحفاظت نازل ہوا۔ آپ ﷺ اسے کلام اللہ تسلیم کرتے ہوئے اس پر ایمان لائے اور امت کو بھی اس پر ایمان لانے کی دعوت دی۔جس نے ارشاد مانا اسے نے کلام اللہ کو مانا اور آپ ﷺ کے الفاظ وکلمات کو شریعت گردانا۔

اگر آپ ﷺ کے اس ارشاد میں ذرہ برابر شک کیا جائے تو سارا قرآن اسی طرح مشکوک ہوجاتا ہے جس طرح اس کے کسی لفظ یا آیت میں کمی یا زیادتی کو تسلیم کرنے سے مشکوک ہوجاتا ہے۔ اور یہ بات اللہ کے اس وعدے کے خلاف ہے۔ معاذ اللہ! اللہ تعالی اپنے کلام کی حفاظت نہ کرسکا۔

اجماعاً یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ اس نقطہ نظر کا حامل ہی اہل السنۃ والجماعۃ سے ہے کیونکہ حضرات صحابہ کایہی نظریہ تھا۔مگرجواس فکر ومنہج سے علیحدہ رہا وہ خارج از اہل السنۃ کہلایا۔جنہیں ان کے زیغی وانحرافی خیالات کی وجہ سے حسب فکر نام دیا گیا۔

قرآن کریم : لغت میں اس کا مطلب ہے اکٹھا کرنا اور جمع کرنا۔ قِرَاء ۃُ الْکَلِمَۃِ: جب حروف کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا جائے اور اکٹھا کردیا جائے۔پھر یہ لفظ اللہ تعالی کی کتاب، القرآن پر لاگو ہوگیا اور علم بن گیا۔
اصطلاحاً کلام اللہ ہے غیر مخلوق ہے۔اسے مخلوق کہنا ہی کفر وضلالت ہے اور دین میں الحاد کی بات کرنا ہے۔ نیز جو کتاب عزیز میں اللہ تعالی نے نازل فرمایا ہے اس کو بھی جھٹلانا ہے۔مثلا: {إنا أنزلنہ فی لیلۃ القدر}(القدر:۱) یا{ تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا}(الفرقان:۱) یا{وقرآنا فرقنہ لتقرأہ علی الناس علی مکث ونزلنہ تنزیلا} (الإسرائ:۱۰۶) یہ معجزہے۔ آپ ﷺ پر بذریعہ جبریل امین نازل ہوا ہے۔اور ہم تک تواتر سے منقول ہوا ہے مصاحف میں لکھا ہوا ہے جس کی تلاوت عبادت ہے اور سورہ فاتحہ سے شروع ہوکر سورہ الناس تک ختم ہوتا ہے۔ فرشتے یا انسان کا کلام اس میں شامل نہیں۔حدیث قدسی بھی اس سے خارج ہے۔توراۃ وانجیل یا زبور وصحف ابراہیم وموسی آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئے اس لئے وہ بھی اس میں شامل نہیں۔ اورقرأت شاذہ بھی۔

اسے بتدریج حالات وضرورت کے مطابق نازل کیا گیا۔اس لئے اس میں کچھ مکی، کچھ مدنی اور کچھ سفری اور کچھ حضری آیات ہیں۔ کبھی مکمل سورت نازل ہوئی تو کبھی سورت کا کچھ حصہ۔ بعد والا وحی شدہ حصہ جبریل علیہ السلام کی راہنمائی سے ہر مناسب مقام پر سدھار دیا جاتا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرآن کریم اورشرعی احکام:

قرآن مجیدمیں احکام حلال وحرام کی وضاحت کے لئے کچھ اصول موجود ہیں۔ یہ مجمل احکام مقاصد شریعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموعہ فتاوی (۱۰؍۱۲۷)میں ایک بہت ہی جامع ونافع فصل میں لکھا ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں شرعی احکام جن الفاظ کے ساتھ مذکور ہیں وہ تین قسم کے ہیں:

۱۔ وہ الفاظ جو صرف لغت سے تعلق رکھتے ہیں جیسے ارض، سمائ، شجر، حجر، شمس وقمر، بروبحر وغیرہ ۔اس لئے لغت ہی ان کا معنی متعین کرے گی۔مثلاً شَجَر کی تعریف کیا ہے؟ سَمَاء کس مادہ سے بنا ہے؟ عَیْن سے کیوں نظر آتا ہے وغیرہ۔مگر تعلیم کتاب اور اس کی صحیح ترجمانی کے لئے الفاظ کے موقع ومحل کو ضرور سمجھنا ہوگا۔ آزِفَۃ، ظُلْم، تَوَفّٰی، یُوْلِجُ یا وِزْر جیسے الفاظ۔ ہاں شریعت یہ آگاہی ضرور دیتی ہے کہ اگر کوئی پتھر مار کر کسی کی آنکھ پھوڑ دے تواس پر نقصان کی تلافی لازمی ہے۔ نامحرم عورت پر نگاہ بد ڈالے تو گناہ ہے وغیرہ۔

۲۔ بعض وہ الفاظ ہیں جن کا تعلق نہ لغت سے ہے اور نہ شریعت سے ۔بلکہ عرف یا خاندانی عادات سے ہے۔عادات میں تنوع بھی ہوتا ہے یعنی کسی بھی سوسائٹی یا خاندان وبرادری میں وہ ایک جانی بوجھی چیزہوتی ہے مثلا نکاح، طلاق، بیع، ھبہ ، قبض، وقف، درہم ودینار، امارت، خلافت وغیرہ۔ شریعت صرف ان الفاظ سے متعلق احکام کو تو بیان کرتی ہے مگر نکاح، طلاق وغیرہ کیا ہیں یہ بتانا عرف کا کام ہے۔شریعت ان کی تعریف متعین نہیں کرتی۔اور نہ ہی سب اہل زبان ان کی ایک ہی تعریف پر متفق ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کی مقدار اور صفت بھی اختلاف عادات کی وجہ سے مختلف ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شریعت ، غیر مسلموں کے ان سب نکاحوں کو جائز سمجھتی ہے جو ان کے عرف کے مطابق ہوں۔ ان کے ہر لین دین کو جائز سمجھتی ہے جو ان کے عرف کے مطابق ہوں۔ ان عرفی اصطلاحات کا تعین کرنا شریعت کا کام نہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۔تیسرے وہ الفاظ ہیں جو شریعت کی اپنی اصطلاحات ہیں مثلا اطاعت، اتباع، صلوۃ، زکوۃ، حج، صوم، طواف وغیرہ۔ ان الفاظ کے معانی کا تعین کرنا اور ان الفاظ کی وضاحت کرنا صرف شریعت کے دائرہ اختیار میں ہے نہ کہ لغت یا عرف کے۔اس قسم کو اللہ اور اس کے رسول نے بیان کردیا ہے۔لہٰذا کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ ان متعین اصطلاحات کی تعریف لغت کی کتب سے تلاش کرے یا اس میں کچھ اضافہ کردے اس لئے کہ آپ ﷺ نے ان اصطلاحات کا جو حکم تھا اسی کے مطابق مراد لی۔ مثلاً لفظ خمر ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمادیا: کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ۔ قرآن کی مراد کو آپ ﷺ نے سمجھا اور فرمادیا۔ خواہ عرب اس سے مراد خواہ ہر نشہ آور شراب کو سمجھتے یا صرف انگور کی شراب کو۔ اسے اب جاننے کی ضرورت نہیں۔اور اہل مدینہ کے ہاں خمر صرف خشک کھجور کی نبیذ کو کہا کرتے۔اس لئے اللہ تعالی نے ان الفاظ کو شرعی احکام ۔۔امرونہی اورحلال وحرام۔۔کے ساتھ جوڑ دیا ہے تاکہ کوئی بھی انہیں کسی اور چیز کے ساتھ ۔۔۔بغیر اللہ ورسول کے مفاہیم کے۔۔۔ مقید کرکے اپنے اپنے مفاہیم نہ بنالے۔ اسی طرح لفظ ماء ہے۔ قرآن وسنت میں یہ لفظ مطلق مستعمل ہوا ہے اور آپ نے اسے طاہر وغیر طاہرمیں تقسیم نہیں فرمایا۔اسی طرح قصر وفطر کے الفاظ ہیں جنہیں آپ ﷺ نے سفر سے جوڑا ہے مگر اس کی مسافت کا تعین نہیں فرمایا۔اور نہ ہی طویل ومختصر سفر کے مابین فرق کیا ہے اگر سفر کی متعین مسافت ہوتی تو اسے اللہ ورسول ضرور بیان کرتے۔نہ ہی لغت میں اس کی متعین وضاحت بتائی گئی ہے۔جسے اہل لغت سفر کہتے ہیں اس میں قصر وفطر کتاب وسنت کی رو سے جائز ہوگا۔جیسے اہل مکہ نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ عرفات تک جاکر قصر کیا جبکہ یہ مکہ سے ایک برید (بارہ میل) کے فاصلے پرہے۔ اس لئے سفر کی تحدید ایک دن یا تین دن سے کرنا شرعی نہیں بلکہ لغوی وقیاسی ہے۔

ان تینوں اقسام کی پہچان ومراتب کے بغیر یہ امکان ہے کہWar of Terminology سے متأثرکوئی بزرگ شرعی اصطلاحات کو لغت کی کتابوں سے اور لغت کو شریعت سے اور عرف کو لغت یا شریعت سے تلاش کرتا پھرے۔ ظاہر ہے یہ غلط تعبیر و تشریح ہے اور گمراہی کا سبب بھی ۔ مثلاً: لفظ خلافت ایک سیاسی اورعرفی اصطلاح ہے نہ کہ شرعی۔ سیدنا داؤد وسلیمان علیہما السلام بادشاہ بھی تھے اور خلیفہ بھی۔ مگر ہمارے پیارے رسول ﷺنے ان دونوں میں سے کوئی لفظ اپنے لئے استعمال نہیں فرمایا۔ جناب صدیق اؓکبر خلیفہ رسول کہلوائے اور سیدنا عمر فاروقؓ کچھ عرصہ اپنے آپ کو خلیفہ کہلوانے کے بعد امیر المومنین کی اصطلاح زیادہ پسند فرمانے لگے۔اگر یہ لفظ شرعی ہوتے تو انہیں کوئی بھی تبدیل نہ کرتا۔ اس لئے بادشاہ، یا خلیفہ جیسے لفظ قرآن مجید میں آنے سے شرعی نہیں بن گئے ہاں ان کے ساتھ شرعی احکام ضرور وابستہ ہیں۔ حیثیت ان کی ہے نہ کہ لفظ بادشاہ، وزیر اعظم، صدر، چیف ایگزیکٹو یا امیر وخلیفہ جیسے دوسرے الفاظ کی۔

ان الفاظ کی صحیح تعبیر کے لئے ائمہ ومجتہدین کے ہاتھ میں قرآن وسنت کا چراغ دے دیا گیا کہ وہ ان کی روشنی سے زمان ومکان میں ہونے والے نت نئے واقعات کی جزئیات تک کا حکم بتائیں۔ یہی تو وہ راز ہے جس سے امہ کو دوام ملا ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ شریعت کے اصول انتہائی جامع (comprehensive) ہیں۔ نیزجہاں کہیں اختلاف اور جدال کا اندیشہ تھا وہاں قرآن مجید نے بعض ضروری تفاصیل دے دیں تاکہ اختلاف باقی نہ رہے۔ مثال کے طور پر عقائد وعبادات کے اصول، یا پھر ایسے اسباب کی بنیاد رکھ دی جس میں ان اصولوں میں اختلاف نہ ہونے پائے اور نہ ہی زمان ومکان کی تبدیلی سے یہ تبدیل ہوں مثلاً میراث کے مسائل، محرمات ابدیہ کا ذکر اور بعض جرائم کی سزا وغیرہ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قرآن کریم کواسلامی قانون میں تقریباً ویسی ہی حیثیت حاصل ہے جو ملکی قوانین میں دستور کو حاصل ہوتی ہے۔ وہ احکام جن کا تعلق انسانی اعمال سے ہے مثلاً: نماز،روزہ، حج اور زکوۃ، خریدوفروخت یا معاملات حدود، جرائم اور خاندانی امور سے متعلق۔۔۔بقول امام ابن العربی اور امام غزالی رحمہم اللہ۔۔ پانچ سو آیات ہیں اور دوہزار آیات اوامر ونواہی(Do's&Don't) پر مشتمل ہیں یہ سب فقہ اسلامی کی بنیاد ہیں۔ انہیں احکام شریعت کہا جاتا ہے۔(ارشاد الفحول: ۵۶۶)۔ورنہ عقائد کے باب میں تو قرآن سارا بھرا ہوا ہے۔
قانون الأسرۃ یعنی فیملی لاز کے بارے میں ستر آیات ہیں اور معاملات مالیہ یعنی سوشل لاء کی بھی اتنی ۔ عدالتی نظام کے لئے تیرہ آیات ہیں جسے عربی میں قانون مرافعات بھی کہتے ہیں۔ جرائم وسزا جیسے فوجداری قانون کے بارے میں تیس آیات ہیں۔ حکومت اور رعایا کے بارے میں دستور دینے والی دس آیات اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں پچیس آیات ہیں۔ اسی طرح مالی احکام کے بارے میں دس آیات قرآن کریم میں موجود ہیں۔

سنت:
ہر وہ قول ، فعل یا تقریر جس کی نسبت آپ ﷺ سے صحیح یا حسن حدیث سے منسوب ہو۔ وحی خفی سے اس سنت کا تعلق ہے جواولین مأخذ کا ساتھی ہونے کی وجہ سے حجت ہے کیونکہ اس میں قرآن کے اجمال کی تفصیل اور اشکال کی توضیح ہے۔ عقلاً بھی اسے محدثین کے اصول تحقیق وتنقید کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد قبول کرنا چاہئے ورنہ اسے رد کردینا چاہئے۔کتب سنن، مصنفات، موطآت، عمدۃ الاحکام اور بلوغ المرام اپنی شروح سمیت اس کی دلیل ہیں۔ مزید صحیحین کا علم بھی موضوع سنت کو سمجھنے میں خاصا وقیع ہے۔ سنت میں تین ہزار احادیث ، احادیث احکام(Legal) ہیں اور ڈھائی ہزار احادیث اوامر ونواہی پر مشتمل ہیں۔ ابن العربیؒ نے ان کی تعداد تین ہزار لکھی ہے۔خبر متواتر اس میں نادر ہیں اور خبر واحد ہی اس کی اصل ہیں۔ ان سے نہ صرف عقائد ثابت ہوتے ہیں بلکہ احکام خمسہ بھی جو صحابہ وعلماء امت نے خبر واحد سے اخذ کئے۔اصولی احادیث احکام بارہ سو ہیں۔

سنت رسولﷺ قرآن کی طرح فقہ اسلامی کا ایک اور مصدر ہے۔اس لئے اس کے متعدد معانی علماء نے مراد لئے ہیں۔
 
Top